Tuesday 12 February 2013

بہترین انسان کون ؟ Who is the best man


بہترین انسان کون ؟

اس کائناتِ رنگ وبومیں بہت سے انسان بستے ہیں۔ان میں کچھ اچھے ہوتے ہیںاورکچھ برے ۔ دنیا کا ماحول چاہے جتنا خراب ہوگیاہومگر آج بھی لوگ اچھے انسانوں سے محبت کرتے ہیں اوران کے پاس بیٹھ کر سکون ِقلب حاصل کرتے ہیں۔ برائیوں کے فروغ کے باوجود اچھائیوںکی طرف راغب ہوتے ہیںاوربرے لوگوںسے نفرت کرتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں رحم دلی قائم ہو۔کسی کوتکلیف پہنچے تو قریب اور دور ہرجگہ کے لوگ ہمدردی کے لیے جمع ہوجائیں ۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ اچھا انسان کون ہے ؟ انسان کے اچھے یابرے ہونے کا معیارکیاہے ؟
 نبی کریم ﷺ نے واضح انداز میںاس کاجواب دیاہے۔آپؐ کی تربیت کا ایک منفرد انداز تھا۔ ایک مرتبہ آپ نے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکہ کیا میں تمہیں نہ بتادوں کہ تم میں سے بہترین انسان کون ہے؟۔ یہ بات آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی ۔ صحابہ نے عرض کیا’’ اے اللہ کے رسول ﷺآپ ضرور ارشاد فرمائیں ۔ نبی ؐ نے فرمایا:
’’خیرکم من یرجی خیرہ ویومن شرہ  (ترمذی:باب الفتن(
          تم میں بہتر ین شخص وہ ہے جس سے دوسرے خیرکی امید رکھیں اور اس کے شر سے محفوظ رہیں۔
معلوم ہوا کہ بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے کے لیے نفع بخش ہو اورلوگ اس سے پوری طرح محفوظ ومامون ہوں۔ انسان کا مزاج ہے کہ وہ نفع کا خواہشمندہوتاہے اورنقصان اسے گوارانہیں ہوتا۔یہی مزاج اسلام کا بھی ہے وہ چاہتاہے کہ انسانیت کوفروغ ملے اور انسانوںکو کسی طرح کی کوئی تکلیف نہ دی جائے۔اسلام خدمت خلق کا وسیع تصورپیش کرتاہے۔جوانسان دوسرے انسانوں کو نفع پہنچائے وہی بہترین انسان ہے۔اللہ نے دنیاکی جتنی بھی چیزیں پیدا کیں وہ انسان کی خدمت میں لگی ہیں۔ آپؐ کا ارشادہے:
خیرالناس انفعہم للناس(بیہقی شعب الایمان(
لوگوںمیں سب سے بہتروہ ہے جو لوگوں کے لیے زیادہ نفع بخش ہو۔ 
انسان کو دوسری چیزوں کے مقابلے میں زیادہ مزیدنفع بخش ہونا چاہیے ،اسے دوسروںکوفائدہ پہنچانے کی کوشش کرنا چاہیے ۔نفع خواہ دین کا ہویا دنیا کا، البتہ دین کا نفع دنیاکے نفع سے بہترہے ۔ اگرکوئی شخص دین کی بات پہنچاتاہے ۔ انسانوں کو اللہ کے احکام کی تعلیم دیتاہے تو وہ شخص بہترین مانا جائے گا ۔
اگر کسی شخص نے کسی دوسرے انسان کی ضرورت پوری کی اوراس کے کام میں اس کی مددکی تو یہ بھی نفع پہنچانے کی ایک صورت ہے۔ اسے سخاوت یا ہمدردی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ایسا شخص بھی اچھا انسان ماناجائے گا۔ اگروہ دوسرے کوکوئی نفع نہ پہنچائے توکم ازکم ان کوتکلیف بھی نہ پہنچائے ۔ اگروہ تکلیف پہنچانے سے بازنہ آئے تووہ شخص بدترین انسان ماناجائے گا۔نبی کریم ؐ اس کی وضاحت کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں :تم میں بدترین انسان وہ ہے جس سے خیرکی توقع نہ کی جائے اورنہ لوگ اس کے شرسے محفوظ ہوں۔(ترمذی:باب الفتن (
قرآن کریم اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے ۔یہ انسان کو بہترین انسان کی حیثیت سے زندگی گزارنے کی دعوت دیتی ہے ۔ خلوص کے ساتھ اس کی اشاعت کرنے والا یقینا اچھاانسان ہوگا، انسانیت کی تعمیراورترقی کا نسخہ قرآن مجید ہے اس میں پوری انسانیت کے لیے ہدایت ورہنمائی ہے۔ آپؐ کا ارشادہے:
خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ ،(بخاری(
 تم بہترین انسان وہ ہے جوقرآن سیکھے اور سکھائے۔
انسان اپنے کردارسے ہی اچھا یابراسمجھا جاتاہے ۔ ایک اجتماعی زندگی، جواسلام میں پسندیدہ ہے،اس کی تعمیرکی بنیاد ہی انسان کے اعمال اور کردار پر ہے اگر انسان کا رویہ اچھا نہیں ہوگا تونہ صرف اجتماعیت کی بقا ممکن نہیں ہے بلکہ معاشرے کا ماحول خراب ہوگا۔ نت نئے مسائل پیدا ہوں گے ۔ اجتماعیت ٹوٹ پھوٹ کربکھرجائے گی اوروہ معاشرہ ہی اختلاف و انتشار کاشکار ہوکر رہ جائے گا، جس پر انسانی زندگی کا چین وسکون موقوف ہے۔
انسان کے اچھے اعمال اس کی بہترین شخصیت کے غماز ہوتے ہیں ۔ جب نیک انسان دنیاسے چلا جاتا ہے توبھی ان اچھے کارناموں کو لوگ یادکرتے ہیں اوران سے استفادہ کرتے ہیں ۔ اس کے اعمال حسنہ صدقہ جاریہ بن کراس کے قلب وروح کوٹھنڈک پہنچاتے ہیں۔اس لیے وہ شخص یقینابہترمانا جائے گا جس نے عمربھی لمبی پائی اوراعمال بھی اچھے کئے۔ایک حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ ؐ سے ایک دیہاتی نے سوال کیاکہ اے اللہ رسولؐ  ’’من خیرالناس ؟  (لوگوںمیں بہترین انسان کون ہے؟)  آپ نے ارشاد فرمایا:
 ’’من طال عمرہ وحسن عملہ‘‘(ترمذی(
جس کی عمرلمبی ہواوراس کے کام اچھے ہوں۔
انسان کا کردار بنانے ،سنواراوراسے نکھارنے کے لیے ہی نبی کریمﷺ کی بعثت ہوئی۔آپ نے اپنا مشن واضح کرتے ہوئے فرمایا:
                     انمابعثت لاتمم مکارم الاخلاق،(مسند احمد(
’’میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجاگیاہوں۔‘‘اچھے اخلاق ہی سے انسان اچھا بنتا ہے۔آپؐ نے فرمایا:ان من اخیرکم احسنکم اخلاقا۔ بخاری ( تم میں بہترین انسان وہ ہے جو تم میںاخلاق کے اعتبارسے سب سے اچھاہو۔)اخلاق انسانیت کازیورہے اس سے شخصیت میں حسن پیداہوتاہے ۔نبی کریمﷺنے فرمایا
       البرحسن الخلق  (مسلم(
نیکی حسن اخلاق ہے۔
جوشخص بااخلاق ہوگا اس سے خیرکی ہی توقع کی جاتی ہے ۔ یہ صفت جس شخص کے اندرہے وہ بہترین انسان ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں،جن کا معاشرے میں بہت نام چلتاہے اوران کی تعریفیں ہوتی ہیں لیکن وہ اپنی ذاتی زندگی میں اور اپنے گھروالوں اور اہل وعیال کے لیے بہت برے ہوتے ہیں۔ان کے حقوق ادانہیں کرتے، ان کی ضروریات کا خیال نہیں رکھتے اوران کی اصلاح وتربیت سے غافل رہتے ہیں ۔ ایسے لوگ حقیقت میں اچھے انسان نہیں ہیں۔اچھے انسان وہ ہیں وجواپنے گھروالوں کے لیے بھی اچھا ہو۔نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
 خیرکم خیرکم لاہلہ وانا خیرکم لاہلی ۔ (ترمذی)
 تم  میں بہترشخص وہ ہے جواپنے اہل وعیال کے لیے بہترہواورمیں اپنے اہل وعیال کے بہتر ہوں۔
معاشرے کو پرامن بنانے اورانسانیت کو اس کے حقوق دلانے کے لیے عدل و انصاف کا قیام ناگزیرہے۔ جو شخص جونظام حیات کودرست رکھنے کے لیے انصاف کا علمبردار ہو اور اسے فیصلہ کرنے کاموقع ملے توغیرجانب دارہوکر پوری ایمانداری کے ساتھ انصاف کرے، وہ بہترین انسان ماناجائے گا۔نبی کریم ﷺ کا ارشادہے:
فان خیرالناس احسنہم قضاء    (ابن ماجہ(
’’بہترین انسان وہ ہے جوفیصلہ کرنے میں اچھاہو۔‘‘
انسانوں کے کچھ ایسے افعال وکردارہوتے ہیں جودوسرے لوگوںکے دلوںپر گہرے نقوش چھوڑتے ہیں ۔ان کی خوبی ان کی پہچان بن کرلوگوںکو راغب کرتی ہے۔نبی کریم ﷺ سے دریافت کیاگیا :
ای الناس افضل؟ قال :کل مخموم القلب ،صدوق اللسان۔(ابن ماجہ(
اے اللہ کے رسول بہترین انسان کون ہے؟ تو آپؐ نے ارشادفرمایاکہ جوصاف دل اور راست گوہو۔
آپﷺ کوجوامع الکلم کا اعزازحاصل ہے ۔آپ ؐ کا یہ کمال ہے کہ آپ مختصرگفتگومیں پوری بات کہہ دیتے تھے۔مذکورہ حدیث بھی اسی طرح کی ہے۔آپ ؐنے اپنے اس مختصرقول میں ان دوجملوں میں ایک اچھے انسان کی پوری شناخت واضح کردی ہے۔ صدوق اللسان سے مراد وہ شخص ہے جوقول وعمل ،نیت وارادے ، ایفائے عہد وغیرہ کے اعتبارسے سچا ہو۔جس کا دل آئینہ کی طرح صاف ہواوراس میں گناہ یاسرکشی نہ ہو۔ایسا شخص ایک صالح معاشرے کے لیے مفید ہوتاہے اس سے استفادہ کی خاطر لوگ اس کے ارد گرد جمع ہوتے ہیں اس طرح وہ لوگوںمیں محبوب ہوتاہے۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...