Saturday 15 March 2014



ایک مومن کی شان یہ ہے کہ اس کامعاشرہ اور  ماحول چاہے جتنا بھی خراب ہومگر وہ نیکی اور  خیرکے کاموں  میں سبقت کرے وہ اتنابلندکرداراورباہمت ہوکہ اسے مخالف ماحول متزلزل نہ کرسکے ،وہ اپنے اندرکسی ایسی کمزوری کو جگہ نہ دے جس کے سبب مخالف اسے اپنا شکار بناسکے ۔  ضروری ہے کہ بندہ مومن دنیا کی محبت ،بے جا تکلفات اور خواہشات کی کثرت کو دل سے نکال کرسادہ زندگی گزارے ،ایسا شخص معاشرے کے لیے بے حد مفید اور  قوم وملت کے لیے بہت کار آمدثابت ہوتا ہے ،  جو کام بھی وہ کرتاہے، اس میں  اس کی نیت خالص ہوتی ہے ،وہ ذاتی مفادسے بالاترہوکربے لوث خدمت انجام دیتاہے ۔  اللہ ایسے مخلص بندوں سے بہت خوش ہوتاہے اور انھیں  کامیابیوں سے ہم کنارکرتاہے۔
اس کے برعکس اگرانسان دنیا کی محبت میں  مبتلااوراس کی لذتوں  کا شیدائی ہوجائے تو اس کے اندرکم زوری آجاتی ہے جواس کی ہمت اور  حوصلہ کوپست کردیتی ہے،وہ اپنے مشن پر قائم نہیں رہ پاتا ۔ دھیرے دھیرے وہ خداکا نافرمان ہوجاتاہے ، اس کی عزت نفس فناہوجاتی ہے اور  ایک اچھے انسان کی حیثیت سے اس کی پہچان ختم ہوجاتی ہے۔  لوگ اس کے قریب بھی جانا پسند نہیں  کرتے، حتی کہ وہ انسانیت کے ادنیٰ مقام سے بھی گرجاتاہے ۔
نبی کریمﷺ نے اس پہلوکو سمجھانے کے لیے ارشادفرمایا:
’’ عنقریب ایک وقت آئے گاجب قومیں  تم پر ٹوٹ پڑیں  گی جس طرح کھانے والے ایک دوسرے کوکھانے کے پیالے کی طرف بلاتے ہیں ۔ ‘‘ایک شخص نے کہاکہ کیا ایسا اُس زمانے میں  ہماری قلت تعدادکی وجہ سے ہوگا؟ آپؐ نے جواب دیا:’’نہیں ‘‘ تم تواس زمانے میں  کثیرتعدادمیں  ہوگے۔  لیکن تمہاری حیثیت اس خس وخاشاک کی طرح ہوگی جودریااورسیلاب کے جھاگ کے ساتھ ملا ہوا ہوتاہے۔  اللہ تمہارے دلوں میں  ’وہن‘ڈال دے گا‘‘ایک شخص نے پوچھاکہ اے اللہ کے رسول !’وہن‘ کیاہے؟ آپؐ نے فرمایا:’’حب الدنیا وکراہیۃ الموت‘‘۔ دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔  (ابوداؤد)
زندہ قوم وہ ہوتی ہے جسے اپنی زندگی کی پرواکم اور  اپنے مقصدکی فکرزیادہ ہوتی ہے،اس کے ہرفردکوپورایقین ہوتاہے کہ موت کسی بھی وقت آسکتی ہے ۔ اس لیے وہ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی پوری کوشش کرتاہے جواللہ تعالیٰ نے اس پرخیرِامت کا فردہونے کی حیثیت سے ڈالی ہے۔  وہ کسی سے مرعوب نہیں  ہوتا۔ دنیا کی چمک دمک کوثانوی درجہ دیتاہے اسے اپنا مقصودحیات نہیں  سمجھتا، اس موت کو جواطاعت الٰہی کی راہ میں  آئے وہ اپنے لیے قابل فخرگردانتاہے۔
مومن کے اسی عزم وارادے کو کھوکھلا کرنے والے شیطان کے چندخطرناک حربے ہیں ۔ ان میں  سے ایک دنیا کی محبت ہے جوانسان کوآخرت سے غافل کردیتی ہے،نبی کریم نے فرمایا:
لایزال قلب الکبیرشابافی اثنین :فی حب الدینا وطول الامل(متفق علیہ)
بوڑھے شخص کا دل دوچیزوں کے معاملے  میں  جوان ہوتاہے :ایک دنیاکی محبت اور دوسری بہت زیادہ کی آرزوئیں ۔
ایک مسلمان کویقین ہوتاہے کہ دنیا فانی ہے،اسے ایک دن ختم ہوناہے ۔ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے ،جہاں  خداکے حضورپیش ہو کرہر انسان کو اپنے عمل کا حساب دینا ہے ۔  آخرت کی زندگی بہترہے جوہمیشہ باقی رہے گی۔ (والآخرۃ خیروابقی)اس دنیا کا ہرانسان اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ یہاں  ہرپیداہونے والا محض چند روز کی زندگی لے کر آیا ہے۔ اسے کچھ پتہ نہیں  کہ کب اس کی سانس رک جائے گی اور کب وہ دنیاسے چلاجائے گا۔
جوشخص دنیا کی محبت میں  گرفتار ہوجاتاہے وہ عیش کوش ہوجاتاہے جب کہ عیش کوشی مسلمانوں کا شیوہ نہیں  ، ایسے شخص کو اللہ پسند نہیں  کرتا،حقیقت میں  عیش کوش  خداکے بندے نہیں  بلکہ دنیا کے بندے ہوتے ہیں  جوخودکودنیاکے سپردکرکے اس کے بن جاتے ہیں ۔  اسی بناپر نبی کریم ﷺ نے جب حضرت معاذ بن جبل کو گورنربناکر یمن کی طرف بھیجاتو فرمایا:
تم عیش وعشرت میں  پڑنے سے خود کو بچانا ۔  کیوں کہ خداکے بندے عیش کوش نہیں  ہوتے۔ ‘‘(مسنداحمد)
ایک شخص نبی کریمؐ کی طرف سے گورنربناکرایسی جگہ بھیجاجارہا ہے جہاں  دنیا کی لذت ،عیش وعشرت کا ساراسامان مہیاہے ، اسے اسلام کا طریقہ بتایاجارہاہے کہ تم دیگر دنیا پرست حکام کی طرح دنیا میں  ملوث نہ ہوجانا کہ اپنی ذمہ داری سے ہی غافل ہوجاؤ ۔  خداکے بندے جھوٹی شان شوکت سے بچتے ہیں  ،ان کے اندر احساس ذمہ داری کوٹ کوٹ کربھرا ہوتا ہے ۔
دنیا کی محبت یک بہ یک کسی دل میں  پیدانہیں  ہوتی ہے، ابتدامیں  اس کا لالچ پیداہوتا ہے ،پھرانسان آخرت سے اعراض کرتے ہوئے اس پر پل پڑتاہے۔ امام قرطبی نے اس سلسلے میں  فرمایا:
ہوداء عضال ومرض مزمن، ومتی تمکن من القلب فسدمزاحہ،واشتدعلاجہ، ولم یفارقہ داء ولانجع فیہ دوائ، بل اعباالاطبائ، وبئس من برئہ الحکماء والعلماء۔
یہ ایک سنگین اور مہلک مرض ہے جس دل میں  جاگزیں ہوجاتاہے تواس کا مزاج بگڑجاتاہے اور اس کا علاج دشوارہوجاتاہے۔ یہ مرض کسی طرح پیچھا نہیں  چھوڑتا۔ کوئی دوا کام نہیں  کرتی ۔  اطباء اس کے علاج سے مایوس ہوجاتے ہیں  اور حکماء اس کی شفایابی سے بے بس ہوجاتے ہیں ۔
جب انسان کے دل میں  دنیا کی محبت جاگزیں  ہوتی ہے تووہ درازی عمراورکثرت مال کا خواہاں  ہوجاتاہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے یہودکی خصلت بدقراردیتے ہوئے فرمایاہے:
وَلَتَجِدَنَّہُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَی حَیَاۃٍ وَمِنَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ یَوَدُّ أَحَدُہُمْ لَوْ یُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَۃٍ وَمَا ہُوَ بِمُزَحْزِحِہِ مِنَ الْعَذَابِ أَن یُعَمَّرَ وَاللّہُ بَصِیْرٌ بِمَا یَعْمَلُونَ۔
تم انہیں  سب سے بڑھ کرجینے کا حریص پاؤگے حتی کہ یہ اس معاملے میں  مشرکوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں ۔ ان میں سے ایک ایک شخص یہ چاہتاہے کہ کسی طرح ہزار برس جیے،حالانکہ لمبی عمربہرحال اسے عذاب سے دورنہیں  پھینک سکتی۔ جیسے کچھ اعمال یہ کررہے ہیں  ،اللہ توانھیں  دیکھ ہی رہاہے۔ ‘‘(آیت:بقرۃ۹۵)
جب انسان دنیا کا گرویدہ ہوجاتاہے تووہ اندھاہوکررہ جاتاہے،اسے اچھا برا کچھ سجھائی نہیں  دیتا،اس کا دل پتھرکی طرح سخت ہوجاتاہے۔ اسے اپنے مفادکے علاوہ کسی سے کوئی سروکارنہیں  رہتاہے۔ وہ عیش وآسائش کی اس دلدل میں  ایساپھنستاہے کہ پھراس سے نکلنا اس کے لیے مشکل ہوجاتاہے۔ جوموت کی یاداسے اس دلدل سے نکال سکتی تھی مگراسے وہ فراموش کردیتاہے۔ دنیا کے لہو ولعب میں  مصروف ہوکر لایعنی چیزوں میں  مبتلا ہوجاتاہے ۔  اس طرح وہ مسلسل دھوکے میں  رہتاہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَلَہْوٌ وَزِیْنَۃٌ وَتَفَاخُرٌ بَیْْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِیْ الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ کَمَثَلِ غَیْْثٍ أَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہُ ثُمَّ یَہِیْجُ فَتَرَاہُ مُصْفَرّاً ثُمَّ یَکُونُ حُطَاماً وَفِیْ الْآخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ ۔
’’خوب جان لوکہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سواکچھ نہیں  کہ ایک کھیل اور  دل لگی اور  ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا آپس میں  ایک دوسرے پر فخرجتانا اور مال واولاد میں  ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہوگئی تواس سے پیدا ہونے والی نباتات کودیکھ کر کاشت کارخوش ہوگئے پھروہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی ۔ پھروہ بھُس بن کررہ جاتی ہے۔ اس کے برعکس آخرت وہ جگہ ہے جہاں  سخت عذاب ہے اور اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے۔  دنیاکی زندگی ایک دھوکے کی ٹٹی کے سواکچھ نہیں  ۔ ‘‘  (حدید:20)
دنیا کی محبت انسان کے اندرسے انفاق اور ایثارکا جذبہ ختم کردیتی ہے ۔ پھروہ اجتماعیت کی زندگی سے ہٹ کرذاتی منفعت کے حصول میں  زندگی گزارنے لگتاہے ۔  دوسروں کے لیے اس کے دل میں  نرمی یا ہمدردی باقی نہیں  رہتی ۔ وہ اس بات سے غافل ہوجاتاہے کہ وہ جس جگہ رہ رہاہے اس کا پڑوسی کس حال میں  ہے ۔ چہ جائے کہ وہ خدمت خلق کے دیگر کام انجام دے۔ جب کہ نبی کریم نے فرمایا:
ماآمن بی من بات شبعا وجارہ جائع (ترمذی)
وہ مجھ پر ایمان نہیں  رکھتا جو خودتوسیرہوکرکھائے اور مزے کی نیندلے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ انسان اس دنیا میں  اتنا مست رہتا ہے اور  اس کی محبت میں  اس قدرمگن رہتاہے کہ اسے کچھ احساس نہیں کہ وہ دن مہینے اور سال کھورہا ہے ۔ ا س قدرغافل ہے کہ اس فانی زندگی کے عوض آخرت کی زندگی کوفراموش کررہاہے جوباقی رہنے والی ہے۔
وَأَنفِقُوا مِن مَّا رَزَقْنَاکُم مِّن قَبْلِ أَن یَأْتِیَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِیْ إِلَی أَجَلٍ قَرِیْبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَکُن مِّنَ الصَّالِحِیْنَ ۔ وَلَن یُؤَخِّرَ اللَّہُ نَفْساً إِذَا جَاء  أَجَلُہَا وَاللَّہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
 جورزق ہم نے تمہیں  دیاہے اس میں  سے خرچ کروقبل اس کے کہ تم میں  سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور اس وقت وہ کہے کہ’’اے میرے رب،کیوں نہ تونے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں  صدقہ دیتااورصالح لوگوں میں  شامل ہوجاتا۔ حالانکہ جب کسی کی مہلت عمل پوری ہونے کا وقت آجاتاہے تو اللہ کسی شخص کو ہرگزمزیدمہلت نہیں  دیتااورجوکچھ تم کرتے ہو،اللہ اس سے باخبرہے۔  ‘‘  (سورۃمنافقون11-10 )
بعض حکمانے ایسے لوگوں پر اظہارتأسف کرتے ہوئے کہا:
کیف یفرح بالدنیا من یومہ یہدم شہرہ،وشہرہ یہدم سنتہ،وسنتہ یدہم عمرہ، کیف یفرح من عمرہ الی اجلہ، وتقودہ حیاتہ الی موتہ۔
’’وہ شخص دنیا پاکر کیوں خوش رہ سکتاہے جس کے دن،مہینے ،سال تیزی سے گزررہے ہوں اور اس کی زندگی موت سے قریب ہورہی ہو۔ ‘‘
یہ بات درست ہے کہ دنیا کے بہت سے کام ایسے ہیں  جن کے لیے دنیاوی وسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔  ان کے بغیر زندگی گزارنا محال ہے۔  انسان کی زندگی اور  دنیاکی مثال کشتی اور پانی کی سی ہے جوایک دوسرے کے لیے لازم اور ملزوم ہیں  کیوں کہ کشتی پانی پر ہی چلتی ہے۔ مگریہ بات پیش نظررہنی چاہیے کہ اگرکشتی میں  پانی بھرجائے تو کشتی تباہ وبربادہوکررہ جاتی ہے۔ لہذا دنیا اور اس کی محبت اگر انسان کے سینے میں  بھرجائے تواس کا ہلاک ہونا اور اس کی آخرت کا تباہ وبربادہونا یقینی ہے۔
موجودہ دورمیں  لوگ مسلمانوں کے بہت سے مسائل اور پریشانیوں کا ذکرکرتے ہیں  اور  ان کوبنیادبناکراسے دنیاحاصل کرنے کی دوڑمیں  پیچھے رہ جانے کی وجہ قراردیتے ہیں ۔ جب کہ حقیقت میں  یہ کوئی مسئلہ نہیں  ہے ،کیوں کہ ایک مسلمان کی کامیابی اخروی فلاح نجات میں  ہے اسی میں  دنیاوی مسائل کا حل بھی مضمرہے۔ البتہ ہم دیکھتے ہیں  کہ وہ لوگ بھی اس مقابلے میں  بہت پیچھے ہیں  جن کے پاس مسلمانوں  کی طرح دنیاکا حصول اتنابڑامسئلہ نہیں  ہے۔ بلکہ عیش وآرام اور ٹھاٹ باٹ کی زندگی جی رہے ہیں ،مثلاً موجودہ دورکے کلیدی عہدوں پر فائزہوس پرست ذمہ داران وسیاسی لیڈران جن کے ذلت آمیز، شرمناک اور غیراخلاقی واقعات کی خبریں  آئے دن اخبارات کی زینت بن رہی ہیں ۔
شیطانی گروہ مسلسل کوشش میں  ہے کہ دنیا کی محبت مومن کے دل میں  ڈال دے ۔ یہ دنیامختلف صورتوں میں  جلوہ گرہوتی اور مومنوں کولبھانے کی کوشش میں  رہتی ہے ۔  مسلمانوں کواللہ تعالیٰ کا فرمان اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دنیا کے مکروفریب سے دور رہنا چاہیے کیوں کہ حب دنیا ایمان کے منافی ہے ۔
                                ٭٭٭


No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...