Tuesday 12 June 2018

Eidul Fitr Izhar-e-Tashakkur


عید الفطر- اظہارتشکراور خوشی کا دن
 محب اللہ قاسمی

عربی مہینہ شوال کی پہلی تاریخ کو  مسلمان ’عیدالفطر‘ مناتے ہیں۔یہ ماہ رمضان کے روزوں کی تکمیل اور اس تربیتی مہینے میں عبادات کی انجام دہی کے بعد اظہارتشکر کے طور پر خوشی منانے کا دن ہے۔ یہ ایک ایسااسلامی تیوہار ہے ،جو اپنے دامن میں فضل ورحمت ، فرحت ومسرت اور باہمی مؤدت ومحبت کا سامان لیے ہوئے ہے۔ یہ امت مسلمہ کے لیے سچی خوشی کا موقع ہے۔ اسی وجہ سے اس دن کا خاص طور سے اہتمام کیاجاتا ہے۔

عید کے مشاغل
صبح کو غسل کرنا، نیا اور عمدہ لباس زیب تن کرنا،خوشبولگانا، دوستوں اور پڑوسیوں سے ملنا جلنا،خوشیاں منانا،مہمان نوازی کرنا اور جائز حدودمیں رہتے ہوئے مسرت کا بھرپور اظہار کرنا اس دن کے پسندیدہ مشاغل ہیں۔اس دن کے بارے میںنبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:  لکل قوم عیدا وہذا عیدنا (مسلم) ’’ہر قوم کے لیے خوشی منانے کا دن ہے اور یہ ہمارے خوشی منانے کا دن ہے۔‘‘ اس دن کا روزہ رکھنا حرام ہے۔ اگر کوئی شخص اس دن خوشی منانے کے بجائے روزہ رکھ کر خود کو زیادہ متقی وپرہیزگار ظاہر کرنے کی کوشش کرے تو ایسا شخص شریعت کی نگاہ میں نافرمان مانا جائے گا۔ جن پانچ ایام میں روزہ رکھنے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ ان میں ایک دن عید الفطر کا بھی ہے۔ اسی بنا پر علمائ  کرام کی رائے ہے کہ عید کے دن خوشیاںمنانا دین کی علامات (شعائردین) میںسے ہے۔ عید کے دن خوشی کے اس موقع کو فراموش کرنا، رنج والم کی کی فضا طاری کرنا اور مایوس رہنا کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ اہل ایمان کا باہمی رشتہ اخوت پر مبنی ہوتاہے ، جوکلمہ لاالہ الا اللہ سے قائم ہوتی ہے۔لہذا عید سعید کے اس موقع پر کوشش یہ ہو نی چاہیے کہ ہم اپنے ا?س پڑوس میں کسی یتیم ، غریب بے بس اور محتاج کو تنہا نہ چھوڑ دیں، بلکہ اس کے احوال دریافت کریں،حتی الامکان اپنے تعاون سے اس کی ضرورت پوری کریں۔اسی لیے زکوۃ اور صدقۂ فطرکا حکم دیا گیاہے تاکہ نادار بھی عید کی خوشی میں برابر کا شریک ہوسکے اور کوئی مسلمان عید کی دوستی اورانعامات سے محروم نہ ہو۔

بغض وعنادسے پرہیز
اسلام میں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان سے قطع تعلق یا دل میں کینہ ،بغض وعداوت کے جذبات کی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ خوشی کے اس دن میں جس طرح ہم غسل کرکے بدن صاف کرتے ہیں،نیالباس پہنتے ہیں ،ٹھیک اسی طرح اپنے دل کی  صفائی کی طرف توجہ بھی کرنی چاہیے۔ ہم اپنے بھائی کاخیرمقدم اور استقبال کریں۔ اس معاملے میں خود سے پہل کرنا زیادہ بہتر ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشادہے : حقیقی صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جو بدلہ چکائے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کی قرابت کو منقطع کر دیاجائے تو وہ اس قرابت کو قائم رکھے۔ (بخاری) اس لیے رشتہ داری کو نبھاتے ہوئے اعزا و اقارب سے ملنا ، خاص طور سے والدین سے ملاقات کرنا اور ان کے لیے عید کے فرحت وسرور کا سامان مہیا کرنا لازم ہے۔ یہ صلہ رحمی نہ صرف اس شخص کی عیدکو دوبالا کردیتی ہے بلکہ اس کے لیے کشادگی  رزق اور عزوشرف کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشادہے:
’’جو شخص یہ چاہتاہے کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی زندگی کی مہلت دراز ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک اور ان کے ساتھ احسان کرے۔‘‘ (بخاری ومسلم)

عید کے دن مسنون عمل
 عیدگاہ میں جن لوگوں سے ملاقات ہو ان کو مبارکباد پیش کرنے کا بھی اہتمام کریں۔ جیسا کہ صحابہ کرام کامعمول تھا جب وہ عید کے دن ا?پس میں ملتے تو کہتے :تقبل اللہ منا ومنک (مسنداحمد)اللہ تعالی ہماری اور آپ کی (نیک کوششوںکو) قبول فرمائے۔عید کی مبارک باد کا تبادلہ باہمی محبت کے فروغ کا ذریعہ ہے۔ عید کے دن تکبیر کہتے ہوئے عید گاہ میں ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے آنا مسنون عمل ہے۔ اس کی بہت سی حکمتیں بیان کی جاتی ہیں ،مثلا نیک کام کرتے ہوئے قدم مختلف راہوں پرپڑیںساتھ ہی زیادہ لوگوںسے ملنے کا موقع ملے اور اظہار مبارک باد کا عمل انجام دیا جائے۔

عید الفطر کی حقیقی خوشی
عید کی خوشی کن لوگوں کے لیے ہے؟کیا ان کے لیے جنھوںنے ایک مبارک مہینہ پایا اور اسے گنوادیااور اس سے استفادے کے لیے کوئی لمحہ نہ نکال سکے بلکہ خواہشات کی پیروی میں محرمات کے مرتکب ہوئے ؟نہیں ! بلکہ اس دن کی خوشی کے مستحق صرف وہی لوگ ہیں ، جنھوںنے رمضان کے روزے رکھے،قیام لیل کا اہتمام کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کے لیے اعمال صالحہ کی طرف سبقت لے جانے کی سعی مسلسل کرتے رہے۔جیساکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی افطار کے وقت اور دوسری اپنے رب سے ملاقات کے وقت(متفق علیہ) جس طرح انھیں رمضان میں روزہ افطار کرتے وقت اطاعت الٰہی پر ایک قسم کی فرحت میسر ہوتی ہے ،ٹھیک اسی طرح رمضان المبارک میں عبادات کو بحسن خوبی انجام دینے کے بعد اس ماہ کے اختتام پر ثواب کی امید میں انھیں ایک خوشی ملتی ہے۔ یہ اس کا اجرہے اور اللہ نہیں ہوتا اور اس روزے دار کی طرح ہے جو ناغہ نہیں کرتا(بخاری:۳۵۳۵) دوسری طرف عید الفطر کے موقع پر غریب بھی صبر و شکر سے کام لے کر قناعت کا تاج اپنے سر پر رکھیں۔ اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے شکوہ نہ کریں کہ وہ ہمیں کیوں نہیں دیتا اور نہ اپنے بیوی بچوں کو دوسروں کے مال پر حسرت کرنے دیں۔ پیوند لگے کپڑوں میں تقوی وصبر کے ساتھ جو شان ہے وہ ریشمی لباس میں نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جن کو غریب بنایا ہے وہ مالداروں سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے اور وہ انبیائ  کرام کے طریقے پر ہیں، اگر وہ صبر و شکر سے کام لیں اور لالچ یا سوال کی ذلت نہ اٹھائیں۔حضرت اسامہ بن زید? روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا:’’میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تو (میں نے دیکھا کہ) اس میں داخل ہونے والے زیادہ ترمساکین ہیں اور مال دار لوگوں کو (حساب کے لیے) روکا ہوا تھا۔البتہ جہنمیوں کو جہنم کی طرف لے جانے کا حکم دے دیا گیا تھا(بخاری:۶۹۱۵) اس لیے عید کے دن اللہ تعالیٰ سے شکوہ شکایت کرنے کی ضرورت نہیں۔عام دن کی طرح یہ دن بھی گزر جائے گا۔رب کعبہ کی قسم دنیا کی رنگینیاں انہی کو ستاتی ہیں جو موت سے غافل ہیں اور اسی کو کل سمجھتے ہیں ، اس لیے ایک دن کی خاطر غریبی کو داغدار نہ ہونے دیں۔ اللہ تعالیٰ اس کا بہترین اجر عطا فرمائے گا۔

عید کی سنتیں
(۱)غسل کرنا(۲)حسبِ استطاعت نئے کپڑے پہنا(۳)خوشبو لگانا(۴)کھجور کھانا،حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ عیدالفطر کی نماز کے لیے نکلنے سے پہلے چند کھجوریں تناول فرماتے تھے۔ عموماًان کی تعداد طاق ہوتی تھی۔ (بخاری:۰۳۵۹)
(۵)عید گاہ پیدل جانا اور ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔ اس سے ہر قدم پر ثواب ملتا ہے اور غیروں کو مسلمانوں کی اجتماعیت کا بھی احساس ہوتا ہے۔ حضرت ابورافعؒ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ عید کی نماز کے لیے پیدل تشریف لے جاتے تھے اور جس راستے سے جاتے تھے ،اس کے علاوہ دوسرے راستے سے واپس آتے تھے(ابنِ ماجہ:۰۰۳۱)

(۶) راستے میں تکبیریں (اللہ اکبر اللہ اکبر،لاالہ الا اللہ،واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد)پڑھتے ہوئے جانا ،ہم سب کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے،نوجوان طبقہ عموماً آپس میں ہوہااور دنیا بھر کی بکواس کرتا ہوا جاتا ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے، تا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد ہو اور دوسرے محسوس کریںکہ آج کوئی خاص دن ہے۔اس سے غیروں پر رعب بھی پڑتا ہے۔یہ نہیں کہ مرے مرے انداز میں منہ لٹکائے چلے جا رہے ہیں۔

(۷) خطبہ سننا:نمازِ عید الفطر کے بعد امام خطبہ دیتا ہے ،اس کو سن کر جانا چاہیے،اکثر لوگ نماز ختم ہوتے ہی بھاگنے لگتے ہیں۔خطبے میں عید الفطر سے متعلق مذہبی ذمہ داریوں کی تلقین کی جاتی ہے،اللہ تعالیٰ سے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کی معافی مانگی جاتی ہے، عالمِ اسلام اور بنی نوع انسانیت کی بھلائی کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں،جن کو قبولیت کا شرف حاصل ہوتا ہے۔حدیثِ نبوی ہے:

نبیﷺ نے فرمایا! جب عید الفطر کا دن آتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر فرماتا ہے اور پوچھتا ہے: اے میرے فرشتو! اس مزدور کی کیا جزا ہے جو اپنا کام مکمل کر دے ؟فرشتے عرض کرتے ہیں:اس کی جزا یہ ہے کہ اس کو پورا اجر و ثواب عطا کیا جائے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے میرے فرشتو!میرے بندوں اور بندیوں نے اپنا فرض ادا کیا پھر وہ (نمازِ عید کی صورت میں) دعا کے لیے نکل آئے ہیں،میری عزت و جلال، میرے کرم اور میرے بلند مرتبہ کی قسم! میں ان کی دعائوں کی ضرور قبول کروں گا،اللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے: بندو!  گھروں کو لوٹ جائو، میں نے تمہیں بخش دیااور تمہارے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیا۔نبیِ کریم ﷺ فرماتے ہیں! پھر وہ بندے (عید کی نماز سے) اس حال میں لوٹتے ہیں کہ ان کے گناہ معاف ہو چکے ہوتے ہیں۔

خواتین کا عیدگاہ میں جانا
عید کی نماز کے لیے خواتین اور بچے بچیوں کو بھی لانا چاہیے۔حضرت امِ عطیہ ؒ سے مروی ہے کہ آپؐ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عید الفطر اور عید الاضحی کے روز پردہ نشین دوشیزائوں،چھوٹی بچیوںاور حائضہ عورتوں کو عیدگاہ کے لیے نکالیں البتہ حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں گی ، اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں گی۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ :بعض عورتیں ایسی بھی ہیں جن کے پاس چادر نہیں ہوتی۔فرمایا! جس عورت کے پاس چادر نہ ہو ،وہ اپنی بہن سے لے لے(بخاری:۴۷۹)

Monday 4 June 2018

Etekaf Husule Taqarrub Ilahi ki Tarbiyat



اعتکاف حصولِ تقربِ الٰہی کی تربیت


 اللہ کے نیک بندے اس سے اپنی عبودیت کے رشتے کو مضبوط کرنے اوراپنا تعلق گہرا بنانے کے لیے اس کے گھر سے چمٹ جاتے ہیں اور اس میں ڈیرہ ڈال دیتے ہیں۔تاکہ وہ دنیا کی چمک دمک ،لہو و لعب اور اس کے مکرو فریب سے آزاد ہوکراس کی رضاکے حصول کی تمنا لیے ہوئے شب قدر کے فضائل و برکات کو حاصل کرسکیں۔اس مقصد سے مسجد میں ٹھہرنے کواعتکاف کہاجاتاہے۔ اس کا بہترین وقت رمضان المبارک کا آخری عشرہ ہے۔

اعتکاف کا معنی :   اعتکاف کا لغوی معنی ہے’ لزوم الشی‘ یعنی کسی جگہ ٹھہرنا، جمے رہنا اور اپنے آپ کو روکے رکھنا ۔
اصطلاحِ شرع میں اعتکاف کہتے ہیں ،اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے روزے کے ساتھ مسجد میں ٹھہرنااس طور پر کہ اس میں غیر ضروری گفتگو سے اجتناب اور بلاوجہ مسجد سے باہر نکلنے سے بچا چائے۔ اعتکاف قرآن ،حدیث اور اجماع امت سے ثابت ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے :

 وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ(البقرۃ:125
 اورہم نے ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ کو تاکید کی تھی کہ میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔
اللہ تعالیٰ نے روزے کے احکام بیان کرتے ہوئے فرمایا :
                   وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي المَسَاجِدِ(البقرۃ187
’’ اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔ """‘‘

اعتکاف اور معمولاتِ نبویؐ

رسول اللہ ﷺ کے معمولات ِ رمضان کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہےکہ آپ ﷺ نے پابندی کے ساتھ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا ہے اور یہ اعتکاف آپﷺ کا محبوب مشغلہ رہاہے۔خاص طور سے شب قدر کی تلاش و جستجو کے پیش نظر، جسے قرآن نے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں حضرت ابوسعید خدری ؓ کا بیان ہے :
’’ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا۔ آپؐ نے ایک ترکی طرز کے خیمے کے اندررمضان کے دس دن گزارے۔اعتکاف ختم ہونے پرآپؐ نے اپنا سرمبارک خیمے سے باہر نکالا اورفرمایا: میں نے اس رات کی تلاش میںپہلے دس دن کا اعتکاف کیا، پھرمیں نے درمیان کے دس دن کا اعتکاف کیا۔تب میرے پاس آنے والا آیا اورا س نے مجھ سے کہا:’’ لیلۃ القدررمضان کی آخری دس راتوںمیں ہے۔پس جولوگ میرے ساتھ اعتکاف میں بیٹھے تھے، انھیں چاہیے کہ وہ اب آخری دس دن بھی اعتکاف کریں۔مجھے یہ رات (لیلۃ القدر)دکھائی گئی تھی ،مگرپھربھلادی گئی اورمیں نے دیکھا کہ میں اس رات کی صبح کوپانی اورمٹی میں (برسات کی وجہ سے)  نماز پڑھ رہا ہوں۔پس تم لوگ اسے آخری دس دنوںکی طاق تاریخوںمیں تلاش کرو۔‘‘( بخاری ومسلم )

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے رہے اور آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا ۔(بخاری و مسلم) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے، البتہ جس سال آپ کا انتقال ہوا اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔ (بخاری)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے، لیکن ایک سال کسی سفر کی وجہ سے اعتکاف نہ کرسکے تو آئندہ رمضان میں بیس دن کا اعتکاف کیا ۔(ترمذی)

 امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا :’’ عجیب بات ہے کہ مسلمانوں نے اعتکاف کی سنت کو چھوڑ دیا ہے ،حالاںکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب سے مدینہ منورہ تشریف لائے آپ نے اعتکاف کبھی نہیں چھوڑا ۔حتی کہ اپنی عمر عزیز کے آخری سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے دو عشروں کا اعتکاف کیا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے البتہ جس سال آپ کا انتقال ہوا اسی سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا ۔(بخاری)
 آپ ﷺ نے اعتکاف کا جس قدر اس کا اہتمام کیا ہے اس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اعتکاف سنت مؤکدہ ہے ۔اسی وجہ سے صحابہ ؓو تابعین ؒاور سلف صالینؒ میں بھی اس کا اہتمام رہا ہے۔

اعتکاف کاوقت:

جو مومن رمضان کے آخری عشرے کااعتکاف کرنا چاہتا ہے، تووہ بیسویں رمضان کا سورج غروب ہونے سے قبل مسجد میں آجائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول رہا ہے ، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے ، میں آپ کے لئے ایک خیمہ نصب کردیتی جس میں آپ صبح کی نماز کے بعد داخل ہوتے ۔( بخاری )
کسی شخص نے رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کیا ہو تووہ شوال کا چاند نکلتے ہی اپنا اعتکاف ختم کرکے گھر واپس آسکتا ہے ،مگر مستحب یہ ہے کہ عید کی صبح اپنی جائے اعتکاف سے باہر آئے او رعیدگاہ جائے ، صحابہ و تابعین کا یہی عمل رہا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے بعض اہل علم کو دیکھا ہے کہ جب وہ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تو اپنے گھر عید کی نماز پڑھ لینے کے بعد آتے ۔

حالت ِاعتکاف

حالت اعتکاف میں اللہ کے رسول ﷺ کا محبوب مشغلہ یہ تھاکہ آپ ہر طرف سے یکسو اور سب سے منقطع ہوکر بس اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے۔ مسجد کے کسی گوشےکو پکڑ لیتے ،وہاںتنہائی میںذکر و فکر اور اور اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے ، اللہ کی تسبیح و تحمید بیان کرتے ہوئے اس  کی رضا اورقرب حاصل کرتے۔ قیام لیل کا اہتمام کرتے ،اللہ کے کے حضور توبہ و استغفار کرتے ، اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر روتے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے بیمار پرسی کرلیتے تھے ،البتہ اس کے لیے ٹہرتے نہیں تھے ۔

 اعتکاف اور تزکیہ نفس

اعتکاف شخصیت کو نکھانے ،سنوارنے اور اس کے ارتقاکا بہترین ذریعہ ہے۔اس لیے کہ تزکیہ نفس کے لیے اس سے بہتر ماحول کا تصور نہیں کیا جاسکتا،جب انسان ہر وقت خود کو بارگاہ الٰہی میں محسوس کرتا ہے تو وہ ان تمام چیزوں سے دوری اختیار کرنے لگتا ہے جو اس کے نفس کو پراگندہ کرے ۔ گویا ’ترک مالا یعنیہ‘(غیر ضروری چیزوںکا چھوڑدینا)ایمان ہے اس کی مکمل مشق کرائی جاتی ہے۔ جب انسان اس پر کاربند ہوگا تو لازما اس کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوگا۔وہ جھوٹ،بغض وحسد،کینہ کپٹ ،چوری ،چغلی ،غیبت وبدکاری جیسی اخلاقی برائیوں سے بچ کر رضائے الٰہی کے حصول کے ساتھ بامقصد زندگی گزارے گا۔اللہ پر مکمل یقین اور اس سے دعا کرکے اپنے کو کبھی اکیلا نہیں سمجھے گا۔ اعتکاف کی وجہ سےاللہ کے ساتھ جو رشتہ مضبوط ہوتا ہے اس کی وجہ سے وہ اللہ کی نافرمانی کرنے سے بچے گا۔ اس طرح انسان کی شخصیت کا غیر معمولی ارتقا ہوگا۔

الغرض اعتکاف عبادتوںمیں خلوص و للہیت کو پروان چڑھاتا ہے۔اس لیے افراد امت کواس کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے ۔ تاکہ رمضان المبارک سے بھر پور استفادہ کے ساتھ اپنی تربیت کافریضہ انجام دے کر شخصیت کے ارتقا میں پیش قدمی کرسکیں۔خاص طور سے وہ نوجوان جو دنیا اور اس کی مستی میں چوراللہ سے دور ہو رہے ہیں ان کا تعلق اللہ سے مضبوط ہو۔
 Mohibbullah Qasmi   محب اللہ قاسمی 
D-321, Abul Fazl Enclave, Jamia Nagar, New Dehi-110025
Mob- 9311523016        Email: mohibbullah.qasmi@gmail.com

















Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...