Saturday 29 September 2012

نرم لہجہ اور خندہ پیشانی بلند کردار کی علامت

                                                                    محب اللہ قاسمی 

انسان خوشی ومسرت کا خوگر ہوتاہے ،اسے تلخی اورشدت ناگوار گزرتی ہے۔ مگر بسااوقات ہوتا یہ ہے کہ وہ اپنے جذبات پرقابو نہیں رکھتا اور اپنے نامناسب  رویے میں تبدیلی لانے کو تیارنہیں ہوتا۔اس کے نتیجہ میںشکایت اور غصے کا ماحول پیدا ہوجاتاہے۔ لوگ ایک دوسرے سے ملنے سے کترانے لگتے ہیں ،جس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ ملاقات خوشی کے بجائے پریشانی کا باعث بن جاتی ہے اور گفتگوکے دوران سخت کلامی کی نوبت آجاتی ہے ۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے صحت مند طرزکلام ناگزیرہے۔اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کوہدایت فرمائی :
 ’’تم دونوں فرعون کے پاس جاؤکہ وہ سرکش ہوگیا ہے اور اس سے نرم گفتگو کرو شاید کہ وہ نصیحت حاصل کرے اور ڈرے‘‘ (سورۃ طہٰ:۴۲-۴۳)۔
اس آیت کریمہ میںاللہ تعالی نے موسی ؑاورہا رونؑ کو نرم لہجہ میں گفتگوکرنے کا حکم دیا ہے ۔ مخاطب کتناہی بڑا سرکش کیوں نہ ہو،مناسب یہ ہے کہ اس سے سہل ،لطیف اورنرم لہجہ میں گفتگوکی جائے تبھی اصلاح کے مقصدمیںکامیابی کی توقع ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاا ارشاد ہے :
’’خوشخبری سناؤ، نفرت مت دلاؤآسانی پیدا کرو مشکل نہ بناؤ‘‘۔(مسلم)
بسااوقات انسان نادانی میں کسی شخص سے ایسی بات کہہ دیتا ہے جوبراہ راست اس کے دل کو زخمی کرتی ہے پھروہ زخم کبھی نہیں بھرتا ۔ ایک محاورہ ہے:زبان کا زخم جسم کے زخم سے زیادہ گہرا ہوتا ہے۔واضح رہے کہ ایذارسانی اسلام میں حرام ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان وہاتھ سے انسان محفوظ رہیں۔
کوئی آلہ ایساایجاد نہیں ہوا ،جس سے مخاطب کے دل کی کیفیت جانی جاسکے۔البتہ انسان کا چہرہ بتادیتاہے کہ وہ خوش ہے یا ناراض اوریہ کہ وہ  اپنے ملنے والوں کے سلسلے میں کتنا مخلص اورخیرخواہ ہے ۔شیخ سعدی نے کہاتھا :
 ’’تا مردسخن نگفتہ باشد عیب وہنرس نہفتہ باشد ‘‘جب تک انسان بات نہیں کرتاہے اس وقت تک اس کا عیب وہنرچھپا ہوتاہے۔گویا گفتگوکا لہجہ انسان کی شخصیت کا ترجمان ہوتا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا:کیامیں تمہیں اس شخص کے بارے میں نہ بتادوں جس پر جہنم کی آگ حرام کردی گئی ہے؟ صحابہ نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول  ﷺ آپ ضروربتائیے۔آپ نے ارشادفرمایا:
 ’’اللہ نے جہنم کی آگ حرام کردی ہے ہراس شخص پر جو خوش مزاج ،نرم خو،ملائمت پسند اورلوگوںسے قریب رہنے والا ہو۔‘‘ (مسند احمد(
اسلام انسان کوہرحال میں صابروشاکر رہنا سکھاتاہے ۔اسے چاہیے کہ مصائب کے باوجود اپنی تکلیف کو مسکراہٹوںمیں چھپانے کا عادی بنے۔ اس کا یہ عمل اسے خودبھی خوش رکھے گا اوروہ دوسروںکو بھی خوش رہنے کی ترغیب دے سکے گا۔ اس کا یہ عمل شکرگزاری میں شمار ہوگا جس پر اللہ نے مزیدعطاکرنے کا وعدہ کیاہے۔کسی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا۔ چہرے کاحساس وبشاش ہونا۔انسانوںکو یہ نسخہ نبی کریم ﷺ نے عطا کیا۔ آپ ؐ اچھی باتوںکو پسند فرماتے تھے، کسی بھی خیرکے کام کو معمولی نہیں سمجھتے آپ ؐنے فرمایا:
’’کسی بھی بھلائی کو ہرگزحقیرنہ جانو اگرچہ تیرا اپنے بھائی سے خندہ روئی سے ملنا ہی ہو۔‘‘     ( مسلم(
اس ارشاد سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں خندہ پیشانی اور مسکراہٹ کے ساتھ ملنا ایک پسندیدہ عمل ہے ۔اگرچہ لوگوںکی نظرمیں اس کی کوئی خاص اہمیت نہ ہومگراخلاقی اعتبارسے یہ ایک عمدہ صفت اورباہمی محبت کا مظہر ہے۔اسلام نے اس کو بڑی اہمیت دی ہے۔آپ ؐ کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔حضرت عبداللہ بن حارث ؓ کہتے ہیں کہ میں نے آپؐ سے زیادہ مسکراتے ہوئے کسی کونہیں دیکھا۔(ترمذی(
کسی سے ملتے وقت چہرے پرمسکراہٹ یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ شخص بااخلاق ہے ۔اس خوبی کا حامل انسان اپنے دوسرے بھائی کے دل میں خوشی کی لہرپیداکرتا ہے ۔اگراس کے پاس دینے کے لیے کوئی مادی شئے نہ ہو تب بھی اس کا مسکراہٹ کے ساتھ ملنا خود ایک صدقہ اور نیک عمل ہے۔بسا اوقات چہرے کی مسکراہٹ مریض کے لیے دوا ثابت ہوتی ہےچنانچہ بہت سے اطباکا خیال ہے کہ مریض کی عیادت کے وقت مسکراہٹ اس کی طبیعت کی بحالی کا سبب ہوتی ہے۔یہ ایک قسم کا عطیہ اوربخشش ہے ۔لوگوںکو عام طورپر اس کا شعورنہیں ہوتا۔
سلف صالحین کا طریقہ رہاہے کہ وہ لوگوںکے ساتھ خندہ پیشانی سے ملتے اورنرم لہجہ اختیارکرتے تھے یہی وجہ ہے کہ لوگوںکا ایک ہجوم ان سے ملنے کا شائق رہتا تھا ۔جلیل القدرصحابی حضرت عبداللہ بن عمر  ؓ فرماتے ہیں :
’’نیکی آسان چیز ہے،خندہ پیشانی ، نرم زبان ۔‘‘(شعب الایمان بیہقی)
یعنی انسان کسی کے ساتھ خندہ پیشانی اور نرم لہجے میں بات کرکے بھی نیکی کما سکتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی گفتگومیں نرم وشیریں لہجہ اختیارکرے۔یہ طریقہ دل کی سختی کو دورکرے گااوراس کی شخصیت میں نکھارپیدا ہوگا ۔ ہنستاہوا چہراموتی سے زیادہ چمکداراورروشن صبح سے زیادہ دلکش ہوتا ہے،ساتھ ہی یہ صفت صفائی قلب کی عکاس ہوتی ہے۔گفتگوکے آداب میں سے یہ ہے کہ انسان جہاں اپنے مخاطب سے نرم لہجہ اورشیریں کلام کرے ،وہیں وہ اپنے چہرے پہ مسکراہٹ بھی رکھے۔ اس کے بغیرگفتگوکا مؤثرہونا محال ہے۔اگرہم نے اپنی زندگی میں اس کا اہتمام کیا تو اس کے فوائد کا مشاہدہ کریںگے۔ یہ شرف کیاکم ہے کہ یہ نبی کریم ؐ کی اقتداء ہوگی جوہمارے لیے قابل فخرہے۔اس رویے سے اللہ کے اچھے بندوں سے محبت پیداہوگی جو خداسے محبت کی علامت ہے۔ لوگ خندہ رو شخص کے دلدادہ ہوتے ہیںاوران کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں ۔ایک داعی کی سب سے بڑی خوبی اور اس کے بلندکردار ہونے کی دلیل ہے۔  
Top of Form


No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...