Saturday 29 September 2012


امید مومن کا وصف خاص


محب اللہ قاسمی

امید کا انسانی زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ ہر شخص کے جذبات براہ راست اس سے جڑے ہوتے ہیں۔ اس کے بغیر زندگی کے قافلہ کارواں دواں ہونا محال ہے۔کہتے ہیں ناامید ی کفر ہے اورامید پر دنیا قائم ہے۔یہ امید ہی ہے جس کی بناپر تاجر اپنی دوکان کھولتاہے اورصبح سے شام تک وہیں دلجمعی کے ساتھ بیٹھتاہے ،اسے توقع ہوتی ہے کہ اسے اچھا منافع ملے گا۔کسان زمین کھودکراس میں بیج ڈالتاہے اس امیدکے ساتھ کہ اس سے ڈھیروںغلے کی پیداوارہوگی۔ والدین اپنی اولاد کی تربیت کرتے ہیں کہ آئندہ وہ ایک اچھا انسان اورقوم وملک کا معمارہوگا۔گویا کہ زندگی کے ہرشعبے میں انسان کسی نہ کسی نوعیت کی امید ضرور رکھتاہے اورامیدوںکے سہارے اپنے منصوبوںکوعملی جامہ پہنانے کی کوشش میں لگارہتاہے۔’ امید ‘کی حقیقت کیاہے ،اسے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔


امید کوعربی زبان میں رجاء کہتے ہیںکسی کام کے کامیابی سے پاجانے کی توقع ۔اس کی ضدمایوسی ہے۔ امید کے دواصطلاحی معنی بیان کئے جاتے ہیں :ایک معنی ہیں: اللہ سے درگذراور مغفرت کی توقع رکھنا۔‘دوسرے معنی ہیں :زندگی میں کشادگی وفراوانی کا  انتظاراورمصائب وآلام سے نجات کی توقع ۔علامہ ابن قیم نے پہلے معنی کو اس انداز سے بیان کیاہے:

‘‘امید دراصل بندگی ہے ورنہ انسانی اعضا و جوارح اطاعت کے لیے آمادہ ہی نہ ہوتے ۔ اسی طرح اس امیدکی خوشبواگرنہ ہوتی تو ارادوں کے سمندرمیں اعمال کی کشتی ہی نہ چلتی ’’
ابن حجرؒ وغیرہ نے بھی امید کے اصطلاحی معنی بیان کیے ہیں ۔
یہ واقعہ ہے کہ امید انسانی تخیلات میں جان پیداکرتی ہے۔ان تخیلات کوعملی پیکرمیں ڈھالنے کا کام انسانی اعضاء وجوارح مل کرانجام دیتے ہیں ۔ایک قول ہے یمان خوف اورامید کے مابین ہے۔اس کے مطابق ایک مومن کے اندریہ دونوںاوصاف ہیں تویہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس کے دل میں ’ ایمان‘ ہے ۔قرآن کریم میں اس کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاگیا:

جولوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں ،نماز قائم کرتے ہیں اورجوکچھ ہم نے ان کو دیاوہ یوشیدہ اورعلانیہ طورپر خرچ کرتے ہیں وہ لو گ ایسی تجارت کے متوقع ہیں ،جس میں کوئی خسارہ نہ ہوگا۔نیزفرمایا : یا وہ جومطیع وفرماں بردارہے رات کے پہرمیں سجدہ اورقیام کی حالت میں ہوتا ہے اوراپنے رب سے رحمت کی امید لگاتاہے۔

پھریہ بھی حقیقت ہے کہ انسان جوبھی عمل کرے اگراس نے اللہ سے امید باندھ رکھی ہے تواللہ اس کی امید کے مطابق اسے عطاکرتاہے ۔


ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان کے گھر پہنچے جومرض وفات میں تھا۔آپؐ نے فرمایا:تمہیں کیسا محسوس ہوتاہے ؟اس نے کہااے اللہ کے رسول بہ خدا مجھے اللہ سے بہتری کی امید ہے اوراپنے گناہوںکا خوف بھی ہے۔آپ نے فرمایا اس مقام پر ایک بندے کے اندرجب یہ دونوںباتیں ہیں تواللہ اسے امید کے موافق عطاکرے گااوراس کو ان گناہوں
کے خوف سے محفوظ کردے گا۔ایک حدیث قدسی ہے، جس کے راوی حضرت انس ؓ ہیں۔اس کا ایک ٹکڑا یہ ہے:اللہ کہتاہے کہ’’ اے ابن آدم تونے مجھے یاد کیا اورمجھ سے امید باندھی میں نے تیرے تمام گناہوںکو بخش دیااورمیں بے نیاز ہوں‘‘۔نبی ؐ نے فرمایاکہ تم میں بہتر شخص وہ ہے جس سے دوسرے خیرکی امید رکھیں اوراس کے شر سے محفوظ رہیں۔اللہ کے رسولؐ نے ہمیں ایک دعاسکھائی جسے ہم دعائے قنوت کہتے ہیں اوروترکی نماز میںروزانہ ہم دعائے قنوت میں ’ونرجوارحمتک ‘کہتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ اے خدا ہم تیری رحمت کی امید کرتے ہیں۔


امید کی وضاحت اس کے بالمقابل استعمال ہونے والے لفظ ’ناامید ی‘سے ہوتی ہے۔کیوںکہ معروف اصول ہے چیزیں اپنی ضدسے پہچانی جاتی ہیں۔امید کی ضد ناامیدی ہے ،اسی کو مایوسی بھی کہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایاہے (اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو)۔امید مومن کا وصف خاص ہے جب کہ ناامیدی کافراورگمراہ لوگوںکی صفت ہے۔اللہ تعالی نے فرمایااللہ کی رحمت سے گمراہ لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔

نبی کریم ؐ نے صحابہ کرام ؓ کوتین بڑے گناہوںکے سلسلے میں متنبہ کرتے ہوئے فرمایا(اللہ کا شریک ٹھہرانا،اللہ کی گرفت سے خود کومامون سمجھنا اوراللہ کی رحمت سے مایوس ہونا۔انسان کوچاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں امیدوںکوہمیشہ جوان رکھے ۔یہی صفت اسے اپنے مشن کو جاری رکھنے میں کامیاب بناتی ہے۔ وہ ناامید ی کو اپنے قریب بھی نہ آنے دے ۔اس لیے کہ اس سے قلب بزدل اوربے جان ہو کر ایمان سے محروم ہونے لگتاہے ۔ناامیدی کی کیفیت میں انسان عمل سے کوسوں دور ہوجاتاہے۔ دوسرے لفظوںمیں یوںبھی کہاجاسکتاہے کہ امید کادوسرا نام زندگی ہے اورناامیدی کا نام موت ہے۔امید کے بغیر انسان محض ایک ڈھانچے کی شکل میں رہ جاتاہے ،جس میںکوئی روح نہیں ہوتی۔ شاعرنے خداکی دی ہوئی اس امانت کو جاوداں رکھنے کے لیے یوں کہاہے   ؎

رہے پھولا پھلا یارب چمن میری امیدوں کا

جگر کا خون دے دے کریہ بوٹے ہم نے پالے ہیں


یہ امید ہی ہے جوانسان کو نیکی پر آمادہ کرتی ہے۔قرآن کہتاہے تو جو شخص اپنے خالق ومالک سے ملنے کی امید رکھتا ہے اسے چاہئے کہ نیک کام کرے اوراپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔ 

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...