Monday 8 April 2013


زبان کے اثرات انسانی زندگی پر

معاشرے کے فسادوبگاڑکا اہم سبب زبان کا بے جااورغلط استعمال ہے۔ انسان کے جسم کا یوں تو چھوٹا سا عضوہے مگراس کے نقصانات بڑے بھیانک ہوتے ہیں ،جن سے بچ پانا بہت مشکل ہوتاہے۔عربی مقولہ ہے :
 اللسان جِرمہ صغیروجُرمہ کبیر
زبان جوعضو میں چھوٹا ہے لیکن اس کے گناہ بھاری اوربہت ہوتے ہیں۔
زبان سے انسان نہ صرف دوسروںکوتکلیف اورپریشانی میں ڈالتاہے بلکہ خودبھی بہت سی مصیبتوں سے دوچار ہوتاہے۔ انسانی زندگی پراس کا گہرا اثرپڑتاہے ۔ اگراس کا صحیح استعمال ہوتو انسان باوقار اور بلند کردار معلوم ہوتا ہے، اگراس کے استعمال میں بے احتیاطی ہو توانسان کواس کی بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے اوروہ معاشرے میں ذلیل وخوارہوجاتاہے ۔
رسول اللہ  ﷺ کا ارشاد ہے :جب ابن آدم کی صبح ہوتی ہے تواس کے جسم کے تمام اعضازبان سے عاجزی ظاہرکرتے ہوئے کہتے ہیں
اتق اللہ فینا فانما نحن بک، فان اعوججت اعوججنا (ترمذی(
ہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈر، اگرتوٹھیک رہے گی توہم بھی ٹھیک رہیں گے اگرتونے کجی اختیارکی تو ہمارا بھی براحال ہوگا۔
ہرکام کا حسن یہ ہے کہ اسے معتدل اندازسے نجام دیاجائے ،اس میں افراط وتفریط گویا اس کام میں فساد ڈالنا اورخودکومصیبت میں مبتلا کرناہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا:خیرالامورعوازمہا ، اوساطہاوغیرہ۔اس لیے بہتریہی ہے کہ انسان اپنے کلام کومعتدل بنائے اور گفتگوکے آداب کوملحوظ رکھتے ہوئے اپنی زبان کوقابو میں رکھے۔نبی ؐ نے گفتگوکے متعلق ایک عام قائدہ بتایا ہے:
 من کان یومن باللہ والیوم الآخرفلیقل خیرا اولیصمت(مسلم (
جوشخص اللہ اوریوم اخرت پر ایمان رکھتاہے اسے اچھی گفتگوکرنی چاہیے ورنہ خاموشی اختیارکرنی چاہیے ۔
جو شخص زبان کی مصیبت سے بچناچاہتاہے ۔اسے آداب گفتگوکا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔گفتگو کے اداب میں سے ہے کہ غیرمفید گفتگوسے اجتناب اوربے جا کلام سے گریز کیا جائے،جیسا کہ عربی کا مقولہ ہے: لکل مقام مقال( ہر بات کا ایک مناسب وقت ہے) یہی وجہ ہے ،جب گفتگوکا کی جائے تواس کا خیال رکھا جائے کہ جوبات کہی جارہی ہے وہ سامع کی ضرورت ہے یا نہیں ،اسی طرح اس گفتگو کا کیا اثر ہوگا۔یہ سب سوچ لینا چاہیے ،کہاجاتاہے ،پہلے تولو پھربولو،تاکہ پتہ چلے کہ اس کی بات کا اس مقام پر کیا وزن ہے اور اس کی کیا حیثیت ہے؟
کثرت کلام کے بجائے مختصر ،مدلل اورواضح گفتگوکا اندازاپنایاجائے ۔عربی میں اسے’’ خیرالکلام ماقل ودل‘‘(بہترین گفتگو وہ ہے جومختصر اور مدلل ہو) سے تعبیرکیاجاتا ہیں۔ عموما انسان جب بات کرتاہے تووہ سامع کے وقت کا خیال نہیں رکھتا اور غیرضروری گفتگو کو طول دے کرسامع کو اکتاہٹ میں ڈال دیتاہے اس طرح اس کا وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور گفتگو بھی غیرمؤثر ہوتی۔
انسان اپنی زبان کی بے احتیاطی کے سبب بہت سے راز فاش کردیتاہے جوکہ امانت کا درجہ رکھتاہے۔اسے اسی خیانت کے نتیجے میں شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔پھراسے غیبت ،چغلی اور کسی کی ٹوہ میںلگ کرادھرکی بات ادھرکرنے کی عادت پڑجاتی ہے ،جب اس کی یہ کیفیت معاشرے میں اجاگرہوتی ہے تو وہ کسی کومنہ دکھانے کے لائق نہیں رہ جاتا اورنہ لوگ اس پر اعتماد کرتے ہیں ۔ اس طرح ان کی نگاہوںمیںاس کی وقعت گھٹ جاتی ہے۔نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے:
من صمت نجا  (ترمذی(
’’جس نے خاموشی اختیارکی وہ نجات پاگیا‘‘
معلوم ہوا کہ اگر پریشانیوں سے بچناہے اورمقصدمیں کامیابی حاصل کرنا ہے تو بہتریہی ہے کہ کثرت کلام سے گریز کرتے ہوئے خاموشی اختیارکی جائے۔
لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا’’اگربولنا چاندی ہے توخاموش رہنا سونا ہے۔‘‘
اگرکسی کی تعریف یااس کی حوصلہ افزائی کرنی مقصودہے توتعریف میں ( غلو) حدسے تجاوز نہیںکرنا چاہیے،کیوںکہ ایسی حرکت ریا اورتملق کے دائرے میں آتی ہے جو انسان کوزیب نہیں دیتی ۔یہی حال مذمت کا ہے،کیوںکہ اس میں بھی غلوکرنا سختی اورانتقام کوجنم دینا ہے۔جب کہ انسان بہ حیثیت انسان قابل احترام ہے ،لہذا اس کے برے عمل کواسی حدتک براکہناچاہیے جواس کی ذات کومتأثر نہ کرے ورنہ ردعمل میں وہ مزیدفساد وبگاڑکا باعث بنے گا۔
انسان کی زبان کا تعلق دل سے بہت گہراہوتا ہے۔پہلے دل میں خیال آتاہے پھراس کا اظہارزبان سے ہوتاہے۔نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا:
لا یستقیم ایمان عبد حتی یستقیم قلبہ ،ولا یستقیم قلبہ حتی یستقیم لسانہ(مسند احمد(
 بندے کا ایمان اس وقت تک درست نہ رہے گا جب تک کہ اس کا دل درست نہ رہے ، اوراس کادل اس وقت تک درست نہیں رہتا جب تک اس کی زبان درست نہ ہو۔
اس لیے دوران گفتگو فحش گوئی سے اجتناب کرے کہ یہ انسان کے وقار کے خلاف ہے۔اس صورت میں وہ فحش اوربری باتوںکا مبلغ ہوگا۔اس کا دل بھی برائیوں کی طرف مائل ہوگا ،جواس بات کاثبوت ہوگا کہ اس کا دل نہایت گندہ ہے اوروہ معاشرے میں ذلیل سمجھاجائے گا۔اس طرح اس کا ایمان درست حالت میں نہ ہوگا۔
زبان کی اہمیت کے پیش نظر آپؐ نے ارشادفرمایا:
یا معاذ کف عنک ہذا واخذ بلسانہ…وہل یکب الناس فی النار علی مناخرہم الا حصائد السنتہم(ترمذی(
اے معاذ اسے قابو میں رکھوں(یہ کہتے ہوئے آپ ؐ نے اپنی زبان پکڑ ی)لوگوںکو جہنم میں ان کے منہ کے بل ان کی زبانوں سے کہی ہوئی باتوں کی بناپر ہی ڈالاجائے گا۔
گفتگوکی چند قسمیں ہیں:
گفتگویا توصرف نقصان پرمبنی ہو گی،جیسے جھوٹ ،جھوٹی گواہی، چغلی ،غیبت (۲)یا پھر خالص مفیدہوگی جیسے لوگوں کو بھلائی کی بات کہنا اوربری باتوں سے روکنا اوراللہ کا ذکر وغیرہ (۳) نقصاندہ ہو اوراس میں کوئی فائدہ بھی نہ ہو جیسے ،فضول اور لغوبات جس میں انسان کا وقت توضائع ہوتاہے فائدہ کچھ نہیں ہوتا۔(۴)وہ گفتگوجس میں فائدہ اور نقصان دونوںکا امکان ہو،جیسے کوئی خیرکی مجلس ہواوراچھی گفتگوہورہی ہواس میں غیبت بھی ہوجائے جس کا ادراک نہ سکے ہو،ایسی گفتگومیں ریاکاری کا بھی اندیشہ ہوتا جس کا احساس نہیں ہوتا۔
گفتگوانسان کا ایک قیدی ہے مگر جب وہ اپنی زبان سے کچھ کہہ دیتاہے تووہ خود اس کا اسیربن جاتاہے۔اس لیے مومن کوہروقت یاد رکھنا چاہیے کہ وہ جوکچھ بھی زبان سے بولتاہے وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں محفوظ کرلیاجاتاہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
مایلفظ  من     قول الا لدیہ رقیب عتید (ق:۱۸(
کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضرباش نگراں موجودنہ ہو۔
انسان کو چاہیے کہ جب بھی کوئی بات کرتوپہلے یہ سوچ لے کہ وہ کیاکہہ رہاہے۔ کہیں ایسا تونہیں کہ وہ کوئی ایسی بات کررہاہے جوغضب الٰہی کا سبب بن جائے جس کا اخرت میں اسے رسوائی کا سامنا ہو۔اسی کے متعلق نبی کریمؐ نے فرمایا:
ان العبدلیتکلم بالکلمۃ من رضوان اللہ لایلقی لہا بالا یرفع اللہ بہا درجات، وان العبد لیتکلم بالکلمۃ من سخط اللہ لایلقی لہا بالا یہوی بہا فی جہنم(بخاری(
ایک شخص اپنے منہ سے اللہ تعالی کی خوش نودی کی کوئی بات نکالتاہے۔وہ اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا،لیکن اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے درجات کوبلندکردیتاہے۔ ایک دوسرا شخص اپنے منہ سے اللہ کی ناراضگی کی کوئی بات کہتاہے۔اسے وہ لاکھ اہمیت نہیں دیتا۔لیکن اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اسے جہنم میں ڈال دے گا۔
زبان کے متعلق صحابہ کرام بڑے حساس تھے ،وہ ان کے خطرات سے اچھی طرح واقف تھا ،ہمیشہ ان کو اندیشہ ہوتاتھا اسی وجہ سے وہ زبان کے متعلق بڑے محتاط تھے۔حضرت ابوبکرؓ نے اپنی زبان کوپکڑکرفرمایا:
ان ہذا اوردنی الموارد (رواہ مالک(
اس نے مجھے بہت سے مواقع پر ہلاکت میں ڈالا ہے۔
 ابوبریدہؒ کا بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس ؓ کودیکھا انھوں نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا :
ویحک قل خیرا تغنم  او اسکت عن سو تسلم  والا فاعلم  انک ستندم،  فقیل لہ : یا ابن عباس لم تقول ہذا؟   قال :انہ بلغنی ان الانسان ۔ لیس علی شی من جسدہ اشدحنقا او غیظا یوم  القیامۃ  منہ  علی لسانہ  الا ماقال بہ خیرا او املی بہ خیرا۔
تیرا برا ہو۔اچھی بات کہہ، فائدہ میں رہے گی،بری بات سے رک جا محفوظ رہے، ورنہ جان لے کہ عنقریب تجھے شرمندگی کا سامناکرنا پڑے گا۔کسی نے ان سے کہا: اے ابن عباس ایسی بات آٖ پ کیوں کہتے ہیں؟ فرمایا:مجھے معلوم ہوا ہے کہ روز قیامت انسان اپنے جسم کے کسی عضو پر زبان سے زیادہ غیظ وغضب کا اظہار نہیں کرے گا۔صرف اسی صورت میں وہ ایسا نہیں کرے گا کہ اس نے اس کے ذریعے اچھی بات کہی ہوگی۔
جلیل القدرصحابی مفسرقرآن عبداللہ بن مسعودؓ کا قول ہے ۔فرماتے ہیں :
والذی لاالہ غیرہ، ماعلی ظہرالارض شی احوج الی طول سجن من لسان۔
’’اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبودنہیں ،روئے زمین پر کوئی چیزایسی نہیں جسے زبان سے زیادہ قابومیں رکھنے کی ضرورت ہو۔‘‘
زبان اللہ کی عطاکردہ عظیم نعمت ہے جس سے خداکی اطاعت اورجرم دونوںکا صدور ہوتا ہے اسی سے ایمان کا اظہار ہوتاہے اور کفرکا بھی ،یہ انسان کے افکار وخیالات کا آلہ ہے ۔ خیر و شر کی ترویج میں زبان کواہم مقام حاصل ہے ۔جس نے اس کا صحیح اور ضرورت کے مطابق استعمال کیا اور اسے شریعت کی لگام ڈالدی تو وہ کامیاب ہوا اورجس نے اس کی لگام ڈھیلی کردی اور اسے آزاد چھوڑدیا تو شیطان اس پر حاوی ہوکراسے اپنے مرضی کا شکار بنا لیتا اوروہ اپنی زبان کے برے استعمال کے سبب جہنمی ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے نبی کریمﷺ نے ارشادفرمایا:
’’جوشخص مجھے دوڈھاڑوںکے درمیان کی چیز(زبان) اور دونوں رانوں کے درمیان کی چیز(شرمگاہ ) کی ضمان دے گا۔ میں اسے جنت کی ضمانت دیتاہوں۔(بخاری(
زبان کی ضمانت کا مطلب ہے کہ آئندہ وہ اپنی زبان سے ایسی کوئی بات نہیں کرے گا جو فسادیابگاڑکا سبب بنے ۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ انسان اپنی زبان کو ہمیشہ ذکر الٰہی سے تررکھے اور زبان سے اچھی اور شیریں گفتگو کا اہتمام کرے تاکہ وہ اپنی شخصیت پر اچھا اورگہرا نقوش چھوڑسکے۔

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...