Wednesday 18 June 2014

Khair o Shar ki Kashmakash


خیراورشرکی کش مکش
محب اللہ قاسمی
موبائل:  9311523016

اس کائنات میں چند روزہ زندگی کی مہلت لے کر آنے والا انسان، کشمکش ِ حیات سے گزرکرایک یقینی منزل (موت) تک پہنچتا ہے۔ انسانوں کے طرز زندگی اوران کو حاصل محدوداختیارات کو سامنے رکھاجائے تو بنیادی طور پر انسانوںکو دوگروہوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔
ایک گروہ میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی اپنے جیون داتا ، خالق و مالک کی مرضی اور اس کی ہدایات کے مطابق گزاری ،اس پر وہ حقیقی کامیابی سے ہم کنار ہوں گے اور اپنے اعمالِ خیر کا بدلہ پائیں گے۔ دوسرا گروہ ان کا ہے، جواپنی خواہشات کے پیچھے چل کر اپنے خالق و مالک سے بغاوت کربیٹھے ۔اس دارفناکواپنا آخری ٹھکانا مان کرقدرت کے اصول و احکام کی خلاف ورزی کرتے رہے۔

ان دونوں گروہوں کے طرز عمل کا مزید جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حق سے رسمی وابستگی کافی نہیں۔ بظاہر کامیاب اور لوگوں کی نگاہ میں صالح زندگی بسرکرنے والے بسااوقات عادات واطوار کے اعتبار سے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ دراصل اللہ کی ناراضی اورجہنم کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ منافق یا گمراہ لوگوں کے زمرے میں آتے ہیں۔
دوسری جانب ایسے مخلصین بھی ہوتے ہیں جو دنیا میں بظاہربہت ہی معمولی زندگی بسرکرتے ہیں ،ان کی زندگی کس مپرسی سے دوچار ہوتی ہے اور مختلف آزمائشوں سے بھری ہوتی ہے۔ان کے ان حالات پر لوگ ترس بھی کھاتے ہیں مگر ان کی سعی رضاء الٰہی سے ہم کنار ہوتی ہے۔وہ ایمانی غیرت و حمیت سے سرشارہوتے ہیں۔
        ہم دیکھتے ہیں کہ معیار زندگی اور ٹھاٹ باٹ کی دوڑ میں بہت سے لوگ قدرت کے اصول اور اپنے خالق و مالک کی ہدایات کوبالائے طاق رکھ کربداخلاقی اور بدعنوانی کے دلدل میں پھنس جاتے ہیں ۔ غضب بالائے غضب کہ یہ لوگ اسی کو کامیاب زندگی قرار دیتے ہیں۔ایسے لوگوں کی جھوٹی شان وشوکت اورنام نہاد عزت وعظمت کو دیکھ کر دوسروں میں ان جیسا بننے کی خواہش ابھر نے لگتی ہے ۔اس کے نتیجے میں شرور وفتن اورفساد و بگاڑ کا سیلاب تیزی سے آتا ہے جو اچھے اوربرے تمام لوگوں کو اپنے چپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اسی کا نتیجہ فساد فی الارض ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
     خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزا چکھائے اْن کو اْن کے بعض اعمال ،کا شاید کہ وہ باز آجائیں۔(الروم:۴۱(
یہ واقعہ ہے ہر فرد سماج سے جڑا ہواہوتا ہے ، لہذا اس کے اثرات سے وہ بچ نہیں سکتا۔ شر کا غلبہ ہو تو ہر طرف ہاہاکار مچنے لگتی ہے۔ لوگوں کوحق معلوم ہوتا ہے لیکن برائیوں کی روک تھام کی کوشش نہیں کرتے ۔یہ ایک بڑی ذمہ داری سے منہ موڑنا ہے۔ اللہ تعالی نے امت مسلمہ کے ہر فرد پریہ ذمہ داری عائد کی ہے۔ یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔ اچھے بھلے انسانوں کو بہترین امت کا خطاب عطا کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ (آل عمران:110(
’’تم بہترین امت ہوجوسارے انسانوںکے لیے وجودمیں لائی گئی ہے۔ تم بھلائی کا حکم دیتے ہواوربرائی سے روکتے ہو اوراللہ پر کامل ایمان رکھتے ہو۔ ‘‘  (آل عمران:110)
نبی کریم ﷺ اور ان کے جانثار صحابہ کرام ؓنے اس فریضہ کی بھرپور ادائیگی کے ذریعے واضح کردیا تھاکہ یہ امت اس وقت تک بہترین امت رہے گی جب تک کہ بھلائی کا حکم اور برائی سے روکنے کاکام انجام دے گی۔نبی کریم ﷺ نے برائی سے روک تھام کے لیے درجات متعین کیے ہیں جو آپؐ کے اس ارشاد سے واضح ہیں:
من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ، فان لم یستطع فبلسانہ، فان لم یستطع فبقلبہ وذالک اضعف الایمان(مسلم(
’’جو شخص تم میں سے کسی برائی کو (ہوتے )  دیکھے، تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل (روک) دے۔ اگر (ہاتھ سے روکنے کی) طاقت نہیں ہے تو زبان سے (اس کی برائی کو واضح کردے) اگر اس کی بھی طاقت نہ ہوتو دل سے(اسے براجانے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔(مسلم)‘‘
تاریخ گواہ ہے کہ جب امت نے اس ذمہ داری سے انحراف کیاتووہ مختلف مشکلات سے دوچار ہوئی۔پھر لاکھ دعائیں کی جائیں مگر وہ قبول نہیں ہوتیں ۔نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:
والذی نفسی بیدہ! لتأمرن بالمعروف، ولتنہون عن المنکر، او لیوشکنّ اللہ ان یبعث علیکم عقاباً منہ، ثم تدعونہ فلایستجاب لکم (ترمذی)
’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم ضرور نیکی کاحکم کرو اور ضرور برائی سے روکو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالی تم پر اپنی طرف سے کوئی عذاب بھیج دے، پھر تم اس سے دعائیں کروگے لیکن وہ قبول نہیں کی جائیںگی۔‘‘(ترمذی)
جب تک بھلائیوں کا فروغ اوربرائیوں پر روک نہ ہو،تو معمولی چھوٹے گناہ بڑھ کربھیانک اور سنگین شکل اختیار کرلیتے ہیں پھر وہ انسانوں کوخدا کا باغی بنا تے ہیں۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اہل ایمان مسلمان ہونے پر فخر کرنے کے بجائے احساس کمتری کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ جب کہ سربلندی اور کامیابی کی اصل اساس اسلام اور احکام اسلام کی پابندی ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر(بھلائی کا حکم اور برائی سے روکنا) وہ فریضہ ہے جسے انجام دے کر یہ امت ایک صالح معاشرے کا قیام کرسکتی ہے ، تاریکیوں کا پردہ چاک کرسکتی اور پوری دنیا کو نورِ حق سے جگمگاسکتی ہے۔ اس فریضہ کو ترک کردینے کے نتیجے میں برائیوں سے لت پت ماحول نے لوگوں میں اچھے برے کی تمیز ختم کردی ہے۔ خیر اپنے ہی ماننے والوں میں اجنبی بن کر رہ گیا ہے ،جب کہ شر اپنے فتنہ انگیزیوں کے ساتھ ماحول پر چھاجانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کش مکش میں اگر خیر اجنبی بنا رہا ،اسے نہیں اپنایاگیااوراسے فروغ نہیں ملا تو یہ دنیا شروروفتن کی آماجگاہ بن کررہ جائے گی، جس میں انسانی گروہ تباہ برباد ہوجائے گا۔ضرورت ہے کہ ہم خوابِ غفلت سے بیدار ہوں۔
اس کائنات میںچند روزہ زندگی کی مہلت لے کر آنے والا انسان، کشمکش ِ حیات سے گزرکرایک یقینی منزل (موت) تک پہنچتا ہے۔ انسانوں کے طرز زندگی اوران کو حاصل محدوداختیارات کو سامنے رکھاجائے تو بنیادی طور پر انسانوںکو دوگروہوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔
ایک گروہ میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی اپنے جیون داتا ، خالق و مالک کی مرضی اور اس کی ہدایات کے مطابق گزاری ،اس پر وہ حقیقی کامیابی سے ہم کنار ہوں گے اور اپنے اعمالِ خیر کا بدلہ پائیں گے۔ دوسرا گروہ ان کا ہے، جواپنی خواہشات کے پیچھے چل کر اپنے خالق و مالک سے بغاوت کربیٹھے ۔اس دارفناکواپنا آخری ٹھکانا مان کرقدرت کے اصول و احکام کی خلاف ورزی کرتے رہے۔

ان دونوں گروہوں کے طرز عمل کا مزید جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حق سے رسمی وابستگی کافی نہیں۔ بظاہر کامیاب اور لوگوں کی نگاہ میں صالح زندگی بسرکرنے والے بسااوقات عادات واطوار کے اعتبار سے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ دراصل اللہ کی ناراضی اورجہنم کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ منافق یا گمراہ لوگوں کے زمرے میں آتے ہیں۔
دوسری جانب ایسے مخلصین بھی ہوتے ہیں جو دنیا میں بظاہربہت ہی معمولی زندگی بسرکرتے ہیں ،ان کی زندگی کس مپرسی سے دوچار ہوتی ہے اور مختلف آزمائشوں سے بھری ہوتی ہے۔ان کے ان حالات پر لوگ ترس بھی کھاتے ہیں مگر ان کی سعی رضاء الٰہی سے ہم کنار ہوتی ہے۔وہ ایمانی غیرت و حمیت سے سرشارہوتے ہیں۔
        ہم دیکھتے ہیں کہ معیار زندگی اور ٹھاٹ باٹ کی دوڑ میں بہت سے لوگ قدرت کے اصول اور اپنے خالق و مالک کی ہدایات کوبالائے طاق رکھ کربداخلاقی اور بدعنوانی کے دلدل میں پھنس جاتے ہیں ۔ غضب بالائے غضب کہ یہ لوگ اسی کو کامیاب زندگی قرار دیتے ہیں۔ایسے لوگوں کی جھوٹی شان وشوکت اورنام نہاد عزت وعظمت کو دیکھ کر دوسروں میں ان جیسا بننے کی خواہش ابھر نے لگتی ہے ۔اس کے نتیجے میں شرور وفتن اورفساد و بگاڑ کا سیلاب تیزی سے آتا ہے جو اچھے اوربرے تمام لوگوں کو اپنے چپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اسی کا نتیجہ فساد فی الارض ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
     خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزا چکھائے اْن کو اْن کے بعض اعمال ،کا شاید کہ وہ باز آجائیں۔(الروم:۴۱(
یہ واقعہ ہے ہر فرد سماج سے جڑا ہواہوتا ہے ، لہذا اس کے اثرات سے وہ بچ نہیں سکتا۔ شر کا غلبہ ہو تو ہر طرف ہاہاکار مچنے لگتی ہے۔ لوگوں کوحق معلوم ہوتا ہے لیکن برائیوں کی روک تھام کی کوشش نہیں کرتے ۔یہ ایک بڑی ذمہ داری سے منہ موڑنا ہے۔ اللہ تعالی نے امت مسلمہ کے ہر فرد پریہ ذمہ داری عائد کی ہے۔ یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔ اچھے بھلے انسانوں کو بہترین امت کا خطاب عطا کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ (آل عمران:110(
’’تم بہترین امت ہوجوسارے انسانوںکے لیے وجودمیں لائی گئی ہے۔ تم بھلائی کا حکم دیتے ہواوربرائی سے روکتے ہو اوراللہ پر کامل ایمان رکھتے ہو۔ ‘‘  (آل عمران:110)
نبی کریم ﷺ اور ان کے جانثار صحابہ کرام ؓنے اس فریضہ کی بھرپور ادائیگی کے ذریعے واضح کردیا تھاکہ یہ امت اس وقت تک بہترین امت رہے گی جب تک کہ بھلائی کا حکم اور برائی سے روکنے کاکام انجام دے گی۔نبی کریم ﷺ نے برائی سے روک تھام کے لیے درجات متعین کیے ہیں جو آپؐ کے اس ارشاد سے واضح ہیں:
من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ، فان لم یستطع فبلسانہ، فان لم یستطع فبقلبہ وذالک اضعف الایمان(مسلم(
’’جو شخص تم میں سے کسی برائی کو (ہوتے )  دیکھے، تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل (روک) دے۔ اگر (ہاتھ سے روکنے کی) طاقت نہیں ہے تو زبان سے (اس کی برائی کو واضح کردے) اگر اس کی بھی طاقت نہ ہوتو دل سے(اسے براجانے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔(مسلم)‘‘
تاریخ گواہ ہے کہ جب امت نے اس ذمہ داری سے انحراف کیاتووہ مختلف مشکلات سے دوچار ہوئی۔پھر لاکھ دعائیں کی جائیں مگر وہ قبول نہیں ہوتیں ۔نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:
والذی نفسی بیدہ! لتأمرن بالمعروف، ولتنہون عن المنکر، او لیوشکنّ اللہ ان یبعث علیکم عقاباً منہ، ثم تدعونہ فلایستجاب لکم (ترمذی)
’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم ضرور نیکی کاحکم کرو اور ضرور برائی سے روکو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالی تم پر اپنی طرف سے کوئی عذاب بھیج دے، پھر تم اس سے دعائیں کروگے لیکن وہ قبول نہیں کی جائیںگی۔‘‘(ترمذی)
جب تک بھلائیوں کا فروغ اوربرائیوں پر روک نہ ہو،تو معمولی چھوٹے گناہ بڑھ کربھیانک اور سنگین شکل اختیار کرلیتے ہیں پھر وہ انسانوں کوخدا کا باغی بنا تے ہیں۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اہل ایمان مسلمان ہونے پر فخر کرنے کے بجائے احساس کمتری کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ جب کہ سربلندی اور کامیابی کی اصل اساس اسلام اور احکام اسلام کی پابندی ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر(بھلائی کا حکم اور برائی سے روکنا) وہ فریضہ ہے جسے انجام دے کر یہ امت ایک صالح معاشرے کا قیام کرسکتی ہے ، تاریکیوں کا پردہ چاک کرسکتی اور پوری دنیا کو نورِ حق سے جگمگاسکتی ہے۔ اس فریضہ کو ترک کردینے کے نتیجے میں برائیوں سے لت پت ماحول نے لوگوں میں اچھے برے کی تمیز ختم کردی ہے۔ خیر اپنے ہی ماننے والوں میں اجنبی بن کر رہ گیا ہے ،جب کہ شر اپنے فتنہ انگیزیوں کے ساتھ ماحول پر چھاجانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کش مکش میں اگر خیر اجنبی بنا رہا ،اسے نہیں اپنایاگیااوراسے فروغ نہیں ملا تو یہ دنیا شروروفتن کی آماجگاہ بن کررہ جائے گی، جس میں انسانی گروہ تباہ برباد ہوجائے گا۔ضرورت ہے کہ ہم خوابِ غفلت سے بیدار ہوں۔


No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...