Sunday 24 July 2016

Story: Hamdard ہمدرد

کہانی: 
ہمدرد 
محمد محب اللہ 


’’دلاور ! اس پلاٹ پر کام جاری رکھنا۔یاد رہے کسی مزدور کی تنخواہ میں کمی نہیں ہونی چاہیے ساتھ ہی اگر کسی کی کوئی مجبوری ہو تو ضرور خبرکرنا۔ مجھے یہ بالکل پسند نہیں کہ غربت کی دلد ل سے نکلنے والا شخص غریبوں کے خون پسینے سے اپنا محل تو تعمیر کرلے مگر بدلے میں ان مزدوروں کو یاس و ناامیدی کے سوا کچھ نہ ملے۔ ‘‘میں پندرہ دن کے لیے گاؤں جا رہا ہوں۔ ماں کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔یہ کہتے ہوئے سوٹ کیس اٹھاکر ناصر اپنے دفترسے نکل ہی رہاتھا کہ منگلو چاچا نے کہا :

’’
صاحب جی ایک 15سال کا جوان لڑکا ریسپشن (استقبالیہ) پر کھڑا ہے۔ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ ‘‘ناصر نے پوچھا:’’اس سے پوچھا نہیں ، کیا بات ہے ؟‘‘
منگلو چاچا نے جواب دیا: ’’وہ پڑھائی چھوڑ کر کام کی تلاش میں بھٹک رہاہے۔مگر بات کرنے سے لگتا ہے کہ وہ تیز اور ہونہارہے۔‘‘

ناصر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
’’
اسے پڑھائی نہیں چھوڑنی چاہیے تھی!خیراسے بلاؤ۔یہ کہہ کرناصرواپس اپنے کیبن میں چلاآیااور اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔‘‘
منگلوچاچالڑکے کو لے کر حاضرہوا۔
لڑکے نے سلام دعا کے بعد ناصر کے سامنے اپنی بات رکھی:
’’میں ایک غریب ہوں، میرے کئی بھائی بہن ہیں اور والد کمائی سے لاچار ہیں۔ اس لیے میں نوکری کرنا چاہتاہوں۔‘‘

ناصر نے پوچھا:
’’ لیکن مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم پڑھائی کررہے تھے اور ذہین بھی ہو۔ پھر پڑھائی کیوں نہیں کی؟ ‘‘
لڑکے نے بڑی معصومیت کے ساتھ جواب دیا:
’’
اب آپ ہی بتائیے اب ایسی حالت میں میرا پڑھنا ضروری ہے یا گھر والوں کے جینے کے لیے بنیادی ضرورتیں پوری کرنا؟ میں ایک جوان ہوں۔ کام کرسکتا ہوں! تو پھر اپنے گھر والوں کے لیے نوکری کیوں نہ کروں۔ دو پیسے ملیںگے تو ان کو کچھ کھلاؤں گا۔ ورنہ ان کے بھیک مانگنے کی نوبت آئے گی، میں خود بھیک مانگ سکتا ہوں مگر میں اپنے والدین کو بھیک مانگتے نہیں دیکھ سکتا۔‘‘

اس کی باتوں نے ناصر کو گویا جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور وہ اپنی ماضی کی یا دوں میں کھو گیا۔
وہ پڑھنے میں تیز، بااخلاق اورملنسار لڑکا تھا۔اس کے والد اسے پڑھانا چاہتے تھے اس لیے اسے پٹنہ کے اچھے رہائشی اسکول میں بھیجا گیا تھا،جہاں وہ اب دسویں کلاس تک پہنچ چکا تھا۔ مگر ایک دن اس کے گھر سے ایک خط آیا جو اس کے لیے سر پر آسمان سے بجلی گرنے کے مانند تھا۔خیر خیریت کے بعد خط میں لکھا تھا:

’’تمہارا باپ اب بیماری کے سبب بہت معذور ہوگیا ہے ، تھوڑا بہت وہ کما کر بھیجتا ہے جو گھر کے اتنے اخراجات کے سامنے اونٹ کے منہ میں زیرا کے مانند ہے۔ اب ہم لوگ تمہارے تعلیمی اخراجات کیا پورے کریں یہاں گھر پر ہم لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی بھی ملنا مشکل ہو رہا ہے۔ دن بہ دن قرض پہ قرض کا بوجھ اور اس کا بیاج الگ ! ہم لوگ بہت مشکل میں ہیں۔تمہاری پیاری دادی‘‘

ناصرکا دل پوری طرح ٹوٹ چکا تھا وہ اور پڑھنا چاہتا تھا مگر جب بھی وہ لالٹین کے سامنے اپنی کتاب کھولتا اسے خط کے وہ سارے جملے کانٹے کی طرح اس کے جسم میں چبھتے ہوے محسو کرتا ۔وہ جلتے ہوئے لالٹین کو اپنا دل تصور کرنے لگا جس میں اس کا خون مٹی تیل کے مانند جل رہا تھا۔

دھیرے دھیرے پڑھائی سے اس کا دل ہٹنے لگا اور وہ زمانہ اسکالر شپ کا نہیں تھا یا اسے دیگر کسی کی جانب سے مالی امداد کا سہار ا میسر نہیں تھا ، پھر وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ اب ان کتابوں کے اواراق پر لکھے ان حروف کو پڑھے اور اس کے گھر والے پریشان ہو کر اپنی زندگی تباہ کریں۔

پھر وہ کمائی کے طریقوں کے بارے میں سوچنے لگا، کبھی سوچتا کسی دوکان میں نوکری کرلوں مگر وہاں تنخواہ مہینے پر ملے گی، کبھی سوچتا کہ گاڑی کا کنڈکٹربن جاؤںیومیہ آمدنی ہوگی۔مالک سے بول کر روزانہ پیسے لے لیا کروں گا۔ پھر سوچتا کہ نہیں اس میں بھی چاہے محنت کتنی بھی کر لوںمتعین آمدنی ہوگی اور ماتحتی میں بھی رہنا ہوگا سو الگ ۔ اس لیے سوچا کیوں نہ ڈرائیور بن جاؤں اور کرائے سے آٹو لے کر گاڑی چلاؤں،کرایہ دے کر جو بچا سو اپنا اور خوب محنت کروںگا اور اپنے والدین اور گھر والوں کا فوری سہارا بن جاؤں گا۔ اس طرح اس نے پٹنہ میں ہی اسکول چھوڑ کر ڈرائیو نگ کر نا سیکھ لیا اس طرح وہ ایک اچھا ڈرائیور بن گیااور کمانے لگا۔

کچھ دن بعد جب گھر آیااور گھر والوں کو معلوم ہوا تو اس کے والد کو بڑی تکلیف ہوئی اس نے کہا :
’’بیٹے میں مانتا ہوں کہ میں بہت غریب ہو گیا ہوں اور اب مجھ سے اتنا کام نہیں ہو پاتا مگر !میں ابھی مرا نہیں ہوں۔پھریہ کیا کہ تم نے پڑھائی ہی چھوڑ دی۔ صبر کرتے یہ مشکل کے دن تھے گزر جاتے‘‘

ناصر نے کہا : ہاں ابا جان! اللہ تادیر ہم پر آپ کا سایہ قائم رکھے۔ میں جانتا ہوں کہ اس سے آپ کو تکلیف پہنچی ہوگی۔ مگر میں کیا کرتا ، میں آپ لوگوں کی پریشانی دیکھ نہیں سکتا ۔ اللہ نے چاہا تو دھیرے دھیرے سارے قرض ادا ہو جائیں گے اور آپ کو بھی کام کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔
ناصر گاڑی چلاتا رہا اور ایک ذمہ دار کی حیثیت سے اپنے اہل خانہ کی ضروریات پوری کرنے میں مصروف ہوگیا۔اب وہ دھیرے دھرے گاڑی چلانا چھوڑ کر تعمیر مکان کا کنٹریٹ لینا شروع کردیا اس طرح وہ بہت بڑا کانٹریکٹر اور بلڈرہوگیا۔’’حوصلہ بلڈرگروپس‘‘ کے نام سے اس نے اپنی کمپنی کھولی اور نہ صرف اپنے لیے بلکہ وہ لوگوں کا بھی ہمدرد بن کر سامنے آیا۔

آج وہ ایک بہت بڑی کنسٹرکشن کمپنی کا مالک بن چکا تھا۔ اس دوران اس کے والد کا انتقال ہوگیا اوروہ اپنی ماں بہن اور بھائیوں کی کفالت اور ان کی پوری ذمہ داریوں کو بہ حسن و خوبی انجام دینے لگا۔

سر آپ کہاں کھو گئے؟ اس غریب لڑکے نے ٹیبل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:
ہاں………ہاں! تو تم کہہ رہے تھے…… کہ اپنی غربت کی وجہ سے پڑھنا نہیں چاہتے ۔خیر پریشان نہ ہو ۔ہمارے یہاں تو کوئی نوکری نہیں ہے البتہ تمہاری تعلیم کے سارے اخراجات اور گھروالوں کے لیے بھی حسب ضرورت ان کے اخراجات اب میں برداشت کروں گا۔

یہ سن کر اس کی آنکھیں ڈبڈبانے لگیں ۔ اس نے تعجب بھرے انداز میں کہا:
ہاں! سر!کیا ایسا ہو سکتا ہے؟آپ میرے اور گھر والوں کے اخراجات برداشت کریں گے؟
ناصر نے کہا: ہاں! مگر اس کے بدلے مجھے کچھ چاہیے ؟
لڑکا چونکا اور تجسس بھرے انداز میں پوچھا :
کیا؟۔۔۔۔۔۔۔کیا سر؟ کیا چاہیے؟میں تو کچھ دے نہیں سکتا !!

پھر ناصر نے کہا: تمہیں محنت سے اپنی تعلیم مکمل کرنی ہوگی اور اپنی پوری یکسوئی کے ساتھ ایک اچھا آفیسر بن کر دکھانا ہوگا۔بولو راضی ہو؟

اس نے کہا: بالکل سر ! آپ فرشہ صفت انسان ہیں، ہمارے لیے مسیحہ کے مانند ہیں۔میں یقینا آپ کے توقعات کے مطابق اپنی تعلیم مکمل کروں گا۔

ناصر نے اپنے منیجر کو بلا کر اس سے تفصیلات لے کر اس کے گھر ماہانہ رقم بھیجنے اور اس کے کسی اچھے اسکول میں داخلہ کی کارروائی مکمل کرنے کا حکم دیا۔

تبھی منگلو چاچا نے آواز دی:
حضور گاڑی آگئی! اور ناصر کا سامان اٹھا کر گاڑی میں ڈالنے کے لیے چل پڑا۔ ناصر نے اس لڑکے سے کہا : ٹھیک ہے۔ اللہ حافظ ! میں پندرہ دن کے لیے گھر جارہا ہوں آنے کے بعد تم سے تمہارے اسکول میں ملوں گا۔
Kahani: Hamdard Published by Bachon ki Dunya Oct 2016



No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...