Saturday 24 October 2020

Mere Gaown ke Hifazat Hussain Sb nahi Rahe

ابا کے حفاظت چا... نہیں رہے

 

    جمعرات 22 اکتوبر 2020 دوپہر ڈھائی بجے کی بات ہے۔ گھر سے خبر موصول ہوئی کہ حفاظت حسین صاحب کا انتقال ہو گیا ہے۔ خبر سن کر بہت افسوس اور دکھ ہوا۔ ابھی بقرعید پر جب میں گھر گیا تھا تو ان سے اچھی ملاقات بات رہی۔ یوں تو وہ پہلے سے بیمار رہتے تھے مگر ادھر کافی دنوں سے ان کی طبیعت بہتر ہو گئی تھی۔ ابھی چند دنوں پہلے ان کے نواسے کی شادی تھی۔ جس میں دوسرے گاؤں سے اپنے گاؤں میں ہونے والی اس شادی میں وہ دونوں طرف سے شریک تھے۔ کسی کو کیا معلوم تھا کہ وہ اس طرح چلتے پھرتے ہنستے بولتے ہم لوگوں سے جدا ہو جائیں گے۔ مگر موت ایک حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے وہ کبھی بھی آ سکتی ہے اس کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ لہذا وہ آئی اور حفاظت دادا کو ہم سے لے کر چلی گئی۔

 

    مرحوم ہمارے گاؤں (فاطمہ چک، شیوہر) کے بہت پرانے اور آزادی سے پہلے کے دور کو دیکھنے والے چنندہ لوگوں میں سے ایک تھے۔ اس لیے جب بھی ان سے گفتگو ہوتی تو وہ مختلف موضوعات پر اپنے مخصوص انداز میں کھل کر اظہار خیال کرتے تھے، ماضی کے تلخ اور خوش گوار ایام کا بھرپور تذکرہ کرتے تھے۔ ہنس مکھ، ملنس سار اور خوش مزاج انسان تھے۔

 

    ابھی گزرے سال کی بات ہے میرے والد(مرحوم) بہت بیمار تھے، حفاظت دادا کو ان سے بڑی محبت تھی اور  ابا کو بھی اپنے گاؤں کے لوگوں سے بڑی محبت تھی۔ چنانچہ دادا روزانہ صبح سویرے ابا کو دیکھنے آتے اور باہر والے گھر میں ہی پھاٹک سے زور سے آواز دیتے حسیب...حسیب ابا چاہے جس حال میں بھی ہوں فوراً جواب دیتے ....ہاں....ہاں  حفاظت چا....

    تو وہ بولتے ک ہ ن کا حال چال ہی۔ ٹھیک ہی نا۔(کہو.. کیا حال ہے،طبیعت ٹھیک ہے نا؟(

    ابا بھی کہتے ہاں اللہ کے فضل سے ٹھکے ہی ...(ہاں.. ٹھیک ہی ہے(

 

    مجھے یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ میرے گھر میں گرچے پیسے ہوتے تھے مگر غلہ و غیرہ نہیں ہوتا تھا کیوں کہ ہمارے پاس کھیتی باڑی تو تھی نہیں ۔۔۔اس لیے چاول گیہو خرید کر ہی کھاتے تھے اور یہ غلہ حفاظت دادا کے یہاں سے ہی خریدا جاتا تھا۔ کئی بار پیسے نہ ہونے کے سبب ادھار کا بھی معاملہ رہا، جس میں وہ بڑی رعایت کرتے تھے۔

 

    کچھ زمانہ پہلے چلیں تو وہ دور بھی مجھے یاد ہے کہ مجھے اور دوستوں کو بہت سی شادیوں میں جب بارات جانا ہوا تو ان کے ہی بیل گاڑی سے جانا ہوتا تھا بڑے پیار سے قصہ کہانی سناتے ہوئے لے جاتے۔ مگر لے جاتے وقت ہی کہہ دیتے کہ اُدھر سے واپسی اِس گاڑی پر ہوگی اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کیوں کہ شادی بیاہ کا جو سامان ہوتا تھا وہ واپسی پر اسی گاڑی پر لاد دیا جاتا تھا اور بچے بھی شرارتی وہ بھلا چیورا کسار کہاں چھوڑتے اس لیے مجبوراً وہ سب کو گاڑی سے اتار دیتے خواہ ہم لوگوں کو پیدل ہی واپس کیوں نہ آنا پڑے۔ پھر بھی ہم لوگ ان سے اس وقت بھی بڑی محبت کرتے تھے۔

 

    آخری دنوں میں جب وہ حج سے واپس آئے تو ان میں بڑی تبدیلی آ گئی تھی مسجد سے خاص لگاؤں ہوگیا تھا۔ نماز کی پابندی اور معاملات کی بہتری کی جانب توجہ دینے لگے تھے۔ اللہ تعالی ان کی عبادات کو قبول کرے ۔

 

    جن کے والدین ابھی باحیات ہیں انھیں خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ باب بہت بڑی نعمت ہے۔ دنیا کی کوئی دولت اس کا متبادل نہیں ہوسکتی۔ وہ جنت کا دروازہ ہے۔ اس لیے جب تک ان کی زندگی ہے ان کی خوب خدمت کریں اور خود کو جنت کا مستحق بنائیں۔

    آخر میں اللہ تعالی سے بس یہی دعا ہے کہ رب کریم ان کے گناہوں خطاؤں اور لغزشوں کو معاف فرمائے، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے۔ پس ماندگان میں بیٹے بیٹیوں سمیت تمام لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔

(محب اللہ قاسمی)

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...