Showing posts with label Ramazan Spl. Show all posts
Showing posts with label Ramazan Spl. Show all posts

Tuesday 25 August 2015

Namaqool نامعقول

نامعقول

مئی جون کا مہینہ تھا۔ میں بس اسٹاپ پر بس کا انتظار کر رہا تھا۔

ایک شخص گرمی کی شدت اور پیاس سے بے چین دکھائی دے رہا تھا۔ اپنی وضع قطع اوررکھ رکھاؤ سے شریف معلوم ہورہا تھا۔ 👨‍💼😎

کچھ دیر بعد ایک شخص اس کے پاس آیا ۔ شاید وہ کسی علاقے کا پتہ پوچھ رہا تھا یا اسے کوئی اورضرورت تھی، جس پر وہ غصہ میں آگیا ۔ بات توتو میں میں تک پہنچ گئی، حتی کہ وہ بدکلامی پر اتر آیا اور گالی گلوج کرنے لگا۔😫😬

آواز سن کر میں اس طرف بڑھا۔🚶🏻‍♂
مجھے لگا کہ شاید گرمی کی شدت☀🌤  اور پیاس سے وہ مشتعل ہوگیا ہے۔ میں نے ان سے کہا:

’’بھائی صاحب! غصہ نہ کرو۔ گرمی شدید ہے ۔ لوپانی پی لو!!‘‘🚰

اس بات پر وہ اوربھی غضب ناک ہوگیا،😬 کہنے لگا:

’’نامعقول! تمہیں نہیں پتہ کہ میں روزے سے ہوں۔ مجھ سے پانی پینے کو کہتا ہے۔‘‘
                       محب اللہ

Monday 13 July 2015

Ramzanul Mubarak Guzre Gunahon ki Bakhsish ka Mahina


 رمضان المبارک 


گزشتہ گناہوں کی بخشش کا مہینہ

رمضان المبارک جونیکیوں کا پربہار مہینہ ہے ،جس میںاللہ تعالی کی خاص رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے اور جہنم سے چھٹکارے کے لیے بخشش کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔جو بندۂ خدا اس مبارک مہینے میں خلوص نیت اور ثواب کی امید کے ساتھ روزوں کا اہتمام کرے،قیام لیل(تراویح)کا خیال رکھے اور اس مہینے کے آخری عشرے کی طاق راتوں(شب قدر) میں  شب قدر کی تلاش کے مقصد سیعبادت کا خاص انتظام کرے تو اللہ تعالی اس کے تمام (صغیرہ )گناہوں کو معاف فرما دے گا جو ماضی میں اس سے سرزد ہوئی ہوںگی۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

" مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَمَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (متفق علیہ)

’’جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور احتساب(ثواب کی امید) کے ساتھ، اس کے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے، جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں گے۔ جس شخص نے ایمان اورثواب کی نیت کے ساتھ ماہ رمضان میں قیام کیا (یعنی راتوں میں عبادت کی) تو اس کے وہ تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے اس نے پہلے کیے ہوں گے۔اور جس  شخص نے لیلۃ القدر میں قیام کیا، ایمان اور احتساب کے ساتھ تو اس کے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے جو اس نے پہلے کیے ہوں گے۔‘‘(متفق علیہ(

مذکورہ بالا حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہم جائزہ لیں تو معلوم ہوتاہے کہ اس مہینے کی افضل ترین عبادت روزہ ہے۔ یہ طلوع فجر سے غروب آفتا ب تک کھانے ،پینے اوربیوی کے ساتھ جنسی تعلق سے خود کو روکے رکھنے کانام ہے۔ مگر ان جائز اعمال سے اجتناب اور خود کو ان چیزوں سے بچاکر رکھنا اس وقت معتبر اور لائق اجروثواب ہوگا جب ان کی انجام دہی مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ ہو۔ یعنی ایمان اور احتساب کے ساتھ۔

 ایمان کی شرط جس طرح دیگر تمام عبادات میں بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے ، اسی طرح روزے میں بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص جو اللہ پر ایمان نہ رکھتا ہو ،منکر خدا، یا مشرک ہو،اسے رمضان کے روزے رکھنا بہت پسند ہو ،وہ اس کا اہتمام کرتا ہو، اس کے باوجود اس کا یہ عمل (روزہ رکھنا) عنداللہ قابل قبول ہوگا نہ اسے اجر ملے گا۔اس لیے کہ ایمان کی شرط اور روزے کی فرضیت کا اعتقاد ضروری ہے ،اسے محض ایک رسم سمجھ کر انجام دینا درست نہیں ہے۔

دوسری شرط (احتساب) کی ہے۔ یہ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہے اللہ تعالیٰ سے اجروثواب کی امید رکھنا ۔ وہ مسلمان جو رمضان المبارک کے روزے پابندی سے رکھتے ہیں ،مگر وہ صرف لوگوں کی دیکھا دیکھی میںیاعار اور شرمندگی سے بچنے یا ریا و نمود کی خاطر ایسا کرتے ہیں ، وہ اس اجر و ثواب سے محروم رہیںگے۔ احتساب کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہر شخص اپنے روزے کا حتساب کرے کہ وہ روزے کی حالت میں غیبت،چغلی، جھوٹ،ظلم و زیادتی سے پرہیز کرتا ہے یا نہیں! ورنہ ان تمام برائیوں سے نہ بچنے کی صورت میں  محض بھوکے پیاسے رہنے کاکوئی فائدہ نہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

من لم یدع قول الزوروالعمل بہ فلیس للہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ و شرابہ(بخاری(
’’جوشخص (حالت روزہ میں بھی) جھوٹی گواہی اور اس پر عمل سے باز نہ آئے ، اللہ تعالی کو ایسے شخص کی کوئی پروا نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑدے۔‘‘(بخاری(

یہی حال رمضان المبارک میں قیام لیل (تراویح)اور شب قدر کی عبادتوں کا ہے۔ چنانچہ شروع میںحدیث پیش کی گئی اس میں ایمان اور احتساب کی شرط لگائی گئی ہے۔ اس لیے قیام لیل اور خاص کر شب قدر میں عبادت کی صورت میں بھی ان دونوں شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہوگا۔روایت کے آخر میں نتیجہ کے طور پر جس انعام کا ذکر کیا گیا ہے وہ بخشش خداوندی ہے کہ اللہ ایسے نیک بندوں کے ان اعمال کے نتیجے میں ان کے وہ قصور اور گناہ معاف فرمادے گا جو ان سے پہلے سرزد ہوئے تھے۔یہ اجر رمضان کے روزے کے ساتھ قیام لیل اور لیلۃ القدر کے ساتھ بھی ہے۔

جہاں تک گناہوں کی معافی کا تعلق ہے ،اس سلسلے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس سے مراد وہ چھوٹے گناہ ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے۔ رہے بڑے گناہ اور وہ گناہ جو حقوق العباد سے متعلق ہیں، ان کی معافی بیشتر روایات کے مطابق توبہ کی صورت میں ہوگی اور اس صورت میں جب کہ وہ بندہ معاف کر دے جس کی حق تلفی ہوئی ہو۔

آخر میں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ گزشتہ گناہوں سے معافی کایہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اب بندہ آئندہ گناہ کرنے کے لیے آزاد ہے۔ کیوں کہ گناہ اور نافرمانی درحقیقت  اللہ کے ساتھ بغاوت ہے جسے اللہ تعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا۔ اس مبارک مہینے کے روزے میں ان جائز چیزوں سے رکنے کا مطلب یہی ہے کہ بندہ میں تقوی (جو روزے کا مقصد ہے)کی ایسی صفت پیدا ہوجائے کہ وہ اللہ کے تمام احکام کا پابند ہوجائے۔ اسی کی رضا کی خاطر اپنا طرز عمل اورمقصد حیات متعین کرے، اس کارب جن باتوں کا حکم دے انھیں کرے اور جن باتوں سے روکے ان سے بچ کر مکمل عبودیت کا ثبوت پیش کرے ،  اللہ تعالی امت مسلمہ کو اس ماہ مبارک میں عبادت واطاعت کی توفیق دے اور اس کی بے پناہ برکات و فیوض سے نوازے۔آمین



Wednesday 10 June 2015

Ramazanul Mubarak ki Taiyari Keun aur Kaise?

رمضان المبارک کی تیاری کیوں اورکیسے؟
                                                                محب اللہ قاسمی               
رمضان المبارک جلد ہی ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے ۔یقینا ہمارے دل میں اس ماہ کی بڑی قدرہے لیکن کیاہم اس کے لیے تیاری کرتے ہیں؟ کیا ہم ا پنے اہل خانہ کو توجہ دلاتے ہیں کہ وہ بھی اس سلسلے میں تیاری کریں اورغفلت سے کام نہ لیں؟
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے میں صحابہ کرام کو اکٹھاکرتے اورخطبہ دیتے جس میں انھیں رمضان کی آمدکی خوش خبری سناتے تھے۔رمضان کی فضیلت اور اہمیت کے پیش نظر اس کی تیاری کے سلسلے میں توجہ دلاتے ۔ایسے ہی خطبہ میں آپ نے ارشادفرمایا: 
’’اے لوگو! عنقریب تم پر ایک عظیم الشان ماہ مبارک سایہ فگن ہونے والا ہے ۔اس ماہ مبارک میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزارراتوں سے بہترہے۔اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کے روزے فرض کیے،اس کے قیام کو اپنی خوشنودی کا ذریعہ قراردیا،توجس شخص نے اس ماہ میں ایک چھوٹا سا کارخیرانجام دیااس نے دیگرماہ کے فرائض کے برابرنیکی حاصل کرلی،یہ صبراورہمدردی کا مہینا ہے۔ساتھ ہی یہ وہ ماہ مبارک ہے،جس میں اللہ اپنے بندوں کے رزق میں اضافہ فرماتاہے۔اس ماہ مبارک میں جس نے کسی روزے دارکوافطارکرایا۔روزے دار کے روزے میں کمی کے بغیراس نے روزے دارکے برابرثواب حاصل کیا۔ اورخود کو جہنم سے بچالیا۔صحابہ کرامؓ  نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولﷺ ہم میں سے ہرشخص تو روزے دارکو افطارکرانے کی استطاعت نہیں رکھتاہے؟آپ نے فرمایا:جس نے روزے دارکوپانی کا گھونٹ پلایا،یا دودھ کا گھونٹ پلایا،یا ایک کھجورکے ذریعے افطار کرایااس کا اجراسی کے برابرہے اوراس کے لیے بھی جہنم سے نجات ہے ۔اس سے روزے دار کے اجرمیں کمی نہیں ہوگی۔جس نے اپنے ماتحتوںسے ہلکاکام لیااس کے لیے بھی جہنم سے نجات ہے۔﴿مشکوۃ﴾
اگرہم استقبال رمضان کے لیے تیارہیں تو ہمیں چندباتوںکا لحاظ کرنا ہوگا۔سب سے پہلے یہ کہ ہم اپنے نفس کو آمادہ کریں اوراس ماہ مبارک میں امور خیر انجام دینے کے لیے عملی اقدام کریں۔اس ذیل میں چندچیزیں آتی ہیں جن کا ہمیں خیال رکھنا چاہیے:
﴿الف﴾کوئی بھی کام بغیرمشیت الٰہی کے ممکن نہیں تو ہمیں اس کے لیے خدا سے توبہ واستغفار کے ساتھ دعاکا اہتمام کرنا چاہیے۔اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول دعاؤں کا اہتمام کیاجائے۔
﴿ب﴾توبہ کا اہتمام کیاجائے توبہ میں انسان اپنے رب کی طرف پوری طرح متوجہ ہوتاہے ۔گناہوںکا جوفاصلہ انسان اوراس کے رب کے درمیان ہوتاہے وہ ختم ہوجاتاہے ۔نیک کاموںکی طرف رغبت بڑھتی ہے جورمضان کے دیگرعبادات میں بھی معین ثابت ہوگی۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:اے مؤمنوتم سب مل کراللہ سے توبہ کرو،توقع ہے کہ تم فلاح پا جاؤگے﴿النور:۳۱﴾توبہ سے متعلق نبی کریم کا ارشادہے : اے لوگو! اللہ سے توبہ کرو،میں دن میں سو بار توبہ کرتاہوں﴿مسلم﴾آپ ﷺ دعاکا بھی اہتمام کرتے تھے۔آپ سے یہ دعامنقول ہے:
الھم بارک لنا فی رجب وشعبان وبلغنا رمضان
’اے اللہ ہمیں رجب وشعبان میں برکت دے اور رمضان تک صحیح سلامت پہنچا‘
﴿ج﴾گزشتہ رمضان کے روزے رہ گئے ہوں تواُنھیں فوراً شعبان کے مہینے میں ہی ادا کرلینا چاہیے۔ابوسلمی کہتی ہیں کہ میں نے عائشہ ؓ  کو کہتے ہوئے سنا:میرے ذمہ رمضان کا کوئی روزہ ہوتاتھا تومیں اسے شعبان میں ہی پورا کرلیتی تھی۔﴿متفق علیہ﴾
﴿د﴾رمضان المبارک کی سب سے اہم عبادت روزہ رکھنا ہے ،اس لیے اس کی عادت ڈالنے کے لیے شعبان کے مہینے میں وقفے وقفے سے روزے رکھنے چاہییں۔ تاکہ پوری طرح نشاط رہے اوراس بات کا احساس رہے کہ آئندہ ماہ کے تمام روزے رکھنے ہیں ۔نبی کریم ﷺ کا معمول تھا کہ آپ شعبان کے مہینے میں بکثرت روزے رکھاکرتے تھے ۔مگرپورے ماہ کے روزے صرف رمضان کے ہی رکھتے تھے۔حضرت عائشہؓ  کہتی ہیں کہ رمضان ہی میں پورے ماہ کے روزے رکھتے اور ماہ شعبان میں زیادہ ترروزے رکھتے تھے۔﴿متفق علیہ﴾
﴿ھ﴾ایک مشہورحدیث ہے کہ اعمال کا دارومدارنیتوںپر ہے ۔جیسی نیت ہوتی ہے ، معاملہ اسی اعتبارسے ہوتاہے۔ اسی طرح ابوہریرہؓ  سے مروی ایک حدیث ہے کہ انسان کسی نیک کام کی نیت کرتاہے تواس کا عمل اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیاجاتاہے۔﴿مسلم ﴾
اس لیے ہم رمضان المبارک کے تئیں آغازہی میں اپنی نیت کو درست کریں اوربہت سے نیک اعمال کرنے کی نیت کرلیں۔مثلا ً تلاوت قرآن کی کثرت،گناہوںسے توبہ کا اہتمام،دعاواذکارکی پابندی،عبادات کا التزام،لوگوںسے معاملات درست کرنے کی نیت، شعبان کے کچھ روزے رکھنا تاکہ آئندہ ماہ کے لیے مشق ہوجائے،دینی وتربیتی کتابوںکا مطالعہ ،رمضان سے متعلق دینی بیانات جوسی ڈی وغیرہ کی شکل میں ہوںتوان کا سننا تاکہ رمضان کااحساس دل میں رہے اوراس کی تیاری پرتوجہ ہوسکے۔
﴿و﴾رمضان المبارک کی خصوصیت ہے کہ اس ماہ مبارک میں نزول قرآن ہوا۔اس مناسبت سے عام دنوں کے مقابلے میں لوگ قرآن کو زیادہ پڑھتے ہیں تلاوت ایک عبادت ہے اس لیے بھی اس ماہ مبارک میں اس کا اہتمام کیاجاتاہے۔مگریہ عمل بھی تیاری چاہتاہے چنانچہ ہم شعبان کے مہینے سے ہی اپنی یومیہ مسلسل تلاوت شروع کردیں اوراس بات کی نیت کرلیں کہ رمضان میں ایک بار پورے قرآن کا ترجمے کے ساتھ اعادہ کرناہے۔اللہ کا فرمان ہے :
شہررمضان الذی انزل فیہ القرآن،ھدی للناس
’ماہ رمضان جس میںقرآن کریم کا نزول ہواجوتمام انسانوں کے لیے ہدایت ہے‘
﴿ز﴾ایک کسان جب تک کھیت میں بیج نہیں ڈالے گا ، موقع بہ موقع سیراب نہیں کرے گا توکھیت کے لہلہانے کی توقع فضول ہے۔ٹھیک یہی حال رمضان اور اس کی تیاری کا ہے۔
شیخ ابوبکرالبلخیؒ  کہتے ہیں:
’ماہ رجب کا شتکاری کا مہینا ہے،ماہ شعبان اس کی سیرابی کا مہینا ہے اورشہر رمضان کھیت کٹائی کا مہینا ہے۔اسی طرح ماہ رجب کو ہوا،شعبان کو غیم اوررمضان کو بارش سے تعبیرکرتے ہیں۔جس نے اعمال کی کھیتی کے موسم بہارمیں کاشتکاری نہیں کی اورماہ رجب میں اس کا پودانہیں لگایا اورشعبان میں اسے سیراب نہیں کیاتو وہ ماہ رمضان اعمال میںکے کھیتی کی کٹائی کیسے کرسکتاہے۔اگرماہ رجب گزرگیاہے تو کم ازکم شعبان کے مہینے سے اس کی کوشش کی جائے۔یہی ہمارے نبی اور اسلاف کا طریقہ رہا ہے ۔‘
﴿ح﴾آج کل مسلمان دین کے معاملے میں غفلت کا شکارہیں اوراپنے کاموںمیں اس قدر محوہیں کہ اس کی تیاری کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا، حالانکہ گھرکے ذمہ دارفرد کو اتنا وقت نکالناچاہیے کہ وہ اپنے اہل خانہ کے درمیان رمضان اوراس کے احکام کی تعلیم دے سکے۔اگروہ نہیں جانتاتوعلماسے معلوم کرے اورمساجد کے ائمہ کے خطبات سے فائدہ اٹھائے۔
ماہ رمضان کا یومیہ پروگرام
یہ ذہن بنائیں کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ وقت عبادات میں صرف کرنا ہے ،فرض کے ساتھ ساتھ نوافل کا بھی بکثرت اہتمام کرنا ہے۔اس کے لیے یومیہ پروگرام ترتیب دیں جس میں درج ذیل باتوںکا خیال رکھیں:
﴿الف﴾فجرسے پہلے کے کام : تہجدکا اہتمام:اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
امَّنْ ہُوَ قَانِتٌ آنَائ اللَّیْْلِ سَاجِداً وَقَائِماً یَحْذَرُ الْآخِرَۃَ وَیَرْجُو رَحْمَۃَ رَبِّہِ   ﴿الزمر:۹﴾                                           
’ یا وہ جومطیع وفرماں بردارہے رات کے پہرمیں سجدہ اورقیام کی حالت میں ہوتا ہے اوراپنے رب سے رحمت کی امید لگاتاہے۔‘
﴿ب﴾سحرگاہی کا اہتمام:نبی کریم کا ارشادہے:تسحروا فان السحور برکۃ ﴿متفق علیہ﴾ سحری کا اہتمام کیاکروکہ اس میں برکت ہے۔فجرکی سنت کا اہتمام : نبیﷺ نے فرمایا:
رکعتا الفجرخیرمن الدنیا ومافیہا
’ فجرکی دورکعت دنیا اوراس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ ‘﴿ مسلم ﴾
﴿ج﴾دعا اوراذکارمیں اپنا وقت لگائیں خاص طورسے اذان اورنماز کے درمیان ِ اوقات میں اس لیے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
الدعاءلایردبین الاذان والاقامۃ﴿متفق علیہ﴾
’اذان اور نماز کے درمیان کے وقت دعائیں ردنہیں کی جاتیں۔‘
﴿د﴾فجرکے بعد سے طلوع شمس تک ذکر اور تلاوت قرآن کے لیے مسجدمیں قیام کو لازم پکڑلیں :
کان النبی ِاذا صلی الفجرجلس فی مصلاہ حتی تطلع الشمس حسنا﴿مسلم﴾
نبی کریم ﷺ فجرکی نمازکے بعدطلوع شمس تک اپنے مصلے پر بیٹھے رہتے تھے۔ایک جگہ ارشادہے:
من صلی الفجرفی جماعۃ ثم قعد یذکراللہ حتی تطلع الشمس ثم صلی رکعتین کانت لہ کاجرحجۃ وعمرۃ تامۃ تامۃ تامۃ﴿ترمذی﴾
فجرکی نماز کے بعد طلوع شمس تک اللہ کا ذکرکرتارہا پھردورکعت نماز ادا کی اس کا اجرایک مکمل حج اورعمرے کے مانندہے۔
﴿ھ﴾اس دعاکا اہتمام کہ اللہ ہمارے دن میں برکت دے۔
﴿الہم انی اسالک خیرمافی ہذا الیوم فتحہ ونصرہ ونورہ وبرکتہ وہداہ واعوذبک من شرمافیہ وشرمابعدہ﴾ ابوداؤد
﴿و﴾ظہرکی نماز کی تیاری کرے ،فراغت کے بعد بدن کو تھوڑی راحت دے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :
استعینوا بطعام السحرعلی الصیام، وبالقیلولۃ علی قیام اللیل ﴿ابن ماجہ﴾
’سحری کھاکر روزے پر اورقیلولہ ﴿دوپہرکے وقت سونے﴾کے ذریعے رات کی نماز پر مددحاصل کرو۔‘
﴿ز﴾اگرصاحب حیثیت ہیں اورخدانے مال ودولت سے نوازا ہے توغرباپر مال خرچ کریں اورانھیں افطارکرانے کا نظم کریں۔کیوں کہ یہ عمل اللہ کو بے حد پسندہے۔

Thursday 26 June 2014

Ramazanul Mubarak aur Tazkiya Nafs


رمضان المبارک اور تزکیہ نفس
محب اللہ قاسمی
Mob- 9311523016    
Email: mohibbullah.qasmi@gmail.com

انسان عقل ،جسم اور روح کا مجموعہ ہے۔ ان میں روح کو ایک خاص قسم کی فضیلت حاصل ہے۔یہ روح اگر عقل اور بدن کو متوازن نہ رکھے ،بلکہ خود بہکنے لگے یا شیطانی وساوس اور برائیوں کی طرف مائل ہونے لگے تو اس کا اثر انسان کی پوری شخصیت پر ہوگا ۔پھر وہی انسان جسے اللہ نے اشرف المخلوقات بنایاتھا دنیا کا رذیل اور خسیس سمجھا جائے گا اور  جسے  اللہ نے زمین پر اپنا خلیفہ بناکر دنیا میں بھیجا تھا وہ نفسانی خواہشات کا غلام بن کر شیطان کی ترجمانی کرنے لگے  گا۔
اس لحاظ سے نفس ِانسان کا تزکیہ لازمی ہے تاکہ اس کی شخصیت کا ارتقاء ہواور وہ  اللہ کا قرب حاصل کرکے کامیابی کی منزل پاسکے۔

تزکیہ نفس کیا ہے؟
تزکیہ کے دومعانی ہیں:ایک معنی صفائی ،ستھرائی کے ہوتے ہیں جب کہ دوسرانمو ،زیادتی اور ارتقاکے ہیں ۔ ان دونوں معانی کاحاصل یہ ہوا کہ خلاصہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو بغض وحسد،حرص وہوس،نفرت وعداوت، کبر وتفاخر،بخل اور تنگ نظری جیسی گھٹیاصفات سے پاک رکھے اور اپنے اندر صدق وصفا،الفت ومحبت ،شفقت وعنایت ، فراخ دلی وفیاضی جیسی اوصاف حمیدہ کواپنے اندرپیدا کرے اور  پروان چڑھائے یہاں تک  کہ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب اورقریبی ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فلاح پا گیا جس نے پاکیزگی اختیار کی۔(الاعلیٰ:۱۴(
دوسری جگہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
یقینا فلاح پا گیا (کامیاب ہْوا ) وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا (پاک کیا)اور نامراد ہوا وہ جس نے اْسے دبا دیا۔ (آلودہ کیا)۔(الشمس:۹(
ہم سب جانتے ہیں کہ نفس انسان کاسب سے بڑا داخلی دشمن ہے۔ اگر اسے کنٹرول میں نہ رکھا جائے تو وہ اتنا جری ہوجاتاہے کہ خود انسان پر حاوی ہوکر اسے اپنے مرضی کا شکار بنالیتا ہے اور اس کوسرکشی پر آمادہ کر تاہے،دنیاوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دینے کے لیے اکساتا ہے،جو چاہتا ہے اس سے کرواتا ہے۔یہاں تک کہ  انسان اس کا غلام بن کر اس درجہ گرجاتاہے کہ اسے اپنی حیثیت کابھی احساس نہیں رہتی ۔اسی لیے نبی کریم ﷺ نے شرور نفس سے پناہ مانگی ہے۔
نعوذباللہ من شرورانفسنا و من سیات اعمالنا
ہم اپنے نفس کی شرارتوں اور اپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔
دوسری جگہ آپ نے نفس کی بہت سی خرابیوں سے اللہ کی پناہ چاہی ہے۔آپ ؐ کاارشادہے:
اللہم انی اعوذبک من العجز والکسل، والجبن و البخل، والہرم عذاب القبر، اللہم آت نفسی تقواہا ووزکہا انت ولیہا و مولاہا، اللہم انی اعوذبک من علمٍ لا ینفع، و من قلب لا یخشع، و من نفس لاتشبع، و من دعوۃ لا یستجاب لہا‘‘ (مسلم(
مذکورہ طویل روایت درحقیقت دعا پر مبنی ہے۔ جس میں خاص طور سے ان برائیوں سے پناہ مانگی گئی ہے، جو عموماً نفس کے بہکاوے میں آ کرانجام دی جاتی ہیں، جس کا انجام انسان کی رسوائی اور ذلت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ اس لیے جوشخص نفسپر کنٹرول رکھے گا، اسے متقی اوربہت بڑا بہادر سمجھا جائے گا۔ جس کی طرف آپ ؐ کاارشاد ہے:
لیس الشدید بالصرعۃ ، انما الشدید الذی یملک نفسہ عند الغضب (بخاری(
پہلوان وہ نہیں جو میدان میں کسی کو پچھاڑ دے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کو کنٹرول میں رکھے۔
علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں:
’’صوفیاء کرام کا اپنے طریقہ تزکیہ پر اختلاف کے باوجود اس بات پر اتفاق ہے کہ نفس انسانی قلوب کو اپنے پروردگارسے تعلق پیدا کرنے میںرکاوٹ پیدا کرتاہے۔ اور یہ کہ اللہ سبحانہ تعالی بھی ایسے شخص کے قریب نہیں ہوتا (جس کا نفس حائل ہو)جب تک کہ اسے ہٹانہ دیا جائے یا اس پر قابو نہ پالیا جائے۔‘‘  (اغاثۃ اللہقفان من مصادید الشیطان،ج:۱،ص:78-75(
ماہ رمضان نیکیوں کا موسم بہارہے۔اس ماہ مبارک میںہمیںتزکیہ نفس کا بھرپور سامان ملتا ہے۔جس میںتطہیرقلب اور تزکیہ نفس کے اسباب وذرائع سے بھرپور استفادہ کیاجاسکتا ہے۔ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے اس ماہ کی تفصیل بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اذادخل رمضان فتحت ابواب السماء و فی روایۃ فتحت ابواب الجنۃ و غلّقت ابواب جہنم و سلسلت الشیاطین و فی روایۃ فتحت ابواب الرحمۃ  (متفق علیہ(
’’جب رمضان کا مہینہ سایہ فگن ہوتاہے ، تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں (اسی سے متعلق دوسری روایت کے  الفاظ کچھ اس طرح ہیں کہ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں) اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیںاور شیاطین باندھ دیے جاتے ہیں۔‘‘ ایک اور روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔‘‘
اس حدیث سے واضح ہوتاہے کہ اس ماہ مبارک میں انسان کو تزکیہ نفس کے لیے ماحول ملتا ہے ،کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنتی۔ اگر انسان چاہے تو اس مہینے کے ماحول اور لوگوں کے رجوع الی اللہ کی کیفیت اور نیکی کی طرف دوڑنے کا جذبہ دیکھ کر خود اپنا انفرادی پروگرام بناسکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ اللہ کی اطاعت اور بندگی کے ذریعہ اپنے نفس کی بگڑی ہوئی حالت کو درست کرسکتاہے۔
رمضان المبارک کی سب سے اہم عبادت روزہ ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ میں خود اس کا بدلہ ہوں۔ اللہ تعالی روزے دار کے بالکل قریب ہوتا ہے حتی کہ وہ اپنے بندے کے روزے کو اس درجہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے خالی معدے سے آنے والی بوکو اپنے لیے مشک سے بھی زیادہ عزیز قرار دیتا ہے۔ اگر دیکھاجائے تو روزے کی حالت میں انسان کا ایسا کیا عمل ہوتا ہے سوائے اس کے کہ صبح صادق سے غروب آفتاب تک وہ کھانا ،پینا اورجنسی تعلق سے بچتاہے۔ مگر بندے کا شدت سے اس کی اطاعت کرنا اوربلاریا ونمود کے صرف اللہ کی خاطرروزے کی پابندی کرنا حتی کہ اس پابندی کے سبب اپنے اوپر اللہ کے تمام احکام کی پیروی کو لازم کرنے کی جوتربیت اس کے ذریعہ ملتی ہے وہ اصل ہے، جو اس عمل کو بہت محبوب بنادیتی ہے۔  اطاعت الہٰی کے لیے نفس کو تیار کرنا یہی تزکیہ ہے۔رسول اللہ ؐکا ارشاد ہے:
’’جس نے رمضان کا روزہ ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رکھا تواس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں‘‘۔       )بخاری ومسلم(
اس روایت کا مفہوم بالکل واضح ہے کہ روزہ اس لیے نہیں ہے کہ سب رکھ رہے ہیں تو ہم بھی رکھ لیں بلکہ اسے اللہ کا حکم مان کر کہ وہ اس کا اجروثواب عطا کرے گا۔اس نیت کے ساتھ روزہ رکھاجائے تو انسان کے اندر حکم الٰہی کی اطاعت کرنا آسان ہوجاتاہے ،پھراللہ تعالی اس کو ایسی توفیق دیتا ہے کہ پوری زندگی اس کا فرماں بردار بن کر زندگی گزارنے لگتا ہے۔ یہی اس کے پچھلے گناہوں کی معافی کا مطلب ہے۔
رمضان المبارک کے روزے ہمارے نفس کا تزکیہ بایں طور بھی کرتے ہیں کہ ایک انسان جو مالدار صاحب ثروت ہے پھر بھی پورے دن بھوک وپیاس کی شدت سے اسے بھی گزرنا پڑتاہے جس طرح ایک غریب عام دنوں میں کس مپرسی کے ساتھ فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتاہے۔روزہ رکھنے والے کے پاس سب کچھ ہوتا ہے مگر وہ کھاپی نہیں سکتا۔ یہ درحقیقت اس احساس کے جذبہ کو پروان چڑھاتاہے کہ ایسے غریب لوگوں کی ضرورت پوری کی جائے ، ہم ان کے مشکل وقت میں کام آئیں۔ ان کا ہرطرح سے تعاون کیا جائے ۔بہ حیثیت انسان سب اللہ کے بندے اور آدم کی اولاد ہیں۔ اس لیے باہمی کدورت کو ختم کیاجائے۔ یہی کیفیت انسان کے اندر انفاق کے جذبہ کو ابھارتی ہے اور بغض وحسد،حرص وہوس،نفرت وعداوت،کبروتفاخر،بخل اور تنگ نظری ختم کردیتی ہے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :
کان رسول اللہ اجودالناس ، وکان اجود مایکون فی رمضان حین یلقاہ جبریل، وکان یلقاہ فی کل لیلۃ من رمضان یدارسہ القرآن، فلرسول اللہ اجود بالخیر من الریح المرسلۃ  (مسلم(
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے۔ یہ سخاوت ماہ رمضان میں مزید بڑھ جاتی تھی جس وقت آپ کی ملاقات جبریل ؑ سے ہوتی تھی، آپؐ کی یہ ملاقات رمضان کی ہر شب میں ہوتی تھی جس میں ان کے ساتھ قرآن کریم کا دورکرتے ، آپ کی سخاوت آندھی سے بھی تیز ہوتی تھی۔ ‘‘
اس ماہ میں روزے دار کے افطارکا نظم کرنا بھی بڑا کار خیر ہے جومذکورہ خوبیوں کے علاوہ انسان کے اندر اللہ کے محبوب بندوں سے محبت کرنے اور کسی روزے دار کی ضرورت پوری کرنے کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من فطر صائما فلہ مثل اجرہ من غیر ان ینقص من اجرالصائم شیئ       )ترمذی(
’’جس شخص نے کسی روزے دار کو روزہ افطار کرایا اس کے لیے روزے دار کے اجروثواب میں کوئی کمی کئے بغیر روزے دار کے برابر ہی اجر وثواب ہے ۔‘‘
اس ماہ کو قرآن کریم سے خاص نسبت حاصل ہے ۔کیوں کہ اسی ماہ مبارک میں قرآن مجید کا نزول ہوا۔ آپؐ حضرت جبریل امین کے ساتھ رمضان کی شب میں قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔ تراویح میں مسلسل کلام اللہ کی تلاوت ہوتی ہے۔ سی طرح روزہ اور قرآن کو سفارشی بھی قرار دیا گیا ہے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ قرآن کریم تزکیہ نفس کے اسباب میں سے ایک اہم بھی ہے۔حـضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالی سے دعا کی تھی:
’’اور اے ربّ ، ان لوگوں میں خود اِنہی کی قوم سے ایک رسول اٹھائیو ، جو انہیں تیری آیات سنائے ، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔ تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔‘‘(البقرۃ:129(
قرآن کریم جو پوری انسانیت کے لیے سراپا ہدایت ہے اوررمضان کو قرآن کی مناسبت کے سبب لوگوں میں بکثرت اس کی تلاوت کرتے ہوئے دیکھا جاتاہے۔ مگر تلاوت قرآن پاک کو معانی ومفاہیم کے ساتھ سمجھنا بھی ضروری ہے تاکہ ہم اللہ کے احکام کو سمجھ کر اس پر عمل پیراہوں۔ دل کی صفائی جو تزکیہ نفس کے لیے بے حد ضروری ہے، جس کے لیے تلاوت کلام اللہ اور موت کا ذکر لازم ہے۔آپ ؐ نے ایک مثال سے اس کی وضاحت فرمائی :
ان القلوب لتصدأ کما یصدأ الحدید قیل و ما جلاؤہا قال تلاوۃ القرآن وذکر الموت
  (مشکوۃ، بیہقی شعب الایمان(
’’یقینا دل بھی زنگ آلود ہوتے ہیں جیسے لوہے کو زنگ لگتا ہے۔ پوچھا گیا اس کی صفائی کیسے ہوگی ؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا تلاوت کلام اللہ اور موت کو یاد کرنے سے۔‘‘
اس ماہ مبارک میں لوگ نوافل اور ذکر الہٰی کا بھی خاص اہتمام کرتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ماہ میں ثواب کا درجہ بڑھا دیاجاتاہے ، یعنی نوافل کا ثواب فرض کے برابر ملتا ہے اورفرائض کا سترگنااضافے کے ساتھ ثواب ملتاہے۔ اس سے  بھی بندوںمیں اللہ کی قربت پیداکرنے کی تربیت ہوتی ہے ، کیوں کہ انسان جب نماز میں ہوتا ہے۔تو وہ اللہ کے بے حد قریب ہوجاتاہے۔ اسی طرح جب انسان کا دل ذکر الٰہی سیترہوتا ہے تو دل کو زندگی ملتی ہے ورنہ اس پر بھی ویرانی اور پژمردگی پیدا ہوجاتی ہے۔ جب کہ تزکیہ کے لیے اطمینان قلب کے ساتھ دل کا صاف اوراس کا زندہ ہونا بے حد ضروری ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
الا بذکرالله  تطمئنّ القلوب (سورۃ رعد:۲۸(
’’خبردراہو! اللہ کی یادہی وہ چیز ہے جس سے دلوںکواطمینان نصیب ہواکرتاہے۔‘‘
اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
مثل الذی یذکرربہ والذی لایذکرربہ مثل الحی والمیت       )متفق علیہ(
’’نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اس کی مثال جواپنے رب کویادکرے اورجونہ یاد کرے زندے اورمردے کی طرح ہے۔‘‘
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس ماہ مبارک کو انسانی تربیت کے لیے ایک تحفہ کے طور پر عطا کیا ہے تا کہ بندہ اس مہینہ میں بھر پور عبادت وریاضت کے ذریعہ اپنے نفس کی خاص طور سے تربیت کرے پھر وہ بقیہ دیگر مہینوں میں اللہ تعالی کے احکام کاپابند ہوکر زندگی بسرکرے اور اپنے نفس کو اوصاف حمیدہ سے آراستہ کرکے خود کوبلند کردارکا حامل بنائے ساتھ ہی ان تمام خصلتوں سے جو نفس کو مردہ بنادیتے ہیں یا اسے ذلت وپستی کی کھائی میں ڈھکیل دیتے ہیں ان سے بالکلیہ اجتناب کرے تاکہ وہ انسان اللہ کا محبوب بندہ ہوجائے۔
٭٭٭

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...