Thursday 20 March 2014

Sabr aur Shukr Momin ke Imteyazi ausaf



جب سے دنیا کا وجودہے اس وقت سے آج تک جتنے بھی انسان پیداہوئے ۔ ان کو رات اور دن ،دھوپ اور چھاؤں  کی طرح  رنج والم ، فرحت ومسرت ،غم وخوشی کا بھی سامنا رہاہے ۔  ان میں  سے بہت سے لوگ ایسے بھی یا ہیں جواپنی مصیبت اور  پریشانیوں سے گھبراجاتے ہیں  تو بہت سے لوگ فرحت وشادمانی کی لہروں میں  ایسا غوطہ زن ہوتے ہیں  کہ وہ بھول جاتے ہیں  کہ اس سے قبل وہ کس مصیبت سے دوچارتھے اور ایسی تکبرانہ حرکتیں  کرتے ہیں  جوخداکے غیظ و غضب کا باعث ہوتاہے۔  اسلام زندگی کے تمام معاملات میں  انسانوں  کی ہرطرح رہنمائی کرتا ہے ۔  چنانچہ اس نے رہ نمائی کی ہے کہ وہ خوشی کے موقع پر،اسی طرح غم کے موقع پر کیا رویہ اختیار کرے۔
اسلام نے ان دونوں معاملات کا حل صبراورشکرکے طورپر پیش کیاہے۔  صبر اور شکر کا رویہ دونوں طرح کے مواقع پر انسان کومعتدل اندازمیں  زندگی گزارنے کی تعلیم دیتاہے۔ جس کے لیے خدانے مصیبت سے چھٹکارااوراجرعظیم کا وعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کے بیشتر مقامات پر ابتلاء وآزمائش کے واقعات کے ساتھ صبراورانسانوں پر اپنے انعامات واحسانات کا تذکرہ کرکے شکرکا حکم بھی دیاہے۔ تاکہ بندہ لازما اس کا پابند بنے۔
صبرکی تعریف :
صبرکے اصل معنی رکنے کے ہیں ۔ یعنی نفس کو گھبراہٹ ،مایوسی اور دل براشتگی سے بچاکر اپنے موقف پر جمائے رکھنا۔ قرآن میں  عموماً اس کا مفہوم یہ ہوتاہے کہ بندہ پوری طمانینیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے عہدپر قائم رہے اور اس کے وعدوں پریقین رکھے۔ عام طور پر لوگ صبر سے عجز و مسکنت ،بے بسی اور لاچاری یکھانا مرادلیتے ہیں ۔ یہ درست نہیں  ہے۔  قرآن کریم  کی اس آیت کریمہ سے اس کے اصل معنی کا پتہ چلتاہے۔
والصابرین فی الباساء والضراء  و حین البأس  (البقرۃ:177 )
’’اورثابت قدمی دکھانے والے ،سختی میں تکلیف میں  اور لڑائی کے وقت۔ ‘‘
اس آیت کریمہ میں  صبرکے تین مواقع ذکر کئے گئے ہیں ۔ غربت،بیماری اور جنگ ، غور کیجئے توتمام مصائب وشدائد کے سرچشمے یہی تین ہیں ۔
صبرانسان کے اس قابل تعریف عمل کانام ہے، جس کا اظہار مختلف حالات میں  مختلف طریقوں  سے ہوتا ہے ۔  اس کی تفصیلات حسب ذیل ہیں :
۱۔ کسی مصیبت کے وقت اپنے نفس پرقابو رکھنا   ۲۔ میدان جنگ میں  ڈٹے رہنا
۳۔ گفتگومیں  رازداری کا خیال رکھنا   ۴۔ نفس کوعیش کوشی سے محفوظ رکھنا
۵۔ ناجائز طریقے سے شہوانی خواہشات کی تکمیل سے بچنا
۶۔ شرافت نفس کا خیال رکھنا         ۷۔ غصے کی حالت میں  نفس کو قابومیں  رکھنا
صبرکی اہمیت کے پیش نظر یہ کہنا کافی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں  تقریباً نوے مقامات پر ’’صبر‘‘کا تذکرہ فرمایاہے اور مشکلات میں  صبرکی تلقین کی ہے ۔ ساتھ ہی خودکو صبرکرنے والوں  کے ساتھ ہونے کا اعلان بھی کیاہے۔ ان میں  سے چند آیات کا ذکرکیاجارہاہے :
استعینوا بالصبروالصلوۃ وانہا لکبیرۃ الا علی الخاشعین (البقرۃ:45)
صبراورنماز سے مددلو،بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے، مگران لوگوں کے لیے مشکل نہیں  ہے جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں ۔
ایک اور جگہ اسی طرح کا مفہوم پیش کیاگیاہے:
یا ایہاالذین آمنوا استعینوا بالصبروالصلوۃ ان اللہ  مع الصابرین   (البقرۃ:153)
اے ایمان والو!صبراورنماز سے مددلو،یقینا اللہ تعالی صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔
جو لوگ اللہ پرایمان رکھتے ہیں  اور اس سے ڈرتے ہیں  انھیں  کسی طرح کا خوف نہیں  ہوتا ہے۔  وہ اپنے حال پرصبرکے ساتھ جمے رہتے ہیں ۔  اس لیے اس آیت میں  اللہ نے انھیں  صبر اور  نماز کے ساتھ اپنی پریشانیوں میں  ڈٹے رہنے کا حکم دیا۔ صبرکا تعلق چوں کہ انسان کے اخلاق کردار سے ہے اور  نماز کا تعلق عبادات سے ہے، اس لیے اگریہ دونوں چیزیں  شامل رہیں  تو ہر انسان ہرپریشانی کو بہ آسانی برادشت کرسکتاہے۔
یہ محاورہ بہت مشہورہے کہ صبرکا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ یعنی انسان اپنا عمل جاری رکھے اور  اس میں  کسی طرح کی کوئی دشواری پیش آئے توصبرکے ساتھ اسے انجام دیتاچلاجائے ۔  اللہ ایسے بندوں  کو نوازتاہے۔  صبرانبیاء کرام کی سنت رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے صبرکو امامت کا وسیلہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:
وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ أَئِمَّۃً یَہْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَکَانُوا بِآیَاتِنَا یُوقِنُونَ
اورجب انھوں نے صبرکیا اور ہماری آیات پر یقین لاتے رہے تو ان کے اندرہم نے ایسیے پیشوا پیدا کیے جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے۔   (السجدہ:24)
خودنبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں  تو معلوم ہوگا کہ آپؐ نے اپنی زندگی میں  کتنے مصائب وآلام سہے اور ان کامقابلہ کرتے رہے۔ مکہ والوں نے آپ ؐکا اور  آپ کے ساتھیوں  کا بائیکاٹ کردیا ،نتیجۃًآپ نے پورے قبیلہ کے ساتھ شعب ابی طالب میں  پناہ لی۔ اپنے ساتھیوں سمیت تین سال تک اس میں صعوبتیں  برداشت کرتے رہیں  ، جب وہاں سے نکلے تو چند روزبعدآپ کے ہمدرد وغمخوارچچا ابوطالب اور اس کے تین یاپانچ روزبعد آپ کی ہمدردشریک حیات ام المؤمنین حضرت خدیجہ ؓ کا بھی انتقال ہوگیا، اسی وجہ سے اس سال کو عام الحزن سے تعبیر کیا جاتا ہے۔  مگر ان تمام ترمصیبتوں کے باوجودآپ ؐ اپنے خداکے وعدے کے مطابق صبرکرتے ہوئے اپنے مشن پر قائم رہے ۔ صبر کی اہمیت درج ذیل حدیث سے واضح ہوتی ہے،آپؐ کا ارشادہے:
واعلم ان النصرمع الصبر وان الفرج مع الکرب وان مع العسریسرا   (ترمذی)
جان لو کہ صبرکے ساتھ کامیابی ہے اور  مصیبت کے ساتھ کشادگی ہے اور تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔
اللہ تعالی نے صبرپر فراوانی اور کشادگی کا وعدہ کیا ہے۔ اس وعدے کا انتظار توکل کے ذریعے ہوتاہے۔  اس لیے اس انتظار کو عبادت شمار کیا جاتا ہے۔  انسان کے لیے اس وقت صبرکرنا آسان ہوجاتاہے جب اسے یقین ہوکہ اللہ اسے اس پریشانی سے نجات دے گا۔ سورۃ شرح میں  اس مفہوم کوپیش کیا گیاہے۔   جس پرعربی شاعر نے کہا ہے   ؎
اذا اشتدت بک البلوی ففکرفی الم نشرح
فعسر بین یسرین اذا فکرتہ  ففرح
’’جب پریشانی بڑھ جائے تو الم نشرح کی سورۃ پرغورکروایک دشواری دوآسانیوں  کے درمیان ہوتیہے، جب اس پر غورکرو گے تو تم کوخوشی ہوگی۔ ‘‘
شکرکی تعریف:
شکرکی تعریف کرتے ہوئے علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں :
’’شکرکہتے ہیں :اللہ کے بندوں پر اس کی نعمت کااثر ظاہرہونا۔ خواہ وہ بذریعہ زبان ہوجیسے اللہ کی تعریف کی جائے یا اعتراف نعمت کیاجائے،یا پھر بذریعہ دل ہو، محبت اور لگاؤ کے سبب۔ یا پھر اعضاء وجوارح کے ذریعہ مثلاً خودکواس کے سامنے جھکادیاجائے ،یا اس کی اطاعت کی جائے۔
جذبہ شکرانسان کے اندرعبدیت کو اجاگرکرنے میں  معاون ثابت ہوتا ہے ۔ جو بندہ کو اللہ سے قریب کرتا ہے۔ اس لیے جب انسان کی پریشانی دورہوجائے اور اسے خداکی طرف سے نعمت وراحت میسرہو  تو اس پر واجب ہے کہ وہ اپنے رب کو نہ بھولے بلکہ اس کا شکر ادا کرے۔  جس کا اظہارقول و عمل دونوں سے ہونا چاہیے ۔ شاکر بندہ اپنے رب کے بہت سے انعامات و اکرامات سے فیض یاب بھی ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَاللّہُ أَخْرَجَکُم مِّن بُطُونِ أُمَّہَاتِکُمْ لاَ تَعْلَمُونَ شَیْْئاً وَجَعَلَ لَکُمُ الْسَّمْعَ وَالأَبْصَارَ وَالأَفْئِدَۃَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ (النحل: 78) 
اللہ نے تم کو تمہاری ماؤں  کے پیٹوں سے نکالااس حالت میں  کہ تم کچھ نہ جانتے تھے۔ اس نے تمھیں  کان دیے، آنکھیں  دیں اور سوچنے والے دل دیے۔  اس لیے کہ تم شکرگزار بنو ۔
مزیداللہ تعالی کا فرمان ہے:
واذ تأذن ربکم لئن شکرتم لازیدنکم ولئن کفرتم ان عذابی لشدید    (ابراہیم:7)
اوریاد رکھو، تمہارے رب نے خبردارکردیاتھا کہ اگرشکرگزاربنوگے تو میں  تم کو زیادہ نوازوں گا اور اگرکفران نعمت کروگے تو میری سزابہت ہے‘‘۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنے شکرگزاربندوں کو بہت زیادہ نوازنے کا وعدہ کیا ہے۔  یہ دراصل شکرکا بدلہ ہے ۔ اس کے برعکس ناشکری اور نعمت کی ناقدری کرنے والے پر سخت سزاکی وعیدبھی سنائی ہے جوناشکری کی سزاہے۔
یَعْمَلُونَ لَہُ مَا یَشَاء ُ مِن مَّحَارِیْبَ وَتَمَاثِیْلَ وَجِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَّاسِیَاتٍ اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُکْراً وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُورُ                                                 (سبا:13)  
وہ اس کے لیے بناتے تھے جو کچھ وہ چاہتا، اونچی عمارتیں ،تصویریں ، بڑے بڑے حوض جیسے لگن اور اپنی جگہ سے نہ ہٹنے والی بھاری دیگیں ۔  اے آل داؤد، عمل کروشکرکے طریقے پر، میرے بندوں  میں  کم ہی شکرگزارہیں ۔
شکرکا طریقہ تو یہ ہے کہ جس پر انعام کیاگیاہو وہ اپنے محسن کوفراموش نہ کرے اور اس کی باتوں کی پیروی کرے،وہ بھلے کام کا حکم دیتا ہے تواسے انجام دے اور اس کی منع کردہ باتوں  سے بالکلیہ اجتناب کرے۔ قرآن کریم دیگر آیات سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں  پر بے شمار انعامات واکرامات کیے ہیں ۔
ان تعدونعمۃ اللہ فلاتحصوہا
 ’’اگرتم اللہ کی نعمتوں  کوشمارکرناچاہوتو تم اس کا احاطہ نہیں  کرسکتے ۔ ‘‘ (ابراہیم:34)
اس لیے اس کی فرماں  برداری ہی اس کا شکرہے۔  نبی کریمﷺ اللہ تعالی کا بہت زیادہ  شکرکرنے والے تھے ۔ صحابہ نے آپ کی کثرت عبادت کو دیکھ کر سوال کیاکہ آپ اتنی زحمت کیوں  برداشت کرتے ہیں ۔  جس کے جواب میں  آپ ؐ نے فرمایا:
افلا اکون عبدا شکورا۔      (مسلم)    ’’کیا میں  شکرگزاربندہ نہ بنو؟‘‘
یہ شکرکیسے پیداہو اس کا طریقہ نبی کریم ؐ نے بتایاکہ بندہ تھوڑی سی چیزپر بھی شکرکرے ، لوگوں  کے احسان پر اس کا شکرادا کرے یہی جذبہ اسے بہت زیادہ پر اور  اللہ کے شکرپر بھی اسے آمادہ کرے گا۔ نبی کریمﷺ کا ارشادہے:
من لم یشکر القلیل ،لم یشکرالکثیر، ومن لم یشکرالناس لم یشکراللہ، التحدث بنعمۃ اللہ شکر، وترکہا کفر،والجماعۃ رحمۃ، والفرقۃ عذاب  (مسند احمد)
جوتھوڑے پر شکرنہیں  کرتاوہ زیادہ پر بھی شکرگزارنہیں  ہوگا۔  جو لوگوں کا شکرادانہیں  کرتا ووہ اللہ کابھی شکرگزارنہیں ہو گا۔  اللہ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکرہے، اور اس کا چھوڑدینا کفرہے۔  جماعت میں  مل کررہنارحمت ہے اور الگ الگ رہنا عذاب ہے۔
اس امت کی سب سے بڑی خوبی اور فضیلت کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ہر حال میں  خیر ہی خیررکھا ہے۔  جب کہ یہ کیفیت کسی اور قوم ،مذہب یا ملت میں  نہیں  ہے۔ کیوں کہ دوسرے لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ اگرانھیں  خوشی ملتی ہے تو وہ بے خود ہوجاتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں  الٹی سیدھی حرکت کربیٹھتے ہیں ۔ جو ان کی مصیبت کا سبب بن جاتاہے ۔ اسی طرح اگران کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس میں  بہ اتنا بے چین وبے قرارہوجائیکہپھر چاروطرف آہ وبکا کرتے پھرتے ہیں ۔ جب کہ مؤمن ایسا نہیں  کرتا۔ نبی کریمﷺ کا ارشادہے:
عجباً لامرالمؤمن ،ان امرہ کلہ خیر،ولیس ذاک لاحد،ان اصابتہ سراء شکر،فکان خیرا لہ،وان اصابتہ ضراء صبرفکان خیرا لہ   (مسلم )
’’مؤمن کا معاملہ عجیب وغریب ہے۔ اس کے تمام حالات بہترہیں ، یہ کیفیت اس کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ۔  اگراسے خوشی ملتی ہے تواس پر شکرکرتا ہے، جو اس کے بہترہوتاہے۔  اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تواس پر صبرکرتا ہے، یہ اس کے لیے بہترہوتاہے۔ ‘‘  (مسلم )
شکر ایمان کا تقاضا ہے
اللہ تعالی نے بندے کو اختیاردیاہے کہ وہ کون سی راہ اپنائے اگروہ شکرکی راہ اپنائے گا تویہ اس کے حق میں  بہترہوگا ۔ اس کے برعکس اگراس نے کفرکی راہ اپنائی تو یہ اس کے لیے باعث ہلاکت ہوگا۔  اللہ تعالی کا فرمان ہے:
ہم نے اسے راستہ دکھادیا، خواہ شکرکرنے والا بنے یاکفرکرنے والا(انسان:3)
شکرانسان کے جذبۂ اطاعت کوبڑھاتاہے جواس کے ایمان کی مضبوطی کی دلیل ہے۔  جب انسان اپنے پروردگارکا شکراداکرے گا تولازماً اس کے ایمان کو قوت ملے۔ قرآن پاک میں  ہے:
مایفعل اللہ بعذابکم ان شکرتم وامنتم وکان اللہ شاکرا علیما (نسائ:147)
آخراللہ کوکیاپڑی ہے کہ تمھیں  خواہ مخواہ سزادے، اگرتم شکرگزاربندے بنے رہو اور  ایمان کی روش پر چلو۔ اللہ بڑے قدردان ہے اور سب کے حال سے واقف ہے۔
صبراورشکرکا تعلق
صبراورشکردونوں لازم وملزوم ہے ۔ اگران میں  سے کوئی ایک مفقودہوگا تو دوسرا بھی لازما موجودنہیں  ہوگا۔ صبروشکرکی اہمیت وافادیت کے پیش نظرسلف صالحین نے اس کا خاص اہتمام کیا ۔  ان کے چند اقوال درج ذیل ہیں :
امام غزالی ؒ فرماتے ہیں :
الصبر ملاک الایمان لان التقوی أفضل البر. والتقوی بالصبر والصبر مقام (من مقامات الدین).. وان الایمان نصفان متصف فی الصبر ونصف فی الشکر
ایمان کا درومدارصبرپر ہے اس لیے کہ افضل ترین نیکی تقوی ہے اور تقوی کا حصول صبر کے ذریعے ہوتا ہے جب کہ صبر دین کا ایک مقام ہے اور  ایمان کے دوحصے ہیں  ایک صبر دوسرا شکر
ابن عیینۃ فرماتے ہیں :’’ جس نے پنچگانہ نماز ادا کی اس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ ‘‘
’’حسن بصریؒ کا خیال ہے کہ وہ خیرجس میں  کسی طرح کا کوئی شر نہ ہو۔ اس عافیت میں ہے جوشکرکے ساتھ ہو، کتنے احسان مند ناشکرے ہیں ۔ ‘‘
فضیل بن عیاض: علیکم بملازمۃ الشکر علی النعم، فقل نعمۃ زالت عن قوم فعادت الیہم۔
’’فضیل بن عیاض کہتے ہیں : نعمتوں پر مسلسل شکراداکرتے رہو، اس لیے کہ بہت کم ایسا ہوتاہے کہ کوئی نعمت کسی شخص سے چھن جانے کے بعد دوبارہ اسے ملی ہو۔ ‘‘
جہاں  تک صبر اور  شکرکے جزا کی بات ہے توآیات واحادیث میں  اس کی وضاحت آئی ہے۔  صبرکا سب سے بڑا بدلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صبرکرنے والوں  کے ساتھ ہوتاہے۔  ساتھ ہی اللہ تعالی کا فرمان ہے (انما یوفی الصابرون اجرہم بغیرحساب۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں  کو بے حساب اجرعطاکرتاہے) ۔  شکر پراللہ کی جانب سے مزید کا وعدہ یہ سب بدلہ ہے، صابر و شاکر بندوں کا۔ اس کے علاوہ یہ امت محمدیہ کی خصوصیت ہے کہ وہ ہرحال میں صبروشکرکا دامن تھامے رہتی ہے۔



No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...