عصاء نہ ہو تو کلیمی ھے کار بے بنیاد
محب اللہ قاسمی
موجودہ دورکا مشاہدہ ہمیں بتاتا ہے کہ
اس میں وہ تمام خرابیاں آچکی ہیں جن سے معاشرہ بدحال ہے ،جس میں ظالم ظلم کرتے
ہوئے بھی نادم نہیں ہے ، طاقتور کمزوروں کو ستا رہا ہے، اکثریت اقلیت کے وجود کو
تسلیم کرنے سے گریزکررہی ہے اوران کے جان کے درپردہ ہے۔ بستیاں جلائی جارہی ہیں، پہ درپہ ہونے والے
فسادات، گؤ آتنکواد کی خونی بھیڑ اور کھلے عام غنڈہ گردیوں سے انسانیت دم بخود ہے،
کبھی سر عام تو کبھی ٹرینوں میں حتی کے گھروں میں گھس کر لوگوں کی جان لی جا رہی
ہے، بے قصوروں کو مارا جا رہا ہے، ان زیادہ متاثر مسلمان ہیں جن کی خبروں سے
اخبارات بھرے نظر آتے ہیں، مسلمانوں کی بے بسی اوراس کی لاچاری کی اس کیفیت پر
علاقہ اقبال کا یہ مصرع ذہن میں تازہ ہوتاہے
؎
ہے جرم ضعیفی کی سزامرگ مفاجات
یہ بات پوری طرح مسلم ہے کہ معاشرے میں
دوطرح کے گروہ پائے جاتے ہیں ایک وہ جوتعصب کی بنیاد پر انسانیت کا گلا گھونٹتے ہیں
اورفساد کا ماحول پیدا کرکے معاشرے میں فرقہ پرستی کو فروغ دے کر اسے تباہ وبرباد
کرنا چاہتے ہیں دوسرے وہ جو امن وامان کے خواہاں ہوتے ہیں اور معاشرے کی تعمیر
وترقی کے لیے ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان امن پسند اور امن کے
دشمن دونوں میں سے ہرایک دوسرے کے مخالف ہوتے ہیں۔ کوئی کسی کا وجود تسلیم کرنے کو
تیار نہیں، ایسا ہوبھی نہیں سکتا کیوںکہ یہ دونوں دومتضاد چیزیں ہیں ۔اسی وجہ سے
ان کا آپسی ٹکراؤ اور تصادم یقینی ہے، جو روز اول سے چلا آرہاہے اورتاقیامت جاری
رہے گا۔ ان میں جو غالب ہوگا معاشرہ کی صورت حال ویسی ہی بھلی یا بری ہوگی۔
ایسے ماحول کے لیے اسلامی تعلیمات کیاہیں؟
اسے عام کرنے کی ضرورت ہے۔اس ضرورت کی تکمیل کے لیے لازم ہے کہ اسلام کے علم
بردارطاقت ور ہوں۔ وہ قوت، خواہ ایمانی لحاظ سے ہو، جیسے خدا پر کامل یقین، اپنے
موقف پر استقامت، مشن کے لیے ہرممکن راہ اختیار کرنے کاعمل، فکر کی مضبوطی اور شریعت
اسلام کوہی مکمل نظام حیات ہونے کا قولی وعملی دعوی ۔ یا پھرجسمانی قوت مثلاً
مخالف گروہ کے حملے اورفسادات سے نمٹنے کے لیے دفاعی طاقت، جس کے لیے جسمانی ورزش،
ایسے کھیل جن سے جسمانی ورزش ہوتی ہو، دوڑ، تیراکی اور کشتی وغیرہ ۔
جہاں تک ایمانی قوت کا تعلق ہے توایک
مومن کواپنے مشن میں کامیاب ہونے کے لیے یہ لازمی جز ہے۔ اس کے بغیر کسی کامیابی
کا تصور محال ہے۔چنانچہ اس کی طرف ہمیشہ
توجہ دلائی جاتی ہے ، برابر تقریروں اور تحریروں سے اس کی وضاحت بھی کی جاتی ہے
۔بڑے بڑے جلسوں میں اس پر تفصیلی روشنی ڈالی جاتی ہے، مگر دوسری طاقت جواللہ کو بے
حد محبوب ہے، اس کی طرف بھی توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی نازک
حالات کے پیش نظر اپنے محبوب بندوں سے فرمایا:
’’اورتم لوگ ،جہاں تک تمہارابس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اورتیاربندھے
رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کے لیے مہیارکھو، تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے
اوراپنے دشمنوںکواوران دوسرے اعداء کوخوف زددہ کروجنھیں تم نہیں جانتے مگراللہ
جانتاہے ۔ (سورۃ انفال:60)
یہ سرزمین خدا کی ہے، وہ ظلم وبربریت کو پسند نہیں کرتا لہذا عدل
وانصاف کا قیام ہونا چاہیے۔ وہ بری باتوں کوپسند نہیں کرتا، اس لیے نیکی کی راہ ہموار
کی جائے ۔ مذکورہ تمام اعمال وافعال خدا کوماننے والا اس کے احکام کی پابندی کرنے
والا ہی بخوبی انجام دے سکتا ہے ۔ مگر یہ کام آسان نہیں ہے اس لیے انھیں اپنے
اندرجہاں ایک طرف ایمان کی مضبوطی کی ضرورت ہے وہیں باطل گروہ سے ٹکراؤ کے وقت
مضبوط اور مستحکم لائحہ عمل کے ساتھ دفاعی قوت وصلاحیت کی بھی ضرورت ہے ،جس میں
تمام مسلمانوں کو ایک ساتھ مل کرتعان علی البروالتقوی کا ثبوت پیش کرنا ہوگا۔
اس کام کے لیے دیگر ان تمام امن پسند
لوگوں کو بھی اکٹھا کرنا ہوگا جو مٹھی بھر لوگوں کے ظلم و ستم اور ان کے قہر سے
چھٹکارا پاکر ملک میں امن و سکون چاہتے ہیں۔ جس کا مظاہرہ نوٹ ان مائی نیم کی شکل
میں زبردست احتجاج کے ساتھ کیا گیا.
نبی کریم ؓ نے صحابہ کرام میں ان دونوں
قوتوں (ایمانی قوت اوردفاعی صلاحیت ) کو پروان چڑھایا۔ اس لیے ہم صحابہ کرام کی
زندگی کو دیکھتے ہیں توان میں جہاں ایمان کی حلاوت اور حمیت ملتی ہے، وہیں وہ جنگی
لحاظ سے مضبوط، طاقتور اور بہادر دکھائی دیتے ہیں۔ جنگ بدرکا واقعہ ہے کہ جب
کفارومشرکین (عتبہ ،شیبہ اور ولید ) نے دعوت مبارزت دی توان کے مقابلے کے لیے
مسلمانوں کی طرف سے اولاًانصارمیں سے تین صحابہ کرامؓ آگے آئے، مگرمشرکین نے
اپنے یعنی قریش میں سے اپنا مقابل طلب کیا ،جس پر تین نہایت قوی اورجنگی فنون کے
ماہر حضرات آگے آئے، جنھوںنے اپنے مقابل کا کام تمام کیا۔وہ تھے عبیدۃن الحارثؓ،
حضرت حمزہ ؓاور حضرت علی ؓ صرف حضرت عبیدۃبن الحارثؓ معمولی زخمی ہوئے۔ اتنے مضبوط
اوربہادرہوتے تھے صحابہ کرام ؓ!
قرآن کریم نے رسول اللہ ﷺاورصحابہ
کرام کے اوصاف کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا:
محمد رسول اللہ والذین معہ اشدآء علی
الکفار رحماء بینہم (سورۃ الفتح:۲۹)
محمد اللہ کے رسول ہیں اورجولوگ ان کے
ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں.
اس کی تفسیر میں مولانا سیدابوالاعلیٰ
مودودیؒ فرماتے ہیں ۔
’’صحابہ کرامؓ کے کفار پر سخت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ موم کی ناک نہیں
ہیں کہ انھیں کافرجدھرچاہیں موڑدیں۔ وہ نرم چارہ نہیں ہیں کہ کافرانھیں آسانی کے
ساتھ چبا جائیں۔ انھیں کسی خوف سے دبایا نہیں جا سکتا۔ انھیں کسی ترغیب سے خریدا
نہیں جا سکتا۔ کافروں میں یہ طاقت نہیں ہے کہ انھیں اس مقصد ِ عظیم سے ہٹا دیں جس
کے لیے سردھڑکی بازی لگا کر محمدﷺ کا ساتھ دینے کے لیے اٹھے ہیں۔ (اورآپس میں رحیم
ہیں) یعنی ان کی سختی جوکچھ بھی ہے دشمنان دین کے لیے ہے، اہل ایمان کے لیے نہیں
ہے۔ اہل ایمان کے مقابلے میں وہ نرم ہیں، رحیم و شفیق ہیں، ہمدرد و غمگسار ہیں۔
اصول اورمقصدکے اتحاد نے ان کے اندرایک دوسرے کے لیے محبت اورہم رنگی وسازگی پیدا
کردی ہے۔‘‘ (ترجمہ قرآن مع مختصرحواشی)
اگرکوئی شخص کسی مومن کی جان کے درپے
ہوتوایسی صورت میں اس کے لیے بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے رحم وکرم کی بھیک
مانگنے کے بجائے دفاعی صورت اختیار کرنا لازمی ہو جاتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ اپنی جان
اور اپنے مال کی حفاظت کی خاطر دفاعی صورت میں اگرکسی مسلمان کی جان چلی جائے تو
اسلام نے اسے شہید کا اعزاز بخشا ہے ۔ دفاعی صورت کے لیے قوت ضروری ہے اوراس کا صحیح
استعمال جرأت وبہادری کے ذریعے ہوتاہے ۔
عصاء نہ ہو تو کلیمی ھے کار بے بنیاد
نبی کریمؐ نے اس تعلق سے اپنی امت کو
بڑی ہی جامع بات بتائی جومعاشرے کی فلاح و بہبود اور قیام امن وامان کے لیے بے حد
ضروری ہے۔آپؐ کا ارشاد ہے:
’’مومن ِ قوی بہتر اورخداکے نزدیک محبوب ترہے مؤمن ضعیف سے۔اوریوں تو
ہر ایک میں بھلائی اورخیر پایا جاتا ہے۔ جو چیز تیرے لیے نافع ہو اس کا حریص ہو
اورخدا سے استعانت طلب کراور عاجز نہ ہو۔ اوراگر تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو یہ نہ
کہہ کہ اگر میں ایسا کرتا تو ایسا ہوتا بلکہ کہہ کہ خدانے یہی مقدرفرمایا اوراس نے
جوچاہا کیا، کیوںکہ لفظ ’’اگر‘‘شیطان کے کام کا دروازہ کھولتاہے۔‘‘(مسلم)
مذکورہ حدیث سے واضح ہوتاہے کہ ضعف
اورکمزوری، خواہ ایمانی ہو یا جسمانی، کسی بھی صورت میں پسندیدہ نہیں ہے۔ اس لیے
اللہ کے نزدیک مضبوط مؤمن کمزورسے بہتر
ہے، کیوں کہ اس سے دینی ودنیوی امورکے مصالح کاحصول ہوتاہے۔ ساتھ ہی خیر کی طرف
رغبت اور اس بھلائی کے حصول میں کسی طرح کا عجز ظاہر کرنے کی ممانعت پائی جاتی ہے۔
عجز ضعف کی علامت ہے جوانسان کو اپنے مشن میں استقامت سے روکتی ہے اوراسے متزلزل
کردیتی ہے۔ مومن کا یہ شیوہ ہے کہ وہ احکام الٰہی کا پابندرہے اگرکامیابی ملی
توفبہاورنہ توغم نہ کرے یہ من جانب اللہ مقدر تھا۔
ہمارے اسلاف نے نبی کریم ﷺ کی تعلیمات
کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کیا اور وقت کی نزاکت کے ساتھ اس راہ کو بھی اپنا یا
جس کے لیے انھوں نے بے حد مشق کی ۔ آج ہندوستان آزاد ہے، اگرتاریخ اٹھاکردیکھیں
تو ہم بڑے فخرسے کہتے ہیں کہ علماء نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی دیا اور خود
میدان میں کود پڑے، مسلمانوں نے علمائے کرام کا ساتھ دیا اور اپنے خون سے اس ملک
کوآزاد کرایا ۔
یہ اس لیے ہوا کہ انگریزوں نے نہ صرف
ظلم وبربریت کا ماحول گرم کیا تھا بلکہ مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیرنے کی پالیسی
بھی تیارکی تھی ۔ ان کا جینا بھی مشکل کردیاتھا۔ ایسی صورت جب بھی پیش آئے گی اس
کے لیے یکبارگی کوئی عمل سامنے نہیں آتا بلکہ اس کی تیاری کی جاتی ہے ۔ تاکہ
ماحول کے مطابق مسلمان خود کو تیاررکھیں۔ایسا محسوس ہوتا ہےکہ کچھ فاسد عناصر
ہندوستان کی پرامن فضا کو نفرتوں اور عداوت سے زہر آلود کر رہے ہیں، جس کے لیے وہ
درندگی کی حد تک چلے گئیے ہیں بہ حیثیت مسلمان ہماری یہ اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ
امن پسند لوگوں کو جوڑ کران درندوں سے مقابلہ ہو اور نفرت کے چراغ کو بجھا کر امن
و محبت کا چراغ روشن کیا جائے۔ جس کے لیے ہمارے اسلاف نے بڑی قربانیاں دی تھیں۔
گنوادی ہم نے جواسلاف سے میراث پائی تھی
ثریاسے زمین پر آسمان نے ہم کو دے
مارا
اگراسلام کے ماننے والے اپنی بہتری
اوربھلائی کے لیے اللہ کا حکم اوراس کے نبی ﷺ کا طریقہ چھوڑکرکوئی اور طریقہ اپنائیں
یا چوپائے کی طرح بے مقصد اوربے چارگی کی زندگی گزاریں، توپھران کو ذلت وپستی
اوررسوائی سے کوئی نہیں بچاسکتا، چہ جائے کہ وہ قوم کے فساد و بگاڑ کو روک سکے یا
اس کامقابلہ کرسکے اورنہ ہی کوئی اس کی مدد کر سکتا ہے۔