سہیلی کی شادی
ہنستی
کھیلتی چلبلی سی نیک اور خوبصورت بانو اس گاؤں کی پڑھی لکھی لڑکی ہے جہاں کبھی مرد
بھی بہت کم پڑھے لکھے ملتے تھے۔ ایک تو گاؤں کی غربت دوسری پڑھائی سے بے توجہی ،جس
کے سبب لوگ اتنا نہیں پڑھ لکھ پارہے تھے۔
مگر
خاص بات یہ تھی کہ بانوکے والد پڑھے لکھے سرکاری ملازم تھے اور بھائی بھی پڑھا
لکھا تھا۔ اس طرح اس کا گھرانا ایک حد تک تعلیم یافتہ تھا۔ بانوں اپنی سہیلیوں کو
اللہ رسول کی باتیں پڑھ کر سناتی اور انھیں پڑھنے کے لیے آمادہ کرتی اورلڑکیاں ان
کی باتیں بہ غور سنتی ۔
ایک
دن بانو اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی کہ کچھ لڑکیاں آئیں اور کہنے لگیں:
ارے چل ،منگلو چاچا کے گھر کچھ مہمان آئےہیں۔ سنا ہے شبنم کو دیکھنے لڑکے والے
آئے ہیں اور یہ بھی سنا ہے کہ لڑکا بھی آیا ہے۔
ایک لڑکی اسی درمیان بول پڑی : ہائے اللہ ! لڑکا بھی آیا ہے ۔ کیا وہ بھی لڑکی
دیکھے گا؟
ہاں اس کی شرط ہے اور اس سے کچھ پوچھے گابھی؟
اس
پر سلمیٰ نے جواب دیا : ہاں ،یہ پہلی بار ہورہا ہے۔
تبھی
بانو بولی :تو اس میں برا کیا ہے؟ اچھا ہے۔ شادی ہو رہی ہے۔ کوئی مذاق تھوڑی نا
ہے۔ اگر وہ لڑکی کو دیکھے گا تو کیا لڑکی لڑکے کو نہیں دیکھے گی؟ دونوں ایک دوسرے
کو دیکھ لیں گے اور جو پوچھنا ہوگا، پوچھ لیں گے۔ چلو ہم لوگ بھی چلتے ہیں نغمہ
چاچی کے گھر ۔ شبنم نے ہم لوگو کو بتایا نہیں کہ اسے دیکھنے کے لیے کچھ لوگ آنے
والے ہیں ؟ یہ بولتے ہوئے ساری سہیلیاں منگلو چاچا کے گھر پیچھے کے دروازے سے پہنچ
گئیں۔
نغمہ
نے جب ان کو دیکھا تو کہنے لگی: بانو کی اور دیکھتے ہوئے کہنے لگی اچھا ہوا، بانو
آ گئی۔ ابھی ہم تیرے گھر بلاوا بھیجنے ہی والے تھے۔جا شبنم کو سنبھال اور اسے کچھ
سکھادے۔جانے کیا کچھ بول دے وہاں پر؟
بانو
بولی: چاچی تم اب بالکل فکر نہ کرو، ہم لوگ سب سنبھال لیں گے۔جیسے ہی بانو شبنم کے
پاس پہنچی،لگی شکاتیں کرنے ۔
’’
کیوں رے تو نے مجھے بتایا نہیں کہ لوگ تجھے دیکھنے آنے والے ہیں۔‘‘
اس
سے پہلے کہ شبنم کچھ بولتی بانو نے کہا :
’’چپ رہ اب زیادہ مت بول ورنہ بولنے کے لیے کچھ نہیں رہے گا۔ تجھے
تو ابھی بہت کچھ بولنا ہے۔‘‘
پھرسب
نے شبنم کو سنوارا ،بہت کچھ سکھایا اور اسے لے کر مہمان کے کمرے میں آئی۔
لڑکا
کچھ خاص پڑھا نہیں تھا، پر اس زمانے کسی کو کلام پاک پڑھنا آتا ہو ،اردو ،ہندی
لکھ لیتا ہو تو اسے پڑھا لکھا سمجھا جاتا تھا۔ لڑکا بھی بس اتناہی پڑھا تھا پر تھا
ہوشیار ۔
اس
نے شبنم کو دیکھا اور شبنم نے بھی اسے دیکھا۔ دونوں ایک دوسرے کو پسند آگئے۔
اب
باری تھی سوال جواب کی۔
لڑکا:
تمہارا نام کیا ہے؟
لڑکی
: شبنم ...شبنم رانی!
لڑکا.تمہیں
قرآن پڑھنا آتا ہے ؟ اردو لکھ سکتی ہو؟؟
شنبم
: مجھے پڑھنا لکھنا نہیں آتا۔ یہ بول کر وہ چپ ہوگئی ۔
تبھی
بانو بول پڑی:
’’بھائی صاحب ! مانا کہ اسے پڑھنا نہیں آتا، پر گھر کا سارا کام
کاج یہی توکرتی ہے ۔ چادر بھی کاڑھ لیتی ہے ، یہ جو پردہ لگاہے نا۔ اس پر یہ بیل
بوٹے سب اسی نے بنائے ہیں۔ اس نے پڑھنے پر توجہ نہیں دی ،ورنہ ہم سب سے آگے نکل
جاتی۔ اتنی تیز ہے ہماری شنورانی!
لڑکا
اپنے ابو کے کان میں کہنے لگا:
’’اگر واقعی یہ اس قدر تیز ہے اور پڑھ سکتی ہے تو پھر شادی پکی،
مگر اس شرط کے ساتھ کہ چھ ماہ بعدہماری سگائی ہوگی۔ اس چھ ماہ میں اسے کم ازکم
قرآن پڑھنا تو آجانا چاہیے؟
باپ
نے کہا: ’’ہاں مجھے لگتا ہے، یہ پڑھ لے گی!‘‘
پھرسب
کے سامنے لڑکے کے والد نے لڑکی کے والدسے کہا:
’’ ہمیں یہ رشتہ منظور ہے اور اپنے بیٹے کی شرط کا اعادہ کیا۔‘‘
بانو
کی اس تیز زبان نے بات توبنا دی اور مہمان چلے گئے، پر چھ ماہ میں شبنم جیسی کند
ذہن لڑکی کو پڑھانا کوئی معمولی کام نہ تھا۔ خیر سب نے لڈو کھائے، پر بانو لڈوہاتھ
میں لیے یہ سوچ میں غرق ہوگئی کہ کیا شبنم چھ ماہ میں قرآن پڑھ لے گی؟
اتنے
میں شنبم نے اس کے ہاتھ کا لڈو اس کے منہ میں ڈال دیا ۔ ارے کھا: اب کیا سوچتی ہے۔
میں اتنی تیز ہوں نا ،تو اب توہی مجھے پڑھائے گی ۔ نغمہ چاچی بھی بول پڑی:
’’ ہاں بیٹی ۔اب یہ عزت تیرے ہاتھ میں ہے۔‘‘
بانو
نے یہ سارا قصہ اپنی ماں کو آکر بتایا ،ماں نے بھی تسلی دی :
’’ بیٹی! واقعی تونے بہت اچھا کام کیا ۔پرتونےشبنم کی جھوٹی تعریف
کرکے اسے آزمائش میں ڈال دیا ہے اب تو ہی اس کے لیے کچھ کر ۔اسے دن رات محنت کرکے
پڑھا ،تاکہ وہ چھ ماہ میں اچھی طرح قرآن پڑھنے لگے۔
ماں
کی باتیں سن کر بانو کو لگا کہ اب یہ میری ذمہ داری ہے۔ اگر میں نے ایسا نہیں کیا
اور اسے نہ پڑھاسکی تو اس کا یہ رشتہ ٹوٹ جائے گا۔ بات پھیل چکی ہے۔ اگر رشتہ ٹوٹ
گیا تو رسوائی ہوگی۔
پھر
کیا تھا۔ بانو نے دن رات ایک کردیے ۔بارش کے موسم میں بھی وہ اپنے گھر سے سپارہ لے
کر جاتی اور شبنم کو خوب پڑھاتی،یاد کراتی۔ دھیرے دھیرے وہ اس قابل ہوگئی کہ الفاظ
کوپڑھ سکے ۔ ایک دن بانو نے شبنم سے کہا :
’’دیکھ
بہن، یا تو تجھے یہ پڑھنا ہے یا پھر مرنا ہے۔ کیوں کہ تو بھی اسے پسند ہے اور وہ
بھی تجھے پسند ہے۔ بیچ میں کوئی فاصلہ ہے تو وہ تیری پڑھائی کا ہے۔ بہن! اب وقت کم
ہے ۔تجھے اور محنت کرنی ہوگی۔‘‘
یہ
بات شبنم کے دماغ میں گھر کر گئی اور اس نے بھی جی جان لگادیا ، جس لڑکی کو حروف
پہچاننے میں اتنی دشواری ہورہی تھی کہ بہ مشکل لفظوں کو ملا ملا کر پڑھنے کی کوشش
کرتی تھی اب کچھ ہی دنوں میں وہ بہت اچھا قرآن پڑھنے لگی تھی اس طرح اس کی شادی
کا خواب اسے پورا ہوتا دکھائی دینے لگا تھا۔
بالآخر
وہ دن بھی آیا ۔شبنم دلہن بنی رخصتی کے وقت بانوسے لپٹی ہوئی روروکر ہلکان ہوئے
جا رہی تھی۔بانوسوچ میں پڑ گئی کہ اس کا یہ رونا رخصتی کا ہے،یا اظہارتشکر کا ؟
میں شبنم نے روتے ہوئے کہا:
’’بہن !تیرا مجھ پر یہ احسان والدین سے بڑھ کر ہے۔اسے میں کبھی
نہیں بھلا سکتی۔ سب نے مل کر اسے ڈولی میں بٹھا دیا اور وہ پیا کے گھر سدھار گئی۔
محب اللہ قاسمی