Saturday 22 February 2014

اچھے کام پرحوصلہ افزائی - دین کا مزاج
        کوئی اچھا کام انجام دینے والے کی حوصلہ افزائی اور اس کی تحسین وتوصیف بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ یہ رویہ معاشرہ کے دوسرے لوگوں کو بھی اس طرح کے کاموں کی طرف متوجہ کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ اس کے برعکس تنگ نظری یا خشک مزاجی کے سبب حوصلہ شکنی کا عمل نہ صرف یہ کہ ماحول میں اختلاف وانتشار اورنااتفاقی کا سبب بن کرمعاشرے کو خراب کرے گا، بلکہ اس کے نتیجے میں ایسے لوگوں کی تعدادکم ہوجائے گی جو کسی نہ کسی درجہ میں دعوت دین، فلاح و بہبود اور معاشرے کی تعلیم وتربیت کی خدمات انجام دیتے ہیں۔کسی شخص کا کوئی کارخیراگر ہمیں معلوم ہو ، تواس کی تعریف و تحسین کرنی چاہیے ،اس کی حوصلہ افزائی کے لیے یہ بہت ضروری ہے ۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ معاشرہ میں عمل صالح کا ماحول بنے گا اور دوسرے لوگ بھی اچھے کام انجام دینے کی طرف مائل ہوںگے۔انسان کا مزاج ہے کہ وہ کوئی کام انجام دیتاہے تواس کا بدلہ چاہتاہے، خواہ کسی بھی شکل میں ہو،وہ بدلہ دکھائی دینے والی چیز ہو یا نہ دکھائی دینے والی ۔اللہ تعالی نے جب انسان کو اس مزاج کا بنایاتواس بات کا بھی لحاظ فرمایا۔چنانچہ اس نے قرآن کریم میں بیشتر مقامات پرجہاں عمل صالح کا حکم دیاہے وہاں اس کے نتائج اورانعامات کا بھی تذکرہ کیا ہے تاکہ لوگوں کو اس کی رغبت پیدا ہو اوراس راہ میں جدوجہد ان کے لیے آسان ہو۔ذیل میں چندآیات کا ترجمہ پیش کیاجاتاہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
lاللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، ان کے لیے اُن کے دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے، اور ان کی ﴿موجودہ﴾ حالتِ خوف کو امن سے بدل دے گا ، پس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اور جو اِس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔ ﴿النور:55﴾
lجو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں ،اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کی خطائوں سے درگزر کیا جائے گا اور انہیں بڑا اجر ملے گا۔﴿المائدۃ:9﴾
l اور اے پیغمبر  صلى الله عليه وسلم جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئیں اور ﴿اس کے مطابق﴾ اپنے عمل درست کرلیں اُنہیں خوشخبری دے دو کہ اُن کے لیے ایسے باغ ہیں ، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اُن باغوں کے پھل صورت میں دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے۔ جب کوئی پھل انہیں کھانے کو دیا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ ایسے ہی پھل اِس سے پہلے دنیا میں ہم کو دیے جاتے تھے۔اْن کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی ، اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔ ﴿البقرۃ:25﴾
l اور جو نیک عمل کرے گا ، خواہ مرد ہو یا عورت ، بشرطیکہ ہو وہ مومن ، تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور اُن کی ذرہ برابر حق تلفی نہ ہونے پائے گی۔﴿النساء:124﴾
l حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔ جو لوگ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں انہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ اُن کے لیے بڑا اجر ہے ، ﴿بنی اسرائیل:9﴾
l بخلاف اس کے جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا ہے اور اچھے کام کیے ہیں۔ اور اس باب میں ہم ہر ایک کو اس کی استطاعت ہی کے مطابق ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ وہ اہلِ جنت ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ﴿الاعراف:42﴾
l پھر جو نیک عمل کرے گا ، اس حال میں کہ وہ مومن ہو ، تو اس کے کام کی ناقدری نہ ہوگی ، اور اسے ہم لکھ رہے ہیں۔ ﴿الانبیاء:94﴾
l اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا اور نیک عمل کیے اُن کو ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور اُن کو پاکیزہ بیویاں ملیں گی اور انہیں ہم گھنی چھائوں میں رکھیں گے۔﴿النسائ:57﴾
l اْس وقت وہ لوگ جنہوں نے ایمان لاکر نیک طرزِ عمل اختیار کیا ہے اپنے اجر پورے پورے پائیں گے اور اللہ اپنے فضل سے ان کو مزید اجر عطا فرمائے گا ، اور جن لوگوں نے بندگی کو عار سمجھا اور تکبر کیا ہے اُن کو اللہ درد ناک سزا دے گا اور اللہ کے سوا جن جن کی سرپرستی و مددگاری پر وہ بھروسہ رکھتے ہیں ان میں سے کسی کو بھی وہ وہاں نہ پائیں گے۔ ﴿النساء:173﴾
lرہے وہ لوگ جو مان لیں اور نیک عمل کریں ، تو یقینا ہم نیکو کار لوگوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتے۔﴿کہف :30﴾
l تو جو شخص اپنے خالق ومالک سے ملنے کی امید رکھتا ہے اسے چاہئے کہ نیک کام کرے اوراپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔﴿کہف :110﴾
l اور جنہوں نے ایمان اور نیک عملی کا رویہ اختیار کیا ہے اُنہیں اُن کے اجر پورے پورے دے دیے جائیں گے۔ اور﴿خوب جان لے کہ ﴾ظالموں سے اللہ ہرگز محبت نہیں کرتا۔‘‘  ﴿آل عمران:57﴾
lہاں ، جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں ان کا اجر بے شک ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں۔﴿البقرۃ:277﴾
lبخلاف اس کے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے خدا کی راہ میں اپنا گھر بار چھوڑا اور جہاد کیا ہے ، وہ رحمتِ الٰہی کے جائز اُمیدوار ہیں اور اللہ ان کی لغزشوں کو معاف کرنے والا اور اپنی رحمت سے انہیں نوازنے والا ہے۔﴿البقرۃ:218﴾
اگرہم سیرت نبوی  صلى الله عليه وسلم  کامطالعہ کریں توپائیں گے کہ آپ  صلى الله عليه وسلم  بچپن سے ہی نیک دل ، سچے، امانت داراوربہت سی خوبیوںکے حامل تھے ، جس کا چرچا سارے عرب میں تھا۔ ہرشخص کوآپ پر اعتبار تھا ،یہی وجہ تھی کہ کفارمکہ آپ کواچھے القاب سے یادکرتے اورآپ کے محاسن بیان کرتے تھے۔اطراف مکہ میں بھی اس بات کا چرچاہونے لگے جسے سن کرلوگ آپ سے ملنے کے لیے بے چین رہتے۔ اعلان نبوت کے بعدجب اہل مکہ اورسرداران قریش آپ کے دشمن ہوگئے اورآپ صلى الله عليه وسلم  کے متعلق طرح طرح کی باتیں کرنے لگے تب دوسرے قبیلے والوں میں آپ  صلى الله عليه وسلم سے ملنے کا اشتیاق مزیدبڑھ گیا ۔یہ سب آپ  صلى الله عليه وسلم  کی ان خوبیوں اوراعمال خیرکے سبب تھا جن کے سارے لوگ قائل تھے۔
 حضور  صلى الله عليه وسلم  نے جب اسلام کا مرکز مدینہ منورہ کو بنایا تو وہاں بھی معاشرے کوبہتر اور اعمال خیرسے آراستہ کرنے کے لیے آپ  صلى الله عليه وسلم  نے صحابہ کرام کو نہ صرف دین کی تعلیمات سے آراستہ کیا،بلکہ ان کے اچھے کاموں اورخوبیوں کے سبب ان کی تعریف وتوصیف فرمائی اور انھیں اچھے القاب سے نوازا۔ذیل میں صحابہ کرام ؓ کے بعض واقعات بطورنمونہ بیان کیے جارہے ہیں:
 حضرت ابوبکرؓ : جلیل القدرصحابی اور خلیفہ اول ہیں، جن کو’ صدیق ‘کے لقب سے یادکیاجاتاہے۔ یعنی تصدیق کرنے والا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم  نے ان کوشب معراج کے موقع پر آپ  صلى الله عليه وسلم  کی تصدیق کی وجہ سے یہ خطاب عطافرمایاتھا۔جب اہل مکہ نے حضرت ابوبکرصدیق ؓ  کے سامنے حضور  صلى الله عليه وسلم  کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ تمہارے صاحب تو ایک رات میں آسمان کی سیر کرکے آئے ہیں ، تو آپؓ  نے کہا:
’’انی اصدقہ بابعدمن ذالک بخبرالسماء غدوۃ وروحہ‘‘
میں تو اس سے بھی بڑی خبرکی تصدیق کرتا ہوں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے پاس صبح وشام آسمان سے خبر آتی ہے تو میں اسے مان لیتا ہوں۔﴿دلائل النبوۃ للبیہقی،مصنف عبدالرزاق﴾
خلیفہ ثانی حضرت عمربن الخطاب ؓ  کونبی کریم  صلى الله عليه وسلم  نے ’فاروق‘ کا خطاب عطا کیاتھا۔اس کا پس منظریہ ہے کہ جس وقت آپ حلقہ بگوش اسلام ہوئے تورسول اللہ  صلى الله عليه وسلم  سے کہا:ہم چھپ کر نماز کیوںپڑھیں جب کہ ہمارا دین حق ہے ،ہماری نماز حق ہے، اس دن تمام لوگوںنے خانہ کعبہ میں علانیہ نماز اداکی۔حضرت عمرؓ  تاحیات اس لقب کے معنوی اثرات بکھیرتے رہے۔ آپ کے عدل وانصاف کے قصے معروف ہیں ۔آپؓ  کی دلیری، قوت ارادی اور دوررس افکار و خیالات کے سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ  کو یہ اعزاز بھی بخشا : لوکان بعدی نبی لکان عمرؓ ۔ اگرمیرے بعد کوئی نبی ہوتا توعمرہوتا۔
حضرت عثمان غنیؓ :عثمان بن عفان ؓ  تیسرے خلیفہ راشد ہیں۔آپ ؓ  کے دوالقاب سے مشہور ہیں ایک ’غنی‘ دوسرے ’ذوالنورین‘ ہے۔مؤخرالذکرلقب کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں یک بعد دیگرے آپ کی زوجیت میں آئیں۔ آپ ؓ  نہایت ہی باحیا، فیاض ، محسن ،نرم طبیعت اورخوش اخلاق تھے ۔مدینہ منورہ میں صحابہ کرام کے پاس پینے کے لیے میٹھے پانی کا کنواں نہیں تھا وہ ایک یہودی کے کنوے سے پانی لیتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم    کی ایما پر آپ ؓ  نے وہ کنواں خریدکرعام لوگوں کے لیے وقف کردیا۔اسی طرح اسلام کی اشاعت میں آپ نے اپنا بہت سارامال خرچ کیا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ:اسلام قبول کرنے والوںمیں آپ کا نمبردوسرا ہے۔ آپؓ  چوتھے خلیفہ ہیں۔ آپؓ  فاتح خیبرکے لقب سے مشہورہیں۔نبی کریم  صلى الله عليه وسلم نے جنگ خیبرکے موقع پرارشادفرمایاتھا:
لا عطین الرایۃ رجلا یفتح اللہ علی یدیہ،یحب اللہ ورسولہ ویحبہ اللّٰہ ورسولہ ﴿متفق علیہ﴾
میں ایک ایسے شخص کو جھنڈادوں گا جس کے ذریعے اللہ فتح عطا کرے گا۔وہ اللہ اوراس کے رسول سے محبت کرتاہے اوراللہ اوراس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں ۔
حضرت جعفربن ابی طالب ؓ : آپؓ نے 33سال کی عمرپائی اورجنگ موتہ میں شہید ہوئے۔ اس جنگ میں اولاً آپ کے دونوں بازوں کٹ گئے پھربھی اسلام کا جھنڈا زمیں پرگرنے نہ دیا۔حضرت جعفرؓ  غریبوں اور مسکینوں کا بہت خیال رکھتے اوران کی ضرورتیں پوری کرتے تھے۔اس وجہ سے آپ ابولمساکین کے لقب سے مشہورتھے۔
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ : صحابی موصوف کونبی کریم   صلى الله عليه وسلم  نے بطل المشاۃ ﴿بہادرپیادہ پا﴾ کا لقب عطا فرمایاتھا۔سے حاصل کی ، اس کی وجہ یہ تھی پیادہ پابہادر اور تیرانداز و نیزہ بازتھے۔ جو دشمنوں کو کھد یڑدیتے تھے۔ غزہ ذی قرد کے موقع پر آپ نے انھیں یہ اعزاز بخشا تھا۔
حضرت زبیربن العوامؓ :آپؓ  حواری رسول  صلى الله عليه وسلم  کے لقب سے مشہورہیں۔جنگ خندق کے موقع پر آپ  صلى الله عليه وسلم نے صحابہ کرام ؓ سے دریافت کیاکہ کون بنوقریظہ کی خبرلائے گا۔حضرت زبیرؓ  نے خودکوپیش کرتے ہوئے کہا: میں !یہی سوال آپ نے تین بار دوہرایا۔ہربارآپؓ  ہی آگے آئے۔ اس پر آپ نے ارشادفرمایا:
لکل نبی حواری ، والزبیرحواری۔
ہرنبی کے حواری اوردوست ہوتے ہیں میرے حواری زبیرؓ  ہیں۔﴿بخاری﴾
حضرت حنظلہ بن ابی عامر الانصاریؓ :آپؓ  کو غسیل الملائکۃ کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی ابھی نئی نئی شادی ہوئی تھی، جب صبح ہوئی تو جہاد کی پکارنے ان کو بے قرارکردیااور آپ نے اپنی تلوارلٹکائی اورذرہ پہن کر نکل پڑے ،میدان احدمیں آپ نے ابوسفیان کو دیکھا اوراس پروارکرنے کے لیے لپکے ،مگراس کی چیخ وپکارپر بہت سے شہسوارقریش جمع ہوگئے اورانھوں نے حضرت حنظلہؓ  کو شہیدکردیا۔جب نبی کریم  صلى الله عليه وسلم  کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے ارشادفرمایا:
انی رأیت الملائکۃ تغسل حنظلہ بین السمائ والارض بمائ المزن فی صحاف الفضۃ۔
میں نے دیکھا ہے کہ فرشتے حنظلہ کو آسمان وزمین کے درمیان چاندی کے برتن سے بادلوں کے پانی سے نہلارہے ہیں۔﴿دلائل النبوۃ لابی نعیم﴾
یہ سن کر صحابہ ان کی طرف دوڑے تودیکھا کہ ان کے سر سے پانی ٹپک رہاہے۔ جب ان کی اہلیہ سے حالات دریافت کے لیے گئے تو پتہ چلاکہ وہ صبح شوق جہادمیں بغیر نہائے ہی نکل گئے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالدبن ولید ؓ  کو سیف اللہ کے خطاب سے نوازا۔چنانچہ جب آپ نے فوجی قیادت سنبھالی تو اپنے اس فن میں ماہر ہونے کی حیثیت سے وہ کارنامے انجام دیے جوایک بہادر فوجی لیڈرکے شایا نِ شان تھے اور آپ کے فہم وبصیرت اور جرأت وبہادری سے بہت سے مقامات فتح ہوئے۔
حضرت معاذبن جبل ؓ  زودفہمی ،قوت استدلال، خوش بیانی اوربلندہمتی کے لحاظ سے ایک منفردممتازمقام رکھتے تھے۔ان کی تعریف وتوصیف اللہ کے رسول  صلى الله عليه وسلم  نے ان الفاظ میں بیان فرمائی :
اعلم امتی بالحلال والحرام معاذبن جبل۔ ﴿الطبقات الکبری لابن سعد﴾
میری امت میں معاذ بن جبلؓ  حلال وحرام کوبہترجاننے والے ہیں۔
حضرت ابوعبیدۃ بن الجراحؓ  : آپ  صلى الله عليه وسلم نے حضرت ابوعبیدۃ بن الجراحؓ  کی خوبیوں کے پیش نظرانھیں ’’امین ‘‘کا خطاب عطاکیا تھا۔’’ایک موقع سے یمن کے کچھ لوگ آئے ،اورآپ  صلى الله عليه وسلم  سے دریافت کیا کہ ہمیں کوئی ایسا شخص دیجئے جوہمیں اسلام اورسنۃ سکھائے آپ نے حضرت ابوعبیدۃ ؓ  کا ہاتھ تھاما اور فرمایا : ہذاامین ہذہ الامۃیہ ہیں اس امت کے امین ۔ایک مرتبہ آپ نے ارشاد فرمایا:
 لکل امۃ امین وامین ہذہ الامۃ ابوعبیدۃ ﴿متفق علیہ﴾
 ہرقوم میں ایک امین ہوتاہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ ؓ  ہیں۔
ان کے علاوہ صحابہ کرام کی ایک طویل فہرست ہے جن کو اللہ کے رسول  صلى الله عليه وسلم  نے ان کے عمدہ اوصاف اورکارناموں کی تعریف کرتے ہوئے انھیں کو اعزازات والقاب سے نوازا۔یہی طریقہ صحابہ کرام، تابعین اورتبع تابعین کا بھی رہاہے۔ ان لوگوںنے بھی یہی رویہ اختیارکیاکہ وہ لوگوں کے اچھے کاموں پر ان کی تعریف وتحسین کیاکرتے تھے۔ اگرہمارے معاشرے میں کوئی شخص فلاح عام کا کام انجام دے رہاہے ،یا کوئی دینی ماحول بناکر کسی نیک کام کوفروغ دے رہاہے،یا تربیتی نقطہ نظرسے کسی طرح کا کوئی عمل انجام دے رہاہے ،جوشریعت کے مطابق اور اس کے مزاج کے موافق ہے توایسے شخص کی تعریف وتحسین کی جانی چاہیے، بلکہ وقتا فوقتا اسے انعام سے بھی نوازنا چاہیے تاکہ دوسرے لوگوں میں بھی کار خیرکا جذبہ پیدا ہو۔ دوسری طرف ایسے مخلصین وخیرخواہ حضرات جوکسی درجہ اپنی خدمات انجام دے رہے ہیںان کو چاہیے وہ کسی تعریف وتوصیف کی پروا کیے ایسے کام انجام دیتے رہیں جن سے ملت کو فائدہ پہنچے اورقیامت میں وہ سرخروہوں۔



Sunday 18 August 2013

Asal Dahshatgard kaun?

اصل دہشت گرد کون؟
محب اللہ قاسمی
mohibbullah.qasmi@gamil.com
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ یہ دنیا اور اس کی تمام چیزیں اللہ کی بنائی ہوئی ہے۔ اس کا شکر ادا کرتے ہوئے صرف اس کی عبادت کی جائے اور بندگان خدا کوان کا حق دیاجائے اور اس پر کسی قسم کی ظلم وزیادتی نہ کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک معمولی سی تکلیف دینے والی چیزکواگرراستے سے ہٹادیاجائے کہ اس سے کسی مسافر کو تکلیف نہ پہنچے تو یہ صدقہ یعنی نیکی کاکام ہے۔
الغرض اسلام کا مقصدہی قیام امن وسلامتی ہے،مگر افسوس کہ پچھلے کئی سالوں سے اس پر دہشت گردی کا الزام عائد کر کے بدنام کیاجارہاہے اور مسلمانوں کو حراساں کرنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے۔ خاص طور پر مسلم ممالک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔  جب کہ(المسلم اخوالمسلم کے تحت ) ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے اخوت کا رشتہ ہے اور حدیث پاک کی روسے وہ آپس میںایک جسم واحد کی طرح ہیں کہ اس کے ایک عضوکوکوئی تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم درد محسوس کرتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی گوشے میںاگر کسی مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرا مسلمان اس درد سے کراہنے لگتاہے۔آخریہ اسلام کا دشمن کون ہے اور کیوں مسلمانوں کوستایاجارہاہے؟
سب سے پہلے یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ اسلام کا اصل دشمن کون ہے؟ قرآن کہتاہے ’’اسلام اورمسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن یہودہیں‘‘ (سورۃمائدہ:82) یہ یہود نہایت ہی شاطر،دھوکے باز اور انسان دشمن ہیں۔موجودہ دورمیں مصر کے حالات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ جمہوریت کا پاسبان کہلانے والے امریکہ نے یہودیوں کی سازش کے تحت جمہوری طریقے سے پرمنتخب عوامی صدرمحمد مرسی کو چند افراد کے احتجاج پر برطرف کروایا ۔اس ناپاک منصوبے کو بروئے کارلانے کے لیے اس نے وہاں کی فوج کا سہارالیا۔ جب کہ منتخب صدرکی حمایت میں ایک ماہ سے  مسلسل ہورہے مصری عوام کے پرامن احتجاج کو نظرانداز کیاجارہاہے اور اب کریک ڈاؤن کے ذریعے بے دریغ ہزاروں بے قصور، نہتے جوانوں، معصوم شیرخوار بچوں، باعصمت ماؤں اور بہنوں کو شہید کیا جا رہا۔  ان زندہ انسانوں پر ٹینک چلا کر انھیں بے دردی سے مارا جارہاہے۔ جن کے ہاتھوں میں قرآن، دل میں اسلام کی عظمت اور زبان پر اللہ کا ذکر ہے۔ رمضان المبارک کی شب میں قیام لیل اور دن کے روزے رکھنے والے یہ مسلمان جنہوں نے اپنے گھروں سے الگ ہوکر میدان رابعہ عدویہ میں عید کا دن گزاراہو ان کومستقل نشانہ بنایاجارہاہے۔جس کی تصاویر دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتاہے کہ کیا یہ مسلمان ہوسکتے ہیں جو اپنے بھائیوں کے ساتھ اس طرح کاسلوک کررہے ہیں اور اپنی ماں اور بہنوں کی عصمت کی پروا کیے بغیر ان کے ساتھ نازیبا حرکت کررہے ہیں ۔ایسا لگتاہے ان فوجیوںمیں ضرور اسرائیلی سرایت کرگئے ہوں یا ان کو ذہنی غلام بنالیاگیاہو۔
اس کی وجہ واضح ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کی مخالفت اور نامناسب حالات پیداکرنے کی تمام ترکوششوں کے باوجود اسلام پسنداور مصرکے خیرخواہ نومنتخب صدرمحمد مرسی نے ایک سال کی قلیل مدت میں سابقہ حکومت کی برائیوں اور عوام کی بدحالی کو درست کرنے میں جس قدر تیزی سے کامیابی کی طرف گامزن تھے یہ بات اسلام دشمن کو بھلا کیسے برداشت ہوتی ،نتیجہ میں ان کو برطرف کردیاگیا۔
اس کی وجہ عالمی شہرت،عالمی قوت اورعظیم المرتبت ہونے کی خواہش رکھنے والے یہودکی مذکورہ آرزوہے،نبیؐ کے زمانے میں بھی یہود خودکو دیندار اور بڑے شمارکرتے تھے بقیہ کو ہیچ اورگرا ہواسمجھتے تھے ،حتی کہ اپنے دین اور مذہب میں بھی من مانی کرنے لگ گئے تھے۔ چنانچہ جیسے ہی آپ ؐ کونبوت سے سرفراز کیاگیا اور آپؐ رسالت کے اعلیٰ مقام پر فائزہوئے توان لوگوں نے آپؐ کی نبوت کا انکارکردیا جب کہ آپ ؐ کی آمدکی بشارت خودان کی کتابوںمیں بھی تھی۔  وہ صرف اس لیے کہ آپؐ چوں کہ ان کی قوم سے نہیں تھے اوریہ بھی کہ ایسی صورت میں ان کو شہرت اورمقبولیت کا شرف ان سے نکل کر دوسری قوم میں جاتا دکھائی دینے لگا تھا، جس پر وہ خود کوچھوٹا محسوس کرنے لگ گئے تھے جوان کے عناداورہٹ دھرمی کا سبب بنا۔
اس طرح ان یہودیوں کے دل میں انتقام کی آگ بڑھتی رہی جونبیؐ کے زمانے سے ابتک چلی آرہی ہے۔ جب حضورپاک ؐاپنے رفیق اعلی سے جاملے تب بھی ان کے انتقام کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی بلکہ رفتہ رفتہ اسلام کی خصوصیت نے عام لوگوں کے دلوںمیں گھرکرنا شروع کیا اوراسلام کی عالمی شہرت اورمقبولیت نے ان کے سینوںمیںاسلام کی نفرت کا شعلہ مزیدبھڑکادیا۔ پھران کی اسلام دشمنی اتنی بڑھ گئی کہ کفاراورمشرکین سے کہیں زیادہ وہ خوداس کے دشمن بن بیٹھے اوراپنے اس انتقام کی آگ بجھانے کے لیے دوسری قوموں کی مددلینی شروع کردی۔نتیجۃً قدرتی ذخائر ، پٹرول جیسی قیمتی چیز ابلنے اور اسلامی ممالک میں عرب ممالک کی اہمیت کے پیش نظر پہلے اس نے عرب ممالک پر اپنا تسلط جمانے کا منصوبہ تیار کیا اور وہاں کے حکمرانوں کو عیش آرام کے تکیے پر سلا کر حکومت کو کمزور بنادیا اورباہمی اختلاف وانتشار کی بیج بوکر حکمرانوں کے دلوںمیں حکومت کی خواہش کے جذبات کو ان کی مجبوری بنادیا اور ان کو ذہنی غلام بنا لیا گیااور حفاظتی انظامات کے نام پر اپنی فوج بٹھادی اور اس پر قبضہ جمالیا، یہی وجہ ہے کہ آج جب کہ مصرکوایک زمانے تک حسنی مبارک کی حکومت کی پریشانیوں اور ان کے ظلم ستم سے آزاد ہوکر نومنتخب صدرمحمد مرسی کی رہنمائی میں کامیابی کے منازل طے کرنے اورسکون کے ساتھ ترقی کی طرف گامزن ہونے کا موقع ملا، تو ان یہودیوں نے اسے اپنے ماتحت عرب ممالک حکمرانوں پر اپنا دھوس دکھایا،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھی وہی زبان بولنے لگے جو ان یہودیوں کا منشا تھااور یہ بھی اصل دہشت گردکو شہ دے کر پرامن مظاہرہ کرتے ہوئے شہید ہونے والے اپنے مصری بھائیوںکو ہی دہشت گرد قراردے رہے ہیں۔ عربوں کا جورویہ اب تک ان کے ساتھ رہاہے۔اس سے یہ بات بالکل صاف ہے کہ وہ ان یہودیوں کے غلام اور مصرمیں قتل عام کے ایک مجرم ہیں۔
آج مسلم دنیا کو اس بات پر شدید افسوس ہے کہ اس کا حکمراں کیا چاہتاہے ، اسے اسلام اور اس کا نظام پسند ہے ،یا عیش وآرام کی وہ کرسی جو اپنے ہزاروں بھائیوں کا خون بہانے اور ان اسلام دشمن لوگوںکے تلوے چاٹنے پر موقوف ہے۔کیا ان کا جسم شل پڑگیاہے کہ اس کے عضو کو کاٹا جارہا ہے اور اسے احساس بھی نہیں ہوتا۔
اس طرح یہ یہود بے بہبود جنہوںنے نہ صرف مسلم ممالک کو ذہنی غلام بنارکھا ہے بلکہ اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت اور اسلام دشمن کا سردار ہونے کی حیثیت سے خود کو ہم چناں دیگرے نست سمجھ رکھا ہے اور اپنے زور ودبدبہ کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے مد مقابل جو صرف اور صرف اسلام ہی ہے ،کیوںکہ یہی اپنے اندرانسانیت کے لیے مکمل نظام حیات رکھتاہے ،اس سے خائف ہیں اور اس کو پسپا کرنے میں ہمہ تن مصروف ہے،شام، عراق، افغانستان اور مصر وغیرہ اس سلسلے کی کڑیاں ہیں، جس کے لیے وہ ہر ممکن قوت جھونک کر یا مسلمانوںمیں نفاق کا بیج بو کر یا دیگر متشدد قومیں ان کو ہتھیار بنا کر چمنستان جیسے ہندوستان میں اپنے مفادکے لیے کام کرنا، جس کا نظارہ ہمیں ہندوستان میں بسنے والوں کے درمیان ہندو مسلم منافرت کی زہرفشانی کی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
جیساکہ پہلے ذکرکیا گیا کہ اسلام جوکہ خدائی نظام ہے،اپنی خوبیوںاور امن وسلامتی کومتضمن ہونے کی وجہ سے شہرت اور مقبولیت کے اعلیٰ مقام کو پہنچا جو ہمیشہ بلند رہے گا۔ اس پرآپؐ کا فرمان ہے کہ’’اسلام بلند ہونے کے لیے ہے اسے کوئی زیرنہیں کرسکتا۔‘‘ایسے میں اگراس کا کتناہی بڑا دشمن خواہ وہ کسی بھی شکل میں کیوںنہ ہواسے مغلوب نہیں کرسکتا۔
یہاں کئی سوالات ہیں۔مثلاً عراق کے مسلمانوں کو تباہ کیا گیا۔  کیا اسلام مغلوب ہوگیا؟ افغانستان کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کی گئی۔ کیا اسلام ختم ہوگیا؟ مصراور ہندوپاک میں سازشیں رچ کراس کوبرباد کرنے کی کوششیں جاری ہیں جس کے لیے بڑے تجربے بھی کیے گئے ۔ تو کیا پاکستان اور ہندوستان سے اسلام کے ماننے والے ختم ہوگئے؟ ان سب کا جواب یہی ہوگا کہ نہیں!اور ایساہرگزنہیں ہوگا۔ کیوں کہ اسلام انسانوں کا بنایاہوا نظام نہیں ہے اورنہ اس میں کسی قسم کی ظلم وزیادتی ہے کہ لوگ اس سے نفرت کرے، بلکہ اس کا جودشمن ہے وہ اس کے خلاف اپنے حربے استعمال کررہاہے، جس کے لیے وہ طرح طرح کی سازشیں رچتا ہے، تاکہ وہ اپنے انتقامی مشن میں میاب ہو۔اسے ہروہ چیز ناپسندہے جو اسلام کی خوبی ہے اوراس میں انسانوں کا مفادمضمرہو۔
اس پس منظرکوسامنے رکھتے ہوئے اب یہ طے کرناچاہیے کہ و ہی نظام قابل عمل ہوگا، جو تمام انسانوںکواس کے جینے کا پوراپوراحق دے اور کسی کوکسی دوسرے پرکسی طرح کی ظلم وزیادتی کا حق نہ ہو، سماج سے بے حیائی کا خاتمہ ہو،معاشرے میں امن وسکون کاماحول ہو۔یہ تب ہی ممکن ہے جب اسلام کوصحیح طرح سے پڑھااورسمجھاجائے اوراس پرعمل کرنے کی کوشش کی جائے۔
تب ہی ہم یہ یقین کے ساتھ کہہ سکیںگے کہ خواہ امریکہ ہوجس نے انسانیت کا قتل عام کیا،یااقوام متحدہ جس میں امن پسندی کی بات کہی توجاتی ہے مگرہوتااس کے خلاف ہے،یاہندوستان کے امن وسلامتی کو پامال کرنے والے اسرائیل نواز ہندوستان کاایک گروہ جوقوم کی آپسی محبت اور بھائی چارگی کے ماحول کوخراب کرتے ہوئے ان میں قومیت کا بیج بو کر انسانیت کا گھلا گھونٹ رہاہے،جس کی مثال گجرات فساد ہو یا مکہ مسجدبم دھماکہ یا پھر اجمیرکا حادثہ ہو یا روزمرہ کے ہونے والے فسادات کی شکل میں دیکھنے کوملتی ہے۔یہ لوگ مفادپرست توہوسکتے ہیں مگرحق پرست اورامن پسندنہیں۔ یہی لوگ اصل میں دہشت گرد ہیں جو مفاد پرست میڈیا کے ذریعے عوام کی نگاہوںمیں دھول جھونک کر دہشت گردی کے خاتمے اور قیام امن کے نام پرپوری دنیا میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔

اس لیے اس کے ا صل محرک،  جس ذکر کیا گیا اس کی سازشوں کو سمجھتے ہوئے مسلمانوں کو ہرممکن اپنی اجتماعیت کو برقرار رکھنا ہوگا۔ ایمانی حمیت کا ثبوت دیتے ہوئے اسلام کے نظام حیات اور غلبہ ٔ  دین کی سعی وجہدکرنے والوں کو،خواہ وہ  دنیا کے کسی حصے میں ہو ،اگر ان پر ظلم ہو تو اس کا احساس دوسرے مسلمانوں کو ہو اور وہ اس کے دفعہ کی کوشش کریں،انھیں بے یار و مدد گا نہ چھوڑیں اور ایک سچے پکے مسلمان ہوکر یکجہتی، باہمی اتحاد و اتفاق کا ثبوت پیش کریں تاکہ حق وباطل کا مقابلہ ہوتوحق غالب رہے۔

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...