Monday 13 July 2015

Ramzanul Mubarak Guzre Gunahon ki Bakhsish ka Mahina


 رمضان المبارک 


گزشتہ گناہوں کی بخشش کا مہینہ

رمضان المبارک جونیکیوں کا پربہار مہینہ ہے ،جس میںاللہ تعالی کی خاص رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے اور جہنم سے چھٹکارے کے لیے بخشش کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔جو بندۂ خدا اس مبارک مہینے میں خلوص نیت اور ثواب کی امید کے ساتھ روزوں کا اہتمام کرے،قیام لیل(تراویح)کا خیال رکھے اور اس مہینے کے آخری عشرے کی طاق راتوں(شب قدر) میں  شب قدر کی تلاش کے مقصد سیعبادت کا خاص انتظام کرے تو اللہ تعالی اس کے تمام (صغیرہ )گناہوں کو معاف فرما دے گا جو ماضی میں اس سے سرزد ہوئی ہوںگی۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

" مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَمَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (متفق علیہ)

’’جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور احتساب(ثواب کی امید) کے ساتھ، اس کے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے، جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں گے۔ جس شخص نے ایمان اورثواب کی نیت کے ساتھ ماہ رمضان میں قیام کیا (یعنی راتوں میں عبادت کی) تو اس کے وہ تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے اس نے پہلے کیے ہوں گے۔اور جس  شخص نے لیلۃ القدر میں قیام کیا، ایمان اور احتساب کے ساتھ تو اس کے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے جو اس نے پہلے کیے ہوں گے۔‘‘(متفق علیہ(

مذکورہ بالا حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہم جائزہ لیں تو معلوم ہوتاہے کہ اس مہینے کی افضل ترین عبادت روزہ ہے۔ یہ طلوع فجر سے غروب آفتا ب تک کھانے ،پینے اوربیوی کے ساتھ جنسی تعلق سے خود کو روکے رکھنے کانام ہے۔ مگر ان جائز اعمال سے اجتناب اور خود کو ان چیزوں سے بچاکر رکھنا اس وقت معتبر اور لائق اجروثواب ہوگا جب ان کی انجام دہی مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ ہو۔ یعنی ایمان اور احتساب کے ساتھ۔

 ایمان کی شرط جس طرح دیگر تمام عبادات میں بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے ، اسی طرح روزے میں بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص جو اللہ پر ایمان نہ رکھتا ہو ،منکر خدا، یا مشرک ہو،اسے رمضان کے روزے رکھنا بہت پسند ہو ،وہ اس کا اہتمام کرتا ہو، اس کے باوجود اس کا یہ عمل (روزہ رکھنا) عنداللہ قابل قبول ہوگا نہ اسے اجر ملے گا۔اس لیے کہ ایمان کی شرط اور روزے کی فرضیت کا اعتقاد ضروری ہے ،اسے محض ایک رسم سمجھ کر انجام دینا درست نہیں ہے۔

دوسری شرط (احتساب) کی ہے۔ یہ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہے اللہ تعالیٰ سے اجروثواب کی امید رکھنا ۔ وہ مسلمان جو رمضان المبارک کے روزے پابندی سے رکھتے ہیں ،مگر وہ صرف لوگوں کی دیکھا دیکھی میںیاعار اور شرمندگی سے بچنے یا ریا و نمود کی خاطر ایسا کرتے ہیں ، وہ اس اجر و ثواب سے محروم رہیںگے۔ احتساب کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہر شخص اپنے روزے کا حتساب کرے کہ وہ روزے کی حالت میں غیبت،چغلی، جھوٹ،ظلم و زیادتی سے پرہیز کرتا ہے یا نہیں! ورنہ ان تمام برائیوں سے نہ بچنے کی صورت میں  محض بھوکے پیاسے رہنے کاکوئی فائدہ نہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

من لم یدع قول الزوروالعمل بہ فلیس للہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ و شرابہ(بخاری(
’’جوشخص (حالت روزہ میں بھی) جھوٹی گواہی اور اس پر عمل سے باز نہ آئے ، اللہ تعالی کو ایسے شخص کی کوئی پروا نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑدے۔‘‘(بخاری(

یہی حال رمضان المبارک میں قیام لیل (تراویح)اور شب قدر کی عبادتوں کا ہے۔ چنانچہ شروع میںحدیث پیش کی گئی اس میں ایمان اور احتساب کی شرط لگائی گئی ہے۔ اس لیے قیام لیل اور خاص کر شب قدر میں عبادت کی صورت میں بھی ان دونوں شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہوگا۔روایت کے آخر میں نتیجہ کے طور پر جس انعام کا ذکر کیا گیا ہے وہ بخشش خداوندی ہے کہ اللہ ایسے نیک بندوں کے ان اعمال کے نتیجے میں ان کے وہ قصور اور گناہ معاف فرمادے گا جو ان سے پہلے سرزد ہوئے تھے۔یہ اجر رمضان کے روزے کے ساتھ قیام لیل اور لیلۃ القدر کے ساتھ بھی ہے۔

جہاں تک گناہوں کی معافی کا تعلق ہے ،اس سلسلے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس سے مراد وہ چھوٹے گناہ ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے۔ رہے بڑے گناہ اور وہ گناہ جو حقوق العباد سے متعلق ہیں، ان کی معافی بیشتر روایات کے مطابق توبہ کی صورت میں ہوگی اور اس صورت میں جب کہ وہ بندہ معاف کر دے جس کی حق تلفی ہوئی ہو۔

آخر میں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ گزشتہ گناہوں سے معافی کایہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اب بندہ آئندہ گناہ کرنے کے لیے آزاد ہے۔ کیوں کہ گناہ اور نافرمانی درحقیقت  اللہ کے ساتھ بغاوت ہے جسے اللہ تعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا۔ اس مبارک مہینے کے روزے میں ان جائز چیزوں سے رکنے کا مطلب یہی ہے کہ بندہ میں تقوی (جو روزے کا مقصد ہے)کی ایسی صفت پیدا ہوجائے کہ وہ اللہ کے تمام احکام کا پابند ہوجائے۔ اسی کی رضا کی خاطر اپنا طرز عمل اورمقصد حیات متعین کرے، اس کارب جن باتوں کا حکم دے انھیں کرے اور جن باتوں سے روکے ان سے بچ کر مکمل عبودیت کا ثبوت پیش کرے ،  اللہ تعالی امت مسلمہ کو اس ماہ مبارک میں عبادت واطاعت کی توفیق دے اور اس کی بے پناہ برکات و فیوض سے نوازے۔آمین



Wednesday 10 June 2015

Ramazanul Mubarak ki Taiyari Keun aur Kaise?

رمضان المبارک کی تیاری کیوں اورکیسے؟
                                                                محب اللہ قاسمی               
رمضان المبارک جلد ہی ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے ۔یقینا ہمارے دل میں اس ماہ کی بڑی قدرہے لیکن کیاہم اس کے لیے تیاری کرتے ہیں؟ کیا ہم ا پنے اہل خانہ کو توجہ دلاتے ہیں کہ وہ بھی اس سلسلے میں تیاری کریں اورغفلت سے کام نہ لیں؟
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے میں صحابہ کرام کو اکٹھاکرتے اورخطبہ دیتے جس میں انھیں رمضان کی آمدکی خوش خبری سناتے تھے۔رمضان کی فضیلت اور اہمیت کے پیش نظر اس کی تیاری کے سلسلے میں توجہ دلاتے ۔ایسے ہی خطبہ میں آپ نے ارشادفرمایا: 
’’اے لوگو! عنقریب تم پر ایک عظیم الشان ماہ مبارک سایہ فگن ہونے والا ہے ۔اس ماہ مبارک میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزارراتوں سے بہترہے۔اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کے روزے فرض کیے،اس کے قیام کو اپنی خوشنودی کا ذریعہ قراردیا،توجس شخص نے اس ماہ میں ایک چھوٹا سا کارخیرانجام دیااس نے دیگرماہ کے فرائض کے برابرنیکی حاصل کرلی،یہ صبراورہمدردی کا مہینا ہے۔ساتھ ہی یہ وہ ماہ مبارک ہے،جس میں اللہ اپنے بندوں کے رزق میں اضافہ فرماتاہے۔اس ماہ مبارک میں جس نے کسی روزے دارکوافطارکرایا۔روزے دار کے روزے میں کمی کے بغیراس نے روزے دارکے برابرثواب حاصل کیا۔ اورخود کو جہنم سے بچالیا۔صحابہ کرامؓ  نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولﷺ ہم میں سے ہرشخص تو روزے دارکو افطارکرانے کی استطاعت نہیں رکھتاہے؟آپ نے فرمایا:جس نے روزے دارکوپانی کا گھونٹ پلایا،یا دودھ کا گھونٹ پلایا،یا ایک کھجورکے ذریعے افطار کرایااس کا اجراسی کے برابرہے اوراس کے لیے بھی جہنم سے نجات ہے ۔اس سے روزے دار کے اجرمیں کمی نہیں ہوگی۔جس نے اپنے ماتحتوںسے ہلکاکام لیااس کے لیے بھی جہنم سے نجات ہے۔﴿مشکوۃ﴾
اگرہم استقبال رمضان کے لیے تیارہیں تو ہمیں چندباتوںکا لحاظ کرنا ہوگا۔سب سے پہلے یہ کہ ہم اپنے نفس کو آمادہ کریں اوراس ماہ مبارک میں امور خیر انجام دینے کے لیے عملی اقدام کریں۔اس ذیل میں چندچیزیں آتی ہیں جن کا ہمیں خیال رکھنا چاہیے:
﴿الف﴾کوئی بھی کام بغیرمشیت الٰہی کے ممکن نہیں تو ہمیں اس کے لیے خدا سے توبہ واستغفار کے ساتھ دعاکا اہتمام کرنا چاہیے۔اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول دعاؤں کا اہتمام کیاجائے۔
﴿ب﴾توبہ کا اہتمام کیاجائے توبہ میں انسان اپنے رب کی طرف پوری طرح متوجہ ہوتاہے ۔گناہوںکا جوفاصلہ انسان اوراس کے رب کے درمیان ہوتاہے وہ ختم ہوجاتاہے ۔نیک کاموںکی طرف رغبت بڑھتی ہے جورمضان کے دیگرعبادات میں بھی معین ثابت ہوگی۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:اے مؤمنوتم سب مل کراللہ سے توبہ کرو،توقع ہے کہ تم فلاح پا جاؤگے﴿النور:۳۱﴾توبہ سے متعلق نبی کریم کا ارشادہے : اے لوگو! اللہ سے توبہ کرو،میں دن میں سو بار توبہ کرتاہوں﴿مسلم﴾آپ ﷺ دعاکا بھی اہتمام کرتے تھے۔آپ سے یہ دعامنقول ہے:
الھم بارک لنا فی رجب وشعبان وبلغنا رمضان
’اے اللہ ہمیں رجب وشعبان میں برکت دے اور رمضان تک صحیح سلامت پہنچا‘
﴿ج﴾گزشتہ رمضان کے روزے رہ گئے ہوں تواُنھیں فوراً شعبان کے مہینے میں ہی ادا کرلینا چاہیے۔ابوسلمی کہتی ہیں کہ میں نے عائشہ ؓ  کو کہتے ہوئے سنا:میرے ذمہ رمضان کا کوئی روزہ ہوتاتھا تومیں اسے شعبان میں ہی پورا کرلیتی تھی۔﴿متفق علیہ﴾
﴿د﴾رمضان المبارک کی سب سے اہم عبادت روزہ رکھنا ہے ،اس لیے اس کی عادت ڈالنے کے لیے شعبان کے مہینے میں وقفے وقفے سے روزے رکھنے چاہییں۔ تاکہ پوری طرح نشاط رہے اوراس بات کا احساس رہے کہ آئندہ ماہ کے تمام روزے رکھنے ہیں ۔نبی کریم ﷺ کا معمول تھا کہ آپ شعبان کے مہینے میں بکثرت روزے رکھاکرتے تھے ۔مگرپورے ماہ کے روزے صرف رمضان کے ہی رکھتے تھے۔حضرت عائشہؓ  کہتی ہیں کہ رمضان ہی میں پورے ماہ کے روزے رکھتے اور ماہ شعبان میں زیادہ ترروزے رکھتے تھے۔﴿متفق علیہ﴾
﴿ھ﴾ایک مشہورحدیث ہے کہ اعمال کا دارومدارنیتوںپر ہے ۔جیسی نیت ہوتی ہے ، معاملہ اسی اعتبارسے ہوتاہے۔ اسی طرح ابوہریرہؓ  سے مروی ایک حدیث ہے کہ انسان کسی نیک کام کی نیت کرتاہے تواس کا عمل اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیاجاتاہے۔﴿مسلم ﴾
اس لیے ہم رمضان المبارک کے تئیں آغازہی میں اپنی نیت کو درست کریں اوربہت سے نیک اعمال کرنے کی نیت کرلیں۔مثلا ً تلاوت قرآن کی کثرت،گناہوںسے توبہ کا اہتمام،دعاواذکارکی پابندی،عبادات کا التزام،لوگوںسے معاملات درست کرنے کی نیت، شعبان کے کچھ روزے رکھنا تاکہ آئندہ ماہ کے لیے مشق ہوجائے،دینی وتربیتی کتابوںکا مطالعہ ،رمضان سے متعلق دینی بیانات جوسی ڈی وغیرہ کی شکل میں ہوںتوان کا سننا تاکہ رمضان کااحساس دل میں رہے اوراس کی تیاری پرتوجہ ہوسکے۔
﴿و﴾رمضان المبارک کی خصوصیت ہے کہ اس ماہ مبارک میں نزول قرآن ہوا۔اس مناسبت سے عام دنوں کے مقابلے میں لوگ قرآن کو زیادہ پڑھتے ہیں تلاوت ایک عبادت ہے اس لیے بھی اس ماہ مبارک میں اس کا اہتمام کیاجاتاہے۔مگریہ عمل بھی تیاری چاہتاہے چنانچہ ہم شعبان کے مہینے سے ہی اپنی یومیہ مسلسل تلاوت شروع کردیں اوراس بات کی نیت کرلیں کہ رمضان میں ایک بار پورے قرآن کا ترجمے کے ساتھ اعادہ کرناہے۔اللہ کا فرمان ہے :
شہررمضان الذی انزل فیہ القرآن،ھدی للناس
’ماہ رمضان جس میںقرآن کریم کا نزول ہواجوتمام انسانوں کے لیے ہدایت ہے‘
﴿ز﴾ایک کسان جب تک کھیت میں بیج نہیں ڈالے گا ، موقع بہ موقع سیراب نہیں کرے گا توکھیت کے لہلہانے کی توقع فضول ہے۔ٹھیک یہی حال رمضان اور اس کی تیاری کا ہے۔
شیخ ابوبکرالبلخیؒ  کہتے ہیں:
’ماہ رجب کا شتکاری کا مہینا ہے،ماہ شعبان اس کی سیرابی کا مہینا ہے اورشہر رمضان کھیت کٹائی کا مہینا ہے۔اسی طرح ماہ رجب کو ہوا،شعبان کو غیم اوررمضان کو بارش سے تعبیرکرتے ہیں۔جس نے اعمال کی کھیتی کے موسم بہارمیں کاشتکاری نہیں کی اورماہ رجب میں اس کا پودانہیں لگایا اورشعبان میں اسے سیراب نہیں کیاتو وہ ماہ رمضان اعمال میںکے کھیتی کی کٹائی کیسے کرسکتاہے۔اگرماہ رجب گزرگیاہے تو کم ازکم شعبان کے مہینے سے اس کی کوشش کی جائے۔یہی ہمارے نبی اور اسلاف کا طریقہ رہا ہے ۔‘
﴿ح﴾آج کل مسلمان دین کے معاملے میں غفلت کا شکارہیں اوراپنے کاموںمیں اس قدر محوہیں کہ اس کی تیاری کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا، حالانکہ گھرکے ذمہ دارفرد کو اتنا وقت نکالناچاہیے کہ وہ اپنے اہل خانہ کے درمیان رمضان اوراس کے احکام کی تعلیم دے سکے۔اگروہ نہیں جانتاتوعلماسے معلوم کرے اورمساجد کے ائمہ کے خطبات سے فائدہ اٹھائے۔
ماہ رمضان کا یومیہ پروگرام
یہ ذہن بنائیں کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ وقت عبادات میں صرف کرنا ہے ،فرض کے ساتھ ساتھ نوافل کا بھی بکثرت اہتمام کرنا ہے۔اس کے لیے یومیہ پروگرام ترتیب دیں جس میں درج ذیل باتوںکا خیال رکھیں:
﴿الف﴾فجرسے پہلے کے کام : تہجدکا اہتمام:اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
امَّنْ ہُوَ قَانِتٌ آنَائ اللَّیْْلِ سَاجِداً وَقَائِماً یَحْذَرُ الْآخِرَۃَ وَیَرْجُو رَحْمَۃَ رَبِّہِ   ﴿الزمر:۹﴾                                           
’ یا وہ جومطیع وفرماں بردارہے رات کے پہرمیں سجدہ اورقیام کی حالت میں ہوتا ہے اوراپنے رب سے رحمت کی امید لگاتاہے۔‘
﴿ب﴾سحرگاہی کا اہتمام:نبی کریم کا ارشادہے:تسحروا فان السحور برکۃ ﴿متفق علیہ﴾ سحری کا اہتمام کیاکروکہ اس میں برکت ہے۔فجرکی سنت کا اہتمام : نبیﷺ نے فرمایا:
رکعتا الفجرخیرمن الدنیا ومافیہا
’ فجرکی دورکعت دنیا اوراس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ ‘﴿ مسلم ﴾
﴿ج﴾دعا اوراذکارمیں اپنا وقت لگائیں خاص طورسے اذان اورنماز کے درمیان ِ اوقات میں اس لیے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
الدعاءلایردبین الاذان والاقامۃ﴿متفق علیہ﴾
’اذان اور نماز کے درمیان کے وقت دعائیں ردنہیں کی جاتیں۔‘
﴿د﴾فجرکے بعد سے طلوع شمس تک ذکر اور تلاوت قرآن کے لیے مسجدمیں قیام کو لازم پکڑلیں :
کان النبی ِاذا صلی الفجرجلس فی مصلاہ حتی تطلع الشمس حسنا﴿مسلم﴾
نبی کریم ﷺ فجرکی نمازکے بعدطلوع شمس تک اپنے مصلے پر بیٹھے رہتے تھے۔ایک جگہ ارشادہے:
من صلی الفجرفی جماعۃ ثم قعد یذکراللہ حتی تطلع الشمس ثم صلی رکعتین کانت لہ کاجرحجۃ وعمرۃ تامۃ تامۃ تامۃ﴿ترمذی﴾
فجرکی نماز کے بعد طلوع شمس تک اللہ کا ذکرکرتارہا پھردورکعت نماز ادا کی اس کا اجرایک مکمل حج اورعمرے کے مانندہے۔
﴿ھ﴾اس دعاکا اہتمام کہ اللہ ہمارے دن میں برکت دے۔
﴿الہم انی اسالک خیرمافی ہذا الیوم فتحہ ونصرہ ونورہ وبرکتہ وہداہ واعوذبک من شرمافیہ وشرمابعدہ﴾ ابوداؤد
﴿و﴾ظہرکی نماز کی تیاری کرے ،فراغت کے بعد بدن کو تھوڑی راحت دے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :
استعینوا بطعام السحرعلی الصیام، وبالقیلولۃ علی قیام اللیل ﴿ابن ماجہ﴾
’سحری کھاکر روزے پر اورقیلولہ ﴿دوپہرکے وقت سونے﴾کے ذریعے رات کی نماز پر مددحاصل کرو۔‘
﴿ز﴾اگرصاحب حیثیت ہیں اورخدانے مال ودولت سے نوازا ہے توغرباپر مال خرچ کریں اورانھیں افطارکرانے کا نظم کریں۔کیوں کہ یہ عمل اللہ کو بے حد پسندہے۔

Sunday 22 March 2015

Qiyadat aur Ehsas-e-zimmedari

 اور احساس ذمہ داریقیادت


انسان کی بہت سی ضرورتوں میں ایک اہم ضرورت اجتماعیت ہے، اس میں اللہ نے برکت رکھی ہے اور اس میں اس کی مدد بھی شامل حال رہتی ہے۔ اللہ کے رسول ؐ کا ارشاد ہے:

ید اللہ علی الجماعۃ (ترمذی) جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے۔

    اس لیے اجتماعیت سے الگ ہوکر زندگی گزارنا پسندیدہ نہیں ہے۔ایسی حالت میں خاتمے کو میتۃ الجاہلیہ (جاہلیت کی سی موت) سے تعبیر کیا گیا۔ اجتماعیت ہوگی تو لازما اس کا ایک امیر اور سربراہ ہوگا جو اس کی قیادت کا فریضہ انجام دے گا۔ عوام اس کی رہ نمائی میں اپنا سفر حیات جاری رکھتے ہوئے منزل کی طرف کام یابی کے ساتھ گامزن ہوں گے۔ قیادت وسربراہی کی اس ضرورت کا احساس دلاتے ہوئے آپؐ کا ارشاد ہے:



    اذاکان ثلاثۃ فی سفرفليؤمراحدہم (ابوداؤد)
جب تین آدمی سفرمیں ہوں تو ان میں ایک کو امیربنالیناچاہیے۔

    قوم کا سربراہ اس کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس کی خیر خواہی کرنا ،ہر طرح کی ضرویات کا خیال رکھنا اور اس کی بہتری کی فکر کرنا ،اس کی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ عین فرض منصبی ہے۔ اسے اس کا احساس ضروری ہے۔قوم کے رہبر و رہ نما کی حیثیت ایک خادم کی سی ہوتی ہے۔ وہ اپنے اس فرض منصبی کو صحیح طریقہ سے انجام دے تو رعایا اور اس کے ماتحت افراد خوشحال ہوں گے، جانثاری کے جذبے ساتھ اپنا ہر طرح کا تعاون پیش کریں گے۔ لیکن اگر اس کے برعکس سربراہ اگر خود کو قوم کا خادم تصور کرنے اور اس کی فلاح وبہبود کا خیال رکھنے کے بجائے مخدوم سمجھ بیٹھے اور آرائش و آسائش کی زندگی کو مقصد بنا لے اور ؂ 
’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘
کے مصداق عایا کے مسائل سے آنکھیں موندلے تو ایسے حالات میں رعایا بے چینی کی کیفیت سے دوچار ہوگی اور بسا اوقات اس سربراہ کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے پر آمادہ ہوجائے گی۔ 

    نبی کریمؐ کی بعثت سے قبل دنیائے انسانیت دم توڑ رہی تھی۔ ہر طرف ظلم وستم کا بازار گرم تھا، رقص وسرور میں ڈوبے عیش پسند ناعاقبت اندیش رہ نماؤں اور بادشاہوں کو عوام کی ذرہ برابر بھی فکر نہ تھی بلکہ وہ وقتا فوقتا انھیں اپنے عتاب کاشکار بناتے رہتے تھے۔مگر یہ بادل چھٹا اور آفتاب کی شکل میں ایک عظیم رہ نمانمودار ہوا جس نے لوگوں کو معرفت خداوندی کے ساتھ قیادت وسیادت کے اصول سمجھائے۔ لوگوں کے دکھ درد بانٹ کر انھیں حقیقی زندگی جینا سکھایا اور بتایا کہ بہترین انسان ہی بہتر قائدانہ کردار پیش کرسکتا ہے۔حقیقی قائد وہ ہے جو امانت دار، امن وامان کا خواہاں اور انسانوں کی ضروریات پوری کرنے والا ہو نہ کہ عیش و عشرت کا خواہاں ہو۔ یہ بہترقیادت عملی طور پر کیسے ممکن ہے۔ آپؐ نے اپنی پوری زندگی سے اس سوال کا جواب فراہم کیا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:

کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ (متفق علیہ)
    تم میں کا ہرشخص ذمہ دار ہے، ہرایک سے اس کی رعیت کے سلسلے میں میں باز پرس ہوگی۔

    احساس جوابدہی کا یہی وہ محرک تھا جس نے صحابہ کرامؓ کو ذمہ دارشخصیت بنادیا، جو دنیاوالوں کے لیے نمونہ بنے۔ پھر دنیا نے آپؐ کے تربیت یافتہ خلفائے راشدین کا دور بھی دیکھا کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓامیرالمومنین ہیں ، بیت المال کے موجود ہوتے ہوئے بھی زندگی کس مپرسی میں گزری ۔مگر رعایا کے سرمایہ کو اپنے ذاتی مصرف میں نہیں لائے اور غیر ضروری خرچ سے گریز کرتے رہے۔ انھوں نے پوری دور اندیشی اور احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنا فریضہ انجام دیا۔ قیصر وکسری کو فتح کرنے والے اوروسیع وعریض دنیا میں اسلام کا پرچم لہرادینے والے خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کھجور کی چٹائی پر سوتے ہیں ،جسم پر اس کے نشانات ابھر آتے ہیں۔ ان کی سادگی پر لوگوں کو معلوم کرنا پڑتا تھا کہ امیر المومنین کون ہیں؟ ان کے احساس ذمہ داری کا یہ عالم تھا کہ وہ رعایا کے احوال سے نہ صرف باخبر رہتے تھے بلکہ ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے خود پیٹھ پر غلوں کا بوجھ اٹھالیتے تھے۔ کیوں کہ انھوں نے اپنے قائد سرور عالم کو بدست خودخندق کھودتے دیکھا تھا۔

    تاریخ کے اوراق کو مزید پلٹ کر دیکھیں تو تابعین میں عمر ثانی عمربن عبدالعزیز کا نام نمایاں طور پر سامنے آتا ہے۔ انھوں نے اپنے دورخلافت میں عدل و انصاف کا وہ گراں قدر کارنامہ انجام دیا کہ سنگ والی بکری بھی بغیر سنگ کی بکری کو مارنے سے کتراتی تھی۔ جب کہ ان کی جوانی کا وہ دور (جب آپ خلیفہ مقرر نہیں ہوئے تھے) بڑے ہی ٹھاٹ باٹ اور شان وشوکت میں گزر اتھا۔ خوبصورت لباس ، عمدہ خوشبو جسے دیکھ کر لوگ ٹھہر جاتے تھے اور گلی معطر ہوجاتی تھی۔مگر بہ حیثیت خلیفہ خود کو خادم کی حیثیت سے پیش کیا کہ دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔

    آج کا انسان اپنے اس احساس ذمہ ادری سے عاری ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے قیادت و سیادت کا مفہوم بالکل الٹ گیا ہے۔ اب قوم کا رہبر اس کی خدمت کے لیے نہیں بلکہ اس (قوم ) سے خدمت وصول کرنے کے لیے اپنی عیاری اور مکاری سے کام لینا ہے۔ ٹھاٹ باٹ کے لیے بیت المال میں جمع قوم کا سرمایہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔اس کے نتیجے میں انسانیت سوز واقعات سامنے آتے ہیں۔ اقتدار کی ہوس اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ذہن میں سوال آتا ہے کہ اقتدار بھی کیا چیز ہے ، جس کے لیے لوگ اپنے ضمیر کے خزانے لٹادیتے ہیں۔اب یہ بات رعایا کے ذمہ ہے کہ وہ اپنا ذمہ دار کسے چنتے ہیں اور اتنی بڑی ذمہ داری کس کے سپرد کرتے ہیں کیوں کہ یہ قیادت بھی ایک امانت ہے ، جو اس کے اہل تک پہچانا ضروری ہے، قرآن کا اعلان ہے:


    إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلٰیٓ أَہْلِہَا وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْْنَ النَّاسِ أَن تَحْکُمُواْ بِالْعَدْلِ إِنَّ اللّہَ نِعِمَّا یَعِظُکُم بِہٖ إِنَّ اللّہَ کَانَ سَمِیْعاً بَصِیْرا oیَاآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوٓاْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُمْ (النساء:۵۸،۵۹(

    مسلمانو،اللہ تمہیں حکم دیتاہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو،اللہ تم کو نہایت ہی عمدہ نصیحت کرتا ہے اوریقیناًاللہ سب کچھ دیکھتاہے۔اے لوگوجوایمان لائے ہو،اطاعت کرو اللہ کی اوراطاعت کرورسول کی اوران لوگوں کی جوتم میں سے صاحب امرہوں۔(النساء:۵۸،۵۹)


    پھر ذمہ داروں میں اہل شخص اپنی امانت داری اور صلاحیتوں کے ذریعے اعلیٰ اصولوں کی بھر پور نمائندگی کرتا ہے ۔ عوام کی توقع کے مطابق اپنی خدمات انجام دیتا ہے۔ اس کے پیش نظر جہاں احساس ذمہ داری ہے وہیں ایمان کے تقاضے بھی ہیں۔ آپ ؐ کا ارشاد ہے:

لا ایمان لمن لا امانۃ لہ، ولا دین لمن لا عہد لہ (ابن ماجہ)
    اس شخص میں ایمان نہیں جس میں امانت داری نہ ہو اور اس شخص میں دین کا پاس ولحاظ نہیں جس کے اندر عہد کی پاس داری نہ ہو۔

    دور حاضر میں پر غیر مذہبی رہ نما اور مذہبی رہ نماؤں کے طرز زندگی کا جائزہ لیں تو بلادریغ کہا جاسکتا ہے کہ قوم کے مال کا بڑا حصہ غیر ضروری اخراجات اور جھوٹی شان بگھارنے میں صرف کرتے ہیں۔ جب کہ قریب میں رہنے والا غربت اور استحصال کی چکی میں پستا ہے۔

    آج اقتدار کی خاطر جنگ ہوتی ہے، جس کے حصول پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور عام انسانوں کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے ۔ بڑے بڑے فسادات بھی کروائے جاتے ہیں ،جن میں ہزاروں لوگوں کے ارمان لٹ جاتے ہیں، جانیں تلف ہوجاتی ہیں اور مکان خاکستر کردیے جاتے ہیں۔

    جب کہ پہلے لوگ قیادت کی باگ ڈور کو تھامنے سے ڈرتے تھے خود کو کمزور سمجھ کر ذمہ داری کا بار اٹھانے سے کتراتے تھے۔ کوئی اس کے لیے جلدی تیار نہیں ہوتا تھا۔ حتی کہ ذمہ داری ٹھکرانے کی پاداش میں بادشاہوں کے عتاب کا شکار بھی ہونا پڑتا تھا۔ 
    ذرا غور کریں کہ اگر قیادت و سربراہی کا وہی مفہوم آج بھی لیاجاتا جوپہلے سمجھا جاتا تھا اور جواب دہی کا تصور نگاہوں کے سامنے ہوتا تو لازما قیادت کی جنگ کبھی نہ ہوتی اور ہم وہی دور دیکھتے جو خلافت راشدہ اور عمربن عبدالعزیز کا تھا۔ کاش ملت کے قائدین اس احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنا فریضہ انجام دیتے ۔تو ہم ہر گز یہ نہ کہتے ؂


مجھے رہ زنوں سے گلا نہیں تیری رہبری کا سوال ہے

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...