Thursday 8 September 2016

مریض اسپتال اور زندگی Hospital patients and life

مریض اسپتال اور زندگی

                                           محب اللہ قاسمی


یہ خیال عام ہے کہ دنیا فطرت کے مطابق چلتی ہے، اگر ہم اس سے اعراض کرتے ہوئے سہولت کی خاطر غیر فطری طریقے اختیار کرلیں تو اندیشہ ہے کہ مصیبت میں گرفتار ہوجائیںگے۔ موجودہ دور میں وقتی سہولت کو ترجیح دیتے ہوئے غیر فطری طریقہ کار اختیار کرنے سے لوگ بالکل پرہیز نہیں کرتے۔ مثلا اشیاء خورد ونوش میں قدرتی غذاؤں کے بجائے ، جنک فوڈ وغیرہ کا کوگ خوب استعمال کرتے ہیں، گھنٹوں ایک ہی سیٹ پر بیٹھے بس کام کیے جاتے ہیں، کبھی کبھی تو پہلو بھی نہیں بدل پاتے ،اس کے نتیجہ میں معدہ کی کمزوری اور اعضاء جسم کا منجمدہوجانا لازمی ہے۔

یہی حال علاج معالجہ کا ہے۔ پہلے علاج معالجہ اور دیگر انسانی ضرورتوں کی بنیادی اشیاء کس قدر عام اور بہ آسانی دستیاب تھیں ۔اس وجہ سے لوگوں کو علاج میں زیادہ پریشانی نہیں ہوتی تھی اور نہ قدم قدم پر بڑی رقم خرچ کرنے کی نوبت آتی تھی، جس کے سبب عام انسان کے لیے اپنا علاج کروانا اتنا مشکل نہیںتھا، جتنا کہ اب مشکل ہوگیا ہے۔

اس غیر فطری زندگی کی تیز رفتاری نے طرح طرح کی بیماریاںپیدا کردی ہیں۔ مثلاً ایک بخار جسے ڈینگوکا نام دیا جاتاہے۔ آج کل عام ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ مچھر کا کاٹنا ہے۔ عام اور غریب انسان، جسے اپنا نام سلیقہ سے یاد ہونہ ہو مگر اس بیماری کے نام سے وہ بہ خوبی واقف ہے۔اس کا طریقۂ علاج کیا ہے وہ بھی جان لیجئے ،سب سے پہلے مریض کواسے ڈینگوٹسٹ کروانا ہوگا،جس میں پلیٹ لیٹ ٹسٹ بھی شامل ہے۔ بیماری ہویا نہ ہو یہ ٹسٹ لازمی ہے، جس کی لاگت تقریباً دو ہزار سے ڈھائی ہزار تک ہے۔جیسا مریض ویسی قیمت ، اس کے بعد مسلسل دوتین بار پلیٹ لیٹ کی جانچ ضروری ہے،جس کا خرچ ہر بار تقریباً ڈیڑھ سوسے دوسوتک ہے۔

 اس کے بعد نمبر آتا ہے دواؤں کا ، کھانے کی خوراک اتنی ہویا نہ ہومگر دوائوںکی خوراک ہر وقت پابندی سے لینا ضروری ہے۔آپ چاہے بیس سے تیس روپے کاکھانا کھائیں مگر ایک وقت کی دوا کی قیمت تقریباً سوسے دوسوروپے ضرور ہوگی ،جسے آپ بادل نہ خواستہ لینے پر مجبور ہیں ۔ ارے بھائی انگریزی نام کا بخار ہے ، اتنی آسانی سے تھوڑا ہی جائے گا۔اس کے لیے پیسوں کوقربان ہونا ہی ہے۔

جناب ابھی ڈاکٹر کی فیس باقی ہے۔ تقریباً پانچ سو سے سات سوروپے تک !ارے بھائی اے سی کا نظم ہے ، اتنی بڑی بلڈنگ ہے ، لفٹ اور دیگر بہت سی سہولیات ہیں، کیا ہوا اگر آپ نے ان کا استعمال نہیں کیا مگر چارج تودینا ہی پڑے گا نہ۔

اب ڈاکٹر اور مریض کا رشتہ پہلے کی طرح محسن اور ممنون کا نہیں بلکہ ایک بکرے اورقصائی کا ہے ۔ پہلے علاج ہوتا تھا اب علاج بکتا ہے۔پہلے مریض کو جلد سے جلد رخصت دی جاتی تھی اور علاج کو لمبا کرنے سے گریز کیا جاتا تھا ، مگر اب مریض گویا ایک اے ٹی ایم کارڈ ہے لگاتے جاؤ ، پیسہ نکالتے جاؤ ۔ پھر اتنی جلدی اس پیسے فراہم کرنے والی مشین کو کیسے الوداع کہہ دیا جائے۔یہ تو ایک تجارت ہے جہاں انسان کی زندگی کی قیمت وصول کی جاتی ہے۔ خوف دلاکر یا پھر بیماری سے نجات کا دلاسا دے کر گو مریض کو مرنا پھر بھی ہے ۔ اپنی زندگی گزار کر یا اپنی صحت کے عوض ان کی من مانی قیمت چکاکر۔

پہلے طبیب نبض دیکھ کردرجہ حرارت بتادیا کرتے تھے۔ اب یہ کام مشین کرے گی، پہلے لوگ زبان اور مریض کی کیفیت دیکھ کر اس کا علاج کرتے تھے اب یہ کام جانچ کی مشین کرے گی ، تو بھائی اس کی قیمت بھی ہوگی۔ جب سب کام یہی مشین ہی انجام دے رہی ہے تو پھر ڈاکٹر کی ضرورت کیا ہے؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے ، اتنا بڑا اسپتال ہے ، جس کا ایک مستقل نام ہے۔ اس کی حیثیت کا سوال ہے۔ رہی بات فیس کی تو فیس اگر کم رکھی گئی تو اسپتال کی حیثیت مجروح ہوگی، ڈاکٹر س کی ضروریات زندگی میں فرق آئے گا، پھر آپ کا علاج کیسے ہوسکے گا؟

یہاں ٹھہر کر سوچیں تو یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ اگر یہی بات ہے تو لوگ کیوں نہیں سرکاری اسپتالوں میں چلے جاتے ہیں وہاں تو علاج مفت ہوتا ہے۔ بات درست ہے مگر وہاںآپ کو کوئی پوچھے گا بھی نہیں جب تک کوئی آپ کا جاننے والا نہ ہو۔ اسی طرح وہاں کی صورت حال ایک انار اور سوبیمار کی سی ہے۔ ایسے میں معمولی درجہ کا عقل رکھنے والا انسان بھی اپنی قیمتی زندگی کی بقا کے لیے کچھ تو کرے گا اور لازماً اسے ان ہی پرائیوٹ اسپتالوں میں آنا ہوگا۔ جہاں معمولی بیماری کوبھی ہمیشہ سیریس کیس مانا جاتاہے اور طریقہ ٔعلاج وہی گراں جس کا ذکر کیا گیا۔

اب بتائیے کہ یہ ہے نا غیرفطری اور غیر اصولی زندگی! جہاں سب کچھ مشین کرتی ہے اور انسان کی مجبوری اور اس کے جذبات کو کیش کیا جاتاہے۔پورا پیشہ ٔ طب تجارتی ہوکر رہ گیاہے۔ جہاں مریض گراہک ہے، ڈاکٹر سوداگر اور اسپتال گویا دکان ہے۔

مگر زندگی کا ایک تصور وہ بھی ہے جس میںانسان کو اس کی فطرت سے روشناس کرایا جاتا ہے اور انسانوں کا باہمی تعلق الفت و محبت کا ہوتاوہاںاس انسان کو بہترین انسان قرار دیاجاتاہے جس سے لوگ خیر کی امید کریں اور اس سے کسی قسم کے شرکا کوئی اندیشہ نہ ہو۔وہ دوسروں کا ہمدر د وخیر خواہ ہو۔یہ ہے اسلامی زندگی جس نے انسانوں کو حیوانیت سے نکال کر انسانیت کے بلند مقام پر رکھا ہے۔جس میں دھوکہ دینا حرام تصور کیا جاتاہے چہ جائے کہ کسی کوتکلیف اور نقصان میںمبتلا کیا جائے۔

اللہ نے انسان کو معزز مخلوق بنایا، اسے قابل قدر اور باعث احترام بتایا۔اللہ کا قانون اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اللہ زمین پر کسی انسان کو راہ چلتے ہوئے کانٹا چبھے ، اس لیے راستے سے تکلیف دہ چیزکو ہٹادینے کو بھی شریعت نے صدقہ قرار دیا۔ چہ جائے کہ انسان ایک دوسرے کو دھوکہ دے اور قتل وغارتگری کے درپے ہو۔اللہ انسانوں میں اچھے اوصاف کو پسند کرتا ہے اور صالحین کا تذکرہ فرشتوں کے درمیان کرتا ہے۔ہدایت الٰہی کے مزاج کا تقاضہ ہے کہ انسانوں کے اندر ہمدردی اور محبت کا جذبہ بھرپور اور نمایاں طور پر ہو ،تاکہ اللہ کی خاص رحمتیں ان پر نازل ہوں ۔ ایسے اوصاف کے حامل لوگوں کے تعلق سے اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:

الراحمون یرحمہم الرحمن ارحمومن فی الارض یرحمکم من فی السماء    (ترمذی)
رحم وکرم اوردرگذرکرنے والوںپررحمن رحم کرتاہے۔لہذاتم زمین والوںپررحم کرو، آسمان والاتم پررحم کرے گا۔

اس حقیقت کیکسی شاعر نے بڑی اچھی ترجمانی کی ہے:
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر

ہمدردی کیخوبی انسانوں کے درمیان باہمی الفت و محبت کو فروغ دیتی ہے۔ جب انسان کسی کے ساتھ ہمدردی کرتاہے اور اس کے دکھ درد کو اپنا درد سمجھتا ہے تو لوگوں پر اس کا غیرمعمولی اثر پڑتا ہے۔ وہ لوگوں کے دلوں پر راج کرتاہے جب کہ مادیت کے حصول میں پھنسا انسان لاکھ کچھ حاصل کرلے مگر اسے یہ دولت حاصل نہیں ہوتی۔

دوسری جگہ اللہ کے رسول ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
 ’’  لایرحم اللہ من لایرحم الناس‘‘ جولوگوںپررحم نہیںکرتاخدابھی اس پررحم نہیں کرتا ہے۔ (مسلم)

اسلام دھوکہ کو پسند نہیں کرتا اور اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی شخص لوگوں کے ساتھ ظلم وزیادتی کرے۔اسی لیے وہ اس شیطانی عمل سے باز رہنے کی تلقین کرتاہے ۔ اللہ کے رسول کا ایک واقعہ سبق آموز  ہے۔

 ایک مرتبہ آپ ﷺ بازار سے گزرے ،وہاں ایک شخص غلہ بیچ رہا تھا۔ آپ نے غلے میں ہاتھ ڈالا تواس کو بھیگا ہوا پایا۔ آپؐ نے دکاندار سے فرمایا:اے غلہ والے یہ کیا ماجراہے ؟ اس نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول ﷺ رات  بارش کی وجہ سے بھگ گیا تھا۔آپؐ نے فرمایا:تو تم نے  بھیگے ہوئے غلہ کو اوپر کیوں نہیں رکھا تاکہ لوگوں کونظر آتا۔ پھر آپ ؐ نے یہ ارشاد فرمایا:

جس نے دھوکہ  دیا وہ ہم میں سے نہیں ۔  (ترمذی(
جب انسان میں دھوکہ دہی کی عادت پڑجاتی ہے تووہ لوگوں میں معیوب اورناپسندیدہ تصور کیاجاتاہے ۔ لوگ اس سے دور رہنے لگتے ہیں اور اس سے انسیت میں کمی آجاتی ہے ، جب کہ انسان یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس سے محبت کریں اور اس سے میل جول اور ہمدردی بھی رکھیں۔

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے صاحب ایمان انسان کے ایک اچھے وصف ، کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
 المومن مالف ولا خیر فیمن لایالف ولایولف
مومن محبت اورالفت کاحامل ہوتاہے اوراس شخص میں کوئی خوبی اوربھلائی نہیں جونہ خودمحبت کرے اورنہ لوگوں کواس سے الفت ہو۔(مسند احمد،بیہقی شعب الایمان)

اگر انسان اسوۂ رسول ﷺ کو اپنائے اوراپنے خالق و مالک کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق زندگی گزارے تو پھر وہ کسی قسم کی پریشانی میں مبتلا نہیں ہوگا۔ طبیب بھی اپنی ذمہ داریاں بہ خوبی ادا کرے گا ، اس جھوٹی دنیاوی چمک دمک اور عیش پرستی کے حصول کومقصد نہیں بنائے گا۔ اس کے اندر یہ احساس بیدار ہوگا کہ وہ بھی ایک جسم رکھتا ہے، جس پر خود اس کا بھی کوئی اختیار نہیں ہے، وہ بھی  علاج کا محتاج ہوسکتا ہے یہ احساس ہو تو طبیب کومریض سے حاصل ہونے والے پیسے کی نہیں بلکہ اس کی جان کی فکر ہوگی ،دوسرں کے درد کو وہ اپنا درد تصور کرے گا اور مریض کے علاج کو گویا اپنا علاج مان کر پوری ہمدردی اور رعایت کے ساتھ اپنی خدمات انجام دے گا۔ اس طرح انسان کی زندگی کی قیمت بھیڑ بکریوںکی سی نہیں ہوگی بلکہ وہ انمول ہوگی،جسے بچانے کی بھرپور کوشش بھی کی جائے گی۔تب صرف طبیب ہی نہیں بلکہ ہر پیشہ سے وابستہ انسان اسلامی تعلیمات کو اپنا کر یقینا اپنے کام میں پوری ایمانداری کا ثبوت دے گا۔اس طرح صرف ڈاکٹر ،مریض اسپتال ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پرامن اور خوشحال معاشرے کی طرف لوٹ آئے گی۔     ٭٭٭

Friday 2 September 2016

Materialism: Major obstacle to peace and humanity مادہ پرستی ۔ امن و انسانیت کی راہ میں بڑی رکاوٹ


مادہ پرستی ۔ امن و انسانیت کی راہ میں بڑی رکاوٹ
                                                                                                                        محب اللہ قاسمی
آج کی تیز رفتار دنیا بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کے بلند مقام پرپہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ آرام وآسائش کی جدیدترسہولیات حاصل ہوگئی ہیں، انسان دنیا کو اپنی مٹھی میں کر نے اورچاندپر گھر بسانے کی سوچ رہاہے۔ لیکن دوسری طرف وہ امن و امان کا فقدان ہے۔ انسانیت دم توڑ رہی ہے۔انسان کا اخلاق و کرداراتنی پستی میں جاگرا ہے کہ اسے انسان کہنا گویالفظ انسان کی توہین ہے۔
 اگر ہم امن و امان اور انسانیت کی راہ میں کسی بڑی رکاوٹ کا ذکر کریں تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انسان خدا ترس ہونے کے بجائے مادہ پرست ہوگیاہے۔

مال ودولت کا حصول اور مادہ پرستی، دو الگ الگ چیزہے۔ مال جو انسان کی ضرورت ہے ۔ کائنات اور اس کی تمام چیزیں انسانوں کی سہولت اور ان کی ضرورت کی خاطر پیداکی گئی ہیں مگر خود انسان اپنے مالک کی عبادت اور اس کی طاعت کے لیے پیدا کیاگیاہے۔ اس طرح مال کا حصول اس کی ضرورت ہے مگر مادہ پرستی اللہ کی عبادت و اطاعت کے خلاف ہے ۔اس صورت میں انسان اپنے خالق و مالک کی مرضی کو بھول کر وہ تمام کام کرتا ہے جو خود اس کے لیے بھی نقصاندہ اور امن عالم کے لیے خطرناک ہیں ۔ اس کو اس مثال کے ذریعے بہت آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ کشتی خشکی میں توچلتی نہیں ،اسے پانی پر ہی چلایاجاتا ہے لیکن اگر کشتی میں پانی لبالب بھر جائے تو یہی پانی اس کشتی کو غرقاب کردیتا ہے۔

مادہ پرستی وہ مہلک مرض ہے جو انسانی اخلاق و کردار اور سماج کو متاثر کرتا ہے،پھر یہی بد اخلاق و بد کردار شخص رفتہ رفتہ الحاد کی طرف چلا جاتاہے اور اس کی عاقبت توخراب ہوتی ہی اس کا رویہ بھی سماج میں بے چینی اور فساد کا سبب بن جاتا ہے ۔وہ دنیا میں اپنی آرام و اسائش کے لیے وہ تمام کام کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے ، جو انسان کو ذلیل و رسوا کرتا ہے اور معاشرہ میں بدامنی پھیلنے لگتی ہے۔ اللہ تعالی نے اس سے انسان کو متنبہ کیا ہے مادہ اور مادہ پرستی کو اسباب فریب قراردیتے ہوئے اس سے بچنے کی تاکید کی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
’’لوگوں کے لیے مرغوبات نفس، عورتیں، اولا د، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی او ر زرعی زمینیں بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے وہ تو اللہ کے پاس ہے۔‘‘(آل عمران:14(

مادہ پرستی نے انسان کے انسانیت کوبری طرح متاثرکیا ہے ،جس سے پورا معاشرہ فساد و بگاڑ کی آماج گاہ بن گیاہے۔انسان ہر چیز میں مادی مفاد کو سامنے رکھ کر اس کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ مادہ پرست انسان مادی ترقی، مال و زر اور اسباب کی کثرت کو زندگی کا معراج تصورکرتا ہے۔ اگر چہ وہ خدائی ضابطوں،انسانی رشتوں اور اخلاقی قدروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔چنانچہ انسانی زندگی میں توازن ، اعتدال اور ہم آہنگی قائم رکھنا دشوار ہورہاہے۔
کہا جاتا ہے کہ اگرعلم عام ہوجائے ،لوگ زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ ہوجائیں تو سماجی زندگی بہترہوجائے ۔مگریہ بات حقیقت سے پرے معلوم ہوتی ہے ۔اس دورمیں علم پہلے کے مقابلہ میں زیادہ عام ہے ۔ تعلیم کا گراف بڑھ رہاہے۔مگر اخلاق و کردار کا گراف نیچے جارہاہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ یہاں اخلاقی تعلیم پرکم مادہ پرستی اور مادی تعلیم پر زیادہ زور دیاجارہاہے۔گویا تعلیمی مراکز انسانوں کو مشین بنانے کی فیکٹریاں ہیں،جہاں انسانی جذبات نہیں ہوتے بلکہ مادیت اور ان میں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے گرسکھائے جاتے ہیں۔ علامہ اقبال ؒ نے مادہ پرستی کے غلبے کو دیکھتے ہوئے اس کی خامی کو کچھ اس طرح پیش کیاہے ؂

یورپ میں بہت، روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات

معاشرے میں جھوٹ،رشوت ،دھوکہ دھڑی ، لوٹ کھسوٹ اورحقوق کی پامالی اسی مادہ پرستی کے کرشمے ہیں۔ کل تک لوگ غریبوں کی مدد کے لیے آگے آتے تھے، ان کی ضروریات کی تکمیل کوانسانی فریضہ سمجھتے تھے،غریبوں کوکھانا دینے کے بعدہی کھاتے تھے۔ہر کس و ناکس سے گفتگو کے دوران نرم لہجہ اختیار کرتے تھے۔اس سے ان کے اخلاق کی بلندی کا اظہار ہوتا تھا، مگر اب عالم یہ ہے کہ لوگ غریبوں کا استحصال کرتے ہیں۔مزدوروں کا خون چوس لینے کے بعد بھی ان کوپوری مزدوری نہیں دیتے۔گفتگو کے دوران ایسا سخت لہجہ استعمال کرتے ہیں کہ بسا اوقات معاملہ لڑائی تک جاپہنچتا ہے ۔ رشتہ داری نبھانا تو درکنار اپنے والدین پر خرچ کرنے کو بھی اپنامادی نقصان تصور کرنے لگتے ہیں ، اولاد ہوتے ہوئے بھی والدین بے سہاراہوتے ہیں۔جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات ہے کہ گفتگو میں نرمی رکھی جائے، مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ہی مزدوری دی جائے ،کسی پر ظلم نہ کیاجائے، کسی کے ساتھ دھوکہ نہ کیاجائے۔والدین کے ساتھ حسن سلوک کیاجائے ۔ یہ وہ ا خلاقی تعلیمات ہیں، جنھیں رسول اللہ ؐ نے ایمان کا حصہ قرار دیاہے۔

مادہ پرستی نے انسانوں کو خونخوار حیوان بنادیا ہے ۔ بچوں کا اغواکرنا ، اس کے عوض ان کے والدین سے کثیر رقم کا مطالبہ کرنا ، ان کے ہاتھ پیر کاٹ کران سے بھیک مانگوانا۔ یہ سارے کام مال و دولت کے حصول اور مادہ پرستی کے جذبے سے ہی انجام دیے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر ی کی تعلیم حاصل کرنے کا مقصدعام لوگوں کو علاج معالجہ کے ذریعہ امراض سے شفایاب کرنا ہے،مگر مادہ پرستی نے ڈاکٹروں پر بھی ایسا جادو کیا ہے کہ وہ اپنے مقصد کو بھول جاتے ہیں اور مریضوں کے ساتھ ایک جلاد کی طرح معاملہ کرتے ہیں۔وہ نہ صرف یہ کہ علاج کے نام پر ان کے خون پسینے کی کمائی کو چوس لتے ہیں، بلکہ بسا اوقات ان کا غیرضروری آپریشن کرکے ان کے گردے تک نکال لیتے ہیں۔

مادہ پرستی نے خواتین کو بھی اپنے جھانسے میں لے لیاہے اور انھیں مستقبل کے سبزباغ دکھاکر سماج میں ذلیل اور رسوا کیاہے،اس بنا پرازدواجی زندگی تلخ ہورہی ہے۔مغرب کے تیار کردہ آزادی نسواں اور مساوات کے پر فریب جال میں پھنس کرعورتیں سرِراہ اپنے جسموں کی نمائش کرتی پھرتی ہیں۔معمولی معمولی چیز وں پر ان کی فحش تصاویراس بات کا بین ثبوت ہیں۔ بڑے بڑے ہوٹلوں میں چند ٹکوں کے عوض ان کی عزت و آبروسے کھلواڑ کیاجاتاہے۔

مادیت کے غلبے نے انسان کو اندھا ،گونگا ،بہرہ بنادیاہے۔ آنکھوں کو خیرہ کردینے والی مرغوباتِ دنیا نے مادیت پرستی میں ایسا اضافہ کیا ہے کہ انسان اپنا چین و سکون کھوبیٹھا ہے،اس کے پاس نہ وقت ہے اورنہ سوچنے کے لیے خالی دماغ !معیار زندگی کو بلند سے بلند کرنے کے خیال نے اسے بے حال اورپرملال کردیاہے۔اسے غم ہے توصرف اس بات کا کہ وہ دوسروں کی طرح امیرکیوں نہیں ہے؟ جب کہ وہ بھول گیا ہے کہ اس کائنات کے خالق کی ہر وقت اس پر نگاہ ہے۔اگرانسان یہ سمجھتاہے کہ مال وزر کی کثرت اسے معاشرے میں باوقار بنائے گی اور اس سے وہ ہر طرح کی راحت و اطمینان کو خرید سکتا ہے تو ؂      ایں خیال وہم و گمان است

آج اگر انسانوں کو امن و سکون و اطمینان نصیب ہوسکتا ہے تو وہ مال و دولت کے ڈھیر اکٹھا کرکے اور مادیت میں غرق ہوکر نہیں، بلکہ اپنے اخلاق وکردار کو سنوار کر اور دوسرے انسانوں کے حقوق اداکرکے  ہی وہ اس سے بہرہ ور ہوسکتے ہیں۔تبھی امن و انسانیت کا فروغ ہوگا۔

Mohibbullah Qasmi
D-319, Abul Fazl Enclve, Jamia Nagar New Delhi-110025
Mob-9311523016


Saturday 27 August 2016

امن و انسانیت معاشرے کی بنیادی ضرورت Peace and Human the basic requirement for society

امن و انسانیت معاشرے کی بنیادی ضرورت



      ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے کہ وہ جس معاشرے میںرہ رہا ہے ، اس میں اسے سماجی برابری کا درجہ حاصل ہو۔وہ اونچ نیچ، ظلم و استحصال اور ہر طرح کے خطرہ سے آزاد رہ کرامن و سکون کے ساتھ زندگی گزار سکے۔اسے ناحق قتل کیاجائے نہ بے بنیاد الزام کے تحت سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے ۔

      اپنے اس حق کے حصول اور اس کی حفاظت کے لیے وہ کوشش بھی کرتا ہے۔ چنانچہ وہ حق کی حمایت میں اور ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتا ہے ۔ وہ اس بات کی قطعاً پروا نہیں کرتا کہ ظلم کس پر ہو رہا ہے؟ اس کی زد میں اس کا سگا بھائی ہے یا کوئی اور! اس کے مذہب سے تعلق رکھتا ہے یا نہیں!!اسے صرف یہ خیال ستاتا ہے کہ ظلم انسان پر ہورہا ہے، خون ایک بے قصور انسان کا بہ رہا ہے۔ جو اسی کی طرح دنیا میں چلتا پھرتا اور آدم کی اولاد ہے۔


      انسانوں پر ظلم ہوتا دیکھ  کر تڑپ اٹھنا انسان کا وہ جذبہ ہے جو انسانیت کی روح ہے۔ یہ جذبہ جو اسے دوسری مخلوقات سے افضل بناتا ہے۔ انسان اپنے اندر ایک حساس دل رکھتا ہے جو عدل کی حمایت میں کسی ظالم قوت کی پروا نہیں کرتا۔ اگر یہ جذبہ عام انسانوں کے اندر کارفرما نہ ہو تو پھر پوری دنیا تباہ و بربادہ ہوجائے گی۔ ہر طرف ظلم وستم کا ہی بول بالا ہوگا ۔ روشنی قید کرلی جائے گی اور چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوگا، جس میں کوئی بھی جی نہیں سکتا ،حتی کہ ظالم بھی نہیں ، کیوں کہ ظلم آخر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو ختم ہوجاتاہے۔اس صورت میں ظالم کوظلم توبہ کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ جب تک کہ ایک انسان اس ظالم کوحیوانیت سے نکال کر انسانیت کی طرف لانے کے لیے سعی و جہد کرتا ہے ،جو انس و محبت کا تقاضا ہے۔ اس لیے اسلام نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

      اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ۔ایک شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہؐ ! میں مظلوم کی مددتو کرتا ہوں۔ لیکن ظالم کی مدد کس طرح کروں؟ آپؐ نے فرمایا کہ ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو۔ یہی اس کی مدد ہے۔(بخاری،کتاب المظالم والغضب)

      جس دور میں ہم جی رہے ہیں اس میں ماحول حددرجہ خراب ہوتا جارہاہے۔ہم دنیا پر ایک نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ آج پوری دنیا میں انسانیت سسک سسک کر دم توڑرہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انسان کو دنیا میں اس بنیادی ضرورت سے محروم کیا جارہاہے۔اس سے دنیا میں جینے کا حق چھینا جارہاہے۔ بے گناہوں، معصوم بچوں کا خون پانی کی طرح بہایاجارہاہے۔غیرت مندماؤں اور بہنوں کی عزت تارتار کی جارہی ہے۔


      اس کے بعد جب ہم اپنے پیارے وطن کا جائزہ لیتے ہیں۔تو یہاں بھی پچھلے چند سالوں میں ہمیں قریب قریب وہی منظر دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ذات پات،اونچ نیچ کا فرق ، جس کے نتیجے میں ہونے والی خود کشی،بے جا گرفتاریاں، خوں ریزی بڑھتی جارہی ہے۔ یہاں کا باشندہ ہوتے ہوئے بھی غیر محفوظ ہونے کا ڈر لوگوں کے دلوں میں سمارہا ہے۔ اس سے اس کے وجود کی سند مانگی جاتی ہے۔ پتہ نہیں، کون کس وقت دروازے پر دستک دے اور دروازہ کھلتے ہی اسے دبوچ لیاجائے ، بے بنیاد الزام کے تحت مدتوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے اذیت ناک سزابھگتنے کے لیے ڈال دیا جائے۔ پھر کئی سالوں کے بعد عدالت سے باعزت بری ہونے کا اعلان کیا جائے۔


      ایسے میں بنیادی حقوق کی بات کرنے والے،امن وامان کے خواہاں لوگوں اور عدل و انصاف کے علمبرداروں کو بھی ان ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گویا اجالوں سے کہا جارہاہو کہ تمہاری ہمت کیسے ہوئی پاؤں پسارنے کی۔ تمھیں دکھتا نہیں کہ ابھی چاروں طرف اندھیروں کا قبضہ ہے۔ ایسے میں تو اپنی ٹمٹاتی روشنی سے کیا کرے گا ، پھر یا تو یہ روشنی بجھادی جاتی ہے ، یا ٹمٹماتا ہواچراغ بے یار و مدد گار خود ہی دم توڑ دیتا ہے۔ مگر اندھیروں کو پتہ نہیں کہ یہ ہلکی سی روشنی اور دم توڑتا ہوا چراغ اپنے حوصلوں سے ان بے شمار جگنؤوں میں قوت بھر رہا ہے، پھر وہ تمام بے تاب ہو کر ایک ساتھ جگمگانے لگیں گے۔ آخر میں یہ کالی رات اور اندھیروں کا سایہ دھیرے دھرے فنا ہوجائے گا۔


      مگر ساتھ ہی اندیشہ اس بات کا بھی ہے کہ وہ تعیش پسند انسان جس کے اندر نہ حس ہے نہ وہ انسانی جذبات سے سرشارہے کہ قربانی دے، اگر تھوڑی بہت ہمت جٹا بھی لے تو خوفناک انجام اس کے سامنے ویڈیو کی طرح گھومتارہتا ہے۔ چنانچہ وہ اس میں خود کو جھونک دینے سے کتراتا ہے اور یہی ڈر اور خوف ظالم اندھیروں کو اپنا سایہ پھیلانے میں کامیاب ہوجاتاہے، پھرانسانوں کی بستی میں حیوانیت اور درندگی کاکھیل شروع ہوجاتاہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ انگریزوں سے آزادی کے بعد اپنوں کی غلامی میں جینا ہوگا؟کیااب امن قائم نہ ہوگااور یہ خوف یوں ہی برقرار رہے گا اور خونی کھیل یوں ہی جاری رہے گا۔ جس کی لپیٹ میں وہ معصوم اوربے قصور انسان ہیں، جو عدل وانصاف اور اس روشنی کے خواہاں ہیںجو اندھیروں کا پردہ چاک کردے۔اس لیے انسانیت کے اس پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے،جس کاانسان کے خالق و مالک نے قرآن کریم میں اعلان کیا ہے:


’’جس نے کسی انسان کوخون کے بدلے یا زمین میں فسادپھیلانے کے سواکسی اوروجہ سے قتل کیا اس نے گویاتمام انسانوںکا قتل کردیا اورجس نے کسی کوزندگی بخشی اس نے گویاتمام انسانوںکو زندگی بخش دی۔‘‘(مائدۃ: 32)


اگر لوگ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے ،وہ خوف کے سائے میںروشنی کے بجائے اندھیرں میں بھٹکتے رہے۔تو انسانیت کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔اندھیروں کے پرستارتوپوری قوت سے انھیں اجالا ثابت کرکے لوگوں کو مصیبت میں رکھنا چاہتے ہیں۔ ان سے نبردآزما ہونا ، انصاف کی اس لڑائی کو جاری رکھنے، ان کے مکر وفریب اور پروپگنڈے کو ختم کرنے کے لیے بے حد ضروری ہے۔ ساتھ ہی ان جگنؤوں کو بلا خوف و خطر ایک ساتھ جگمگانا ہوگا، تاکہ وہ سب مل کر ایک خورشید مبین بن جائیں ، اندھیرے خود ہی دم توڑ دیںاور امن کا پرندہ قید سے آزاد ہو۔


ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے

Saturday 20 August 2016

امن وانسانیت کا قیام اور اسلامی تعلیمات Peace & Humanity in ISLAM

امن وانسانیت کا قیام اور اسلامی تعلیمات
محب اللہ قاسمی                                                                                         

لفظ ’امن ‘خوف کی ضدہے۔ یہ عربی زبان کا لفظ ہے ،لیکن اس کا استعمال اردوہندی زبان میں یکساں طورپر ہوتا ہے۔ اس میں چین، اطمینان، سکون و آرام کے علاوہ صلح وآشتی اور پناہ کے معنی بھی پائے جاتے ہیں۔امن معاشرے کی ایک اہم ضرورت ہے۔ اس کے بغیر انسان اور درندہ میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔ معاشرہ کی تعمیروترقی کے لیے امن کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ چنانچہ روزاول سے ہی یہ ایک اہم مسئلہ رہاہے اورآج کے پرفتن دورمیںیہ مزید اہمیت کا حامل ہوگیا ہے۔ حضرت آدمؑ سے لے حضرت محمدﷺ تک جتنے بھی انبیاء اس دنیامیں تشریف لائے، انھوںنے امن وامان کی بحالی، ظلم و ناانصافی کا خاتمہ اورحقوق کی ادائیگی کو اہمیت دی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑاوران کے فرزندحضرت اسماعیل ؑ جب خانہ کعبہ کی تعمیرمیں لگے ہوئے تھے ، اس وقت انھوںنے شہر مکہ کے لیے یہ دعا فرمائی تھی :

رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًااے میرے پروردگاراس شہر(مکہ)کو جائے امن بنادیجئے۔ (ابراہیم:۳۵)

 
اگرموجودہ دور کا جائزہ لیاجائے تو تعصب، ذاتی منفعت کے بے جاحصول اور فرقہ پرستی نے ایسا ماحول بنادیاہے کہ ظلم کوظلم نہیں سمجھا جاتا۔ دن دھاڑے بستیاں جلادی جاتی ہیں۔ عبادت گاہیں منہدم کردی جاتی ہیں۔بے قصور لوگ قصوروار قرار دیے جاتے ہیںاورناکردہ جرم کی پاداش میںانھیں انسانیت سوز تکالیف کا سامناکرنا پڑتا ہے،انصاف کی عدالت سے جب تک ان کے بے گناہ ہونے کا فیصلہ صادر ہوتا ہے تب تک ان میںسے کچھ اپنی نصف عمراندھیری کو ٹھری میں گزار چکے ہوتے ہیں جب کہ کچھ انصاف کی امید میں اس جہاں کوہی الوداع کہہ جاتے ہیں۔
 انسانی زندگی امن وطمینان کی خواہاں ہوتی ہے، اس لیے ہرمذہب میں امن واطمینان عدل وانصاف اورسلامتی کو نمایاںمقام حاصل ہے۔امن کا پیغام دینے والا مذہب ’’دین اسلام‘‘ جس کے بارے مخالفین نے عام لوگوں کے درمیان غلط پروپگنڈا کررکھا ہے اوراسے دہشت اور وحشت کا معنی بنادیا ہے۔ مگر تاریخ  اس پر گواہ ہے اور اس سے واقفیت رکھنے والے حق پسند حضرات، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام درحقیقت انسان کوامن وسلامتی کاپیغام دیتا ہے۔ جس کی تعمیرآپسی محبت اورباہمی مساوات سے ہوتی ہے۔ اسلام سے قبل سرزمین عرب کی تاریخ پر نظرڈالی جائے تومعلوم ہوگا کہ عرب قوم ایسی ظالمانہ ، وحشیانہ اورجابرانہ تھی کہ معمولی سی بات پر دوقبیلے صدیوں تک آپسی جنگ جاری رکھتے اور انتقام کی آگ میں جھلستے رہتے تھے خواہ اس کے لیے سینکروں جانیں لینی یادینی پڑیں ،مگرانھیں اس کی کوئی پرواہ نہ ہوتی تھی۔ گویا انتقام کے لئے انسانی جان کی کوئی قیمت اوروقعت نہ تھی۔ تعصب کا حال یہ تھا کہ ہرامیر غریب کو ستاتا اور طاقتور کمزوروں پرظلم ڈھاتا تھا۔ لوگوں نے اپنی تخلیق کا مقصد بھلا دیاتھااورخودتراشیدہ بتوںکواپنا معبود حقیقی سمجھ کران کی پرشتس کرناان کامعمول اور خود ساختہ راہ اختیارکرتے ہوئے فساد و بگاڑ پیدا کرنا ان کا شیوہ بن چکاتھا۔اس کے نتیجے میں ظلم وزیادتی،قتل وغارتگری،چوری وبدکاری اور بداخلاقی کابازارگرم ہوگیاتھا۔ معاشرتی زندگی تباہ و بربادہوچکی تھی اورامن و امان پوری طرح پامال ہو چکا تھا۔ ایسے پرخطرحالات میں جب انسانیت دم توڑرہی تھی ’’اسلام‘‘نے آپسی محبت کاپیغام سناتے ہوئے انسانی جان کی قدروقیمت بتائی اور بدامنی کے ماحول پر روک لگادی۔ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢابِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا  ۭوَمَنْ اَحْيَاهَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا  ۭ’’جس نے کسی انسان کوخون کے بدلے یا زمین میں فسادپھیلانے کے سواکسی اوروجہ سے قتل کیا اس نے گویاتمام انسانوںکا قتل کردیا اورجس نے کسی کوزندگی بخشی اس نے گویاتمام انسانوںکو زندگی بخش دی۔‘‘(مائدۃ: 32)


 اسلام کی نظر میںناحق کسی ایک آدمی کاقتل گویا پوری انسانیت کا قتل ہے۔ اسلام کسی ایک فردکا قتل تودرکنار اس کی ایذاررسانی کوبھی پسند نہیں کرتا۔اللہ کے رسول ﷺکا ارشادہے۔وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ  قِيلَ: وَمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟  قَالَ:   الَّذِي لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَايِقَهُبخدا وہ مومن نہیں بخداوہ مومن نہیں ،بخداوہ مومن نہیں۔ دریافت کیا گیا، کون اے اللہ کے رسول ! آپ ؐ نے فرمایاوہ جس کا پڑوسی اس کے ظلم وستم سے محفوظ نہ ہو۔ (بخاری5584)
 افراد کے یکجا رہنے سے معاشرے کی تعمیر ہوتی ہے ، جہاں لوگ آباد ہوتے ہیں وہاں پڑوسیوں کا ہونا لازمی ہے۔ ان کا باہمی میل جول رکھنا اور آپس میں ایک دوسرے اذیت نہ پہنچانا ہی قیام امن ہے۔ اسی لیے پڑوسی پرظم کرنا اسلام کی علامت نہیں ہے خواہ وہ پڑوسی کسی بھی مذہب کا ماننے والاہو،وہ انسان ہے اس لئے ان سے محبت اورحسن سلوک کرنا چاہئے۔اسلام نے ایسے شخص کوبدترین انسان قراردیاہے جس سے نہ خیرکی توقع ہواورنہ لوگ اس کے شرسے محفوظ رہے۔نبی کریم ﷺ کا ارشادہے:
 وَشَرُّكُمْ مَنْ لَا يُرْجَى خَيْرُهُ وَلَا يُؤْمَنُ شَرُّهُ’’تم میں بدترین شخص وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں کونہ خیرکی امیدہو نہ اس کے شرسے لوگ محفوظ ہوں‘‘(ترمذی باب الفتن:2194)

 ایک دوسرے سے نفرت کے بجائے محبت کا شوق دلاتے ہوئے اسلام کہتاہے ’’  لایرحمہ اللہ من لایرحم الناس‘‘ (جولوگوںپررحم نہیںکرتاخدابھی اس پررحم نہیں کرتا ہے)۔ دوسری جگہ ارشاد ہے:
الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمُ الرَّحْمَنُ، ارْحَمُوا مَنْ فِي الْأَرْضِ يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِرحم وکرم اوردوگذرکرنے والوںپرخدابھی رحم کرتاہے۔لہذاتم زمین والوںپررحم کرو، آسمان والاتم پررحم کرے گا۔    (ترمذی:1843)
 پیغمبرامن ﷺ کی سیرت نبوت سے قبل بھی اتنی ہی شاہکارتھی جتنی کہ نبوت کے بعد تھی۔ آپ ﷺ امن کے لیے ہمیشہ کوشاں دکھائی دیتے تھے۔ حلف الفضول کا واقعہ اس کا شاہد ہے ۔جب دنیائے عرب میں حق تلفی ،بدامنی اورفسادکا ماحول تیزہوگیاتھا۔ایسے حالات میں مظلوم و بے بس لوگوںکی فریادسنی گئی اور ایک تاریخی منشور لانے کے لیے قریش کے چند قبائل نے اقدام کیا،جس کا نام’حلف الفضول ‘ ہے۔ جوقیام امن ،بنیادی انسانی حقوق اوربے بسوں کی دادرسی کا تاریخ ساز معاہدہ قرارپایا۔نبیؐ اس معاہدہ کے ایک اہم رکن تھے۔ اس معاہدہ کے لیے آپ نے عین شباب میں بھرپور تعاون اورمؤثر کردار ادا کیا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ آپؐ نے دور نبوت میں ایک موقع پر ارشادفرمایا:
’’اس معاہدہ کے مقابلہ میں اگرمجھے سرخ اونٹ بھی دیے جاتے تومیں نہ لیتا اورآج بھی ایسے معاہدے کے لیے کوئی بلائے تو میں شرکت کے لیے تیار ہوں۔‘‘
 بعثت سے پانچ سال قبل جب قریش نے خانہ کعبہ کی تعمیرنو کا ارادہ کیاجب حجراسودکو اس کی جگہ رکھنے کی نوبت آئی تو قبائل کے مابین خانہ جنگی شروع ہوگئی ۔ حتی کہ لوگ خون بھرے برتن میں ہاتھ ڈبوڈبوکر مرنے اورمارنے کی قسم کھانے لگے۔ کئی روز گزرجانے کے بعد یہ طے ہوا کہ کل صبح جو شخص سب سے پہلے مسجد حرام کے دروازے سے داخل ہواسی کو اپنا حکم بناکر فیصلہ کرالو۔سب اس رائے پر متفق ہوگئے۔ صبح ہوئی اورتمام لوگ جب حرم میں پہنچے تو دیکھا کہ سب سے پہلے آنیوالے محمد ﷺ ہیں۔آپ کو دیکھ کر تمام لوگ بے ساختہ پکار اٹھے:
هذا الأمين، رضيناه، هذا محمد

یہ تومحمد ہیں جوامانت دار ہیں ہم انھیںحکم بنانے کو تیار ہیں۔(الرحیق المختوم،ص:79)
آپ نے ایک چادرمنگائی اور حجراسود کو اس میں رکھ کر فرمایاکہ ہرقبیلہ کا سرداراس چادر کو تھام لے تاکہ اس شرف سے کوئی قبیلہ محروم نہ رہے ۔ اس فیصلہ کو سب نے پسند کیا۔ سب نے مل کر چادر اٹھائی۔اس طرح امن کے علمبردار نے بڑی حکمت سے کام لیا اورآپ کے اس فیصلے پر صلح کے ساتھ ایک بڑے فساد کو خاتمہ ہوا۔ (سیرۃ المصطفی ص:۱۱۳)


 لفظ ’اسلام‘‘کا مادہ (س ل م) خودسلامتی اورحفاظت کا پتہ دیتاہے۔ اگر غور کریں تودنیا میں تین چیزیں ہی عدل وانصاف اورظلم و جور کا محور ہیں جان، مال اور آبرو۔یہ وہ چیزیں ہیں جن میں انصاف نہیں کیاجائے تویہ امن و سلامتی کو گزندپہنچاتی ہیں۔ اسی کے پیش نظر نبی کریم نے حجۃ الوداع کے طورپر جو تاریخ ساز خطبہ دیا تھا۔ اس میں ایک دفعہ یہ بھی تھی:


 " فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ بَيْنَكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا’’یقینا تمہارا خون،تمہارا مال اورتمہاری آبروآپس میں (تاقیامت)اسی طرح محترم ہے جس طرح یہ دن،اس مہینہ میں اوراس شہرمیں محترم ہے۔‘‘ (بخاری:66)


 محسن انسانیت پیغمبراسلام نے دشمنوںکے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کیا۔ایک مرتبہ ایک دشمن نے اچانک آپ کی تلوارلے لی اورکہنے لگا  ’’من یمنعک منی‘‘  (تمہیں مجھ سے کون بچاسکتاہے؟) آپ نے فرمایا ’’اللہ‘‘یہ سنتے ہی تلواراس کے ہاتھ سے گرگئی آپ نے تلواراپنے قبضے میں لے لی مگراسے معاف کردیا اور اس سے درگزرکیا۔فتح مکہ کے وقت آپؐ چاہتے توان لوگوں کا قتل کروادیتے ،جنھوںنے آپ سے دشمنی کی تھی ۔ مگرانسانیت کے تحفظ وبقا کے علمبردارحمۃ اللعالمین نے یہ فرمان جاری کیا  ’’اذہبوا انتم الطلقاء‘‘ جاتم سب آزادہو ۔یہ قیام امن کی بہترین مثال ہے۔ پامالی امن کے اسباب اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ فتنہ اور فساد کو جڑسے ہی ختم کردیتاہے ۔ظلم اورفساد کی جو بنیادہے کبر،گھمنڈ،خودغرضی،دورخاپن،غصہ ، حسد اورکینہ وغیرہ اسلام ان رذائل کو سخت ناپسندیدہ عمل قراردیتا ہے اور ان کے مرتکب شخص کی اصلاح بھی کرتاہے،تاکہ امن وامان کی اس فضا کو ان آلودگیوں سے پاک رکھا جاسکے۔ اسلام میں باہمی مساوات کی تعلیم انسان کے گھمنڈکوخاک میں ملادیتی ہے ۔ پھر کبر کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔اسلام کہتاہے کہ اس دنیا میںکسی کو کسی پر کوئی فضیلت اوربرتری نہیں ہے، ہرانسان آدم کی اولاد ہے، جس کواللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیداکیا۔ فتح مکہ کے موقع پرآپ نے ارشاد فرمایا :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَلَا إِنَّ رَبكُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَباكُمْ وَاحِدٌ، أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبيٍّ عَلَى أَعْجَمِيٍّ، وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبيٍّ، وَلَا لِأَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ، وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ، إِلَّا بالتَّقْوَى ’’اے لوگو! بلاشبہ تمہارارب ایک ہے اورتمہارباپ بھی ایک ہی ہے ،جان لوکہ کسی عربی کوکسی عجمی پراورنہ کسی عجمی کوکسی عربی پر،نہ کسی سرخ کوکسی سیاہ پر اورنہ کسی سیاہ کو کسی سرخ پرکوئی فضیلت اوربرتری حاصل ہے سوائے تقوی کے ‘‘(مسنداحمد:22871)

 رہی بات حسب ونسب اورخاندان کی تواس کامقصدصرف ایک دوسرے کاتعارف ہے۔ جسے خالق جہاںنے اپنے کلام پاک میں اس طرح بیان فرمایاہے ۔يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا  ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْاے لوگو!ہم نے تمہیںایک مرداورایک عورت سے پیداکیا۔(یعنی سب کی اصل ایک ہی ہے)اور تمہیں خاندانوں اورقبیلوںمیںبانٹ دیاتاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو،بے شک اللہ کے یہاں تم سب میں زیادہ عزت والا وہ ہے جوتم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والاہے۔(الحجرات:۱۳)

 اس کا مشاہدہ مسجدوں میںبخوبی کیاجاسکتاہے ،جہاں تمام افراد بلا امتیاز قد و قامت اور شان شوکت ،کندھے سے کندھا ملائے کھڑے نظرآتے ہیں۔ یہ خوبی بیان کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا تھا ؎
 
 یہ عادلانہ نظام پیغمبرآخرمحمدﷺکی جفاکشی اورصحابہ ٔ کرام ؓکی جاںفشانیوں کے نتیجہ میں قائم ہواتھا،اسے خلافت ِ راشدہ کا نام دیا جاتا ہے، جسے دوسرے لفظوں میں نوع انسانی کامحافظ ادارہ کہنا درست ہوگا۔موجودہ حالات جس طرح اسلام کوبدنام کرنے کی سازش کی جارہی ہے اس سے اہل اسلام کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے اورنہ ہی جذبات میں آکرکوئی غلط قدم اٹھانے کی۔ کیونکہ جس طرح نام بدل دینے سے شی کی حقیقت نہیں بدلاکرتی ٹھیک اسی طرح اسلام کو جوامن وسلامتی کا ضامن ہے، دہشت گردیا انسانیت دشمن قراردے کراس کی حقیقت کوبدلانہیں جاسکتا۔یہ تو دین ہدایت ہے جو انسان کو انسان کی طرح زندگی گزارنے کا طریقہ بتاتاہے اورقیام امن کے لیے آپسی محبت اور باہمی مساوات کا پیغام دیتاہے۔اس لیے ہم علم وعمل ، گفتار وکردار، نشست وبرخاست کومکمل طورپر اسلامی سانچے میں ڈھالیں اورامن و انسانیت کے دشمن، نفرت پھیلانے والے فاسد عناصر سے ہر ممکن مقابلہ کے لیے تیار رہے اور ان کے پروپگنڈہ کا حکمت ودانش مندی سے مثبت انداز میں دندان شکن جواب دیں، تاکہ ظلم کا خاتمہ ہو اور معاشرہ میں امن و انسانیت کی فضا ہموار ہو۔ و ما توفیق الا باللہ۔

  لہذانام ونسب اور خاندان کی وجہ سے کسی شخص کوکسی پرفخرکرنے کاکوئی حق نہیںاورنہ کسی کی تحقیروتذلیل کرنااس لئے رواہے۔یہی بات قرآن کریم کی درج ذیل آیت میں کہی گئی ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاۗءٌ مِّنْ نِّسَاۗءٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۚ وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ۭ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ ۚ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ’’اے ایمان والو!کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہو اورنہ ہی عورتیںدوسری عورتوںکامذاق اڑائیں ممکن ہے وہ ان سے بہترہوں اور نہ ایک دوسرے کوطعنہ دو اورایک دوسرے کوبرے لقب سے پکارو ،ایمان لانے کے بعد برا نام رکھناگناہ ہے  اور جو توبہ نہ کرے وہ ظالم ہے۔‘‘ (الحجرات:۱۱)

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و عیاضنہ   کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز 

ہاں!  اگرکسی شخص کو برتری چاہئے تویہ صرف تقوی کے ذریعے ہی حاصل ہوسکتی ہے اور تقوی کا مطلب ہے خداکاخوف پیش نظررکھنا اور اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا۔ امن وامان کی پامالی میںحب جاہ ومال کابھی بڑادخل ہے ۔ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ دنیاوی اعتبار سے خود کومالدارسمجھ کراپنے کو بڑاسمجھنے لگتے ہیں۔ اس کی ہوس میں اندھے،بہرے اورگونگے بن کر ایک گناہ کرتے چلے جاتے ہیں، جس سے ماحول پر بہت برا اثرپڑتاہے اورمعاشرہغیرمامون ہو کر تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتاہے۔ اگر مالداری قابل فخرہوتی توقارون سے زیادہ قابل فخرکوئی نہ ہوتا اورہمیشہ اس کا ذکر خیر ہوتا مگر ایسا نہیں ہے۔

انسانی زندگی کی کچھ قدریں ہوتی ہیں جن کی حفاظت نہایت ضروری ہے۔ اگر ان کی حفاظت نہ کی جائے توانسان ایک درندہ صفت حیوان بن جاتاہے ۔اسی کے پیش نظر اسلام نے ناحق قتل ،غارتگری،شراب خوری، فحاشی و زنا کاری، بداخلاقی وبدکاری سے منع کیاہے۔ تاکہ تمام انسان اس کائنات میں وہ امن وسکون کے ساتھ زندگی گزارسکیں۔ قیام امن کے لیے آخرت کی جوابدہی کو ایک خاص مقام حاصل ہے ۔ اسلام یہ تصور پیش کرتاہے کہ یہ دنیا فانی ہے،اسے ایک دن ختم ہوناہے ۔ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے ، جہاں خداکے حضورپیش ہو کر انسان کو اپنے عمل کا حساب دینا ہے۔ آخرت کی زندگی بہترہے جو ہمیشہ باقی رہے گی۔ (والآخرۃ خیروابقی)۔ عام انسان بھی اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ دنیا میں پیداہونے والا ہر انسان محض چند روزکی زندگی لے کر آیا ہے۔ اسے کچھ پتہ نہیں کہ اس کی سانس کب رک جائے گی اورکب وہ دنیاسے چلاجائے گا۔ اس لیے مسلمانوں ہی کا نہیں بلکہ پوری دنیاکا سب سے بڑامسئلہ یہ ہے کہ ایک ایسا نظام قائم ہوجس میں قیام امن کے لیے عدل و انصاف کواساسی مقام حاصل ہو جو ہرشخص کواس کا حق دے ، کسی کوکسی پر کسی طرح کا ظلم نہ کرنے دے ، امن واطمینان کا خوشگوار ماحول ہو۔

 یہ عادلانہ نظام پیغمبرآخرمحمدﷺکی جفاکشی اورصحابہ ٔ کرام ؓکی جاںفشانیوں کے نتیجہ میں قائم ہواتھا،اسے خلافت ِ راشدہ کا نام دیا جاتا ہے، جسے دوسرے لفظوں میں نوع انسانی کامحافظ ادارہ کہنا درست ہوگا۔موجودہ حالات جس طرح اسلام کوبدنام کرنے کی سازش کی جارہی ہے اس سے اہل اسلام کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے اورنہ ہی جذبات میں آکرکوئی غلط قدم اٹھانے کی۔ کیونکہ جس طرح نام بدل دینے سے شی کی حقیقت نہیں بدلاکرتی ٹھیک اسی طرح اسلام کو جوامن وسلامتی کا ضامن ہے، دہشت گردیا انسانیت دشمن قراردے کراس کی حقیقت کوبدلانہیں جاسکتا۔یہ تو دین ہدایت ہے جو انسان کو انسان کی طرح زندگی گزارنے کا طریقہ بتاتاہے اورقیام امن کے لیے آپسی محبت اور باہمی مساوات کا پیغام دیتاہے۔

اس لیے ہم علم وعمل ، گفتار وکردار، نشست وبرخاست کومکمل طورپر اسلامی سانچے میں ڈھالیں اورامن و انسانیت کے دشمن، نفرت پھیلانے والے فاسد عناصر سے ہر ممکن مقابلہ کے لیے تیار رہے اور ان کے پروپگنڈہ کا حکمت ودانش مندی سے مثبت انداز میں دندان شکن جواب دیں، تاکہ ظلم کا خاتمہ ہو اور معاشرہ میں امن و انسانیت کی فضا ہموار ہو۔ و ما توفیق الا باللہ۔

Tuesday 26 July 2016

تفریح طبع زدہ دلی کا نام ہے Zinda Dili


تفریح طبع زندہ دلی کے لیے ضروری

                                           محب اللہ قاسمی

بذلہ سنجی،خوش طبعی اورمزاح اگر دل آزاری کاسبب نہ بنے توےہ زندہ دلی کی علامت ہے ،جونہ صرف انسان کی پژمردگی کو دور کرتی ہے بلکہ معاشرتی ماحول کو خوش گوار بناتی ہے اور اجتماعی مقاصدکے حصول میں عام لوگوں کی صلاحیتوںکوپرکھنے اوران سے کام لےنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اسلام نے انسان کے فطری مزاج کا بھرپورخیال رکھا ہے،اسی لیے وہ اسے گوشہ نشین ہوجانی یا انسانوں کی آبادی سے دور جنگلوںمیں چلے جانے کا حکم نہیں دےتااور نہ خوش طبعی سے دوررہنے کی تلقین کرتا ہے۔ بلکہ کسی غم زدہ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنے پر ابھارتاہے۔ تاکہ معاشرہ کے افراد باہم ایک دوسرے سے مربوط ہوںاوران کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی ہو۔

مزاح اورخوش طبعی کی تعریف عام لفظوںمیں کی جائے تو اس کے معنی ہنسی مذاق کو کہتے ہیں۔ مگر اس کی شرعی حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے ، تعریف کی جائے تو مزاح ہر اس بات کو کہیں گے جوخوشی کا باعث ہو ،مگر وہ جھوٹی،پھوہڑپن پر دلالت کرنے والی اورغیر شرعی نہ ہو۔ اگر کوئی بات کسی کی دل آزاری کا باعث ہو تو اسے مزاح نہیں سخریہ یعنی مذاق اڑانا کہیں گے،جو حرام ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سےرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ آپ بارعب ہونے کے باجود مزاح فرمایاکرتے تھے اور صحابہ کرامؓ کو بھی اس کی اجازت تھی۔ سیرت کے بہت سے واقعات اس کے شاہد ہیں۔

ایک مرتبہ حضرت ام ایمن آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: یارسول اللہ مجھے ایک اونٹ عنایت فرمائیے کیوں کہ ہمارے پاس بار برداری کی لیے کوئی جانور نہیںہے۔“حضورﷺ نے فرمایا: میں آپ کو اونٹنی کا بچہ دوںگا۔ وہ کہنے لگیں:”یارسول اللہ میں اونٹنی کا بچہ لے کرکیا کروںگی“؟اس پر آپ نے فرمایا: ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہوتاہے۔ یہ سن کر پوری محفل زعفران زار ہوگئی۔
ایک مرتبہ ایک بوڑھی خاتون بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: ”یارسول اللہ ، دعا کردیجئے کہ میرا بھی داخلہ جنت میں ہو۔ “ ارشاد ہوا: کوئی بڑھیاجنت میں نہ جائے گی۔یہ سنتے ہی وہ خاتون رونے لگیں۔ حضور نے مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا:”کوئی عورت بڑھاپے کی حالت میں جنت میں نہیں جائی بلکہ جوان ہوکر جائے گی۔یہ سن کر وہ خاتون بے اختیار ہنسنے لگیں۔

ایک دفعہ ایک خاتون حضور کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی:یارسول اللہ ، میرا شوہر بیمار ہے، اس کی شفایابی کے لیے دعا فرمائیے۔“حضور نے فرمایا: تمہارا خاوند وہی ہی جس کی آنکھ میں سفیدی ہے؟وہ حیران ہوگئیں اور جاکر اپنے شوہر کی آنکھیںغور سی دیکھنے لگیں۔ خاوند نے کہا: کیا بات ہے؟ کہنے لگیں: حضور نی فرمایاہی کہ تمہارے خاوند کی آنکھ میں سفیدی ہے“وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے: ”کیا کوئی ایسا آدمی بھی ہے جس کی آنکھ میں سفیدی نہ ہو؟“اب وہ حضور کے لطیف مزاح کو سمجھیں جس کا مقصد ان کی بیمار شوہرکی پژمردگی کو دور کرنا تھا۔
خادم رسول اللہ حضرت انس بن مالک ؓ کی چھوٹے بھائی جن کانام ابوعمیر تھا۔ جب وہ بچے تھے تو انھوں نے اےک ممولا پال رکھا تھا۔ اتفاق سے وہ ممولا مرگیا۔ ابوعمیر کو سخت صدمہ پہنچا اوروہ بہت افسردہ ہوگئے۔ حضور نے انھیں اس حالت میں دیکھا تو فرمایا:
’’یا اباعمیر ما فعل النغیر
اے ابوعمیر تمہارے ممولے کو کیا ہوا؟ حضور کا ارشاد سن کرابو عمیر ہنسنے لگے۔

بسا اوقات یہ بذلہ سنجی اور حسن مزاح سی لوگوں میں حاضرجوابی پیدا ہوتی ہے اوران کے اندرچھپی صلاحیتیںنکھرتی ہیں۔اس کا نمونہ ہم صحابہ کرام ؓمیں بخوبی دیکھ سکتی ہیں۔

ایک مرتبہ سرکار دوعالم ﷺ چند صحابہ کرامؓ کے درمیان جلوہ افروز تھے اور سب مل کھجوریں تناول فرمارہے تھے۔ اتنے میں وہاں حضرت صہیبؓ آگئے۔ ان کی ایک آنکھ آئی ہوئی تھی اور انھوں نے اس پر پٹی باندھ رکھی تھی۔ اگرچہ آشوبِ چشم میں کھجور کھانا مضرہوتاہے، لیکن حضرت صہیبؓ اس وقت سخت بھوکے تھے۔ وہ آتے ہی کھجوروں پر ٹوٹ پڑے۔حضور نے فرمایا:سبحان اللہ، تمہاری آنکھ دکھ رہی ہی اور تم کھجوریں کھارہے ہو۔انھوں نے عرض کیا :یا رسول اللہ میں اس آنکھ سے کھارہا ہوں جو اچھی ہے۔ان کا جواب سن کر حضور اس قدر ہنسے کہ دندان مبارک کا نور ظاہر ہونے لگا۔

Mohibbullah Qasmi



Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...