Tuesday 2 July 2019

Rub ke taraf laut



رب کی طرف لوٹ

    زائرہ وسیم کوئی پہلی لڑکی نہیں جس کی روح نے اسے آواز دی ہو اور وہ پر فریب دنیا کی لذتوں اور بے حیائی کے تعفن زدہ ماحول کو اپنے مالک حقیقی سے تعلق جوڑنے کے لیے چھوڑنے کا فیصلہ لیا ہو اور اپنے اس فیصلے کو دنیا کے سامنے برجستہ پیش کرنے کے لیے واضح اور طویل تحریر لکھی ہو.

    بلکہ ہر وہ انسان جس کے ایمان کی حلاوت اس کے دل میں ہو اور اس کی لذت سے انسان آشنا ہو جائے تو اسے اطاعت ربانی کے سوا سب کچھ پھیکا نظر آتا ہے. پھر اسے گناہوں کی بستی میں گھٹن محسوس ہوتی ہے اور وہ بے حیائی کے ماحول میں جی نہیں. نور الہی اسے اندھیرے سے کھینچ کر واپس باحیا خوش گوار اور پاکیزہ زندگی کے ماحول میں لے آتا ہے.

    ایک مسلمان سے اس کا دین ایمان اور اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی کسی نہ کسی سبب چھین لی جائے جو اس کی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ پھر اس کی دولت، شہرت اور مرتبت اس کے کس کام کی۔

    یہی وجہ ہے کہ انسان خواہ ذلت و رسوائی کی پستی میں ہو یا پھر شہرت و مقبولیت کی بلندی پر، اگر وہ محسوس کرتا ہے کہ اپنے دین مذہب اور شریعت کے خلاف زندگی گزار کر جہنم کی طرف بھاگا چلا جا رہا ہے تو اس کا پاکیزہ نفس اسے ملامت کرتا ہے اور اس کی بے چین روح اسے واپس اپنے رب کی اطاعت کی طرف لے آتی ہے۔ گویا کوئی اس سے کہہ رہا ہو ففروا الی اللہ (دوڑو اپنے اللہ کی طرف).

    یہ عمل کبھی، کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ فطرت سلیمہ کا یہی تقاضا ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف پلٹے اور کائنات کے خالق و مالک کی مرضی کے مطابق اپنا مقصد حیات متعین کرکے دونوں جہاں میں کامیابی حاصل کرے۔

    خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے اندر یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے اور وہ دنیا کی پر فریب، عارضی چمک دمک اور اس کے کھوکھلے پن کو الوداع کہہ کر واپس اپنے رب کی طرف پلٹتے ہیں اور اس راہ حق میں پیش آنے والی تمام آزمائشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں.
ایسے لوگ جب اپنے رب کے حضور پیش ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس سے کہتا ہے.

’’اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ اس حال میں کہ تو اپنے رب سے راضی ہو۔ تو تو میرے بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔‘‘
(محب اللہ قاسمی)

Monday 1 July 2019

Chamanistan ko lyenchistan na banayen


چمنستان کو لنچستان نہ بنائیں
ہجومی دہشت گرد پیٹ پیٹ کر بے بس، بے قصور انسانوں کی جان لے رہے ہیں اور ایسے خونخوار مجرم آزاد گھوم رہے ہیں، انھیں سزا دینے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہو جس کے سبب یہ خونی کھیل مسلسل جاری ہے.

اگر یہی پالیسی ہے تو یہ کیسی پالیسی ہے؟ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ کیا ہمارا ملک انگریزوں سے اسی لیے آزاد ہوا تھا کہ اپنے لوگ اس پر ظلم ڈھائیں اور ان کی لنچنگ کریں۔ کیا ان باتوں سے دیش ترقی کر لے گا؟ کیا ان باتوں سے مہنگائی میں کمی آجائے گی؟ بے روزگاری ختم ہو جائے گی؟
یاد رکھیے! دیش کی ترقی عدل و انصاف اور ملک کے وکاس میں ہے، ان کا وناش کر کے قوم کا اعتماد اور وشواش کبھی حاصل نہیں کیا جا سکتا. بھلے ہی آپ ایوان میں اعتماد حاصل کر لیں. پر نہ بھولیں کہ عوام پارلمنٹ کا نمائندہ بنا کر اس لیے بھیجتی ہے کہ وہ اس کے ساتھ عدل و انصاف کرے اور ان کے لیے خوشحالی اور ترقی کےمواقع فراہم کرے اور کہیں کوئی ظلم و ستم کا بازار گرم ہو رہا ہے تو اس پر روک لگائے اور امن و محبت کا ماحول بنانے کی کوشش کرے. یہ نہیں کہ ملک کا امن و امان غارت ہو اور اسے لنچستان بنایا جائے اور یہ تماشائی بن کر مجرمانہ خاموشی اختیار کرے

ہندوستان میں امن و امان اور خوشحالی کی بحالی کےلیے نفرت کی اس سیاست کو ختم کرنا بے حد ضروری ہے۔ اس لیے ہم اپنے ملک کے تمام بھائیوں سے گزارش کرتے ہیں کہ پیار و محبت کی علامت کہا جانے والا تاج محل والے ملک اور چمنستان کو لنچستان نہ بنائیں۔

ملی قائدین و سیاسی و رہنما یہ بتائیں کہ بے چاری غریب عوام جو آپ کو اپنا لیڈر اور رہبر مان رہی ہے جب ان کی جان ہی سلامت نہ رہے تو آپ کن کی قیادت کریں گے؟ اور کن کے رہنما کہلائیں گے؟ قائدین ملت قیادت کی ذمہ داری کو بالائے طاق نہیں رکھ سکتے. ظلم و زیادتی کے سیلاب کو روکنے کے لیے ٹھوس قدم اٹھانا ہوگا ورنہ یہ سب کچھ بہا کر لے جائے گا. مظلوم کی ان سسکیوں میں جہاں ظالم کے خلاف بد دعائیں ہیں وہیں قائدین سے فریادیں اور آہیں بھی. انھیں محسوس کیجئے!
آئندہ کوئی ماب لنچنگ کا شکار نہ ہو اس کے لیے تیاری ہو صرف ڈرے سہمے رہنے سے کوئی فائدہ نہیں! یقینا مومن ظالم نہیں ہوتا مگر اس پر ظلم ہو یا کوئی اس پر ظلم کرے تو وہ اسے بے چارگی کے ساتھ بھی نہیں سہتا بلکہ مومن تو بہادر بے خوف زندگی جیتا ہے اور ظالموں کو ظلم سے روکتا ہے۔
اللہ تعالٰی مظلومین کی مدد فرمائے، قائدین کو احساس ذمہ داری دے اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچائے. آمین-
#mob_lynching
محب اللہ قاسمی


Saturday 18 May 2019

Hamdardi aur Muasat ka Mahina


ماہ رمضان: ہمدردی اور مواساۃ

آپ ؐ نے اس پورے مہینے کو ہمدردی و مواسات کا مہینہ قرار دیا ہے۔ جب انسان روزہ رکھتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ جو پورے سال بے سروسامانی کی وجہ سے بھوک پیاس کی شدت برداشت کرتے ہیں ان کا کیا حال ہوتا ہوگا۔اب جب کہ وہ بھی روزے کی حالت میں ہے تواللہ کے ان محتاج بندوں کی امداد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
یوں تو آپ ؐ بڑے فیاض اور سخی تھے مگررمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی آپ عطا، بخشش و سخاوت بہت بڑھ جاتی تھی، آپ ؐ ہر قیدی کو رمضان بھر کے لیے رہا کردیتے تاکہ وہ اس ماہ سے استفادہ کرے اور ہر سائل کو کچھ کچھ نہ کچھ دیتے خالی واپس نہیں کرتے تھے:
کان رسول اللہ ﷺ اذا دخل شھر رمضان اطلق کل اسیر وا عطی کل سائل (بیہقی فی شعب الایما ن)
’’رسول اللہ کا طریقہ تھا کہ جب رمضان آتا تھا تو آپ ؐ ہر اسیر (قیدی) کو رہا کردیتے تھے اور ہر سائل کو کچھ نہ کچھ دیتے تھے۔‘‘
آپ نے روزہ دار کے افطار کرانے پر زور دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا، أَوْ جَهَّزَ غَازِيًا فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ (بیہقی، محی السنۃ)
’’جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ کھلوائے یا کسی غازی کے لیےسامان جہاد فراہم کرکے دے تو اس کو ویسا ہی اجر ملےگا جیسا کہ اس روزہ دار کو روزہ رکھنے اور غازی کو جہاد کرنے کا ملے گا۔‘‘
اسی طرح آپﷺ کا مزید ارشاد ہے:
مَنْ فَطَّرَ فِيهِ صَائِمًا كَانَ لَهُ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِهِ وَعِتْقَ رَقَبَتِهِ مِنَ النَّارِ، وَكَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْتَقِصَ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ "، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَيْسَ كُلُّنَا نَجِدُ مَا نُفَطِّرُ بِهِ الصَّائِمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " يُعْطَى هَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَى مَذْقَةِ لَبَنٍ، أَوْ تَمْرَةٍ، أَوْ شَرْبَةٍ مِنْ مَاءٍ، وَمَنْ أَشْبَعَ صَائِمًا سَقَاهُ اللَّهُ مِنْ حَوْضِي شَرْبَةً لَا يَظْمَأُ حَتَّى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ (مشکوۃ)
’’جس نے ماہ رمضان میں کسی روزے دار کو افطار کرایا اس کے لیے اس کے گناہوں معافی اور جہنم سے چھٹکارا ہے اور اس کے لیے روزہ دار اس کے اجر میں کمی کے بغیرروزہ دار کے برابر ہی اجر ہوگا۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ہم میں تو ہر شخص روزہ افطار کرانے کی سکت نہیں رکھتا؟
آپؐ نے فرمایا: اسے بھی یہی اجر ملے گا روزے دارکودودھ کا گھونٹ پلائےیا ایک کھجورکے ذریعے افطار کرائےیاپانی کا گھونٹ پلاے اور جو روزہ دار کو سیراب کرے اللہ اسے میرے حوض سے ایسا گھونٹ پلائے گا کہ پھر وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا حتی کہ وہ جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔‘‘
آپ ؐ رمضان کے مہینے میں اپنے تحتوں کےساتھ ہمدردی کرتے ہوئے ان سے کم کام لیا کرتے تھے اور صحابہ کو بھی اس کی تلقین کرتے:
مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوكِهِ فِيهِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ، وَأَعْتَقَهُ مِنَ النَّارِ(مشکوۃ)
’’جس نے اپنے ماتحتوں سے ہلکا کام لیااللہ اسے بخش دے گا اور اسے جہنم سے نجات دے گا۔‘‘
اللہ تعالی ہمیں اس ماہ مبارک سے کماحقہ استفادہ کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے اعمال کو شرف قبولیت بخشے 
)محب اللہ قاسمی(

Friday 10 May 2019

Ramzanul Mubarak aur Shaksi Irteqa



رمضان المبارک  اورشخصی ارتقاء
رمضان المبارک ماہ تربیت ہے۔ اس کی عبادات (روزہ، اذکار،نوافل، تلاوت اور دعا و استغفار وغیرہ) انسان کے روحانی ارتقاء میں مددگار ثابت  ہوتی ہیں۔ وہ رمضان کے اوقات کا صحیح استعمال کرے تو اللہ تعالی سے اس کی قربت میں اضافہ ہوگا اور اس کے نفس کا مکمل تزکیہ ہوجائے گا۔ اس مجموعہ میں شامل مضامین میں رمضان المبارک کے مختلف پہلؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ قرآن و حدیث سے استدلال کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اورصحابہ کرامؓ  کے معمولاتِ رمضان بیان کیے گئے ہیں۔یہ مضامین مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں اور ان سے بڑے پیمانے پر استفادہ کیا گیا ہے۔
محب مکرم مولانا محب اللہ قاسمی کا قلم رواں دواں ہے۔ ماشاء الله انھوں نے آسان زبان اور شستہ اسلوب میں رمضان کے فضائل و مسائل پر اظہار خیال کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس مجموعہ کو مقبولیت عطا فرمائے اور اس سے استفادہ عام کرے۔ آمین یا رب العالمین

محمد رضی الاسلام ندوی
سکریٹری تصنیفی اکیڈمی جماعت اسلامی ہند
  

  رمضان المبارک  اورشخصی ارتقاء
رمضان المبارک کو تربیت اور شخصیت سازی کا مہینہ کہاجا تا ہے ۔اللہ اپنے بندوں کو اس ماہ کی اہم عبادت  روزے کے ذریعے ایک خاص تربیت دیتاہے، جسے ’تقویٰ‘ کہتے ہیں، چنانچہ قرآن مجید نے روزے کی فرضیت کا مقصدواضح کرتے ہوئے کہاگیا ہے:لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون:’’تاکہ تم میں تقوی صفت پیدا ہو۔‘‘روزہ تربیتِ نفس کا ایک اہم ذریعہ ہے، جو انسان کو صبراورنظم وضبط کا عادی بناتاہے ،کیوں کہ خواہشاتِ نفس پر قابوپانے کی بہترتربیت روزوں کے ذریعہ ہوتی ہے۔
تربیت زندگی کے تمام شعبوںمیں کام یابی اورمقاصدکے حصول کے لیے نہایت ضروری ہے۔اس کے بغیرکسی بھی مقصدمیں کام یابی حاصل کرنامشکل ہے۔ ہرچیزکی نشو و نمااور ارتقاء کے لیے تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔خواہ انسان کی علمی،عملی  اورفکری لحاظ سے نشونماہویا خاندانی ،سماجی اور سیاسی اعتبارسے  ارتقاء ۔
اسی طرح اس ماہ میں انسانوں کو عبادت و اطاعت، زبان اور شرم گاہ کی حفاظت، غریبوں اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کی تربیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے ذریعہ وہ قابل ہوتا ہے اللہ کی رضا کے مطابق زندگی بسرکرکے اس کے انعام (جنت ) کا مستحق بنائے اورجہنم کی آگ سے بچ سکے۔
اس کتاب میں رمضان المبارک سے متعلق چند مضامین کو شامل کیا گیا ہے ۔امید ہے ان کے مطالعہ سے روزوں کو بامقصد بنایا جاسکے گا اور شخصیت سازی پر خصوصی توجہ دے کر اس ماہ مبارک کی ساعتوں سے بھرپور استفادہ کیا جاسکے گا۔  اللہ تعالی ہماری عبادتوں اور ریاضتوں کو شرف قبولیت بخشے اور ہماری شخصیت میں نکھار پیدا کرے۔ آمین     
محب اللہ قاسمی
5مئی2019  بمطابق یکم رمضان1440


نوٹ: یہ کتاب پی ڈی ایف فائل میں دستیاب ہے۔ خواش مند حضرات واٹس ایپ یا ای میل کے ذریعہ حاصل کرسکتے ہیں۔

mohibbullah.qasmi@gmail.com
9311523016

Saturday 4 May 2019

Shandar Tareekh


شاندار تاریخ
اسلام کی شاندار تاریخ رہی جسے اپنانا انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے بے حد ضروری ہے.
یہ روشن تاریخ مسلمانوں کے لیے قابلِ فخر ہے. اب جس کی تاریخ ہی نہیں یا رسوا کن ہو تو وہ سوچے کہ مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے انھیں حال میں کس تاریخ کی خوبیوں کو اپنانا چاہیے.
ساتھ ہی مسلمانوں کو اپنی تاریخ زبان زد ہونی چاہیے تاکہ کوئی انھیں غلط فہمی کا شکار نہ بنا سکے.اسلام کا خدائی نظام اپنی خوبیوں کے ساتھ سر بلند ہونے کے لیے آیا ہے، جسے دنیا کی کوئی طاقت سرنگوں نہیں کر سکتی.
محب اللہ قاسمی

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...