Sunday 18 October 2020

कहानी ...भात....!

कहानी ...भात....!


गीता देवी एक ग़रीब मज़दूर की पत्नी थी, जिसकी दो बेटियां थीं। पहली बेटी गायत्री देवी, जो शादी के दस साल बाद पैदा हुई थी। आस्था के अनुसार इस बच्ची को पाने के लिए उस के मज़दूर बाप ने कई मंदिरों के चौखट लॉनगे, बड़ी मिन्नतें मांगें थीं। इस बेटी के दो साल बाद एक दूसरी लड़की का भी जन्म हुआ । मगर हाय क़िस्मत अभी इस दूसरी बच्चे के जन्म को ढाई साल ही हुए थे कि गीता देवी के मज़दूर पती का देहांत हो गया, जिसकी मज़दूरी के थोड़े पैसे से बड़ी कठनाई के साथ उस के घर चूल्हा जल पाता था। मगर इस दुख भरी की हालत में भी जैसे तैसे समय गुज़र रहा था!

पति की घर में सिर्फ गीता देवी थी और इस की दो बेटियां घर की ज़िम्मेदारी उस के कमजोर कंधे पर आ जाने के बाद उसने भी मज़दूरी शुरू कर दी। मगर कमज़ोर जिस्म के सबब इस से मज़दूरी नहीं हो पाती थी।


वो ख़ुदग़रज़ी और सुअर्थी पर्यावरण के ऐसे दूर से गुज़र रही थी कि जिससे भी उधार माँगती ,लोग साफ़ तौर पर उसे मना कर देते थे। अपने बच्चों की ख़ातिर रोज़ाना चूल्हा जलाने के लिए उस के पास, अक्सर राशन नहीं होता था, जिसका नतीजा हमेशा घर में फ़ाक़ा और भूके रहने की नौबत आती थी।


एक दिन बड़ी बेटी भूक से तड़प कर रोती, बिलकती भात भात चिल्ला रही थी, मगर माँ उसे तसल्ली देते हुए कह रही थी।
’’
रुक जा बेटी अभी भात पकाती हूँ और तुझे खिलाती हूँ।'


रोज़ की तरह उसने राशन के बर्तन में झाँका, मगर इस में चावल का एक दाना भी ना था। अब क्या करे, बेटी भूक से छटपटा रही थी। किसी के ज़रीया पता चला कि गांव में अभी राशन मिल रहा है। वो अपना राशन कार्ड लेकर जाये और राशन ले आए।


ये सुनकर उसने अपना राशन कार्ड निकाला और बोरी लेकर डीलर के पास भागती हुई गई।
वहां पहुंच कर उसने डीलर से कहा:
भया मुझे राशन दे दो। घर में कुछ भी खाने को नहीं है


डीलर ने राशन कार्ड लिया और अपने रजिस्टर से मिलाया। मिलान पर कार्ड दरुस्त निकला, मगर जिन्हें राशन दिया जाये, इस सूची में इस कार्ड का नंबर नहीं था। जब उसे लैपटॉप पर चैक किया। तो पता चला कि इस का राशन कार्ड आधार से लिंक नहीं है।
इस पर डीलर को ग़ुस्सा आया कहने लगा।

जाओ आधार कार्ड से लिंक कराओ। इस के बिना राशन नहीं मिलेगा।


गीता देवी डीलर से मिन्नत समाजत करने लगी।
मेरी बेटी भूक से बे हाल है। राशन में कुछ चावल ही दे दो कि भात पका कर बेटी को खीला दूं , वर्ना मेरी बेटी भूक से मर जायेगी


मगर डीलर के दिल में ज़रा भी दया नहीं आई। उसने उसे ये कहते हुए वहां से भगा दिया
जाओ जब तक ये राशन कार्ड आधार से लिंक नहीं होगा ,तुम्हें राशन का एक दाना भी नहीं नहीं मिलेगा।


बेचारी गीता देवी इन्सानों की दुनिया से दया की भीक ना मिलने पर मायूस घर लौट आई। अपनी बेटी को गले लगा या। इस से पहले कि वो इस से कुछ बोलती उस की आख़िरी आवाज़ भात भात कहते हुए बंद गई।
.....
और गीता देवी उसे सीने से लगाए ज़ोर से चिल्लाते हुए इस डीजीटल बेरहम दुनिया पर मातम कर रही थी।


(कहानी लेखक .....मोहिब्बुल्लाह क़ासिमी)

Email: mohibbullah.qasmi@gmail.com

 


Sunday 4 October 2020

معیشت اہمیت و ضرورت

پریشان حال لوگوں کو خود کفیل بنانے کی ضرورت

محب اللہ قاسمی

معیشت انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ جب انسان پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اشیاء خورد و نوش کے ساتھ آب و ہوا کا بھی انتظام کیا. ان چیزوں سے استفادہ کے لیے انسان کو ایک مضبوط جسم کے ساتھ دل و دماغ  اور دیگر اعضاء و جوارح بھی عطا کیے تاکہ وہ محتاج اور مجبور محض بن کر نہ رہے۔ پھر اسے حکم دیا گیا :

’’جب تم نمازسے فارغ ہوجاؤ توزمین میں پھیل جاؤ اور خداکافضل تلاش کرو۔ ‘‘(الجمعۃ:۱۰ (

 پتہ چلاکہ مال کوئی گھٹیاچیز نہیں کہ اس سے آنکھیں  موندلی جائیں اور اس کی تلاش وجستجونہ کی جائے۔خودحضورؐنے بھی اس کی اہمیت کواجاگرکرتے ہوئے فرمایاہے۔’’بلاشبہ اللہ مالدار متقی اور  پوشیدگی اختیار کرنے والے کو پسند کرتاہے۔‘‘(مسلم)

 رہی بات قرآن واحادیث میں  مال و دولت کی مذمت کی تویہ ان اموال کے سلسلے میں ہے جوحرام ہوں اور  جنھیں مفاخرت کے طورپرحاصل کیاجائے ،وہ اموال انسان کواپنے خالق ومالک کی یادسے غافل کردیں  ۔ جسکی کی کثرت کے لئے قلب ہمشہ مضطرب اور  پریشان ہویااس سے فقراء ومساکین کاحق ادانہ کیا جا رہا ہو۔  اللہ تعالی کافرمان ہے:

’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، تمہارے مال اور  تمہاری اولادیں  تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں ۔  جو لوگ ایسا کریں  وہی خسارے میں  رہنے والے ہیں ۔ ‘‘(المنافقون:۹)

 اگرکسی کی معاشی حالت مستحکم نہ ہو تووہ اپنی ضررتوں کی تکمیل کے لئے دوسرں کےسامنے دست سوال دراز کرے گا، جس کی ممانعت ان احادیث میں  آئی ہے۔  آپ ؐ کی ایک مشہور حدیث ہے آپ نے ارشاد ہے :’’السوال ذل‘‘ دست سوال دراز کرنا ذلت کی بات ہے۔

 اس لیے انسان نے اپنے رب کی عطا کردہ ذہنی و جسمانی قوت کو من جد وجد کے تحت لگاتا ہے اور وہ ساری چیزیں حاصل کرنے کی سعی کرتا ہے جو ان کے لیے ناگزیر  ہیں. اس طرح حصول معاش کی جدو جہد کرنے والے گروہ میں بنیادی طور پر تین قسم کے لوگ شامل ہو گئے: تاجر، کسان اور ملازم۔


اسباب معیشت :

اگر ہم اسباب معیشت پر غور کریں تو ہمیں اس کی تین قسمیں ملیں گی.

(۱)تجارت      (۲)  صنعت و ذراعت          اور (۳)ملازمت

 تجارت

 تجارت معیشت کا بہترین ذریعہ ہے جو اچھے، نیک اور خیر خواہ لوگوں کے ہاتھ ہو تو اس کا بہترین اثر معاشرے پر دکھے گا. اللہ نے اس میں بڑی برکت رکھی ہے۔یہ صبر آزما اور تسلسل کے ساتھ انجام دیا جانے والا عمل ہے.

 تجارت نبی اکرم ﷺ کا طریقہ تھا جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین نے اختیار کیااور معاشرے کو غربت و یاس سے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی. جس کی بہترین مثال وہ واقعہ بھی ہمارے ذہن میں  رہناچاہئے کہ ایک شخص آپ ؐکی خدمت میں حاضرہوااوراپنی ضرورتوں کاسوال کربیٹھا ۔ آپ ؐ نے اس سے دریافت کیا :تمہارے پاس کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا :ایک چادراورایک پیالہ! آپ نے دونوں  چیزوں  کو طلب کیا اور  انھیں  صحابہ کرام کے درمیان بیچنے کی بولی لگادی ایک صحابی نے اسے خرید لیا۔ آپؐ نے حاصل شدہ رقم کو اس آدمی کے حوالہ کرتے ہوئے فرمایا کہ نصف رقم سے گھر کے لیے کھانے پینے کی چیزیں  خرید لو اور  نصف رقم سے کلہاری خریدلائو۔  چنانچہ اس نے ایساہی کیا، پھرآپ ؐ نے اپنے دست مبارک سے اس میں دستہ لگادیا اور حکم دیاکہ جنگل جاکر اس سے لکڑی کاٹو اور بازار میں فروخت کرو۔  اس نے ایساہی کیااس طرح اس تجارت سے اس کی اقتصادی حالت درست ہوگئی اور سوال کی ذلت سے محفوظ ہوگیا۔

 حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ بہت بڑے تاجر  تھے کہ ان کی وفات کے بعدان کے پاس جو سونا تھا اسے کلہاڑی سے کاٹ کر وارثوں کے درمیان تقسیم کیا گیا۔  اسی طرح حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی زندگی دیکھی جائے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں علم وعمل کے ساتھ مال ودولت میں بھی کافی فراوانی عطا کی تھی، جس کا وہ مظاہرہ بھی کرتے تھے ۔ عمدہ لباس زیب تن فرماتے اور اپنے دوستوں پر بھی خوب خرچ کرتے تھے ۔  موصوف کا شمار کپڑوں کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا ۔ ان کے علاوہ بھی تاریخ میں متعدد شخصیات کا تذکرہ ملتا ہے کہ اللہ تعالی نے ان کو مال و دولت سے نوازا تھا اور  وہ بحسن وخوبی اس کاحق ادا کرتے تھے۔ اس کے ذریعہ بہت سی دینی خدمات انجام دیتے تھے۔  

 

ذراعت یعنی کھیتی باڑی

محنت و مشقت کے ساتھ اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے کھیتی باڑی کا عمل انجام دیا جائے تو یہ بھی معیشت کا ایک اہم ذریعہ ہے جس سے انسانی زندگی کی بہت سی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں.

 درج بالا دونوں اسباب اختیار کرنے کے لیے مال و جائیداد کی ضرورت پڑتی ہے. جب کہ ملازمت یعنی نوکری کرنے میں وہ بات نہیں. انسان اپنی قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر نوکری حاصل کر لیتا ہے. یہی چیز اس کے لیےدو وقت کی روزی روٹی کا ذریعہ بن جاتی ہے. اس دور میں ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے. اس لیے ملازمت کی ضرورت بڑھ گئی ہے ۔ ملازمت نہ ملنے کی صورت میں بے روزگاری بڑھ گئی ہے. اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس پر غور کیا جانا چاہیے.

 مگر اس کے ساتھ ہی ہمیں اس بات پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ اس وقت معیشت کے ہر میدان میں گراوٹ اور بدحالی کی کیفیت پیدا ہو گئی روزگار ختم ہوتے جا رہے ہیں ہر طرف افراتفری کا ماحول بنا ہوا لوگ پریشان حال ہیں ان کی تنگ دستی اور پریشانی کو دور کرنے کے لیے انھیں خود کفیل بنانے اور امت میں تجارت کو فروغ دینے کی کوشش ہو آغاز میں چھوٹے چھوٹے کاربار کی طرف راغب کیا جائے اور عملی  اقدام جاری رہے۔ جس کے لیے ماحول بنانا اور اسباب مہیا کرنا بھی ضروری ہے


Tuesday 15 September 2020

Safar Hi Safar Hai

جو ٹکرائے ظالم سے ظلمت مٹا ئے
اسی سے ہمیں بس امیدِ سحر ہے
غزل ملاحظہ فرمائیں۔
کلام اور آواز: محب اللہ رفیق قاسمی

Saturday 12 September 2020

Muminon Mumin Bano

اے مومنو! مومن بنو!!

   

ہر وہ انسان جس پر ایمان کا مفہوم واضح ہو، اس کی چاہت اس کے دل میں گھر کر لے اور وہ اس کی لذت سے آشنا ہو جائے، پھر اسے اطاعت ربانی کے سوا سب کچھ پھیکا نظر آتا ہے. وہ اپنی زندگی کا ایک متعین مقصد سامنے رکھ کر جیتا اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہونا پسند کرتا ہے۔

     پھر وہ گناہوں کی بستی میں گھٹن محسوس کرتا ہے اور بے حیائی کے ماحول میں جینا گوارہ نہیں کرتا، معاملات زندگی ہو رہی اللہ کی نافرمانیوں کی کڑھن دل میں رکھتے ہوئے اسے دور کرنے کی سعی کرتا ہے اور حرمت جان کی خاطر ظلم و ستم کے خاتمے کے لیے کوششیں کرتا ہے، وہ نہ صرف خود ایک مثالی معاشرہ کا فرد بننا چاہتا ہے، بلکہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو سنوار کر اسے اسلامی معاشرہ بنانے میں لوگوں کی ذہن سازی بھی کرتا ہے اور اللہ سے دعا کرتا ہے کہ نور الہی سے یہ اندھیرا چھٹ جائے جس کی روشنی میں وہ خدا ترس، باکرادار، خوش گوار اور پاکیزہ زندگی گزارے، جہاں کوئی کسی پر ظلم نہ کرے، عدل و انصاف کا بول بالا ہو، رب کائنات کی عبادت اس کے حکم کی اطاعت ہو۔ جھوٹے خداؤں کا سرنگو ہو اور ان باطل قوتوں کا خاتمہ ہو جو حق کو للکارنے اور انھیں مٹانےکی ناکام کوششوں میں ہیں۔ یہ جذبہ اہل ایمان کا بہت بڑا سرمایہ ہے۔

    ایسے میں ایک مسلمان سے اس کا دین ایمان اور اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی کسی نہ کسی سبب چھین لی جائے جو اس کی زندگی کا سب سے اہم سرمایہ ہے۔ پھر اس کی دولت، شہرت اور مرتبت اس کے کس کام کی۔

 

    یہی وجہ ہے کہ انسان خواہ ذلت و رسوائی کی پستی میں ہو یا پھر شہرت و مقبولیت کی بلندی پر، اگر وہ محسوس کرتا ہے کہ اپنے دین مذہب اور شریعت کے خلاف زندگی گزار کر جہنم کی طرف بھاگا چلا جا رہا ہے تو اس کا پاکیزہ نفس اسے ملامت کرتا ہے اور اس کی بے چین روح اسے واپس اپنے رب کی اطاعت کی طرف لانے کی کوشش کرتی ہے۔ گویا کوئی اس سے کہہ رہا ہو ففروا الی اللہ (دوڑو اپنے اللہ کی طرف). اگر ہماری کیفیت ایسی نہیں ہے، ہماری روح میں ایمان کا تازگی نہ ہو اور دل ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی طرف مائل نہ ہو تو ہمیں اپنے ایمان کی خیر منانے کی اور اپنا محاسبہ کرنے کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم کون ہیں ہمیں اللہ نے کیوں پیدا کیا ہے اور ہم کیا کر رہے ہیں اور ہمیں کرنا چاہیے؟؟؟

 

حالات جیسے بھی ہوں، آسانیوں اور فراوانیوں کے ساتھ مشکلات اور پریشانیوں کا دور بھی آتا ہے، جو مومن کے لیے آزمائش کا دور ہوتا ہے پریشانی میں بھی اور آسانی میں بھی مگر فطرت سلیمہ کا یہی تقاضا ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف پلٹے اور کائنات کے خالق و مالک کی مرضی کے مطابق اپنا مقصد حیات متعین کرکے دونوں جہاں میں کامیابی حاصل کرے۔

 

    خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے اندر یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے اور وہ دنیا کی پر فریب، عارضی چمک دمک اور اس کے کھوکھلے پن کو الوداع کہہ کر واپس اپنے رب کی طرف پلٹتے ہیں اور اللہ کی پکار ( *اے مومنو! مومن بنو*) پر لبیک کہتے ہوئے، اس راہ حق میں پیش آنے والی تمام آزمائشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں.ایسے لوگ جب اپنے رب کے حضور پیش ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس سے کہتا ہے.

’’اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ اس حال میں کہ تو اپنے رب سے راضی ہو۔ تو تو میرے بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔‘‘

محب اللہ قاسمی


 

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...