Sunday 21 August 2022

Achchi kitab Achcha Sathi

 

اچھی کتاب، ایسا اچھا ساتھی ہے جو زندگی بدل دے

محب اللہ قاسمی

 انسان جب شخصیات کو پڑھتا ہے تو انھیں اپنی زندگی میں محسوس کرتا ہے۔ اس وقت اسے یہی خیال گھیرے رہتا ہے کہ میں بھی ان کے جیسا بنوں، خاص طور پر جب ایسی کوئی  کتاب بچپن میں پڑھی جائے۔ہم سب اس بات سے بہ خوبی واقف ہیں کہ اچھی کتاب ایک بہترین ساتھی  موثر مربی ہے جو ہماری مناسب خطوط پر رہنمائی کرتی ہے اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے اور سنوارنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔ایسی ہی کتابوں میں سے ایک کتاب جو میرے سامنے آئی وہ اعلی شخصیات پر بڑےخوب صورت اور دل چسپ انداز کی پہلی کتاب تھی۔  اسےعربی زبان میں پڑھنے کا اللہ تعالی نے مجھے شرف بخشا ۔ داخل نصاب ہونے کے سبب میں اسے سبقاسبقا پڑھ رہا تھا۔

 

صحابی کون ہوتے ہیں ؟ یہ جانتا تو تھا، پھر یہ بھی معلوم تھا کہ صحابہ ؓدنیا کی بڑی نیک شخصیات اور بڑے  اچھے انسان تھے۔مگر ان کی زندگیاں کیسی تھیں ؟ آخر کیسے انھیں رضوان اللہ علیہم اجمعین کا الٰہی خطاب ملا؟ ان سب چیزوں سے نا واقف تھا۔ پہلے دن کا پہلاسبق ہی اتنا دل چسپ لگا اور اس قدر مؤثر تھا کہ پورا دن سوچنتا ہی رہ گیا؟

 

عنوان تھا

’’ سعید بن عامرجمحیؓ‘‘ 

ان ہزاروں انسانوں میں سے ایک نوجوان سعید بن عامرجمحی ؓ بھی تھا جو سرداران قریش کی دعوت پر مکہ سے باہر مقام تنعیم پر صحابی رسولﷺ حضرت خبیب بن عدی ؓ کے قتل کا تماماشا دیکھنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ جیسے روساء قریش کے پہلو بہ پہلو جا کھڑا تھا۔ زبردست ہجوم میں سعید بن عامر خبیب کو دیکھنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ خبیب کہہ رہا ہے "اگر تم لوگ چاہو تو قتل سے پہلے مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کا موقع دے دو" پھر سعید نے دیکھا کہ خبیب بن عدی نے قبلہ رو ہوکر دو رکعتیں پڑھیں۔ اور خبیب نے زعماء قریش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "واللہ اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم میرے متعلق اس بدگمانی میں مبتلا ہوجاؤ گے کہ میں موت سے ڈر کر نماز کو طول دے رہا ہوں تو میں اور لمبی اور اطمینان کے ساتھ نماز پڑھتا"

 

آج کا سبق یہی ختم ہو گیا۔

 

اب میں پورے دن اسی خیال میں گم  رہا کہ آخر کیا ہوا ہوگا حضرت خبیبؓ کے ساتھ۔ کہیں واقعی ان ظالموں نے انھیں شہید کر دیا ہوگا، یا کوئی ایسی ترکیب ہوئی ہوگی جس سے وہ بچ گئے ہوں گے؟ خیر رات میں کچھ حصہ خود سے مطالعہ کرنے لگا۔ کیوں کہ آئندہ کا سبق پہلے سے ہی مطالعہ کر کے جانا اس کلاس کے استاذ محترم کی خاص ہدایت تھی۔ٹوٹے پھوٹے انداز میں جو کچھ پڑھا تو پتہ چلا:

 

سعید نے بہ چشم سر اپنی قوم کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ زندہ ہی خبیب کا مثلہ کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتے جاتے ہیں۔

“کیا تم یہ بات پسند کرو گے کہ اس وقت محمد(ﷺ )تمہاری جگہ یہاں ہوتے اور تم اس تکلیف سے نجات پاجاتے”

 

خبیب نے جواب دیا(اور اس وقت ان کے جسم سے بے تحاشا خون بہ رہا تھا)’’ واللہ مجھے تو اتنا بھی گوارا نہیں کہ میں امن و اطمینان کے ساتھ اپنے اہل و عیال میں رہوں اور اللہ کے رسولﷺ کے پاؤں کے تلوے میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے”

 

یہ سنتے ہی لوگوں نے اپنے ہاتھوں کو فضا میں بلند کرتے ہوئے چیخنا شروع کر دیا۔ مارڈالو اسے، قتل کرڈالو اسے۔ پھر سعید بن عامر کی آنکھوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ خبیب نے تختہ دار ہی سے اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا: اَللّٰھُمّ احصَہم عَدداً وَاقتُلھُم بَددا وَلا تُغَادر مِنھُم اَحَدا "خدایا! انہیں ایک ایک کر کے گن لے،انہیں منتشر کرکے ہلاک کر اور ان میں سے کسی کو نہ چھوڑ" پھر انہوں نے آخری سانس لی اور روح پاک اپنے رب کے حضور پہنچ گئی۔ اس وقت ان کے جسم پر تلواروں اور نیزوں کے ان گنت زخم تھے۔

 

نوجوان سعید بن عامر جمحی، خبیب کی مظلومیت اور ان کے دردناک قتل کے اس دل خراش منظر کو اپنے لوح ذہن سے اک لمحہ کے لیے محو نہ کرسکا۔ وہ سوتاتوخواب میں ان کو دیکھتا اور عالم بیداری میں اپنے خیالات مین ان کو موجود پاتا۔ یہ منظر ہر وقت اس کی نگاہوں کے سامنے رہتا کہ خبیب تختہ دار کے سامنے بڑے سکون واطمینان کے ساتھ کھڑے دورکعتیں ادا کر رہے ہیں۔ اوراس کے پردہ سماعت سے ہروقت ان کی وہ درد بھری آواز ٹکراتی رہتی جب وہ قریش کے لیے بد دعا کر رہے تھے اور اس کو ہروقت اس بات کا ڈر لگا رہتا کہ کہیں آسمان سے کوئی بجلی یا کوئی چٹان گر کر اسے ہلاک نہ کر دے۔ پھر خبیب نے سعید کو وہ باتیں بتا دیں جو پہلے سے اس کے علم میں نہ تھیں۔ خبیب نے اسے بتایا کہ حقیقی زندگی یہی ہے کہ آدمی ہمیشہ سچے عقیدے کے ساتھ چمٹا رہے اور زندگی کی آخری سانس تک خدا کی راہ میں جدوجہد کرتا رہے۔ خبیب نے سعید کو یہ بھی بتادیا کہ ایمان راسخ کیسے کیسے حیرت انگیز کارنامے انجام دیتا ہے اور اس سے کتنے مخیر العقول افعال ظہور پزیر ہوتے ہیں۔

 

خبیب نے سعید کو ایک اور بڑی اہم حقیقت سے آگاہ کیا کہ وہ شخص جس کے ساتھی اس سے اس طرح ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں، واقعی برحق رسول اور سچا نبی ہے اور اسے آسمانی مدد حاصل ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے سعید بن عامر کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیا۔ وہ قریش کی ایک مجلس میں پہنچا اور وہاں کھڑے ہوکر اس نے قریش اور ان کے کالے کرتوتوں سے اپنی لاتعلقی و نفرت اور ان کے معبودان باطل سے اپنی بیزاری و برات اور اپنے دخول اسلام کا برملا اور کھلم کھلا اعلان کر دیا۔

 

 اس کے بعد سعید بن عامر ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے اور مستقل طور پر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت اختیار کرلی۔ غزوہ ٔخیبر اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمرکاب رہے اور جب نبی اکرم ﷺ اپنے رب کے جوار رحمت میں منتقل ہو گئے تو سعید بن عامر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دونوں خلفاء ابوبکر صدیق اور عمر کے ہاتھوں میں شمشیر برہنہ بن گئے اور انہوں نے اپنی تمام جسمانی اور نفسانی خواہشات کو خدائے تعالیٰ کی مرضیات کے تابع کر کے اپنی زندگی کواس مومن صادق کی زندگی کا نادر اور بے مثال نمونہ بنا کر پیش کیاجس نے دنیوی عیش و عشرت کے عوض آخرت کی ابدی و لافانی کامیابی اورفائز المرامی کو سودا کر لیا ہو۔

 

ایک بار وہ  حضرت عمر فاروق ؓکے دور خلافت کے ابتدائی ایام میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نصیحت کرتے ہوئے ان سے کہا:

 

“عمر! میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ رعایا کے بارے میں ہمیشہ خدائے تعالٰیٰ سے ڈرتے رہیے اور خدا کے معاملے میں لوگوں کا کوئی خوف نہ کیجئے اور آپ کے اندر قول و عمل کا تضاد نہ پایا جا ئے۔ بہترین قول وہی ہے جس کی تصدیق عمل سے ہوتی ہو‘‘

 

 انہوں نے سلسلہ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا:

 

’’ عمرؓ! دور و نزدیک کے ان تمام مسلمانوں پر ہمیشہ اپنی توجہ مرکوز رکھیے جن کی ذمہ داری اللہ تعالٰیٰ نے آپ پر ڈالی ہے اور ان کے لیے وہی باتیں پسند کیجئے جو آپ خود اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے پسند کرتے ہیں اور حق کی راہ میں بڑے سے بڑے خطرے کی بھی پروا نہ کیجئے اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کو خاطر میں نہ لائیں‘‘

 

 سعیدؓ! یہ سب کس کے بس کی بات ہے؟ حضرت عمرؓ نے ان کی یہ باتیں سن کرکہا۔

 

یہ آپ جیسے شخص کے بس کی بات ہے جس کو اللہ تعالٰیٰ نے امت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا ذمہ دار بنایا ہے، جس کے اور خدا کے درمیان میں کوئی دوسرا حائل نہیں ہے" سعید نے کہا۔ اس گفتگو کے بعد خلیفہ نے سعید بن عامر سے حکومت کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے سلسلے میں تعاون کی خواہش ظاہر کی اور فرمایا: سعید میں تم کو حمص کا گورنر بنا رہا ہوں۔ ‘‘

 

عمرؓ ! میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے آزمائش میں نہ ڈالیے" سعید نے جواباً عرض کیا۔

 

 ان کا یہ جواب سن کر حضرت عمرؓنے قدرے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: "خدا تمہارا بھلا کرے ۔تم لوگ حکومت کی بھاری ذمہ داریاں میرے سر ڈال کر خود اس سے کنارہ کش ہوجانا چاہتے ہو، اللہ کی قسم میں تم کو ہرگز نہیں چھوڑ سکتا‘‘

پھر حضرت عمرؓ نے حمص کی گورنری ان کے سپردکیا۔

 

ایک مرتبہ حضرت عمر ؓنے ان کے لیے ایک ہزار دینار بھیجے، تاکہ ان سے وہ اپنی ضروریات پوری کریں۔ جب ان کی اہلیہ نے ان دیناروں کو دیکھا تو بولیں کہ اللہ  کا شکرہے کہ اس نے ہم کو آپ کی خدمت کرنے سے بے نیاز کر دیا۔ آپ اس رقم سے ہمارے لیے ایک غلام اور ایک خادمہ خرید دیں۔ یہ سن کر سعید نے کہا :

 

’’ کیا تم کو اس سے بہتر چیز کی خواہش نہیں؟ ‘‘اس سے بہتر؟ اس سے بہتر کیا چیز ہے؟اہلیہ نے پوچھا۔

 

’’یہ رقم ہم اس کے پاس جمع کر دیں جو اسے ہم کواس وقت واپس کر دے جب ہم اس کے زیادہ ضرورت مند ہوں۔‘‘ سعید نے بات سمجھائی۔ اس کی کیا صورت ہوگی؟اہلیہ نے وضاحت چاہی۔

 

سعید نے کہا :’’ ہم یہ رقم اللہ تعالٰیٰ کو قرض حسنہ دے دیں‘‘ اہلیہ نے کہا: ’’ہاں، یہ بہتر ہے۔ اللہ آپ کو جزائے خیردے‘‘

پھر سعید نے اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے ان تمام دیناروں کو بہت سی تھیلیوں میں رکھ کر اپنے گھر کے ایک آدمی سے کہا :

’’انہیں فلاں قبیلے، فلاں قبیلے کے یتیموں، فلاں قبیلے کے مسکینوں اور فلاں قبیلے کے حاجتمندوں میں تقسیم کردو‘‘

 

 اللہ تعالیٰ سعید بن عامر جمحی سے راضی ہو۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو خودمحتاج اور ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے۔

 

اس سال میں مدرسہ جامع العلوم مظفرپورمیں عربی اول کا طالب علم تھا اور جس کتاب سے  صحابی رسول ؓ کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ ڈاکٹر عبدالرحمن پاشا کی کتاب ’’صورمن حیاۃ الصحابہ‘‘ ہے ۔ اس کتاب کی کئی جلدیں ہم لوگوں نے الگ الگ کلاس میں پڑھیں۔ اس وقت دل میں خیال آتا تھا کہ کاش کوئی اس کا خوب صورت ا ردو ترجمہ کر دیتا تو یہ عام مسلمانوں کے لیے، جو عربی نہیں جانتے، کس قدر مفید ہوتا ۔اور اس طرح میں پھر جب میں دارالعلوم دیوبند آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کاشاندار ترجمہ ’’زندگیاں صحابہؓ کی‘‘ کے نام سے 1994میں ہی شائع ہو چکا ہے۔ یہ ترجمہ ابوجاوید اقبال قاسمی صاحب نے کیا ہے ۔ اس مضمون میں اس سے استفادہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی مصنف اور مترجم دونوں کو جزائے خیر عطا کرے اور قارئین کو کتاب سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے،اس عکس صحابہ ؓکوسامنے رکھ کر اپنی زندگی بنانے اور سنوارنے کی توفیق بخشے۔ آمین

***

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...