Wednesday 24 May 2017

Short Story: Safar

سفر

سردی کا زمانہ تھا،رات کے پچھلے پہرراشد اٹھ بیٹھااور جلدی جلدی اپنا سامان پیک کرنے لگا۔اسے دہلی جانا تھا ۔ریلوے اسٹیشن گاؤں سے تقریبا سترکلومیٹر دور تھا،وہاں پہنچنے کے لیے اسے بس پکڑنی تھی۔فکرمعاش گاؤں کے اکثر لوگوں کو دور دراز شہروں کا سفر کر نے پر مجبور کردیتاتھا۔راشد بھی انہی لوگوں میں سے ایک تھا۔

راشد جب بھی دہلی یا اور کہیں جاتاتو گاؤں کے لوگ اپنے بیٹوں اور دیگر رشتہ داروں کے لیے کچھ سامان اس کے حوالے کردیتے جسے لے جانے کے لیے وہ بہ خوشی تیارہوجاتا۔

راشدکا ریزرویشن نہیں تھا، اسٹیشن پہنچ کر دہلی جانے والی گاڑی کے جنرل ڈبے میںسیٹ لینی تھی ۔وہ اپنے سامان کے ساتھ صبح ساڑھے پانچ بجے گاؤںکے قریب سڑک پر ایک جگہ کھڑا ہوگیا جہاں بسیں رکتی تھیں۔

بس اپنے وقت پردور سے ہی ہارن دیتی ہوئی آئی۔راشدنے ڈرائیورکو ہاتھ دکھایا ،گاڑی رکی۔وہ بس پر چڑھ گیا اور ایک سیٹ پر بیٹھ کر چادرتان لی۔تھوڑی دیرمیں اسے نیند آنے لگی۔

ان دنوں کافی لوگ الہ آباد گنگا اسنان کے لیے جارہے تھے۔ ہر اسٹیشن پرخلاصی زور زور کی آواز لگاتا اورسامان اٹھا اٹھا کر گاڑی میں رکھتا ،پھر سواریاں اپنی اپنی جگہ لے کر بیٹھ جاتیں۔

ابھی راشد کچی نیند میں تھا کہ اسے محسوس ہوا کہ چند لوگوں نے گاڑی رکوائی اور دوبوڑھی خواتین اور ان کے ساتھ کچھ مرد و خواتین چڑھے اسی دوران ایک شخص نے کہا:
’’ ارے بھیا!ماما چاچی تہ ابھی نے کھے آئے ت سب کیسے جائب بس رکوا ب ہمنی ایک ساتھ ہی جائب۔ ‘‘(ماما اور چاچی تو ابھی آئی نہیں ،تو ہم لوگ کیسے جاسکتے ہیں۔

 کسی نے کہا : ارے ہاں اوسب ت ابھی تیاری کرت بارن (وہ سب تو ابھی تیاری ہی کررہے تھے)۔
 پھر جلدی جلدی سب لوگ اپنا اپنا سامان لے کر نیچے اتر گئے۔

ان لوگوں کی بولی اور معصومیت پر راشد کو ہلکی سی ہنسی آئی۔پھر وہ سو گیا۔
بس تیزرفتاری کے ساتھ دو گھنٹے میں ستر کلو مٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد منزل کو پہنچی ۔سارے لوگ اترنے لگے۔

راشد بھی انگڑائی لیتے ہوئے کھڑا ہوا اور اپنا سامان ڈھونڈنے لگا۔ایک بیگ ، جسے اس نے اپنے قریب رکھا تھا اٹھا یامگر وہ بوری جس میں گاؤں کے لوگوں کا سامان تھا،وہ اپنی جگہ پر نہیں تھی! اس نے دیکھا کہ اسی طرح کا ایک تھیلا قریب میں رکھا ہوا تھا ۔ اس کے علاوہ اور کوئی سامان کہیں بھی نظر نہیں آرہاتھا۔

وہ پریشان ہوگیا۔ اس نے سوچا کہ اگروہ اپنا سامان لے کر چلاگیا اور دوسروںکی امانت ان تک نہیں پہنچی تو وہ گاؤں والوںکے درمیان بے عزت ہوجائے گا اور لاپروااور خائن کہلائے گا۔اس نے اس بورے کو کھول کردیکھا تواندازہ ہوا کہ یہ ان لوگوں کا سامان ہے جو شردھا اور گنگا اسنان کے لیے جارہے تھے۔اس میں گھی کا ڈبہ ،لائی ، بوندی کا لڈو، چڑھاوے کا نیاجوڑا اور کچھ قیمتی چیزیں تھیں۔

فوراً راشد کی سمجھ میں آیا گیاکہ ہو نہ ہو راستہ میںایک سواری جلدی جلدی اتری تھی۔شایداس نے اپنا سامان اتارنے کے بجائے میرا ہی سامان اتارلیاہو۔ مگروہ کون لو گ تھے اور کہاں اترے تھے یہ معلوم نہ تھا۔
 راشد نے خلاصی سے کہا:بھائی! کسی نے غلطی سے میرا سامان اتارلیاہے اور اپنا سامان چھوڑگیاہے۔

اس نے کہا:’’ مجھے لگتا ہے کہ وہ فلاں جگہ کے لوگ تھے ،جو درمیان میں چڑھے تھے لیکن فورا اترگئے تھے ۔شاید اس جلد بازی میں انھوں نے سامان اتار لیا ہو۔‘‘

 پھر اس نے کہا:’’ میرے کاکا کی لڑکی وہیں رہتی ہے ان سے معلوم کیے لیتاہوں ۔‘‘

اس نے موبائل فون کے ذریعے ایک دوسرے گاؤں سے اس گاؤں کا فون نمبر لیاگیا۔ اس روٹ کا ڈرائیور اس علاقے کے لوگوں کو جانتا تھا۔ اس نے فوراً مختلف مقامات پر موبائل سے رابطہ کیا۔بالآخر ان مسافر وں کا پتہ لگ گیا ، ان لوگوں سے پوری تفصیلات بتائی گئی۔ پھر ان کو بتایاکہ آپ اسٹیشن آجائیں آپ کا سامان یہاں ہے ،آپ لوگ دوسرے مسافر کا سامان لے کر اترگئے تھے۔ ان لوگوں نے اپنا سامان چیک کیا تو بات صحیح نکلی۔

انھوں نے کہا :’’ ہم لوگ جیپ سے آرہے ہیں، آپ وہیںرہیں۔‘‘

 راشد کو اب اس بات کی بالکل فکر نہ تھی کہ اس کوٹرین میں سیٹ نہ ملے گی یاٹرین چھوٹ جائے گی۔بلکہ فکر یہ تھی کہ گنگا اسنان کے مسافروں کو اُن کا سامان مل جائے اور اسے اپنا، تاکہ وہ دوسروں کی امانت صحیح طریقہ سے ان تک پہنچادیں۔

 چارگھنٹے انتظار کے بعد وہ لوگ جیپ سے پہنچے ۔ سب لوگ گاڑی سے اترے اور راشد کو اس کا سامان واپس کیا اور اپنا سامان دیکھنے لگے۔

ایک عمردراز خاتون نے راشد کی داڑھی اور چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا :
’’بیٹوا!تو بہت اچھا لڑکاہے۔ بھگوان توہربھلاکرے ،  ہم ت سمجھنی کہ ہمر سامان غائب ہوگئل۔ (ہم سمجھے کہ ہمارا سامان غائب ہوگیا-

راشدنے ان کی آنکھوں میں چھلکتے ہوئے خوشی کے آثار دیکھے اور اپنے تئیں ان کے اس رویہ سے فخرمحسوس کرنے لگا۔اسے لگ رہاتھا کہ وہ یہاں سب سے قدآور شخص ہے،جس نے بہت بڑا کام کیاہے۔ حالانکہ یہ اسلامی تعلیمات کے لحاظ سے ایک اخلاقی عمل ہے جو ایک مسلمان کا فریضہ ہے،جسے انجام دینا ہی تھا۔وہ گویا ہوا:
’’کاکی!  اللہ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا ۔ اللہ ہی اپنے بندوں کی پریشانیوں کو دور کرتاہے۔خدا کا شکر ہے کہ ایک دوسرے کی پریشانی دور ہوئی۔اسلام ہمیں انسانیت کی تعلیم دیتاہے۔‘‘

گویااس نے اپنے رویہ اور مختصر سے بول میں اسلام کا پیغام ان کے سامنے رکھ دیا۔

 بات ختم ہوتے ہی وہ لوگ اپنے سامان کے ساتھ پھر سے جیپ میں بیٹھے اور ریلوے اسٹیشن کے لیے روانہ ہوگئے۔

شایددوسری گاڑی میںجگہ مل جائے ۔یہ سوچتے ہوئے راشد ریلوے اسٹیشن کی طرف چل پڑا۔
محب اللہ 

٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...