غزل
جڑوں سے اپنی جدا ہوا ہے
مصیبتوں میں گھرا ہوا ہے
ترقی، تہذیبِ عصر حاضر
کہ انسان شیطاں بنا ہوا ہے
فقط دکھایا تھا آئینہ ہی
اسی پہ قائد خفا ہوا ہے
تلاش قاتل کی کرنے والو
تمہیں میں قاتل چھپا ہوا ہے
چٹائی پر بھی تھا کوئی رہبر
یہ قصہ گویا سنا ہوا ہے
وفا کا جس نے کیا تھا وعدہ
وہ دشمن جاں بنا ہوا ہے
ہمارے عہد وفا کا قصہ
آب زر سے لکھا ہوا
وہاں سنبھل کر رفیق چلنا
جہاں پہ کانٹا بچھا ہوا ہے
No comments:
Post a Comment