Sunday 21 October 2018

باوقار مربی اور باکمال متعلم



باوقار مربی اور باکمال متعلم

جب میں 2008میں مرکز جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ہوا اور یہاں کے مخلص کارنوں سے میرا تعارف ہواتو ان میں سے ایک صاحب کو میں نے بہت ملنسار، خوش مزاج اور مرکز کے تمام کارکنان سے اپنے رشتہ داروں جیسا معاملہ کرنے والے منکسرالمزاج، عالی ظرف پایا۔ وہ تھے جناب محمد اشفاق احمد صاحب،جو 20 اکتوبر 2018 کی صبح اپنے بہت سے محبین و متعلقین کو روتا بلکتا چھوڑ، اس دار فانی سے رخصت ہو کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے.  إنا للہ و انا الیہ راجعون.

جناب اشفاق صاحب کے لیے لفظ ’مرحوم‘ لکھتے اور بولتے ہوئے دل پر ایک عجیب سا جھٹکا لگتا ہے، مگر موت ایک ناقابل انکار حقیقت اس لیے یہ سوچ کر کہ اس دنیا میں کوئی بھی انسان ہمیشہ کے لیے نہیں آیا، اسے ایک نہ ایک دن یقیناً اس دنیا سے کوچ کرنا ہے، سو آپ بھی ہم سب کو چھوڑ کر چلے گئے.

آپ شعبۂ تعلیمات کے سابق مرکزی سکریٹری ہونے کے ساتھ رکن مجلس نمائندگان، بانی و صدر الحرا ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی اورنگ آباد اور سابق صدر ایس آئی او کے بھی رہ چکے ہیں. خلوص و للہیت کے ساتھ اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کی انجام دہی، اللہ پر بھروسہ اور جہد مسلسل میں یقین رکھتے ہوئے آخری سانس تک متحرک رہنے کا عزم اور دوسروں کو ایسے  ہی تیار کرنا ان کا خاصہ تھا.  

ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ آپ کو عربی زبان سیکھنے کا بھرپور شوق تھا، جو جنونی درجہ تک پہنچا ہوا تھا. لہٰذا کچھ لوگوں کو جوڑ کر باقاعدہ عربی زبان سیکھنے کے لئے پر عزم موصوف نے ایک ایسے نوجوان استاذ کا انتخاب کیا جس کے آپ خود مربی تھے۔ اکثر دفتر سے نکل کر مسجد جاتے ہوئے اس سے اس کے احوال پوچھتے اور صلاحیتوں کو پروان چڑھانے پر زور دیتے تھے، مرکز جماعت کے کیمپس میں واقع مسجد اشاعت اسلام کے مکتب کے سرپرست ہونے کی حیثیت سے اکثر اسے مختلف درجوں کے معائنے کا حکم دیتے تھے، جسے وہ بہ رضا و رغبت قبول کر اپنے لیے باعث فخر محسوس کرتا.
مگر عربی زبان سیکھنے کے لیے انھوں نے اسے حکم نہیں دیا، بلکہ اپنے عالی ظرف ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اس سے  کچھ وقت نکالنے کی بات کی اور حسب  توقع وہ نوجوان اس کام کے لیے تیار ہو گیا.

اس طرح ایک باوقار مربی ایک  با کمال متعلم بن کر تقریباً دو سال تک عربی کی بنیادی کتابیں پڑھیں اور قرآن کے ترجمے پر غور و فکر کرنے کے لیے سورہ ٔبقرہ کی ابتدائی رکوع کو پورا کیا ۔انھوں نے اپنی پوری زندگی تعلیمی خدمات میں لگاتے ہوئے اپنے اس عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ علم حاصل کرنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ جب بھی موقع ملے کچھ نہ سیکھتے رہنا چاہیے.

راقم کے لیے ان کا دنیا سے رخصت ہوجانا ایک بڑا سانحہ ہے۔ وہ میرے مربی تھے اور مجھ سے عربی سیکھنے والے متعلم بھی. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کے  گناہوں کو معاف کرے، انھیں جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے، ان کے تمام لواحقین و متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائےاور امت کو ان کا نعم البدل عطا کرے. آمین یا رب العالمین.
محب اللہ قاسمی

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...