Wednesday 19 March 2014

Islam Aman Muhabbat aur Musawat ka Paigham


اسلام-امن , محبت اور مساوات کا پیغام

انسانی زندگی امن وطمینان کا خواہواں  ہیں  جس میں  عدل وانصاف ہواور یہ امن واطمینان اور سلامتی کا پیغام دینے والا مذہب ’’دین اسلام‘‘جس کے تئیں  مخالفین نے عام لوگوں  کے درمیان غلط تعارف اور  فتنہ انگیز کار ناموں کے سبب دہشت وحشت کا تصور پیداکر رکھا ہے۔  مگر تاریخ اسلام اس پر  گواہ ہے اور  اس سے واقفیت رکھنے والے حق پسندحضرات خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں  کہ اسلام درحقیقت انسان کو انسانیت کا پیغام دیتا ہے۔ جوآپسی محبت اور  باہمی مساوات چاہتا ہے۔
اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ عرب جہاں سے اسلام کا آغازہواوہاں کی تاریخ اسلام سے قبل ایسی ظالمانہ ، وحشیانہ اور  جابرانہ تھی کہ معمولی سی بات پر دوقبیلے صدیوں تک آپسی جنگ جاری رکھتے اور انتقام کی آگ میں  جھلستے رہتے تھے خواہ اس کے لے سینکروں کی جان لینی پڑے یادینی پڑے اس کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ گویاانتقام کے لئے انسانی جان کی کوئی قیمت اور  وقعت نہ تھی۔  تعصب پرستی کا ہال یہ تھا کہ ہرامیر غریب کوستاتااور طاقتور کمزوروں پرظلم ڈھاتا تھا۔
الغرض اسلام سے قبل لوگوں نے اپنی تخلیق کا مقصدبھلادیاتھااور خودتراشیدہ بتوں کواپنا معبودحقیقی گردان کران کی پرشتس کرناان کافریضہ اور  خودساختہ راہ اختیار کرتے ہوئے فساد و بگاڑ پیداکرناان کا شیوہ بن چکاتھانتیجہ ظلم وزیادتی ،قتل وغارتگری،چوری وبدکاری اور  بداخلاقی کابازار گرم ہوگیاتھا۔ معاشرتی زندگی تباہ وبربادہوچکی تھی اور  نظام عالم تہ وبالاہوگیا تھا۔
ایسے پر خطرحالات میں  جہاں انسانیت سسکتی ہوئی دم توڑرہی تھی ’’اسلام‘‘نے آپسی محبت کاپیغام سناتے ہوئے انسانی جان کی قدر وقیمت بتائی اور  حکم جاری کیا۔
من قتل نفسا بغیرنفس اوفساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا۔  (مائدۃ: 32)
کہ ناحق کسی ایک آدمی کاقتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور  اسلام کسی ایک فردکا قتل تودر کنار اس کی ایذار رسانی کوبھی پسند نہیں  کرتا۔  اس پرآپ ؐ کا ارشادہے۔
واللہ لایومن واللہ لایومن واللہ لایومن۔ قیل ومن یارسول اللہ ؟ قال الذی لایامن جارہ بوائقہٗ۔ (بخاری)
بخدا وہ مومن نہیں  بخداوہ مومن نہیں  ،بخداوہ مومن نہیں ۔ دریافت کیا گیا،کون اے اللہ کے رسول !آپ ؐ نے فرمایاوہ جس کا پڑوسی اس کے ظلم وستم سے محفوظ نہ ہو۔
مطلب یہ کہ پڑوسی پرظم کرنا اسلام کی علامت نہیں  ہے خواہ وہ پڑوسی کسی بھی مذہب کاماننے والاہو،وہ انسان ہے اس لئے ان سے محبت اور حسن سلوک کرنا چاہئے۔ آپؐ مہمانوں  کے لئے اپنی چادر تک بچھادیتے اور  ان کی ضیافت کرتے تھے خواہ آنیوالاکوئی بھی ہو۔
محسن انسانیت پیغمبر اسلام نے دشمنوں کے ساتھ بھی برتاؤ کیا۔ ایک مرتبہ ایک دشمن نے اچانک آپ کی تلوار لے لی اور  کہنے لگا  ’’من یمنعک منی‘‘  آپ نے فرمایا ’’اللہ‘‘یہ سنتے ہی تلوار  اس کے ہاتھ گر گئی آپ نے تلوار اپنے قبضے میں  لے لی اور   یہی سوال اس سے دہرایامگر آپ نے اس پر کوئی وار نہیں  کیا بلکہ اسے آزادچھوڑدیا۔ فتح مکہ کے وقت آپؐ چاہتے توچن چن کر  غیر قوموں  کا قتل کروادیتے مگر انسانیت کے تحفظ وبقا کے علمبردارحمۃ اللعالمین نے یہ فرمان جاری کیا ’’انتم الطلقائ‘‘ کہ تم سب آزادہو کوئی زور زبردستی نہیں ہوگی۔
یہاں ٹھہر کر ایک شک کاازالہ کرنانہایت ضروری ہے ۔  جولوگ کہتے ہیں  کہ اسلام بہ زور شمشیر پھیلاہے تو یہ پیغامِ انسانیت کیسے ہوسکتاہے؟ اس کاجواب یہ ہے کہ اگر اس بات میں  ذر ابھی سچائی ہوتی تومذکورہ آیات واحادیث ،فتح مکہ کا واقعہ اور  آپؐ کااعلیٰ اخلاق کہ اپنے اوپر کوڑے اور  غلاظت پھینکنے والی عورت نے جب بیمار ہونے کے سبب آپ پر کوڑانہ پھینک سکی تو آپؐ اس کی عیادت ومزاج پرسی کے لئے اس کے گھر تشریف لے گئے جس کااس کے قلب پر  گہرا اثر پڑا۔  اسی طرح اس قسم کے دیگر واقعات یہ سب اسلام میں نہیں ہوتاکیوں کہ یہ دونوں  دوالگ الگ متضاد چیزیں ہیں ۔
محمدبن قاسم کی تاریخ بھی دیکھی جاسکتی ہے جس وقت انہوں نے ہندوستان پر فتح کا پر چم لہر ایا اگروہ چاہتے توکسی غیرمسلم کوزندہ نہ چھوڑتے علاوہ ازیں ان کی عبادت گاہیں بھی منہدم کردیتے مگر انہوں نے ایسا نہیں  کیا،پھردور آیاہندوستان پر  مسلمانوں کی حکمرانی کاتواس کی بھی تاریخ صاف وشفاف آئینے کی مانندہے جس میں ان کے دور حکومت کودیکھاجاسکتا ہے کہ کہیں  کسی غیرمسلموں پر کوئی ظلم زیادتی نہیں ہوئی ۔ اگر ایساہوتا تواس ملک میں نہ توکوئی غیرمسلم نظر آتا اور   نہیں ان کی عبادت گاہیں ایسے میں  اسلام پر اس قسم کا اعتراض کرنا اس پربے بنیادالزام عائد کرنا ہے ۔ یہ اسلام کی شبیہ کوبگاڑنے کی کوشش ہے جوکسی بھی صورت درست نہیں ۔
اس کے بعداسلامی درسیات کے درخشاں پہلوؤں کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انسانی نفسیات کاجائزہ لیا جائے توایسافطری طور پر دیکھاگیا کہ جب انسان بیمار ہوتا ہے تواس کی نگاہ اپنی خبر گیری اور  مزاج پرسی کرنے والوں کوڈھونتی ہے جواسے زندگی کی تسلی اور مرض سے لڑنے کاحوصلہ بخشے،اسلام نے اسے محسوس کیااور مریض کی عیادت کرنااسلام کا ایک حصہ بن گیا۔
آپ ؐ بذات خودمریض کے گھر تشریف لے جاتے اور اسکی عیادت فرماتے ۔اس موقع پر آپ ؐکاارشاد درج ذیل ہے۔
انت رفیق واللہ  الطبیب ۔ اذادخلتم علی المریض فنفسوالہ الاجل فان ذالک لایرد شیاوہویطیب نفس المریض۔ (مسند احمد)
مریض کی عیادت کرنے والااس کا دوست ہے،جب تم کسی مریض کے پاس جاؤتواس کے اجل کومہلت دو (اسکوامیداور حوصلہ دلاؤ)کیوں کہ ایسا کرنے کرنے میں  مریض کونفسیاتی حوصلہ ملتاہے۔
اسی طرح اسلام میں  باہمی مساوات کی اہمیت کچھ اس طرح ہے کہ یہاں کسی کو کسی پر کوئی فضیلت اور  برتری نہیں  ہے، ہرانسان آدم کی اولاد ہے جس کواللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیداکیا۔  فتح مکہ کے  موقع پر آپ کا ارشاد:
یاایہا الناس الآان ربکم واحد وان اباکم واحد الآلافضل لعربی علی عجمی  ولالعجمی علی عربی ولاالاحمرعلی اسود ولاالاسودعلی احمرالابالتقوی۔ (مسنداحمد)
اے لوگوں بلاشبہ تمہار ارب ایک ہے اور تمہارے آباواجدادبھی ایک ہیں جان لوکہ کسی عربی کوکسی عجمی پراور نہ ہی کسی عجمی کوکسی عربی پر ،نہ کسی سرخ کوکسی سیاہ پر  اور  نہ ہی کسی سیاہ کو کسی سرخ پر کوئی فضیلت اور  بر تری حاصل ہے سوائے تقوی کے ‘‘اسی بات کی وضاحت کر تاہے ۔  لہذانام ونسب اور   خاندان کی وجہ سے کسی کوکسی پر فخر کرنے کاکوئی حق جواز نہیں اور  نہ ہی کسی کی تحقیر وتذلیل کرنااس لئے رواہے۔  اس جگہ قرآن کریم کی آیت اس بات کاخولاصہ پیش کرتی ہے ۔
یاایہاالذین آمنوالایسخرقوم من قوم عسی ان یکونواخیراًمنہم ،ولانساء عسی ان یکون خیرامنہن ولاتلمزواانفسکم والاتنابزوا بالالقاب۔ بئس الاسم الفسوق بعدالایمان ومن لم یتب فاولئیک ہم الظالمون۔             (الحجرات:۱) 
اے ایمان والو!کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہواور نہ ہی عورتیں عورتوں کامذاق اڑائیں  ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں ،اور نہ ایک دوسرے کوطعنہ دو،اور ایک دوسرے کوبرے لقب سے پکارو ،ایمان لانے کے بعدبر انام رکھناگناہ ہے، اور  جوتوبہ نہ کرے وہ ظالم ہے۔
رہی بات حسب ونسب اور  خاندان کی جس کامقصدصرف ایک دوسرے کاتعارف ہے۔  جسے خالق جہاں نے اپنے کلام پاک میں کچھ اس طرح بیان فرمایاہے ۔
یاایہاالناس اناخلقناکم من ذکر ووانثی وجعلناکم شعوباًوقبائل لتعارفوا۔ ان اکرمکم عنداللہ اتقکم ۔    (الحجرات:۱۳)
اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرداور ایک عورت سے پیداکیا۔ (یعنی سب کی اصل ایک ہی ہے) اور  تمہیں خاندانوں اور  قبیلوں میں بانٹ دیاتاکہ تم ایک دوسرے کوپہچانو،بے شک اللہ کے یہاں تم سب میں زیادہ عزت والا وہ ہے جوتم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والاہے۔
اس کا مشاہدہ مسجد میں  لگی صفوں کودیکھ کر کیاجاسکتاہے جس میں  بلاامتیازمختلف قدوقامت ،انفرادی شان شوکت کے حامل ہر طرح کے حضرات کندھاسے کندھا ملائے کھڑے نظرآتے ہیں ۔ اس کی خوبی بیان کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا تھا    ؎
ایک ہی صف میں  کھڑے  ہوگئے محمود و عیاض
نہ کوئی بندہ رہا اور   نہ کوئی بندہ نواز
ہاں !  اگر اسے بر تری چاہئے تویہ صرف تقوی کے ذریعے ہی حاصل ہوسکتی ہے اور   وہ ہے خداکاخوف پیش نظر رکھنا اور  اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزار نا۔  ایسا دیکھا جاتا ہے کہ لوگ دنیاوی اعتبار سے خود کومالدار سمجھ کر اپنے کوسب سے بڑا،مقرب اور  قابل فخر سمجھتاہے۔  جواس کی نادانی ہے کیوں کہ اگر ایسا ہوتاتوقارون سے زیادہ قابل فخر کوئی نہ ہوتااور ہمیشہ اسے ذکر  خیر  میں  یاد کیاجاتامگر ایسانہیں ہے۔  اگر مالدار ی قابل فخر ہے بھی تو اصل مالداری یہ نہیں  کہ کسی کے پاس ۵  یا ۱۰ لاکھ روپئے ہیں  یا اس سے مزید ملکیت اس کے پاس ہے کیوں کہ ایسی صورت میں  نہ تو انسان کوسکون میسرآتاہے اور نہ ہی اسے قلبی راحت ملتی ہے۔ اسی وجہ سے یہ مالداری قابل فخر نہیں  جوانسان کواپنے رب کی یادسے غافل کردے بلکہ مالداری ’’ غنی النفس ‘‘ نفس کی مالداری ہے جو خدا کی مرضی کواولیت کا درجہ دے۔ تبھی جاکرانسان قابل فخر،معظم ومکرم ہوسکتاہے۔
انسانی زندگی کو بڑے ہی نازک مراحل سے گزرناپڑتاہے ۔ اس کے کچھ اقدار ہیں  جسے ملحوظ رکھتے ہوئے اس کی حفاظت نہایت ضروری ہے۔ اگراس کی حفاظت نہیں  کی گئی توانسان انسان نہیں بلکہ ایک درندہ صفت حیوان بن جاتاہے جوانسانی سماج میں  نہایت ہی خطرناک اور  انسانیت کے لئے مہلک ثابت ہوسکتاہے۔
اسی کے پیش نظر اسلام نے ناحق قتل ،غارتگری،شراب خوری،فحاشی وزناکاری، بداخلاقی وبدکاری سے منع کیا۔  تاکہ انسان کی عزت وشرافت پرکوئی آنچ نہ آئے اور  خدا کے اس کائنات میں  وہ امن وسکون کے ساتھ زندگی گزارسکے۔ اسلام نے الیدالعلیا خیرمن الیدالسفلیٰ کانفسیاتی نسخہ عطاکیاتاکہ یہ واضح ہوجائے کہ خدانے جب تمہیں دومضبوط بازو دئیے ہیں  توتم اسے لوگوں کے سامنے پھیلانے کے بجائے کام میں  لاؤ اور خداکی زمین وسیع ہے ’’فانتشروا فی الارض وابتغوامن فضل اللہ ‘‘توتم اسمیں  پھیل جاؤ اور خداکافضل (رزق)تلاش کرو۔
ایک دوسرے سے نفرت کے بجائے محبت کا شوق دلاتے ہوئے اسلام کہتاہے ’’  لایرحمہ اللہ من لایرحم الناس‘‘ جولوگوں پررحم نہیں کرتاخدابھی اس پررحم نہیں  کرتا ہے۔
دوسری جگہ
الراحمون یرحمہم الرحمن ارحمومن فی الارض یرحمکم من فی السماء    (ترمذی)
رحم ووکرم اور دوگذرکرنے والوں پرخدابھی رحم کرتاہے۔ لہذاتم زمین والوں پررحم کرو، آسمان والاتم پررحم کرے گا۔
خلاصہ یہ کہ اسلام نے انسانیت کے تمام گوشوں پرنگاہ ڈال کرانسان کواس کے حقوق عطاکئے ،محبت ومساوات کاپیغام سناکراسے جینے کے آداب سکھائے اور  اسے جینے کا صحیح راستہ دکھاکروحشی اور درندوں  کی صفوں سے نکال کراسے اشرف المخلوقات آدم کی اولاد کا وقاربخشا۔ پھراسلام کے ساتھ دہشت وفسادکوجوڑکراسلام کی شبیہ کوبگاڑنے کی ناکام کوشش کرنا ، درحقیقت ببول کی درخت سے آم کاپھل لانے کے مترادف ہے، جوعناد،ہٹ دھرمی کے ساتھ ساتھ اعلیٰ درجے کی حماقت ہے۔
بہرحال اہل اسلام کوموجودہ حالات سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں  ہے اور نہ ہی جذبات میں  آکرکوئی غلط قدم اٹھانے کی۔ بلکہ اپنے مذہب پرمضبوتی سے قائم ودائم رہیں  ۔  بس یہ سمجھ لیاجائے کہ خداکافرمان برحق ہے ’’ان الدین عنداللہ الاسلام ‘‘یعنی قابل اعتبار اور قابل نجات مذہب اسلام ہی ہے خواہ دنیاوالے کچھ بھی کرلے۔ اس پرآپؐ کا ارشادمزید اس کی وضاحت کرتاہے ۔  ’’الاسلام یعلی ولایعلی‘‘یعنی اسلام اپنے اوصاف حمیدہ کے سبب غالب ہونے کے لئے آیاہے تواسے کوئی بھی فتنہ،پروپگنڈہ یاطاغوتی ہتھیارکبھی مغلوب نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ یہ مذہب ِانسانیت ہے جوزندگی گزارنے کا طریقہ بتاتاہے جوآپسی محبت اور باہمی مساوات کاپیغام دیتاہے۔ اس لیے جواسلام کے دشمن ہیں  اور  مسلمانوں کوحراساں  کرنے کی کوشش کرتے ہیں  وہ درحقیقت انسانیت کے دوست نہیں  اس کے جانی دشمن ہیں ۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...