Wednesday 24 April 2019

Ittehad Ummat aur Iqamat Deen


اتحادِ امت اور اقامت ِدین
محب اللہ قاسمی
زندگی گزارنے کا خدائی نظام، جس کے مطابق زندگی بسرکرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے۔ پھر اس نظام کو اپنے قول وعمل اور اپنی تمام ترصلاحیتوں سے عام کرنا، تاکہ دنیا کا ہر انسان اپنے مالک حقیقی کی مرضی کو جان کر اس کی ہدایت (دین) کے مطابق اپنی زندگی گزارسکے ۔گویا فرد کی اصلاح معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل کا کام انجام دینا  اقامت دین ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اْس نے تمہارے لیے ، دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے، جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا ، اور جسے (اے محمدؐ) اب تمہاری طرف ، ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے ، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑ اور موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ کو دے چکے ہیں ، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جائو یہی بات ان مشرکین کو سخت ناگوار ہوئی ہے جس کی طرف (اے محمد ؐ ) تم اِنہیں دعوت دے رہے ہو۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کر لیتا ہے ، وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے ، جو اْس کی طرف رجوع کرے۔(الشوریٰ: 13)

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو( جوکلمہ ٔ  توحید کی بنیاد پر متحد ہوئے ہیں ) دوباتوں کی دوہدایت دی ہے:

۱۔ اقامت ِدین          
۲۔ تفرقہ بازی سے اجتناب

اس آیت کی روشنی میں موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو یہ بات نمایاں طور پر نظر آتی ہے کہ امت میں اقامت دین کا جذبہ ہے، مگر وہ گروہ بندی سے اجتناب نہیں کرتی ہے۔ ایک گروہ کسی خاص انداز سے اقامت دین کا کام انجام دے رہا ہے تو دوسرا گروہ اس کی مخالفت کررہا ہے اور اس کو برا کہہ رہاہے، جب کہ دونوں دین کے بنیادی عقائد (توحید، رسالت اور آخرت وغیرہ) میں متحد ہیں۔

اختلاف اور افتراق
اختلاف اور افتراق، کے معنی ہیں ، دوچیزوں کا مختلف ہونا ۔یہ دونوںا لفاظ کبھی ایک معنٰی میں مستعمل ہوتے ہیں تو کبھی دونوں  کے دو خاص معنی ہوتے ہیں۔

 دنیا کے تمام معاملات جن میں اللہ اور اس کے رسول کی واضح دلیل موجود ہے(جسے اصطلاح شرع میں’ نص‘ کہتے ہیں)ان میں سب کااتحاد کے ساتھ عمل کرنا ضروری ہے، محض اپنی رائے پر اختلاف ،جس کے نتیجے میں افتراق ہو،کسی بھی درجہ میں مناسب نہیں ہے۔اگر نص موجود نہ ہو تو وہاں رائے کا اختلاف ممکن ہے ۔ یہ اختلاف  انسان کے فہم و فراست میں اختلاف کی بناپر ہوگا۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ نے صحابہ کے ایک وفد کو روانہ کرتے ہوئے کہا کہ بنوقریظہ کی آبادی میں پہنچ کر نماز عصر ادا کرنا۔ مگر صحابہ کرامؓ کا وفد ابھی اس مقام تک پہنچا بھی نہیں تھا کہ نماز عصر کا وقت ختم ہونے لگا تو کچھ لوگوںنے مقام پر پہنچنے سے پہلے ہی نماز ادا کر لی، جب کہ دوسرے کچھ صحابہ نے بنوقریظہ پہنچ کر نماز عصر ادا کی۔بعد میں اس کی اطلاع آپ ؐ کو ملی تو آپ نے کسی کو  غلط نہیں قراردیا۔

یہی وجہ ہے کہ جتنے بھی ائمہ مجتہدین گزرے ہیں، ان کا اختلاف ایسے ہی اجتہادی مسائل میں ہے، پھر انھوں نے کبھی اپنی رائے پر دوسروں کو پابند  بنانے کی کوشش نہیں کی، بلکہ جن حضرات نے ان کی آرا کو سامنے رکھا اور انھیں بہتر اور نص سے قریب تر محسوس کیا ،انھیں اختیار کیا۔ ائمہ اربعہ نے باہم کسی کی رائے کو برا نہیں کہا اور ان کی تردید اور تغلیط نہیں  کی۔ بلکہ حضرت امام شافعی ؒ کا واقعہ ہے کہ جب وہ امام ابوحنیفہ ؒ کے شہر میں داخل ہوئے تو  ان کی رائے کا احترام کرتے ہوئے رفع یدین ترک کردیا ۔

 فروعی مسائل کے اختلاف کوامت کے افتراق اور گروہ بندی کی شکل بنا کر ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا یا اس میں تشددکا راستہ اختیار کرنا کسی طرح درست نہیں ہے۔صحابہ کرام میں بھی رائے کا اختلاف تھا مگر اس کی بنیاد پر وہ منتشر نہیں ہوئے بلکہ بھرپور اتحاد کے ساتھ اقامت دین کی جد و جہد میں مصروف رہے ۔انھوں نے اشداء علی الکفار رحماء بینہم(کفار کے مقابلے میں سخت اور آپس میں نرم دل )کا ثبوت پیش کیا۔

اقامت ِدین ایک مسلمان کا نصب العین ہے، یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے ، کہ کہا جائے کہ اس کی کوشش اس سے قبل نہیں ہوئی ۔سب سے پہلے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ اقامت دین کسے کہتے ہیں؟ اسلام کے بارے غلط فہمیوں کو دور کرتے ہوئے اسلام کی دعوت دینا اس کی اشاعت وحفاظت ، اسلامی ثقافت و معاشرت کے فروغ کی کوشش کرنا اوردین میں ہر طرح کی خرافات و بدعات کی آمیزش کو دور کرنااقامت دین ہے۔صحابہ کرامؓ ،تابعین عظام،تبع تابعین  اور سلف صالحین رحمہم اللہ نے اپنی پوری زندگی اسی کے لیے وقف کردی تھی ۔

9/11 کے بعد جب دہشت گردی کو اسلام اور مسلمانوں سے جوڑ کر اسلام کو بدنام کرنے کی عالمی سازش رچی جا رہی تھی اس وقت ہندوستان میں بھی یہ آگ چاروں طرف پھیلی تھی جسے بجھانے اور غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے ایک بہت بڑا اجلاس دارالعلوم دیوبند میں منعقد کیا گیا تھا، جس میں مختلف مسالک کے ذمہ داران کو ایک اسٹیج پر جمع کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی تھی۔اس سے ایسا لگ رہا تھا کہ واقعی اب مسالک کا وہ جھگڑا ،جو دست گریباں تک پہنچنے کا سبب بنتا تھا ختم ہو جائے گا۔مگر افسوس کہ یہ صورت حال صرف وقتی ہی رہی۔اس کے بعد تکلیف دہ بات جو دیکھنے کو ملی وہ یہ کہ جمعیت علماء ہندکے دو ٹکڑے ہو گئے۔عام مسلمانوں میں مقبول تبلیغی جماعت میں منصب کی لڑائی نے شرمناک رخ اختیار کر لیا۔ اس پر غضب بالائے غضب یہ کہ سعودی فرماںروائوں نے اپنی حیرت انگیز پالیسیوں سے ملت کو مزید انتشار اور تکلیف میں مبتلا کر دیاحالاں کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ  درجنوں مسلم ممالک کا باہمی اتحاد مسلمانوں کواستحکام عطا کرتاجس سے وہ دشمنان اسلام کا مقابلہ کرتے ، بے بس مسلمانوں کو ظلم استحصال کا شکار ہونے سے بچایاجاتا اور دنیامیں پھیلے فساد و بگاڑکو روکنے کی کوشش کی جاتی ۔کیوںکہ

منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ ، دین بھی ، ایمان بھی ایک

حرم ِ پاک بھی، اللہ بھی ، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جومسلمان بھی ایک

موجودہ دور میں مسالک کے اختلاف نے بہت خطرناک رخ اختیار کرلیا ہے۔ دوسرے مسالک کے لوگوں کااپنی مساجد میں داخلہ روکنا ،ایک دوسرے پر کفرکا الزام لگاناعام ہوتا جا رہاہے ،جو انتہائی افسوسناک ہے۔ مسلمانوں کے یہ  اختلافات صرف مسلک تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ ایک ہی جماعت اورایک ہی مسلک کے ماننے والوں میں بھی محض آراء کا اختلاف انتشار اور تنازع کی شکل اختیار کرلیتاہے ۔اس کی وجہ پر غور کریں تومعلوم ہوتا ہے کہ محض ’انا‘کی وجہ سے کہ میری رائے کو کیوں نہیں قبول کیاگیا اور میرے نظریے کے مطابق معاملہ کیوں نہیں ہوا،یہ صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔پھر  شیطانی وساوس اختلاف پیدا کرنے والوں کو گروہ بندی جیسے گھٹیا عمل میں ملوث کردیتے ہیں۔جس کے نتیجے میں امت بکھراؤ کا شکار ہو کر بے وزن ہوجاتی ہے اور اس کا دینی و ملی مفاد، جس کے لیے سب نے اپنے کو وقف کر رکھا تھا اس کا ناقابل تلافی نقصان ہوجاتا ہے۔پھرہرگروہ کے متبعین  آپس میں ہی ایک دوسرے کونیچادکھانے اور انھیں ہرممکن نقصان پہنچانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔

قائدین ملت کا محض اپنی  ’انا ‘اور ’شہرت‘ جاہ و منصب کی خاطر امت کو اتنے بڑے خسارے میں ڈال کر گوشہ عافیت میں پناہ گزیں ہوجانااقامت دین کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے جس کا شاید انھیں اندازہ بھی نہیں ہوتا۔یہ صورت حال امت کے ہر گروہ کی ہے جس کی وجہ سے آسمانی مصیبتیں در آتی ہیں اور نت نئے مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور دشمنان اسلام اپنے مکروفریب میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہوجا، محبت کی زباں ہوجا

ضرورت ہے کہ  ماضی کے ان تلخ حقائق کو سامنے رکھ کر اختلاف کی وجوہ کا جائزہ لیا جائے اور انھیں حل کرنے کی سعی کی جائے،  تاکہ آنے والی نسل کو اس کی کڑوی گولی نہ لینی پڑے اور اختلاف مسالک کے باوجود اتحاد کی صورت اپنائی جاسکے اور اقامت دین کی راہ آسان ہو۔ll      

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...