Thursday 11 April 2019

Hindustan men Muslim Qeyadat ka Zawal - Asbab o Awamil



ہندوستان میں مسلم قیادت کا زوال- اسباب وعوامل
محب اللہ قاسمی

ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے ، اس کی خوبصورتی اسی میں ہے کہ اس  میں ہرقسم ، ہر رنگ و نسل کے لوگ  اور مختلف مذاہب کے ماننے والے پرامن طریقہ سے رہیں اور ملک کی ترقی اور خوش حالی کے لیے اپنی پوری قوت لگا دیں۔ اس لحاظ سے ہر محاذ پر انھیں کی نمائندگی  کا موقع دیا جانا چاہیے۔ اس وقت ہندوستانی سیاست میں مسلم قیادت کو جس طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔

1۔ ہندوستان میں سیکولر شناخت کی دھندلی ہوتی تصویر اور فسطائی قوتوں کے ناپاک عزائم نے جہاں دوسرے کم زور طبقے کو متاثر کیا وہیں مسلمانوں کو بھی حاشیہ پر لا کھڑا کیا ہے جس کی وجہ سے  اب کسی پارٹی کو مسلمانوں سے  ہمدردی نہیں  رہ گئی ہے۔ وہ انھیں کوئی اہمیت نہیں دے رہی ہے۔

2۔ ہندوستان کی کسی بھی پارٹی سے جیت کر آنیوالے مسلم امیدوارکو پارٹی نے  اس کی حیثیت کے مطابق  مقام نہیں دیا۔حتی کہ اسے  مسلم ایشوز پر بھی بولنےسے روک دیا، جس کی وجہ سے مسلمانوں کی گنی چنی پارٹیاں حرکت میں آئیں مگر ان کا باہمی اتحاد نہ ہونےکی وجہ  سے وہ منتشر رہیں۔اس کے سبب مسلم قائدین دوسری پارٹیوں  میں بھی نظر انداز کئے گئے۔

3۔ مسلمانوں کا سیاسی شعور  جس قدر بیدار ہونا چاہیے تھا اور جس طرح ان کے قائدین کو اپنے نوجوانوں کی سیاسی تربیت کرنی چاہیے تھی ایسی نہیں ہوئی ۔اس کے نتیجہ میں نام نہاد سیکولر ازم کا طوق گلے میں لٹکائے مسلم قائدین زوال پذیر ہوتے گئے،مسلمانوں کا وجودجلتی ہوئی موم بتی کی طرح پگھلتا چلاگیا اور وہ  سیاسی طور پر مستحکم نہیں ہوسکے۔ ادھر فسطائی طاقت کا وجود  اور ہندوتو کے  غلبہ نے ان قائدین کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا اور دوسری طرف  وہ پارٹیاں جن کی کام یابی کے لیے مسلمانوں نے اپنی کئی نسل لگا دی اب وہ بھی انھیں ٹکٹ سے محروم کرنے  لگے۔

4۔ آزادی کے بعد سے مسلمانوں کی قیادت کی ذمہ داری اٹھانے والے مسلم قائدین نے اپنی  نسل کو آگے بڑھانے اور انھیں مین اسٹریم سے جوڑنےکی اس قدر کوشش نہیں کی جیسی دوسری قوموں نے کی ہے ۔نتیجتاً  اب انھیں کوئی قیادت کا موقع  دینےکے لیےتیار نہیں۔

5۔ نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے بھی مسلمانوں کے ووٹ اور ان کی حمایت سے صرف اپنے پنجے کو مضبوط کرنےاور اپنی لالٹین کی لوبڑھانے کی کوشش کی، مگر خود ان کے گھر کے لوگوں کو مضبوط کیا نہ اس کے گھر میں لال ٹین جلائی۔ سارا تیل خود  ہی پی گئے اور جس نے گھر بنانے  کی امید جگائی وہ کھلے طور پر موقع پرست ہوکر گھر جلانے والوں کے ساتھ ہوگیا۔اس کے نتیجےمیں اب یہ پارٹیاں بھی مسلمانوں کو محض استعمال کرنے کے لیے اپنی پارٹی میں جگہ دیتی ہیں، بلکہ بسا اوقات انھیں ایسی جگہ سے ٹکٹ دیتی ہیں جہاں سے اس کا جیتنا آسان نہ  ہو۔  اس طرح وہ چاہتی ہے کہ مسلم قیادت کسی طور  مضبوط  نہ ہو۔

6۔ طویل عرصے سے مسلمانوں کی سیاسی کم زوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں خط افلاس سے نیچے پہنچادیاگیا، جس کی وجہ سے ان کا اپنی قیادت کے بارے میں سوچنا تو  دور  ان کے جینے کے لالے پڑ گئے، چہ جائے کہ تعلیمی اور دیگر  میدان میں آگے بڑھ پاتے اور اس میں قیادت کا  فریضہ انجام دیتے ۔

7۔ ہندوستان  میں مسلم قائدین نے اپنی حیثیت اس قدر مجروح کرلی کہ دوسری قوم کی عوام نے بھی اسے حقارت سے دیکھنا شروع کردیا اور  ان پر یہ الزام کہ جو اپنی قوم کی فلاح و بہبود اور اپنے مذہب جوانسانیت کی کامیابی کا نسخہ اپنے پاس رکھتا ہے ۔ اس کے لیے اتنا وفادار نہیں تو دوسروں کے لیے وہ کیا کرے گا۔نتیجہ ایک گدھا اور احمق بن کر اپنا وجود ایسے کھونے لگا کہ  نہ گھر کا رہا نا گھاٹ کا۔

8۔ سیاسی بصیرت کا فقدان اورعلمی صلاحیت کی کمی نےان مسلمانوں کو جنھوں  نے چھ سو600 سال ہندوستان پر  حکومت کی  غلامی کے دلدل میں ڈال دیا جس کی وجہ سے وہ پارٹی کی دری  ،کرسی بچھانے اور چاپلوسی جیسی  گھٹیا صفت اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دلدل سے نکلنے کی کوئی کوشش بھی نہیں ہے۔

9۔ کوئی انسان جب تک خود کو پہچانتا نہیں اور اپنی قابلیت کو نہیں پرکھتا وہ اسے مزید نکھارنے اور بہتر بنانے کی فکر بھی نہیں کرتا ۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی طور پر مسلمانوں نے خود کو پہچاننے کی کوشش نہیں کی اور نہ اپنی صلاحیت کو اس ضمن میں پروان چڑھایا۔نتیجتاً وہ سیاسی طور پر حاشیہ پر چلے گئے۔نوبت یہ آ گئی کہ اب انھیں کوئی نہیں پوچھتا۔

10۔قیادت میں پھر سے واپسی اور زمام حکومت کو پھر سے اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے مسلمانوں کو از سرنو محاسبہ کرنا ہوگا اور اپنے اختلاف و انتشار کو پوری طرح سے ختم کرکے سیاسی طور پر مستحکم کرنے کے لیے بہت بڑا دل کرتے ہوئے ایک دوسرے کو گلے لگانا ہوگا۔ اب مسلمانوں کو دوسری پارٹی کے بھروسے پررہنے کی ضرورت نہیں، خود کی پارٹی کو مضبوط کرکے  ملک کی قیادت کا فریضہ انجام دینا ہوگا۔ تب ہی فسطائی قوت کو مات دی جاسکتی ہے ورنہ الگ الگ میقات میں الگ الگ پارٹیاں جیتتی رہیں گی مگر نظریہ  وہی تعصبانہ اور ملک میں انتشار اور بے چینی کی کیفیت پیداکرنا ،فسادات،غربت و افلاس ، بے روزگاری ومہنگائی کی مار سہنی ہوگی ۔ جس سے نہ ملک پرامن ہوسکے گا اور نہ خوش حالی آئے گی۔



No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...