Sunday 30 March 2014



انسان اس دنیا میں جوبھی نیک عمل کرے گا آخرت میں  اللہ کی بارگاہ میں  اس کابہتراوراجرعظیم کی شکل میں  پائے گا۔ ان ہی نیک اعمال میں  سے ایک عمل صدقہ ہے ۔  اسلام میں  صدقہ کی بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے۔  اسے انسان اور جہنم کے مابین حجاب قراردیاگیاہے اور  وہ دنیا میں  بھی انسان کو بہت سی مصیبتوں سے محفوظ رکھتاہے۔  صدقہ کا ایک معروف ومشہورمفہوم ہے جو عام طورپر لوگوں کے ذہن میں  گردش کرتارہتاہے۔ وہ ہے صاحب ثروت اور  مالدار لوگوں  کا اپنامال اپنی جیب سے نکال کرغریب مسکین لوگوں کی ضروریات کی تکمیل کی خاطر ان کی جھولی میں  ڈال دینا۔ اسے قرآن و احادیث میں  ’’انفاق ‘‘ (مال خرچ کرنے )کے لفظ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کا صراحۃً حکم دیاگیا ہے اور  ایسا کرنے والے لوگوں کی تعریف وتوصیف بیان کی گئی ہے۔ صدقہ کے سلسلے میں  قرآن کا حکم ہے:
’’یہ صدقات تودراصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور ان لوگوں  کے لیے جوصدقات کے کام پر مامورہوں ،اوران کے لیے جن کی تالیف ِ قلب ہو۔  نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مددکرنے میں  راہ خدامیں  اور مسافرنوازی میں  استعمال کرنے کے لیے ہیں ۔ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا وبینا ہے۔  (توبہ:60)‘‘
جب نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذبن جبل ؓ کو یمن روانہ کیاتو جوچندباتیں  ہدایت فرمائیں  ان میں  ایک بات یہ بھی تھی ۔ آپ ؐ کا ارشادہے :’’ان کو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے مال میں صدقہ کو فرض قراردیاہے، جوتمہارے مالداروں سے لیاجائے گا اور تمہارے غرباء کو دیادیاجائے گا۔ ‘‘    (مسلم )
اس آیت اور حدیث سے مرادزکوۃ ہے۔ دیگر آیات اور احادیث میں  صدقات نافلہ کا حکم آیاہے۔  اس لیے صدقات کی ادائیگی میں  سستی نہیں  کرنی چاہیے، بلکہ اس کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے خواہ وہ مقدارمیں  تھوڑاہی کیوں نہ ہو۔ کیوں کہ یہ گناہوں  کے بھڑکتے شعلوں کو ایسے ہی ٹھنڈاکرتاہے جیسے پانی آگ کے دہکتے انگارے کوسردکردیتاہے۔ اس حکم کی روشنی میں  صاحب حیثیت افراد، مستحقین پر خرچ کرتے ہیں اور اپنے لیے ذخیرہ آخرت کرتے ہیں ۔  لیکن صدقہ کا صرف یہی مفہوم مناسب نہیں ہے۔ نبی کریمﷺ کا ارشادہے: اتقوا النار ولوبشق تمرۃ ، فان لم تجدفبکلمۃ طیبۃ۔
’’جہنم کی آگ سے بچو اگرچہ ایک کھجورکے ٹکڑے سے ہی کیوں  نہ ہو، اگرتمہارے پاس کچھ نہ ہوتو اچھی گفتگو کے ذریعے ہی صحیح مگراس سے بچو۔ ‘‘ (بخاری)
اس حدیث میں  جہنم سے نجات کے دوطریقے بیان کیے گئے ہیں ۔  ایک ہے مال خرچ کرنا خواہ اس کی مقدارکتنی ہی کم سے کم ہو۔  دوسراطریقہ ہے۔  اچھی بات کہنا ، جو کہ ایک معنوی چیزہے۔ اس میں  کچھ مال خرچ کرنے کی ضرورت نہیں  ہوتی۔
اسی مفہوم کی ایک دوسری حدیث ہے ، جس میں  تفصیل سے صدقہ کی چند صورتیں  بتائی گئی ہیں ۔ آپ ؐ کا ارشاد ہے:
علی کل مسلم صدقۃ، قال : أرأیت ان لم یجد، قال: یعمل بیدیہ فینفع نفسہ و یتصدق، قال:قال : أرأیت ان لم یستطع، قال : یعین ذا الحاجۃ الملہوف، قال:قال : أرأیت ان لم یستطع، قال : یأمر بالمعروف اوالخیر،قال : أرأیت ان لم یفعل، قال: یمسک عن الشر فانہا صدقۃ ۔    (متفق علیہ)
’’ہرمسلمان پر صدقہ ہے،ایک صحابیؓ نے کہا جس کے پاس کچھ نہ ہو وہ کیا کرے؟ آپ ؐ نے فرمایا: وہ اپنے ہاتھوں سے کام کرے خود کونفع پہنچایا اور  صدقہ بھی کرے۔ صحابیؓنے کہا: اگروہ اس کی استطاعت نہ رکھتاہو؟ آپ ؐ نے فرمایا:لاچار،ضرورت مند کی مدد کرے،صحابیؓ نے کہا کہ اگر وہ اس کی بھی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔  آپ ؐ نے فرمایا: وہ نیکی اور بھلائی کا حکم دے ۔ صحابیؓ نے کہا کہ اگروہ اس کی بھی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔  آپ ؐ نے فرمایا: وہ دوسروں کوتکلیف پہنچانے سے باز رہے۔ ‘‘(متفق علیہ)
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ تمام مسلمانوں پر ضروری ہے۔ اگرانسان خودکماکر اپنی اور ضرورت مندوں کی مدد کررہا ہے تو ایسا کرنا وہ اس کے لیے صدقہ شمار ہوگا مگروہ اتنابے بس اور لاچارہے کہ یہ ضرورت پوری نہیں  کرسکتا تواس صورت میں  کئی طریقوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ حتی کہ اگروہ بھلائی کا حکم دے اور بری باتوں سے رکے تویہ بھی ایک قسم کا صدقہ ہے۔ صدقہ کا یہی وسیع مفہوم ایک دوسری حدیث سے بھی معلوم ہوتاہے۔ آپؐ نے فرمایا:
عن ابی ہریرۃ ؓ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: کل سلامی من الناس علیہ صدقۃ کل یوم تطلع فیہ الشمس:  تعدل بین اثنین صدقۃ، وتعین الرجل فی دابتہ فتحمل لہ علیہا او ترفع لہ علیہا متاعہ صدقہ، والکلمۃ الطیبہ صدقہ، و بکل خطوۃ تمشیہا الی الصلاۃ صدقۃ، وتمیط الاذی عن الطریق صدقۃ‘‘ (متفق علیہ)
      اس حدیث میں  آپؐ نے انسان کے جسم میں  پائے جانے والے جوڑوں کا ذکر کیا ہے۔  صحیح مسلم کی روایت سے اس کی تعداد360معلوم ہوتی ہے۔  آج ماہرین طب بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں ۔ حدیث کے مطابق روزانہ ان پر صدقہ واجب ہوتاہے۔ اس طرح ایک ہفتہ میں  تقریباًدوہزارپانچ سو بیس صدقات ہوئے۔  ان پر صدقہ کا حکم فرماتے ہوئے ، آپ ؐ نے ان کی ادائیگی کی مختلف صورتیں  بیان کی ہیں ۔  اس کے لیے آپ نے جوطریقے بیان فرمائے ہیں  وہ نہایت آسان ہیں جنھیں  امیر و غریب یکساں  طورپر انجام دے سکتاہے۔ مثلاً دولوگوں کے درمیان انصاف کرنا خواہ سمجھابجھاکر یا ایک فیصلہ دے کر۔ لوگوں کی مدد کرنا بایں  مثلاً ایک شخص کے پاس سواری تو ہے مگروہ خودسے اس پر سوارہونا اس کے لیے دشوار ہے اور کوئی ساتھ بھی نہیں  ہے جو اس کی مدد کرے تو ایسے شخص کو اس کی سواری پرسوار کرنے میں  مددکرنا، یا پھر اس کا سامان سواری پر رکھنا وغیرہ۔ حدیث میں  کلمہ طیب کوبھی صدقہ قراردیاہے۔ خواہ یہ اللہ کی تسبیح وتہلیل بیان کرکے ہو، یا لوگوں کے مابین اپنی گفتگومیں  اچھے اخلاق کے ساتھ اچھے انداز میں  نرم لہجہ اختیارکرکے ہو۔  نماز کے لیے مسجد کی طرف بڑھنے والے قدم کو بھی صدقہ میں  شمار کیا گیاہے ۔ اس میں  مسافت کی قید نہیں  ہے۔  اس کا فائدہ یہ ہے کہ جب انسان  اپنے گھرسے وضوکرکے نمازکے لییمسجدجاتاہے تو اللہ اس کے ہرقدم پر اس کے درجات کو بلند کرتاہے۔  آخرمیں  نبی کریم ؐ نے فرمایاکہ راستے سے تکلیف دہ چیزکو ہٹادینا بھی صدقہ ہے۔  یہ انسان کے لیے ایک اعلیٰ اخلاقی تعلیم ہے جس میں  دوسروں  کو تکلیف دینے سے بچناہی نہیں  بلکہ ہر اس چیزکو دورکردینا شامل ہے ، جو انسان کو راہ چلتے ہوئے تکلیف پہنچاسکتی ہے۔
اسی طرح صدقہ کی ایسی اور بھی بہت سی مثالیں  ہیں  جن میں  مال واسباب توصرف نہیں  ہوتے مگرانھیں  بھی صدقہ سے تعبیرکیا گیا ہے:مثلاً کوئی کمزور آدمی کنوے سے پانی نکال رہاہے۔ اس کا ڈول بھردے۔ یا کوئی مسافرراہ سے بھٹک گیاہے ، اس کی رہنمائی کردے ۔ یا کسی ضعیف وناتواں  کو راہ پارکرادے اور کسی کی بینائی کمزورہوگئی ہو، اس کی مددکردے ۔ اسی طرح خدمت خلق کی اور بھی دوسری صورتیں  ہوسکتی ہے جن میں  مال توصرف نہیں  ہوتا مگر ضرورت مندکی ضرورت ضرورپوری ہوجاتی ہے۔ حدیث میں  اس طرح کے عمل کو بھی صدقہ کہاگیاہے۔ حتی کہ کسی کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنا بھی صدقہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ کا ارشادہے:
تبسمک فی وجہ اخیک لک صدقۃ وامرک بالمعروف و نہیک عن المنکرصدقۃ وارشادک الرجل فی ارض الضلال لک صدق وبصرک للرجل الردی البصر لک صدقۃ و اماطتک الحجروالشوکۃ والعظم عن الطریق لک صدقۃ وافراغک من دلوک فی دلواخیک لک صدقۃ۔  (ترمذی)
’’ تیرا اپنے بھائی کے چہرے پر ہنسی بکھیرنا صدقہ ہے۔ بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے ۔ گم کردہ راہ بھٹکے ہوئے مسافرکو راہ دیکھانا بھی تیرے لیے صدقہ ہے۔  کمزور بینائی والے شخص کی رہنمائی کرنا صدقہ ہے۔  پتھر،کانٹے اور ہدی کوراہ سے ہٹادینا ،تیرے لیے صدقہ ہے۔ اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں  پانی بھردینا بھی صدقہ ہے۔ ‘‘
اس روایت میں  انسانی ہمدردی کی بہت سی مثالیں پیش کی گئی ہیں ، جو بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔  انسان جب کسی سے ملتاہے تو اسے یہ خیال ہوتاہے کہ اس سے جومل رہاہے ،یا خودوہ کسی سے مل رہاہے تو پتہ نہیں  وہ کس کیفیت میں  ہے۔  جس سے عام پر جھجھک ہوتی ہے مگرجب وہ مسکراکرملتاہے تو یہ پریشانی ختم ہوجاتی ہے۔  اسی طرح دیگر اور بھی چیزیں جب انسان کسی کے لیے ایسا کرتاہے تواسے اندرونی طورپر بڑی خوشی ملتی ہے۔ یہ ایک اعلی اوصاف ہیں ،جن سے متصف انسان بااخلاق معلوم ہوتاہے۔  اس لیے آپ نے اس طرح کے عمل کوبھی صدقہ قراردیا ہے۔  جس کے دوررس نتائج سامنے آتے ہیں ۔ یہ اسلام کی بڑی خوبی ہے ،جواپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔
’’حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں  کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایاکہ روزانہ انسان کے ہرجوڑپر صدقہ ہے۔  تم دولوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرویہ ایک صدقہ ہے، کسی انسان کی اس کی سواری کے سلسلے میں  اس کی مددکردو کہ اس کو سوارکرادو، یا اس کا سامان اس سواری پر رکھ دو یہ بھی صدقہ ہے۔  اچھی بات بھی صدقہ ہے۔  ہر قدم جونماز کے لیے آگے بڑھا صدقہ ہے۔ راستے سے تکلیف دہ چیزکو ہٹادو یہ بھی صدقہ ہے۔ ‘‘
موجودہ دورمیں  لوگ ماحولیات کوبہتربنانے کے لیے درخت لگانے کی بات کرتے ہیں  اور اس پر کافی زوردیاجاتاہے ،جب کہ اس کی افادیت کے پیش نظرنبی کریم ﷺ نے چودہ سوسال قبل ہی اس کی اہمیت اور فوائد کی خاطر درخت لگانے کو صدقہ قراردیاہے ،کیوں کہ اس سے جہاں  ماحولیات پر بہتر اثر پڑتاہے وہیں اس سے عام جاندارکو بھی فائدہ ہوتاہے۔  اس تعلق سے نبی کریم کا ارشادہے:
مامن مسلم یغرس غرساً، الا کان ما أکل منہ لہ صدقۃ،  وما سرق منہ لہ صدقۃ، ولایرزؤہ أحد الا کان لہ صدقۃ۔      (ترمذی)
        ’’مسلمان کوئی درخت لگاتاہے اور اس میں  کوئی نقصان پہنچتا ہے کہ کسی نے اس سے پھل کھا لیا، تو یہ اس (درخت لگانے والے )کے لیے صدقہ ہے ۔  اسی طرح کسی نے اس سے چوری کرلی تو بھی یہ اس کے لیے صدقہ ہے۔ ‘‘(ترمذی)
بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ مسلمان اگرکوئی درخت لگائے ،اور اس کوئی انسان ، چوپایایاپرندہ کھالے تویہ اس کے لیے قیامت تک صدقہ ہے۔
انسان اپنی بیوی کے پاس اپنی نفسانی فطری خواہشات کی تکمیل کے لیے جاتا ہے،جوافزائش نسل کا ایک طریقہ ہے ، مگر یہ عمل بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔  ایک موقع پر نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا:
و فی بضع احدکم صدقۃ، قالوا یا رسول اللہ، ایاتی احدنا شہوتہ، ویکون لہ فیہا اجر،قال: أرأیتم لو وضعہا فی حرام أکان علیہ وزر؟ فکذالک اذاوضعہا فی الحلال ،کان لہ أجر۔
’’ضرورت کی تکمیل کے لیے انسان کا اپنی بیوی کے پاس جانا بھی صدقہ ہے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم میں  سے ہرایک یہ عمل اپنی شہوانی خواہشات کی تکمیل کے لیے کرتاہے توکیا اس میں  بھی اجرہے۔ آپﷺ نے ارشادفرمایا: تمہارا کیاخیال ہے اگروہ اپنی یہ ضرورت کسی حرام جگہ پوری کرتا تواس پر گناہ نہیں  ہوتا؟ اسی طرح اس نے یہ حلال طریقہ اختیارکیا ۔ لہذا یہ اس کے لیے باعث اجرہے۔ ‘‘(مسلم )

اس تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ صدقہ کی ادائیگی کی مختلف صورتیں  ہیں ۔ خواہ انفاق کے ذریعے ہو یا دیگرطریقوں سے اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔  صدقہ کے حکم کا مقصد یہ ہے کہ معاشرہ میں  کوئی ننگابھوکا نہ رہے اور  معاشرہ ہر طرح کی گندگی اور شرسے پاک اور پرامن ہو۔ تمام بندگان خداکی تمام ضروریات کی تکمیل ہو۔  اسی لیے نبی کریم ﷺ نے صدقہ کے سلسلے میں  ایک جامع بات بیان فرمائی:’’کل معروف صدقۃ‘‘(ہرنیک کام صدقہ ہے)اس کے ساتھ ہی آپ نے یہ بھی واضح کردیاکہ ’’نیکی اور  بھلائی کے کسی بھی کام کو معمولی نہ سمجھو‘‘کیوں کہ یہ بھی صدقہ ہے۔ 

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...