Wednesday 6 June 2018
Monday 4 June 2018
Etekaf Husule Taqarrub Ilahi ki Tarbiyat
اعتکاف حصولِ تقربِ الٰہی کی تربیت
اللہ کے نیک بندے اس سے اپنی عبودیت
کے رشتے کو مضبوط کرنے اوراپنا تعلق گہرا بنانے کے لیے اس کے گھر سے چمٹ جاتے ہیں اور
اس میں ڈیرہ ڈال دیتے ہیں۔تاکہ وہ دنیا کی چمک دمک ،لہو و لعب اور اس کے مکرو فریب
سے آزاد ہوکراس کی رضاکے حصول کی تمنا لیے ہوئے شب قدر کے فضائل و برکات کو حاصل کرسکیں۔اس
مقصد سے مسجد میں ٹھہرنے کواعتکاف کہاجاتاہے۔ اس کا بہترین وقت رمضان المبارک کا آخری
عشرہ ہے۔
اعتکاف
کا معنی : اعتکاف کا لغوی معنی ہے’ لزوم الشی‘
یعنی کسی جگہ ٹھہرنا، جمے رہنا اور اپنے آپ کو روکے رکھنا ۔
اصطلاحِ
شرع میں اعتکاف کہتے ہیں ،اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے روزے کے ساتھ مسجد میں
ٹھہرنااس طور پر کہ اس میں غیر ضروری گفتگو سے اجتناب اور بلاوجہ مسجد سے باہر نکلنے
سے بچا چائے۔ اعتکاف قرآن ،حدیث اور اجماع امت سے ثابت ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ
طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ(البقرۃ:125
اورہم نے ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ
کو تاکید کی تھی کہ میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے
لیے پاک رکھو۔
اللہ
تعالیٰ نے روزے کے احکام بیان کرتے ہوئے فرمایا :
وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ
وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي المَسَاجِدِ(البقرۃ187
’’
اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔ """‘‘
اعتکاف اور معمولاتِ نبویؐ
رسول
اللہ ﷺ کے معمولات ِ رمضان کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہےکہ آپ ﷺ نے پابندی کے ساتھ
رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا ہے اور یہ اعتکاف آپﷺ کا محبوب مشغلہ رہاہے۔خاص
طور سے شب قدر کی تلاش و جستجو کے پیش نظر، جسے قرآن نے ہزار مہینوں سے افضل قرار
دیا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں حضرت ابوسعید خدری ؓ کا بیان ہے :
’’
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرے میں
اعتکاف کیا۔ آپؐ نے ایک ترکی طرز کے خیمے کے اندررمضان کے دس دن گزارے۔اعتکاف ختم
ہونے پرآپؐ نے اپنا سرمبارک خیمے سے باہر نکالا اورفرمایا: میں نے اس رات کی تلاش
میںپہلے دس دن کا اعتکاف کیا، پھرمیں نے درمیان کے دس دن کا اعتکاف کیا۔تب میرے پاس
آنے والا آیا اورا س نے مجھ سے کہا:’’ لیلۃ القدررمضان کی آخری دس راتوںمیں ہے۔پس
جولوگ میرے ساتھ اعتکاف میں بیٹھے تھے، انھیں چاہیے کہ وہ اب آخری دس دن بھی اعتکاف
کریں۔مجھے یہ رات (لیلۃ القدر)دکھائی گئی تھی ،مگرپھربھلادی گئی اورمیں نے دیکھا کہ
میں اس رات کی صبح کوپانی اورمٹی میں (برسات کی وجہ سے) نماز پڑھ رہا ہوں۔پس تم لوگ اسے آخری دس دنوںکی
طاق تاریخوںمیں تلاش کرو۔‘‘( بخاری ومسلم )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے
کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے
رہے اور آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا ۔(بخاری و مسلم) حضرت ابو ہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان کے آخری عشرے
کا اعتکاف کرتے تھے، البتہ جس سال آپ کا انتقال ہوا اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف
کیا۔ (بخاری)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم ہر سال رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے، لیکن ایک سال کسی سفر کی
وجہ سے اعتکاف نہ کرسکے تو آئندہ رمضان میں بیس دن کا اعتکاف کیا ۔(ترمذی)
امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا
:’’ عجیب بات ہے کہ مسلمانوں نے اعتکاف کی سنت کو چھوڑ دیا ہے ،حالاںکہ اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم جب سے مدینہ منورہ تشریف لائے آپ نے اعتکاف کبھی نہیں چھوڑا ۔حتی
کہ اپنی عمر عزیز کے آخری سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے دو عشروں
کا اعتکاف کیا۔
حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان کے آخری
عشرے کا اعتکاف کرتے تھے البتہ جس سال آپ کا انتقال ہوا اسی سال آپ نے بیس دن کا
اعتکاف کیا ۔(بخاری)
آپ ﷺ نے اعتکاف کا جس قدر اس کا اہتمام
کیا ہے اس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اعتکاف سنت مؤکدہ ہے ۔اسی وجہ سے صحابہ ؓو تابعین
ؒاور سلف صالینؒ میں بھی اس کا اہتمام رہا ہے۔
اعتکاف
کاوقت:
جو
مومن رمضان کے آخری عشرے کااعتکاف کرنا چاہتا ہے، تووہ بیسویں رمضان کا سورج غروب
ہونے سے قبل مسجد میں آجائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول رہا ہے ، چنانچہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان
کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے ، میں آپ کے لئے ایک خیمہ نصب کردیتی جس میں آپ صبح
کی نماز کے بعد داخل ہوتے ۔( بخاری )
کسی
شخص نے رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کیا ہو تووہ شوال کا چاند نکلتے ہی اپنا اعتکاف
ختم کرکے گھر واپس آسکتا ہے ،مگر مستحب یہ ہے کہ عید کی صبح اپنی جائے اعتکاف سے باہر
آئے او رعیدگاہ جائے ، صحابہ و تابعین کا یہی عمل رہا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ بیان
کرتے ہیں کہ ہم نے بعض اہل علم کو دیکھا ہے کہ جب وہ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف
کرتے تو اپنے گھر عید کی نماز پڑھ لینے کے بعد آتے ۔
حالت ِاعتکاف
حالت
اعتکاف میں اللہ کے رسول ﷺ کا محبوب مشغلہ یہ تھاکہ آپ ہر طرف سے یکسو اور سب سے منقطع
ہوکر بس اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے۔ مسجد کے کسی گوشےکو پکڑ لیتے ،وہاںتنہائی میںذکر
و فکر اور اور اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے ، اللہ کی تسبیح و تحمید بیان کرتے ہوئے
اس کی رضا اورقرب حاصل کرتے۔ قیام لیل کا اہتمام
کرتے ،اللہ کے کے حضور توبہ و استغفار کرتے ، اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر روتے۔حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے بیمار
پرسی کرلیتے تھے ،البتہ اس کے لیے ٹہرتے نہیں تھے ۔
اعتکاف اور تزکیہ نفس
اعتکاف
شخصیت کو نکھانے ،سنوارنے اور اس کے ارتقاکا بہترین ذریعہ ہے۔اس لیے کہ تزکیہ نفس کے
لیے اس سے بہتر ماحول کا تصور نہیں کیا جاسکتا،جب انسان ہر وقت خود کو بارگاہ الٰہی
میں محسوس کرتا ہے تو وہ ان تمام چیزوں سے دوری اختیار کرنے لگتا ہے جو اس کے نفس کو
پراگندہ کرے ۔ گویا ’ترک مالا یعنیہ‘(غیر ضروری چیزوںکا چھوڑدینا)ایمان ہے اس کی مکمل
مشق کرائی جاتی ہے۔ جب انسان اس پر کاربند ہوگا تو لازما اس کی شخصیت میں نکھار پیدا
ہوگا۔وہ جھوٹ،بغض وحسد،کینہ کپٹ ،چوری ،چغلی ،غیبت وبدکاری جیسی اخلاقی برائیوں سے
بچ کر رضائے الٰہی کے حصول کے ساتھ بامقصد زندگی گزارے گا۔اللہ پر مکمل یقین اور اس
سے دعا کرکے اپنے کو کبھی اکیلا نہیں سمجھے گا۔ اعتکاف کی وجہ سےاللہ کے ساتھ جو رشتہ
مضبوط ہوتا ہے اس کی وجہ سے وہ اللہ کی نافرمانی کرنے سے بچے گا۔ اس طرح انسان کی شخصیت
کا غیر معمولی ارتقا ہوگا۔
الغرض
اعتکاف عبادتوںمیں خلوص و للہیت کو پروان چڑھاتا ہے۔اس لیے افراد امت کواس کی طرف خصوصی
توجہ دینی چاہیے ۔ تاکہ رمضان المبارک سے بھر پور استفادہ کے ساتھ اپنی تربیت کافریضہ
انجام دے کر شخصیت کے ارتقا میں پیش قدمی کرسکیں۔خاص طور سے وہ نوجوان جو دنیا اور
اس کی مستی میں چوراللہ سے دور ہو رہے ہیں ان کا تعلق اللہ سے مضبوط ہو۔
D-321, Abul Fazl Enclave, Jamia Nagar, New Dehi-110025
Mob- 9311523016 Email:
mohibbullah.qasmi@gmail.com
Sunday 3 June 2018
Saturday 2 June 2018
Subscribe to:
Posts (Atom)
Turky & Sirya Zalzala
ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...