Thursday 18 October 2018

Who is He?



وہ کون ہے؟
انسان کی عقلی پرواز کی انتہا یہ ہے کہ اسے اپنے رب کی معرفت حاصل ہوجائے اور وہ اس کے احکام کی پابندی سے اپنی زندگی کو بامقصد اور کام یاب بنا سکے ،اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو پہچانے کیوں کہ اللہ تعالی نے خود انسان کی پیدائش اور اس کے وجود میں بڑی نشانیاں رکھی ہیں۔ایک مشہور مقولہ ہے: من عرف نفسہ فقدعرف ربہ (جس نے خود کو پہچان لیا، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔
جب انسان خود پر غورکرے گا تو اسے یہ ضرور خیال آئے گا کہ  وہ ایسے ہی زمین پر نہیں آ گیا ہے، بلکہ اسے ضرور کسی نے بنایا ہے اور اسی نے اس کو بھی پیدا کیا ہے۔ وہی سارے جہان کا خالق و مالک ہے۔ اس کے حکم سے دنیا کا سارا نظام چل رہا ہے۔ وہی سب کو مارتا ہے اور زندہ کرتا ہے۔ انسان اس پر بھی غور کرے گا کہ وہ رب ہے کون ، جس کے دم سے سورج ،چاند،ستارے سب گردش میں ہیں۔ آسمان سے بارش کا برسنا، زمین سے پیڑ پودوں کا نکلنا، درختوں سے پھل ، کالی بھینس سے سفید دودھ ، پھول کا رس چوسنے والی مکھیوں سے صحت بخش شہد ، سمندروں کی طغیانی ، ہواؤں کی روانی اور انسانوں کو پچپن بڑھاپا اور جوانی کون دیتا ہے؟
ظاہر ہے اس کا جواب ہوگا کہ وہ صرف اور صرف اللہ کی ذات ہے،جس کی قدرت میں ساری چیزیں ہیں ۔ وہ اکیلا سب کا مالک ہے، جسے لوگ مختلف ناموں سے جانتے ہیں اور اس سے فریاد کرتے ہیں۔اللہ تعالی انسانوں کو اپنی ذات اقدس کی  معرفت پر غور فکر کرنے کی دعوت دی ہے۔ وہ قرآن پاک میں فرماتا ہے:
(اس حقیقت کو پہچاننے کے لیے اگر کوئی نشانی علامت درکار ہے تو ) جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں اُن کے لیے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں ، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں ، اُن کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں ، بارش کے اس پانی میں ، جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے مردہ زمین کو زندگی بخشتا ہے اور (اپنے اسی انتظام کی بدولت )زمین میں ہر قسم کی جاندار مخلوق کو پھیلاتا ہے ،ہوائوں کی گردِش میں ، اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابعِ فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں ، بے شمار نشانیاں ہیں۔ (البقرۃ: 164)
انسانوں کی زندگی کا مقصد اللہ تعالی کی عبادت اور اس کے احکام کی اطاعت ہے ۔ اس کےلیے  اس کی معرفت ضروری ہے۔ مَنْ لَمْ یَعْرِفُہٗ کَیْفَ یَعْبُدُہٗ   (جو اپنے رب کو نہیں جانتا وہ کیسے اس کی عبادت کر سکتا ہے)۔
محب اللہ قاسمی

Wednesday 17 October 2018

غربت سے خاتمے کا عالمی دن


غربت سے خاتمہ گرممکن نہیں پر اسے کم تو کیا جاسکتا ہے؟
17 اکتوبر کو دنیا بھر میں غربت کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس دن دنیا بھر میں غربت، محرومی اور عدم مساوات کے خاتمے، غریب عوام کی حالت زار اور ان کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے سمینار، مذاکروں، مباحثوں اور خصوصی پروگراموں کا اہتمام کیا جا تا ہے۔
یہ دن منانے کا سلسلہ  1993ء سے بدستور جاری ہے۔25 برسوں سے یہ عالمی دن منا یا جا رہا ہے۔ اس دن سے غربت کے خاتمے کیلئے عالمی طور پر کوششیں کی جاری ہیں لیکن آج بھی دنیا میں غریب افراد کی تعداد دو ارب سے زائد ہے جن کی یومیہ آمدنی دو ڈالر سے بھی کم ہے۔ا ٓج بھی غریب بے گھر اور کسم پرسی کی بدترین حالت میں جی رہے ہیں ۔
غربت کے خاتمے کے حوالے سے  اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں باقاعدہ قرارداد منظور کی گئی تھی۔ عالمی بینک کی رپورٹ ”ورلڈ ڈیولپمنٹ انڈیکیٹر“ کے مطابق بھارت میں غربت کی شرح 68 اعشاریہ 7 فیصد ہے۔ ہندوستان میں سیاسی قائدین کی جانب سے غریبی کو دور کرنے کے مستانہ وار نعرے لگائے گئے،جن سے ان کی سیاسی دھاک قائم رہی  ساتھ ہی، غربت  بھی اپنے پاؤں پسارے وہی جمی رہی۔
دنیا کا سب سے زیادہ ترقی پذیر کہے جانے والے ملک امریکہ میں بھی 14 فی صد لوگ ہیں ۔غربت کی سب سے بھیانک شکل ہمیں ترقی پذیرممالک میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جس طرح ٹاٹا گروپ نے ہندوستان میں غربت سے خاتمے کے لیے قابل قدر کوشش کی اور غریبوں کو مواقع فراہم کیا جسے اقوام متحدہ نے بھی سراہا ہے، اسی طرح امریکہ میں بھی ان ہی کامو کرنے والوں نے عوامی سطح پر غربت کے خاتمے کے لیے کوشش کی۔ اگر انھوں نے اس میدا ن میں دلچسپی نہ دکھائی ہوتی تو امریکہ کا بھی گراف بہت نیچے ہوتا۔
غربت کے خاتمے کے لیے ایک طرف کمیونزم نے 80سال تک کوشش کی اور  بزور طاقت تمام افراد کو ایک سطح پر لانے میں اپنی پوری توانائی صرف کردی، تودوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام نے لوگوں کو مال و دولت حاصل کرنے کی پوری   آزادی دی، پھر بھی غربت سے خاتمے کا مقصد حاصل نہ ہوسکا ۔ کیوں  کہ دونوں افراط اور تفریط کے شکار تھے۔ نتیجہ میں ناکامی ہاتھ آئی۔ اسلام کا نظریہ اس سے بالکل الگ ہے ۔ اس کا ماننا ہے کہ معیشت کا سودی نظام، جو اللہ تعالی کو بے حد ناپسند ہے ، یہ عام معیشت کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اس سے  امیر امیرتر اور غریب غریب تر ہو جاتا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ غریبی کو بالکل ختم نہیں کیا جاسکتا، کیو ں کہ یہ اللہ تعالی کا نظام ہے  ، اس میں  امیر و غریب دونوں رہیں گے، مگر غربت کو کم سے کم ضرورر کیا جاسکتا ہے ۔ کم از کم یہ تو ہو ہی جائے کہ ایک غریب انسان کوبھی دووقت کی روٹی  اور بنیادی ضرورت کا سامان میسر ہوجائے۔
غربت کو کم  سے کم کرنے میں سب سے بڑی وکاوٹ یہ ہے کہ امیر مالدار سے مالدار تر ہوتے جاتے ہیں اور غریبوں میں مال کی مناسب تقسیم نہیں ہوتی ۔ امیروں اور غریبوں کے درمیان جس قدر فاصلہ بڑھے گا غربت کی شرح میں اسی قدر اضافہ ہی ہوگا۔ اس کے لیے سودی نظام، استعماریت اور پونجی واد کو فروغ دینے کے بجائے غریبوں کے ساتھ مساوات برتنا اور ان کی حالت زار کو محسوس کرتے ہوئے، ان کی جان و مال کا تحفظ اور سرکاری منصوبوں  کے اعلانات کے مطابق ان تک اموال کی فراہمی اور انھیں روزگار سے جوڑنا بے  حد ضروری ہے۔ انتخابات کے وقت جھوٹے اور پرفریب نعروں اور وعدوں کے بجائے انھیں حقیقت کا جامہ پہنانا ہوگا۔  رشوت اور کرپشن جیسی بیماریوں کو ختم کرنا ہوگا۔تبھی  ملک سے غربت کو کم سے کم کرنے میں کامیابی مل سکے گی، ورنہ ملک کی ترقی کے دعوےکا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔ پھر یہ سوال برقرار رہے گا        ؎
دولت بڑھی تو ملک میں افلاس کیوں بڑھا

Friday 12 October 2018

Sick society (بیمار معاشرہ اور تشخیصِ مرض)



بیمار معاشرہ  اور تشخیصِ مرض

خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور استحصال کا موضوع ہمیشہ زیر بحث رہا ہے اور اس وقت یہ metoo# کی تحریک مزید حساس موضوع بن چکا ہے. جس پر کھل کر گفتگو ہو رہی ہے. جب کہ آزادی نسواں کے پر فریب نعروں سے نسواں تک پہنچنے کی آزادی نے نت نئے مسائل پیدا کر رکھا ہے. اس پر کوئی گفتگو نہیں ہو رہی ہے. خواتین کی جانب سے دعوت نظارہ دینے والے غیر ساتر لباس اور مردوں کو رجھانے والی اداؤں پر کچھ نہیں کہا جا رہا ہے. مرد و زن کے متعینہ حقوق ہیں تو کچھ ان کے واجبات بھی ہیں جنھیں نظر انداز کیا جا رہا ہے.

اسی طرح قدرتی نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، اختلاط مرد و زن، لیو ان ریلیش شپ اور اب ایڈلٹری (497) وغیرہ سے معاشرہ پر اس کے منفی اثرات پڑے ہیں اور پڑیں گے، جس سے نہ صرف عورتیں متاثر ہوتی ہیں بلکہ مرد بھی متاثر ہوتا ہے؟

ایسے میں اسلام کا نقطہ نظر واضح طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام میں ان تمام مسائل کا حل موجود ہے.اس لیے اسلامی تعلیمات کو عام کرنا بہت ضروری ہے.

پرامن اور خوشگوار زندگی گزارنے کا خدائی نظام ۔ اسلام

اسلام انسانوں کے لیے رحمت ہے۔ زندگی کے تمام گوشوں کے بارے میں اسلام کے قوانین حکمت سے خالی نہیں ہیں۔ وہ انسان کی ضرورت اور اس کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ مثلاً قصاص کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے:

’’ تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے‘‘(البقرۃ: 1799) بہ ظاہر اس میں ایک انسان کے خون کے بدلے دوسرے انسان کا خون کیا جاتاہے۔ مگر اس میں حکمت یہ ہے کہ دوسرے لوگ کسی کو ناحق قتل کرنے کی جرأت نہ کرسکیں۔ اسی طرح زنا کرنے والے کو، اگر وہ غیر شادی شدہ ہے خواہ مرد ہو یا عورت، سرعام سوکوڑے مارنے کا حکم دیاگیا ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ کوئی شخص زنا کے قریب بھی نہ جاسکے۔ عوتوں کو پردے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ ان کی عزت و آبرو کی حفاظت ہو۔ نکاح کو آسان بنانے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ زنا عام نہ ہو اور معاشرے کو تباہی اور انسانوں کو مہلک امراض سے بچایا جاسکے۔ اس لیے وہ انسانوں کو پہلے اخلاقی تعلیم سے آراستہ کرتا ہے۔

اسلام کی اخلاقی تعلیمات
اسلام انسانوں کومعاشرتی زندگی تباہ وبرباد کرنے والی چیزوں مثلاً ظلم وزیادتی، قتل و غارت گری، بدکاری و بداخلاقی، چوری وزناکاری وغیرہ سے بازرہنے کی تلقین کرتاہے اورانھیں اپنے مالک اورپیدا کرنے والے کا خوف دلا کر ان کے دل کی کجی کودرست کرتاہے۔ آج معاشرے میں لوٹ کھسوٹ، رشوت، بددیانتی، جھوٹ، فریب اور جعل سازی وغیرہ کی جو بیماریاں عام ہوگئی ہیں، صرف اسلامی تعلیمات کے ذریعہ ان تمام مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔

جس طرح ہمیں اپنی بہوبیٹیوں کی عزت پیاری ہے اسی طرح دوسروں کی عزت وناموس کاخیال رکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ آزادی کے نام پر جس طرح خواتین کھلونے کی مانند استعمال کی جارہی ہیں، گھراورحجاب کو قید سمجھنے والی خواتین کس آسانی کے ساتھ ظلم وزیادتی کا شکار ہورہی ہیں، یہ کسی پر مخفی نہیں ہے۔ اس لیے اسلام نے خواتین کوایسی آزادی نہیں دی ہے جس سے وہ غیرمحفوظ ہوں اورنیم برہنہ لباس پہن کر لوگوں کے لیے سامان تفریح یا ان کی نظربد کا شکار ہوجائیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی اسلامی احکام کو اپنے لیے قید سمجھ کر اس سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی وہ دنیا کی بد ترین اور ذلت آمیز بیڑیوں میں جکڑ کر قید کرلیا گیا ہے۔

یہ انسانوں کا بنایا ہوا قانون نہیں بلکہ کائنات کے خالق و مالک اور احکم الحاکمین کا بنایا ہوا قانون ہے۔ اس لیے ا س میں کسی کو ترمیم کی اجازت نہیں ہے۔ اس میں کمی یا زیادتی کرنا اللہ کے ساتھ بغاوت ہے۔ یہ بغاوت پورے سماج کو تباہ و برباد کردتی ہے۔ یہی مسلمان کا عقیدہ ہے۔ جسے معمولی عقل و شعور رکھنے والا ہر فرد بہ آسانی سمجھ سکتا ہے۔

خواتین کے لیے ہدایات
اسلام نے خواتین کو علیحدہ طوربہت سی باتوں کا حکم دیا ہے اوربہت سی چیزوںسے روکاہے۔ مثلاً انھیں اپنے بناؤ سنگارکو دکھانے کے بجائے اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اورپردہ کرنے کولازم قراردیا :
اور اے نبی ﷺ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوںکی حفاظ کریں، اوراپنا بناؤ سنگھارنہ دکھائیں بجزاس کے جوخود ظاہر ہوجائے، اوراپنے سینوںپر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں (النور:۳۱)

دوسری جگہ اللہ تعالی کافرمان ہے:
’’اے نبی ﷺ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اوراہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلولٹکالیاکریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ اللہ تعالی غفور و رحیم ہے۔‘‘ (سورۃ احزاب:۵۹)

اسی طرح غیرضروری طور پر بازاروں میں پھرنے کے بجائے گھروںمیں محفوظ طریقے سے رہنے اور عبادت کرنے کا حکم دیا: ’’اپنے گھروں میں ٹک کررہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔ نماز قائم کرو، زکوۃ دو، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو۔ اللہ تو یہ چاہتاہے کہ تم اہل بیت نبی ﷺ سے گندگی کودورکرے اورتمھیں پوری طرح پاک کردے۔‘‘ (سورۃ احزاب:
۳۳)

اس کے علاوہ خواتین کا ہروہ طرز عمل جو اجنبی مردوں کو ان کی طرف مائل کرے، یا ان کی جنسی خواہشات کو بھڑکائے،
اسے حرام قراردیاگیاہے۔آپ ؐنے ارشادفرمایا:’’ہر وہ خاتون جو خوشبو لگا کر کسی قوم کے پاس سے گزرے کہ وہ اس کی خوشبولے تو ایسی خاتون بدکار ہے۔ ‘‘(النسائی)


رسول اللہ ﷺنے ایسی خواتین پر سخت ناراضی کا اظہارکرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’دوطرح کے انسان ایسے ہیں جن کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا:ان میں وہ عورتیں ہیں جو لباس پہنے ہوئے بھی ننگی ہیں، لوگوں کی طرف مائل ہونے والی اوراپنی طرف مائل کرنے والی ہیں،ان کے سرکھلے ہونے کی وجہ سے بختی اونٹنیوںکی کہان کی طرح ہے، وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکیں گی اورنہ ہی اس کی خوشبوپاسکیںگی۔‘‘ (مسلم)

علامہ شیخ عبدالعزیز بن بازؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: ’’یہ تبرج اورسفور اختیارکرنے والی عورتوں کے لیے سخت قسم کی وعیدہے: باریک اور تنگ لباس زیب تن کرنے اور پاکدامنی سے منہ موڑنے والی اور لوگوں کو فحش کاری کی طرف مائل کرنے والی عورتوں کے لیے ۔‘‘

مردوں کوتنبیہ
اسی طرح مردوں کوبھی تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ غیرمحرم (جن سے نکاح ہوسکتاہے) عورتوں کو ٹکٹکی باندھ کر نہ دیکھیں، اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور زنا کے محرکات سے بچیں چہ جائے کہ زنا جیسے بدترین عمل کا شکارہوں۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:’’زنا کے قریب مت پھٹکو وہ بہت برافعل (کھلی بے حیائی ) ہے۔اور براہی بڑا راستہ ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل :۳۲)

موجودہ دورمیں بوائے فرنڈاور گرل فرینڈ کا رجحان عام ہوگیا ہے، اختلاط مرد و زن، لیو ان ریلیش شپ اور اب ایڈلٹری (497) وغیرہ نے معاشرہ کو مزید متاثرہ کیا ہے۔ اسلام اس رشتے کو نہ صرف غلط قراردیتاہے بلکہ اجنبی خواتین سے میل جول اور غیرضروری گفتگو سے بھی بچنے کی تاکید کرتا ہے، کیوںکہ یہ وہ محرکات ہیں جو انسان کو بدکاری اورفحاشی تک پہنچادیتے ہیں۔نبی رحمت نے اپنی امت کو اس سے روکا ہے: عورتوں(غیرمحرم)کے پاس جانے سے بچو۔ (بخاری)

اگرکوئی ناگزیرضرورت ہو یاکسی اجنبی عورت سے کچھ دریافت کرنا ہوتو پردے کے ذریعے ہی ممکن ہے، قرآن کہتاہے: اگر تمہیں کچھ مانگنا ہوتوپردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اوران کے دلوںکی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ (احزاب:
۵۳)


اسلام جرائم کو بالکل جڑسے اکھاڑنا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ انسانوں کو زیوراخلاق وکردارسے آراستہ دیکھنا چاہتا ہے۔ کاش دنیا والے انسانوں کو اسلامی تعلیمات سے ڈرانے کے بجائے اس کی تعلیمات کوسماج میں نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہوتے۔اگروہ ایسا کرتے توان کی زندگی سکون واطمینان سے گزرتی اورہمارا معاشرہ صحت مندہوکر امن وامان کا گہوارہ ہوتا۔
ll
محب اللہ قاسمی

Religion, country and humanity


مذہب، ملک اور انسان
محب اللہ قاسمی

انسان کا وجود رب کائنات کی دین ہے۔ اس کی موت اورحیات مالکِ دوجہاں کے متعین کردہ حدود کے پابند ہیں، جس کا علم کسی کو نہیں ہے۔اس کی بھلائی اور کام یابی بھی مالک کے ہاتھ میں ہے جو اس کا خالق ہے۔ دنیا میں جینے کا سلیقہ اور کام یابی کے ذرائع بھی اسی نے انسانوں کو عطا کیے اور عقل وشعور کا داتا بھی وہی رب ہے۔اس نے انسانوں کو  مذہب عطا کیا ،تاکہ وہ ایک بہترین انسان بن کر خود بھی دنیا کی بھلائی کو حاصل کرسکے اور دوسروں کو بھی اس کے فیض سے روشناس کرائے۔

اس طرح اللہ کا عطا کردہ دین  اور شریعت انسانوں  کو بنانے سنوارنے اور اسے ترقی بخشنے دینے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس لیے ایسا مذہب ہر چیز پر فوقیت کا اہل ہے ،جو ملک و ملت، انسانوں کی کام یابی اور ترقی کا ضامن ہے۔ اس سے بڑھ کر نہ کوئی ملک ہوسکتا ہے اور نہ کوئی سماج ۔ کیوں کہ بہترین ملک اور سماج کی اساس یہی دین ہے۔اس پر چلنے کی آزادی اس کا بنیادی حق ہے، جس میں کسی کو مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے۔

یہ بات درست ہے کہ انسان جس جگہ پیداہوتا ہےاس سے  فطری طور پر ا سے لگاؤ ہوتا ہے اور اس کی فلاح اور بہتری کی کوشش کو وہ اپنے لیے لازم سمجھتا ہے ۔اس طرح وطن سے محبت اس کے دل میں بیٹھ جاتی ہے جس سے وہ پوری وفاداری کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔ ہر وہ کام جو اس کے مذہب اور عقیدے سے نہ ٹکراتا ہو،اس میں اس کی  وہ مکمل ایمانداری اور وفاداری کا مظاہرہ کرتا ہے ، کیوں کہ ایفائے عہد کے دائرے میں آتا ہے اور ایفائے عہد دین داری  کی علامت ہے۔رسول اللہ ؐکا ارشاد اس جانب رہ نمائی کرتا ہے:’’اس شخص کا ایمان نہیں جس میں امانت داری نہیں اور اس کا دین نہیں جس میں عہد کی پاسداری نہیں۔‘‘(مسنداحمد)

اس لیے کسی بھی ملک میں رہنے والے انسان سے یہ سوال ہر گز نہیں کیا جاسکتا کہ تمہارے نزیک وطن پہلے ہے یا مذہب ؟ کیوں کہ یہ سوال مہمل  ہے۔اگر سوال ہی کرنا ہے تو یہ کیا جائے کہ آپ کو وطن سے محبت ہے یا نہیں؟ وطن کا ہر وہ کام جو آپ کے عقیدے سے نہ ٹکراتا ہو، آپ کو اس سے اتفاق ہے یا نہیں؟ ایسی صورت میں ہر مذہب کے لوگ واضح طور پرجواب دے سکیں گے کہ ہمیں وطن سے محبت ہے اور ہم وطن کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی جان تک دے سکتے ہیں۔ مگر عقائد سے ٹکرانے والے کسی معاملے میں ، چاہیے وہ وطن ہویا اپنا گھر خاندان اور والدین ان کے مقابلے میں مذہب کواولین درجہ حاصل ہے۔

دنیا کا کوئی مذہب انسانیت کے ناحق قتل و خون کو جائز نہیں ٹھہراتا اور نہ  انسانیت کو تکلیف پہنچانا کسی مذہب کا حصہ ہو سکتا ہے۔  ؎
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا

پھر بھی لوگ مذہب یا ذات برادری کے نام پر آپس میں ایک دوسرے کو لڑا تے ہیں اور اس لڑنے لڑانے میں وہ اپنا مفاد تلاش کرتے ہیں۔ جن کی سیاست کی اساس ہی منافرت اور باہمی جھگڑا فساد پر ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے سامنے کبھی ملک کی ترقی، خوش حالی یا امن و سلامتی قائم رکھنے کا ایجنڈا نہیں ہوتا۔ ایسے ہی لوگ حب الوطنی کی آڑ لے کر اہل وطن کو ستاتے اور انھیں ظلم وستم کا شکار بناتے ہیں۔ جب نفرت کی یہ آگ بھڑکتی ہے تو ملک کے امن و سلامتی کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے، جس سے وہ لوگ بھی زد میں آ جاتے ہیں جو منافرت کے جلتے ہوئے اس شعلے کو بجھانے کے بجائے اسے نظر انداز کر دیتے ہیں ،یا اس میں ایندھن ڈالنے کا کام کرتے ہیں۔

انسانوں کی  قائم کی ہوئی سرحدیں اگر دوسرےانسانوں پر ظلم ڈھانے کے لیے ہو ں تو پھر ان  کو پھلانگ کر انسانیت کی مدد کرنا اور اس کو ظلم سے بچانا یہ ہر درد مند انسان کی اولین ذمہ داری ہے۔ خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ظلم چاہے روہنگیا کے مسلمانوں پر ہو یا امریکا کے سیاہ فام  لوگوں پریا فلسطین کے مسلمانوں پر ۔ظلم کرنے والا ہٹلر ہو یا آنگ سان سوچی یا نیتن یاہو اور بشارالاسد۔ ان کے خلاف آواز بلند کرنا ضروری ہے۔یہی مذہب اور انسانیت کا تقاضا ہے، جس سے ملک ترقی کرتا ہے۔


Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...