Wednesday 17 October 2018

غربت سے خاتمے کا عالمی دن


غربت سے خاتمہ گرممکن نہیں پر اسے کم تو کیا جاسکتا ہے؟
17 اکتوبر کو دنیا بھر میں غربت کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس دن دنیا بھر میں غربت، محرومی اور عدم مساوات کے خاتمے، غریب عوام کی حالت زار اور ان کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے سمینار، مذاکروں، مباحثوں اور خصوصی پروگراموں کا اہتمام کیا جا تا ہے۔
یہ دن منانے کا سلسلہ  1993ء سے بدستور جاری ہے۔25 برسوں سے یہ عالمی دن منا یا جا رہا ہے۔ اس دن سے غربت کے خاتمے کیلئے عالمی طور پر کوششیں کی جاری ہیں لیکن آج بھی دنیا میں غریب افراد کی تعداد دو ارب سے زائد ہے جن کی یومیہ آمدنی دو ڈالر سے بھی کم ہے۔ا ٓج بھی غریب بے گھر اور کسم پرسی کی بدترین حالت میں جی رہے ہیں ۔
غربت کے خاتمے کے حوالے سے  اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں باقاعدہ قرارداد منظور کی گئی تھی۔ عالمی بینک کی رپورٹ ”ورلڈ ڈیولپمنٹ انڈیکیٹر“ کے مطابق بھارت میں غربت کی شرح 68 اعشاریہ 7 فیصد ہے۔ ہندوستان میں سیاسی قائدین کی جانب سے غریبی کو دور کرنے کے مستانہ وار نعرے لگائے گئے،جن سے ان کی سیاسی دھاک قائم رہی  ساتھ ہی، غربت  بھی اپنے پاؤں پسارے وہی جمی رہی۔
دنیا کا سب سے زیادہ ترقی پذیر کہے جانے والے ملک امریکہ میں بھی 14 فی صد لوگ ہیں ۔غربت کی سب سے بھیانک شکل ہمیں ترقی پذیرممالک میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جس طرح ٹاٹا گروپ نے ہندوستان میں غربت سے خاتمے کے لیے قابل قدر کوشش کی اور غریبوں کو مواقع فراہم کیا جسے اقوام متحدہ نے بھی سراہا ہے، اسی طرح امریکہ میں بھی ان ہی کامو کرنے والوں نے عوامی سطح پر غربت کے خاتمے کے لیے کوشش کی۔ اگر انھوں نے اس میدا ن میں دلچسپی نہ دکھائی ہوتی تو امریکہ کا بھی گراف بہت نیچے ہوتا۔
غربت کے خاتمے کے لیے ایک طرف کمیونزم نے 80سال تک کوشش کی اور  بزور طاقت تمام افراد کو ایک سطح پر لانے میں اپنی پوری توانائی صرف کردی، تودوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام نے لوگوں کو مال و دولت حاصل کرنے کی پوری   آزادی دی، پھر بھی غربت سے خاتمے کا مقصد حاصل نہ ہوسکا ۔ کیوں  کہ دونوں افراط اور تفریط کے شکار تھے۔ نتیجہ میں ناکامی ہاتھ آئی۔ اسلام کا نظریہ اس سے بالکل الگ ہے ۔ اس کا ماننا ہے کہ معیشت کا سودی نظام، جو اللہ تعالی کو بے حد ناپسند ہے ، یہ عام معیشت کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اس سے  امیر امیرتر اور غریب غریب تر ہو جاتا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ غریبی کو بالکل ختم نہیں کیا جاسکتا، کیو ں کہ یہ اللہ تعالی کا نظام ہے  ، اس میں  امیر و غریب دونوں رہیں گے، مگر غربت کو کم سے کم ضرورر کیا جاسکتا ہے ۔ کم از کم یہ تو ہو ہی جائے کہ ایک غریب انسان کوبھی دووقت کی روٹی  اور بنیادی ضرورت کا سامان میسر ہوجائے۔
غربت کو کم  سے کم کرنے میں سب سے بڑی وکاوٹ یہ ہے کہ امیر مالدار سے مالدار تر ہوتے جاتے ہیں اور غریبوں میں مال کی مناسب تقسیم نہیں ہوتی ۔ امیروں اور غریبوں کے درمیان جس قدر فاصلہ بڑھے گا غربت کی شرح میں اسی قدر اضافہ ہی ہوگا۔ اس کے لیے سودی نظام، استعماریت اور پونجی واد کو فروغ دینے کے بجائے غریبوں کے ساتھ مساوات برتنا اور ان کی حالت زار کو محسوس کرتے ہوئے، ان کی جان و مال کا تحفظ اور سرکاری منصوبوں  کے اعلانات کے مطابق ان تک اموال کی فراہمی اور انھیں روزگار سے جوڑنا بے  حد ضروری ہے۔ انتخابات کے وقت جھوٹے اور پرفریب نعروں اور وعدوں کے بجائے انھیں حقیقت کا جامہ پہنانا ہوگا۔  رشوت اور کرپشن جیسی بیماریوں کو ختم کرنا ہوگا۔تبھی  ملک سے غربت کو کم سے کم کرنے میں کامیابی مل سکے گی، ورنہ ملک کی ترقی کے دعوےکا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔ پھر یہ سوال برقرار رہے گا        ؎
دولت بڑھی تو ملک میں افلاس کیوں بڑھا

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...