Monday 29 September 2014

قربانی کا مقصد،تقرب الٰہی اور تقوی کا حصول


                                        محب اللہ قاسمی 

قربانی ایک مختصر لفظ ہے ،لیکن انسانی زندگی میں  اس کی غیرمعمولی اہمیت ہے۔  اس کی ضرورت انسان کو اپنی زندگی کے مختلف مقامات پر اور  مختلف انداز میں  پڑتی ہے۔ ساتھ ہی ہر قربانی کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصدہوتاہے ۔ انسان جواپنی زندگی زندگی کے مختلف مسائل میں  الجھا ہوتاہے،اسے قدم قدم پر قربانی دینی پڑتی ہے اور اس کے پیچھے اس کا کوئی نہ کوئی مقصد چھپا ہوتا ہے اور  مقصد جتناعظیم ہوتاہے قربانی بھی اتنی ہی بڑی ہوگی۔  مثلاًانسانی زندگی کا مقصد اطاعت الٰہی ہے جوتقرب الٰہی اور کیفیت تقوی کے بغیرممکن نہیں  اور  یہ تقرب الٰہی ،کیفیت تقوی کے بغیرحاصل نہیں  ہوتی۔  لہذا اطاعت کے لیے قربانی ضروری ہے۔
لَن یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِن یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنکُم
’’نہ ان (قربانی کے جانوروں )کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں  نہ خون۔ مگراسے تمہارا تقویٰ پہنچتاہے۔ ‘‘  (سورۃ الحج:۳۷)

اس آیت کریمہ سے یہ واضح ہے کہ اللہ کو مقصودان جانوروں کا خون یا ان کاگوشت نہیں  ہے ، بلکہ وہ اپنے بندوں کا تقوی دیکھنا چاہتاہے کہ وہ خداپر کس قدر یقین رکھتے ہیں  ؟اس کے احکام کی کس قدرپابندی کرتے ہیں اور  کس طرح وقت ضرورت قربانی پیش کرنے کو تیاررہتے ہیں ؟ تقوی کی صفت اللہ کوبے حدمحبوب ہے ، اسی صفت سے انسان نیک اعمال کوترجیح دے کرانھیں  اختیارکرتاہے۔  اگرکوئی شخص کسی عمل کو تقوی کی صفت کے ساتھ انجام دیتاہے تووہ خالصۃً للہ ہوتاہے۔ اس میں  ریا کا شائبہ نہیں  ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تقوی کو ہی روزے جیسی اہم ترین عبادت کا مقصدقراردیاہے۔ اس طرح  ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:
اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّہُ مِنَ المُتَّقِیْنَ      ’’اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں (قربانی) قبول کرتاہے۔ ‘‘(سورۃ مائدہ:۲۷)

عیدالاضحی کا مقصدبھی جذبۂ قربانی کو بیدار کرنا اور اپنی عزیزسے عزیزترچیز کوحکم ربانی کے مطابق رضاء الٰہی کے حصول میں  قربان کرنے کا حوصلہ پیداکرنا یہی قربانی ہے ۔ اس سے ان کو یہ سبق ملتا ہے کہ اپنی مقصد زندگی کے تمام شعبوں  میں  اپنی خواہشات پر رب کائنات کی مرضیات کو ترجیح دے۔  یہ دراصل انسان کی عملی زندگی کا ایک امتحان ہے، جس سے اس کے اندرنکھار اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ عربی کا مقولہ ہے۔ عندالامتحان یکرم الانسان اویہان ۔  جوشخص جس قدر آزمائش سے دوچارہوگا اور  اس میں  وہ خداکے احکام کو ترجیح دے گا وہ شخص اسی قدر اللہ کا محبوب اور اس کا عزیز تربندہ ہوگا۔ قربانی خداکے تقرب کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ جو قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے۔  قرآن کہتاہے:
وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنسَکاً لِیَذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ عَلَی مَا رَزَقَہُم مِّن بَہِیْمَۃِ الْأَنْعَامِ فَإِلَہُکُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌ فَلَہُ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ  o      ’’ہرامت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقررکردیاہے۔  تاکہ (اس امت کے) لوگ ان جانوروں  پر اللہ کا نام لیں  جواس نے ان کو بخشے ہیں ۔  (سورۃ الحج:۳۴)
اسے سنت ابراہیمی سے بھی تعبیرکیاجاتاہے۔ صحابہ ؓ نے نبیؐ سے پوچھا ،یارسول اللہ ؐ! یہ قربانی کیاچیز ہے؟آپ ؐ نے ارشاد فرمایا:’’ یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ ‘‘  (ترمذی،ابن ماجہ)

قربانی کے مفہوم کو ہم حضرت ابراہیم ؑ کی بے مثال ،قابل رشک زندگی سے سمجھ سکتے ہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک شخص کوجس سے جتنی محبت اور  لگاؤ ہوتا ہے، وہ اسی طرح اپنے محبوب کا امتحان بھی لیتاہے ۔  اس کرہ ارضی پررونماہونے والے تاریخی واقعات پر ہم نگاہ ڈالیں توہمیں  بے شمار عاشقوں کے عشق کی رنگینیاں ، دلفریباں  اور جلوہ سامانیاں دکھائی دیتی ہیں ۔  عقیدت ومحبت ،الفت ومودت کی انگنت کہانیاں سننے کو ملتی ہیں اور عشق کے جنون میں  ڈوبے تخت وتاج ، مال واسباب لٹادینے والے ،پتھروں ،چٹانوں سے دودھ کی نہریں  جاری کرنے میں  اپنی تمام ترجدوجہد صرف کردینے والے عشق کے شہنشاہوں کی ہزاروں داستانیں  تاریخ میں  ملتی ہیں ۔

مگرفدائیت وللہیت ،استقامت وثبات قدمی،ابتلاوآزمائش سے لبریز،دل سوز،سبق آموزاورناقابل فراموش داستان جوخلیل اللہ کی ہے اور جوایثاروقربانی ، اطاعت ربانی اور مشیت خداوندی کی تعمیل کے جذبہ کی کار فرمائی ، اس عاشق الٰہی میں  ملتی ہے۔ دیگرعشاق کائنات اس سے بالکل خالی وعاری ہیں ۔

اس عاشق نے اپنے محبوب کی تلاش میں حسین کائنات اور ا س کی اور  گل ا فشانیوں کوچھان مارا ۔ اس تلاش وجستجومیں  اچانک اس کی نگاہ ایک تاریک شب کی سیاہ چادرمیں  لپٹے ہوئے ،ایکستارے پرپڑی توفرحت و انبساط سے اس کا حسین چہرہ کھل اٹھا ۔ اپنے جذبات  کی ترجمانی کرتے ہوئے اس کی زبان پر ’’ہذاربی‘‘ کے کلمات آگئے۔ مگرجونہیستارہ اس  کی نگاہ سے اوجھل ہوا فوراً اس کی زبان حرکت میں  آئی اور  صاف طورپراس نے’’لااحب الافلین‘‘کہہ کر بے زاری کا اظہارکیا اس کے بعد اس نے روشن چاند دیکھا تو ’’ ہذاربی ‘‘(یہ میرارب ہے) کہہ کرپکاراٹھا، لیکن جب ہوہ بادلوں کی اوٹ میں  چلاگیا تو اس نے اس کو بھی خداماننے سے انکار کردیا۔  اس کے بعد جیسے ہی روشن صبح نے انگڑائی لیتے ہوئے اپنے چہرے سے نقاب کشائی کی توایک چمکتادمکتااورآفتاب اپنی تابناکی کے ساتھ رونماہوا،اس کے اس انداز اور  بڑے پن کودیکھ وہ ان الفاظ میں گویاہوئے’’ہذاربی ہذا اکبر‘‘ ۔ یہ میرا رب ہے ، یہ بہت بڑا ہے۔ مگریہ کیا سورج بھی غروب ہوگیا۔ یہ دیکھا تو اس نے اس سے بھی بے زاری ظاہر کردیا اور اعلان کردیاکہ یہ میرا رب نہیں  ہوسکتا۔

اس طرح اس عاشق نے اپنے خالق ومالک کو ڈھونڈلیا اور کہا کہ میرا رب تووہ ہے جس نے سورج،چاند ، ستارے اور کائنات کی تمام چیزوں کوپیداکیا ہے جو سارے جہاں  کا مالک ہے اور دنیا کی ہرچیز اس کی محتاج ہے۔ جب اس نے اپنے موحدہونے(خداکوایک ماننے والا)کا اعلان کیاتو سارے لوگ اس کے خلاف ہوگئے ۔  اب اللہ کی طرف سے آزمائشوں کا سلسلہ شروع ہواتوہرجگہ آپ اپنی قربانی  پیش کرتے چلے گئے ۔ چنانچہ بت پرست گھرانے کاہوتے ہوئے ،بت شکن ہونے کے سبب انھیں  بادشاہ وقت نمرود کے حکم سے آگ میں  ڈالاگیا۔ مگرہوا یہ کہ جو آگ شعلہ اگل رہی تھی وہ آپ کے لیے گلشن رحمت بن گئی، پھراللہ نے بڑھاپے کی عمر میں  آپ کوایک نیک اور بردباراولادعطاکی ۔ لیکن پھر اس کے معاملہ میں  بھی آزمائش کی۔ اسے اولاً توغیرذی ذرع وادی میں  چھوڑدینے کا حکم ہوا۔ جب اس آزمائش میں  بھی آپ  کامیاب ہوگئے اور یہ لڑکاجب دوڑنے کھیلنے کی عمرکوپہنچا۔ تواس کو بھی راہ خدامیں قربان کرنے کا حکم ہوا۔ قرآن کریم نے کچھ اس انداز سے اس کا نقشہ کھینچاہے:
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یَا بُنَیَّ إِنِّیْ أَرَی فِیْ الْمَنَامِ أَنِّیْ أَذْبَحُکَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَی قَالَ یَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْ إِن شَاء  اللَّہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ o

’’وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑدھوپ کرنے کی عمرکوپہنچ گیاتو(ایک روز) ابراہیمؑ نے اس سے کہا’’بیٹا میں  خواب میں  دیکھتاہو کہ تجھے ذبح کررہاہوں ۔  اب توبتا تیرا کیاخیال ہے؟‘‘اس نے کہا’’اباجان !جوکچھ آپ کوحکم دیاجارہاہے اسے کرڈالیے۔  آپ انشاء اللہ مجھے صبرکرنے والوں میں  سے پائیں  گے۔ (سورۂ الصافات:۱۰۲)

آپ ؑاپنے جذبات وخواہشات کو بالائے طاق رکھ اس عظیم قربانی کی انجام دہی کے لیے بھی تیارہوگئے ۔ بچے کو ذبح کرنے کے لیے لٹایا اور گردن پر چھری پھیرنے کے لیے تیارہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب بندے کی اطاعت کا یہ جذبہ بے حد پسندآیا اور فرمایا:
فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ oوَنَادَیْْنَاہُ أَنْ یَا إِبْرَاہِیْمُoقَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّاکَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْنoإِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْبَلَاء الْمُبِیْنُ o

 ’’آخرکو جب ان دونوں   نے سرتسلیم خم کردیا اور ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کوماتھے کے بل گرادیا۔ اور ہم نے ندادی کہ اے ابراہیم ، تونے خواب کو سچ کردکھایا۔   ہم نیکی کرنے والوں  کو ایساہی جزادیتے ہیں ۔  یقینا یہ ایک کھلی آزمائش تھی۔ ‘‘   (سورۃ الصافات:۱۰۳۔ ۱۰۶)

مگراللہ کا مقصدتواس جذبۂ اطاعت کو دیکھنا تھا ۔  بچے کی قربانی مقصودنہ تھی۔  اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَفَدَیْْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ  oوَتَرَکْنَا عَلَیْْہِ فِیْ الْآخِرِیْنَ  oسَلَامٌ عَلَی إِبْرَاہِیْمَ  oکَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْنَ  o
’’اورہم نے ایک بڑی قربانی فدیہ میں  دے کر اس بچے کو چھڑالیا۔  اور اس کی تعریف وتوصیف ہمیشہ کے لیے بعد کی نسلوں  میں  چھوڑدی۔  سلام ہے ابراہیم پر، ہم نیکی کرنے والوں کوایسا ہی جزادیتے ہیں ۔ ‘‘               (سورۃ الصافات:۱۰۷۔ ۱۱۰)

اگر غورکیاجائے تو اللہ کی طرف سے آج بھی مختلف مواقع پر قربانی کا مطالبہ ہوتاہے۔ مگرانسان اسے نظراندازکردیتاہے اور وہ بھول جاتاہے کہ ایسی ہی قربانی سے ہمارے نبی حضرت ابرہیم کو خلیل اللہ کا خطاب ملاتھا ۔ جب تک قرآن کی تلاوت کی جاتی رہے گی تب تک لوگ ان پر سلام بھیجتے رہیں  گے۔  اور  جب بھی عیدالاضحی کا تاریخی دن آئے گا لوگ ان کی تاریخ کو دوہرائیں گے۔ اس لیے جو لوگ اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں  اور اپنی زندگی کا مقصد جانتے ہیں  ،وہ اطاعت الٰہی کے لیے تقرب الٰہی کی راہ اپنائیں  اور اس راہ میں  قربانی دینے پر تیاررہیں ۔ کیوں کہ آج بھی    ؎

آگ ہے، اولاد ہے، ابراہیم ہے، نمبرود ہے
کیا کسی کو، پھرکسی کا، امتحان مقصود ہے

Friday 12 September 2014

Zinda Dili زندہ دلی


زندہ دلی

          بذلہ سنجی،خوش طبعی اورمزاح اگر دل آزاری کاسبب نہ بنے توےہ زندہ دلی کی علامت ہے ،جونہ صرف انسان کی پژمردگی کو دور کرتی ہے بلکہ معاشرتی ماحول کو خوش گوار بناتی ہے اور اجتماعی مقاصدکے حصول میں عام لوگوں کی صلاحیتوںکوپرکھنے اوران سے کام لےنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اسلام نے انسان کے فطری مزاج کا بھرپورخیال رکھا ہے،اسی لیے وہ اسے گوشہ نشین ہوجانی یا انسانوں کی آبادی سے دور جنگلوںمیں چلے جانے کا حکم نہیں دےتااور نہ خوش طبعی سے دوررہنے کی تلقین کرتا ہے۔ بلکہ کسی غم زدہ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنے پر ابھارتاہے۔ تاکہ معاشرہ کے افراد باہم ایک دوسرے سے مربوط ہوںاوران کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی ہو۔
مزاح اورخوش طبعی کی تعریف عام لفظوںمیں کی جائے تو اس کے معنی ہنسی مذاق کو کہتے ہیں۔ مگر اس کی شرعی حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے ، تعریف کی جائے تو مزاح ہر اس بات کو کہیں گے جوخوشی کا باعث ہو ،مگر وہ جھوٹی،پھوہڑپن پر دلالت کرنے والی اورغیر شرعی نہ ہو۔ اگر کوئی بات کسی کی دل آزاری کا باعث ہو تو اسے مزاح نہیں سخریہ یعنی مذاق اڑانا کہیںگے،جو حرام ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سےرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ آپ بارعب ہونے کے باجود مزاح فرمایاکرتے تھے اور صحابہ کرامؓ کو بھی اس کی اجازت تھی۔ سیرت کے بہت سے واقعات اس کے شاہد ہیں۔
ایک مرتبہ حضرت ام ایمن آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: یارسول اللہ مجھے ایک اونٹ عنایت فرمائیے کیوں کہ ہمارے پاس بار برداری کی لیے کوئی جانور نہیںہے۔“حضورﷺ نے فرمایا: میں آپ کو اونٹنی کا بچہ دوںگا۔ وہ کہنے لگیں:”یارسول اللہ میں اونٹنی کا بچہ لے کرکیا کروںگی“؟اس پر آپ نے فرمایا: ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہوتاہے۔ یہ سن کر پوری محفل زعفران زار ہوگئی۔
ایک مرتبہ ایک بوڑھی خاتون بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: ”یارسول اللہ ، دعا کردیجئے کہ میرا بھی داخلہ جنت میں ہو۔ “ ارشاد ہوا: کوئی بڑھیاجنت میں نہ جائے گی۔یہ سنتے ہی وہ خاتون رونے لگیں۔ حضور نے مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا:”کوئی عورت بڑھاپے کی حالت میں جنت میں نہیں جائی بلکہ جوان ہوکر جائے گی۔یہ سن کر وہ خاتون بے اختیار ہنسنے لگیں۔
ایک دفعہ ایک خاتون حضور کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی:یارسول اللہ ، میرا شوہر بیمار ہے، اس کی شفایابی کے لیے دعا فرمائیے۔“حضور نے فرمایا: تمہارا خاوند وہی ہی جس کی آنکھ میں سفیدی ہے؟وہ حیران ہوگئیں اور جاکر اپنے شوہر کی آنکھیںغور سی دیکھنے لگیں۔ خاوند نے کہا: کیا بات ہے؟ کہنے لگیں: حضور نی فرمایاہی کہ تمہارے خاوند کی آنکھ میں سفیدی ہے“وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے: ”کیا کوئی ایسا آدمی بھی ہے جس کی آنکھ میں سفیدی نہ ہو؟“اب وہ حضور کے لطیف مزاح کو سمجھیں جس کا مقصد ان کی بیمار شوہرکی پژمردگی کو دور کرنا تھا۔
خادم رسول اللہ حضرت انس بن مالک ؓ کی چھوٹے بھائی جن کانام ابوعمیر تھا۔ جب وہ بچے تھے تو انھوں نے اےک ممولا پال رکھا تھا۔ اتفاق سے وہ ممولا مرگیا۔ ابوعمیر کو سخت صدمہ پہنچا اوروہ بہت افسردہ ہوگئے۔ حضور نے انھیں اس حالت میں دیکھا تو فرمایا:
یا اباعمیر ما فعل النغیر
اے ابوعمیر تمہارے ممولے کو کیا ہوا؟ حضور کا ارشاد سن کرابو عمیر ہنسنے لگے۔
بسا اوقات یہ بذلہ سنجی اور حسن مزاح سی لوگوں میں حاضرجوابی پیدا ہوتی ہے اوران کے اندرچھپی صلاحیتیںنکھرتی ہیں۔اس کا نمونہ ہم صحابہ کرام ؓمیں بخوبی دیکھ سکتی ہیں۔
ایک مرتبہ سرکار دوعالم ﷺ چند صحابہ کرامؓ کے درمیان جلوہ افروز تھے اور سب مل کھجوریں تناول فرمارہے تھے۔ اتنے میں وہاں حضرت صہیبؓ آگئے۔ ان کی ایک آنکھ آئی ہوئی تھی اور انھوں نے اس پر پٹی باندھ رکھی تھی۔ اگرچہ آشوبِ چشم میں کھجور کھانا مضرہوتاہے، لیکن حضرت صہیبؓ اس وقت سخت بھوکے تھے۔ وہ آتے ہی کھجوروں پر ٹوٹ پڑے۔حضور نے فرمایا:سبحان اللہ، تمہاری آنکھ دکھ رہی ہی اور تم کھجوریں کھارہے ہو۔انھوں نے عرض کیا :یا رسول اللہ میں اس آنکھ سے کھارہا ہوں جو اچھی ہے۔ان کا جواب سن کر حضور اس قدر ہنسے کہ دندان مبارک کا نور ظاہر ہونے لگا۔


Wednesday 6 August 2014

عید الفطر- اظہارتشکراور خوشی کا دن

عید الفطر- اظہارتشکراور خوشی کا دن
عربی مہینہ شوال کی پہلی تاریخ کو  مسلمان ’عیدالفطر‘ مناتے ہیں۔یہ ماہ رمضان کے روزوں کی تکمیل اور اس تربیتی مہینے میں عبادات کی انجام دہی کے بعد اظہارتشکر کے طور پر خوشی منانے کا دن ہے۔ یہ ایک ایسااسلامی تیوہار ہے ،جو اپنے دامن میں فضل ورحمت ، فرحت ومسرت اور باہمی مؤدت ومحبت کا سامان لیے ہوئے ہے۔ یہ امت مسلمہ کے لیے سچی خوشی کا موقع ہے۔ اسی وجہ سے اس دن کا خاص طور سے اہتمام کیاجاتا ہے۔
عیدکے مشاغل
صبح کو غسل کرنا، نیا اور عمدہ لباس زیب تن کرنا،خوشبولگانا، دوستوں اور پڑوسیوں سے ملنا جلنا،خوشیاں منانا،مہمان نوازی کرنا اور جائز حدودمیں رہتے ہوئے مسرت کا بھرپور اظہار کرنا اس دن کے پسندیدہ مشاغل ہیں۔اس دن کے بارے میںنبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:  
لکل قوم عیدا وہذا عیدنا (مسلم)
’’ہر قوم کے لیے خوشی منانے کا دن ہے اور یہ ہمارے خوشی منانے کا دن ہے۔‘‘
 اس دن کا روزہ رکھنا حرام ہے۔ اگر کوئی شخص اس دن خوشی منانے کے بجائے روزہ رکھ کر خود کو زیادہ متقی وپرہیزگار ظاہر کرنے کی کوشش کرے تو ایسا شخص شریعت کی نگاہ میں نافرمان مانا جائے گا۔ جن پانچ ایام میں روزہ رکھنے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ ان میں ایک دن عید الفطر کا بھی ہے۔ اسی بنا پر علماء کرام کی رائے ہے کہ عید کے دن خوشیاںمنانا دین کی علامات (شعائردین) میںسے ہے۔ عید کے دن خوشی کے اس موقع کو فراموش کرنا، رنج والم کی کی فضا طاری کرنا اور مایوس رہنا کسی طرح مناسب نہیںہے۔اہل ایمان کا باہمی رشتہ اخوت پر مبنی ہوتاہے ، جوکلمہ لاالہ الا اللہ سے قائم ہوتی ہے۔لہذا عید سعید کے اس موقع پر کوشش یہ ہو نی چاہیے کہ ہم اپنے آس پڑوس میں کسی یتیم ، غریب بے بس اور محتاج کو تنہا نہ چھوڑ دیں، بلکہ اس کے احوال دریافت کریں،حتی الامکان اپنے تعاون سے اس کی ضرورت پوری کریں ۔اسی لیے زکوۃ اور صدقۂ فطرکا حکم دیا گیاہے تاکہ نادار بھی عید کی خوشی میں برابر کا شریک ہوسکے اور کوئی مسلمان عید کی دوستی اورانعامات سے محروم نہ ہو۔
بغض وعنادسے پرہیز
اسلام میں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان سے قطع تعلق یا دل میں کینہ ،بغض وعداوت کے جذبات کی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ خوشی کے اس دن میں جس طرح ہم غسل کرکے بدن صاف کرتے ہیں،نیالباس پہنتے ہیں ،ٹھیک اسی طرح اپنے دل کی  صفائی کی طرف توجہ بھی کرنی چاہیے۔ ہم اپنے بھائی کاخیرمقدم اور استقبال کریں۔ اس معاملے میں خود سے پہل کرنا زیادہ بہتر ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشادہے : حقیقی صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جو بدلہ چکائے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کی قرابت کو منقطع کر دیاجائے تو وہ اس قرابت کو قائم رکھے۔ (بخاری) اس لیے رشتہ داری کو نبھاتے ہوئے اعزا و اقارب سے ملنا ، خاص طور سے والدین سے ملاقات کرنا اور ان کے لیے عید کے فرحت وسرور کا سامان مہیا کرنا لازم ہے۔ یہ صلہ رحمی نہ صرف اس شخص کی عیدکو دوبالا کردیتی ہے بلکہ اس کے لیے کشادگی ٔ رزق اور عزوشرف کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔نبی کریم ﷺ کا ارشادہے:’’جو شخص یہ چاہتاہے کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی زندگی کی مہلت دراز ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک اور ان کے ساتھ احسان کرے۔‘‘ (بخاری ومسلم)
عید کے دن مسنون عمل
            عیدگاہ میں جن لوگوں سے ملاقات ہو ان کو مبارکباد پیش کرنے کا بھی اہتمام کریں۔ جیسا کہ صحابہ کرام کامعمول تھا جب وہ عید کے دن آپس میں ملتے تو کہتے :تقبل اللہ منا ومنک (مسنداحمد)اللہ تعالی ہماری اور آپ کی (نیک کوششوںکو) قبول فرمائے۔عید کی مبارک باد کا تبادلہ باہمی محبت کے فروغ کا ذریعہ ہے ۔ عید کے دن تکبیر کہتے ہوئے عید گاہ میں ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے آنا مسنون عمل ہے۔ اس کی بہت سی حکمتیں بیان کی جاتی ہیں،مثلانیک کام کرتے ہوئے قدم مختلف راہوں پرپڑیںساتھ ہی زیادہ لوگوںسے ملنے کا موقع ملے اور اظہار مبارک باد کا عمل انجام دیا جائے۔
عید الفطر کی حقیقی خوشی
عید کی خوشی کن لوگوں کے لیے ہے؟کیا ان کے لیے جنھوںنے ایک مبارک مہینہ پایا اور اسے گنوادیااور اس سے استفادے کے لیے کوئی لمحہ نہ نکال سکے بلکہ خواہشات کی پیروی میں محرمات کے مرتکب ہوئے ؟نہیں ! بلکہ اس دن کی خوشی کے مستحق صرف وہی لوگ ہیں ، جنھوںنے رمضان کے روزے رکھے،قیام لیل کا اہتمام کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کے لیے اعمال صالحہ کی طرف سبقت لے جانے کی سعی مسلسل کرتے رہے۔جیساکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی افطار کے وقت اور دوسری اپنے رب سے ملاقات کے وقت(متفق علیہ) جس طرح انھیں رمضان میں روزہ افطار کرتے وقت اطاعت الٰہی پر ایک قسم کی فرحت میسر ہوتی ہے ،ٹھیک اسی طرح رمضان المبارک میں عبادات کو بحسن خوبی انجام دینے کے بعد اس ماہ کے اختتام پر ثواب کی امید میں انھیں ایک خوشی ملتی ہے۔ یہ اس کا اجرہے اور اللہ نہیں ہوتا اور اس روزے دار کی طرح ہے جو ناغہ نہیں کرتا(بخاری:۵۳۵۳) دوسری طرف عید الفطر کے موقع پر غریب بھی صبر و شکر سے کام لے کر قناعت کا تاج اپنے سر پر رکھیں۔اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے شکوہ نہ کریں کہ وہ ہمیں کیوں نہیں دیتا اور نہ اپنے بیوی بچوں کو دوسروں کے مال پر حسرت کرنے دیں۔پیوند لگے کپڑوں میں تقوی وصبر کے ساتھ جو شان ہے وہ ریشمی لباس میں نہیں۔اللہ تعالیٰ نے جن کو غریب بنایا ہے وہ مالداروں سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے اور وہ انبیاء کرام کے طریقے پر ہیں، اگر وہ صبر و شکر سے کام لیں اور لالچ یا سوال کی ذلت نہ اٹھائیں۔حضرت اسامہ بن زیدؓ روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:’’میںجنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تو (میں نے دیکھا کہ) اس میں داخل ہونے والے زیادہ ترمساکین ہیں اور مال دار لوگوں کو (حساب کے لیے) روکا ہوا تھا۔البتہ جہنمیوں کو جہنم کی طرف لے جانے کا حکم دے دیا گیا تھا(بخاری:۵۱۹۶) اس لیے عید کے دن اللہ تعالیٰ سے شکوہ شکایت کرنے کی ضرورت نہیں۔عام دن کی طرح یہ دن بھی گزر جائے گا۔رب کعبہ کی قسم دنیا کی رنگینیاں انہی کو ستاتی ہیں جو موت سے غافل ہیں اور اسی کو کل سمجھتے ہیں ، اس لیے ایک دن کی خاطر غریبی کو داغدار نہ ہونے دیں۔ اللہ تعالیٰ اس کا بہترین اجر عطا فرمائے گا۔(انشاء اللہ )
عید کی سنتیں:
غسل کرنا(۲)حسبِ استطاعت نئے کپڑے پہنا(۳)خوشبو لگانا(۴)کھجور کھانا،حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمؐ عیدالفطر کی نماز کے لیے نکلنے سے پہلے چند کھجوریں تناول فرماتے تھے۔ عموماًان کی تعداد طاق ہوتی تھی۔ (بخاری:۹۵۳۰)
(۵)عید گاہ پیدل جانا اور ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔ اس سے ہر قدم پر ثواب ملتا ہے اور غیروں کو مسلمانوں کی اجتماعیت کا بھی احساس ہوتا ہے۔ حضرت ابورافعؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ عید کی نماز کے لیے پیدل تشریف لے جاتے تھے اور جس راستے سے جاتے تھے ،اس کے علاوہ دوسرے راستے سے واپس آتے تھے(ابنِ ماجہ:۱۳۰۰(
(۶) راستے میں تکبیریں (اللہ اکبر اللہ اکبر،لاالہ الا اللہ،واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد)پڑھتے ہوئے جانا ،ہم سب کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے،نوجوان طبقہ عموماً آپس میں ہوہااور دنیا بھر کی بکواس کرتا ہوا جاتا ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے، تا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد ہو اور دوسرے محسوس کریںکہ آج کوئی خاص دن ہے ۔اس سے غیروں پر رعب بھی پڑتا ہے۔یہ نہیں کہ مرے مرے انداز میں منہ لٹکائے چلے جا رہے ہیں۔
(۷) خطبہ سننا:نمازِ عید الفطر کے بعد امام خطبہ دیتا ہے ،اس کو سن کر جانا چاہیے،اکثر لوگ نماز ختم ہوتے ہی بھاگنے لگتے ہیں۔خطبے میں عید الفطر سے متعلق مذہبی ذمہ داریوں کی تلقین کی جاتی ہے،اللہ تعالیٰ سے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کی معافی مانگی جاتی ہے، عالمِ اسلام اور بنی نوع انسانیت کی بھلائی کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں،جن کو قبولیت کا شرف حاصل ہوتا ہے۔حدیثِ نبوی ہے:
نبیﷺ نے فرمایا! جب عید الفطر کا دن آتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر فرماتا ہے اور پوچھتا ہے: اے میرے فرشتو! اس مزدور کی کیا جزا ہے جو اپنا کام مکمل کر دے ؟فرشتے عرض کرتے ہیں:اس کی جزا یہ ہے کہ اس کو پورا اجر و ثواب عطا کیا جائے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہےـ: ’’اے میرے فرشتو!میرے بندوں اور بندیوں نے اپنا فرض ادا کیا پھر وہ (نمازِ عید کی صورت میں) دعا کے لیے نکل آئے ہیں،میری عزت و جلال،میرے کرم اور میرے بلند مرتبہ کی قسم!میں ان کی دعائوں کی ضرور قبول کروں گا،اللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے: بندو!  گھروں کو لوٹ جائو، میں نے تمہیں بخش دیااور تمہارے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیا۔نبیِ کریم ﷺ فرماتے ہیں! پھر وہ بندے (عید کی نماز سے) اس حال میں لوٹتے ہیں کہ ان کے گناہ معاف ہو چکے ہوتے ہیں۔
خواتین کا عیدگاہ میں جانا
عید کی نماز کے لیے خواتین اور بچے بچیوں کو بھی لانا چاہیے۔حضرت امِ عطیہ ؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عید الفطر اور عید الاضحی کے روز پردہ نشین دوشیزائوں،چھوٹی بچیوںاور حائضہ عورتوں کو عیدگاہ کے لیے نکالیں البتہ حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں گی ، اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں گی۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ :بعض عورتیں ایسی بھی ہیں جن کے پاس چادر نہیں ہوتی۔فرمایا! جس عورت کے پاس چادر نہ ہو ،وہ اپنی بہن سے لے لے(بخاری:۹۷۴(





[1]

Thursday 26 June 2014

Ramazanul Mubarak aur Tazkiya Nafs


رمضان المبارک اور تزکیہ نفس
محب اللہ قاسمی
Mob- 9311523016    
Email: mohibbullah.qasmi@gmail.com

انسان عقل ،جسم اور روح کا مجموعہ ہے۔ ان میں روح کو ایک خاص قسم کی فضیلت حاصل ہے۔یہ روح اگر عقل اور بدن کو متوازن نہ رکھے ،بلکہ خود بہکنے لگے یا شیطانی وساوس اور برائیوں کی طرف مائل ہونے لگے تو اس کا اثر انسان کی پوری شخصیت پر ہوگا ۔پھر وہی انسان جسے اللہ نے اشرف المخلوقات بنایاتھا دنیا کا رذیل اور خسیس سمجھا جائے گا اور  جسے  اللہ نے زمین پر اپنا خلیفہ بناکر دنیا میں بھیجا تھا وہ نفسانی خواہشات کا غلام بن کر شیطان کی ترجمانی کرنے لگے  گا۔
اس لحاظ سے نفس ِانسان کا تزکیہ لازمی ہے تاکہ اس کی شخصیت کا ارتقاء ہواور وہ  اللہ کا قرب حاصل کرکے کامیابی کی منزل پاسکے۔

تزکیہ نفس کیا ہے؟
تزکیہ کے دومعانی ہیں:ایک معنی صفائی ،ستھرائی کے ہوتے ہیں جب کہ دوسرانمو ،زیادتی اور ارتقاکے ہیں ۔ ان دونوں معانی کاحاصل یہ ہوا کہ خلاصہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو بغض وحسد،حرص وہوس،نفرت وعداوت، کبر وتفاخر،بخل اور تنگ نظری جیسی گھٹیاصفات سے پاک رکھے اور اپنے اندر صدق وصفا،الفت ومحبت ،شفقت وعنایت ، فراخ دلی وفیاضی جیسی اوصاف حمیدہ کواپنے اندرپیدا کرے اور  پروان چڑھائے یہاں تک  کہ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب اورقریبی ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فلاح پا گیا جس نے پاکیزگی اختیار کی۔(الاعلیٰ:۱۴(
دوسری جگہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
یقینا فلاح پا گیا (کامیاب ہْوا ) وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا (پاک کیا)اور نامراد ہوا وہ جس نے اْسے دبا دیا۔ (آلودہ کیا)۔(الشمس:۹(
ہم سب جانتے ہیں کہ نفس انسان کاسب سے بڑا داخلی دشمن ہے۔ اگر اسے کنٹرول میں نہ رکھا جائے تو وہ اتنا جری ہوجاتاہے کہ خود انسان پر حاوی ہوکر اسے اپنے مرضی کا شکار بنالیتا ہے اور اس کوسرکشی پر آمادہ کر تاہے،دنیاوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دینے کے لیے اکساتا ہے،جو چاہتا ہے اس سے کرواتا ہے۔یہاں تک کہ  انسان اس کا غلام بن کر اس درجہ گرجاتاہے کہ اسے اپنی حیثیت کابھی احساس نہیں رہتی ۔اسی لیے نبی کریم ﷺ نے شرور نفس سے پناہ مانگی ہے۔
نعوذباللہ من شرورانفسنا و من سیات اعمالنا
ہم اپنے نفس کی شرارتوں اور اپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔
دوسری جگہ آپ نے نفس کی بہت سی خرابیوں سے اللہ کی پناہ چاہی ہے۔آپ ؐ کاارشادہے:
اللہم انی اعوذبک من العجز والکسل، والجبن و البخل، والہرم عذاب القبر، اللہم آت نفسی تقواہا ووزکہا انت ولیہا و مولاہا، اللہم انی اعوذبک من علمٍ لا ینفع، و من قلب لا یخشع، و من نفس لاتشبع، و من دعوۃ لا یستجاب لہا‘‘ (مسلم(
مذکورہ طویل روایت درحقیقت دعا پر مبنی ہے۔ جس میں خاص طور سے ان برائیوں سے پناہ مانگی گئی ہے، جو عموماً نفس کے بہکاوے میں آ کرانجام دی جاتی ہیں، جس کا انجام انسان کی رسوائی اور ذلت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ اس لیے جوشخص نفسپر کنٹرول رکھے گا، اسے متقی اوربہت بڑا بہادر سمجھا جائے گا۔ جس کی طرف آپ ؐ کاارشاد ہے:
لیس الشدید بالصرعۃ ، انما الشدید الذی یملک نفسہ عند الغضب (بخاری(
پہلوان وہ نہیں جو میدان میں کسی کو پچھاڑ دے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کو کنٹرول میں رکھے۔
علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں:
’’صوفیاء کرام کا اپنے طریقہ تزکیہ پر اختلاف کے باوجود اس بات پر اتفاق ہے کہ نفس انسانی قلوب کو اپنے پروردگارسے تعلق پیدا کرنے میںرکاوٹ پیدا کرتاہے۔ اور یہ کہ اللہ سبحانہ تعالی بھی ایسے شخص کے قریب نہیں ہوتا (جس کا نفس حائل ہو)جب تک کہ اسے ہٹانہ دیا جائے یا اس پر قابو نہ پالیا جائے۔‘‘  (اغاثۃ اللہقفان من مصادید الشیطان،ج:۱،ص:78-75(
ماہ رمضان نیکیوں کا موسم بہارہے۔اس ماہ مبارک میںہمیںتزکیہ نفس کا بھرپور سامان ملتا ہے۔جس میںتطہیرقلب اور تزکیہ نفس کے اسباب وذرائع سے بھرپور استفادہ کیاجاسکتا ہے۔ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے اس ماہ کی تفصیل بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اذادخل رمضان فتحت ابواب السماء و فی روایۃ فتحت ابواب الجنۃ و غلّقت ابواب جہنم و سلسلت الشیاطین و فی روایۃ فتحت ابواب الرحمۃ  (متفق علیہ(
’’جب رمضان کا مہینہ سایہ فگن ہوتاہے ، تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں (اسی سے متعلق دوسری روایت کے  الفاظ کچھ اس طرح ہیں کہ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں) اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیںاور شیاطین باندھ دیے جاتے ہیں۔‘‘ ایک اور روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔‘‘
اس حدیث سے واضح ہوتاہے کہ اس ماہ مبارک میں انسان کو تزکیہ نفس کے لیے ماحول ملتا ہے ،کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنتی۔ اگر انسان چاہے تو اس مہینے کے ماحول اور لوگوں کے رجوع الی اللہ کی کیفیت اور نیکی کی طرف دوڑنے کا جذبہ دیکھ کر خود اپنا انفرادی پروگرام بناسکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ اللہ کی اطاعت اور بندگی کے ذریعہ اپنے نفس کی بگڑی ہوئی حالت کو درست کرسکتاہے۔
رمضان المبارک کی سب سے اہم عبادت روزہ ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ میں خود اس کا بدلہ ہوں۔ اللہ تعالی روزے دار کے بالکل قریب ہوتا ہے حتی کہ وہ اپنے بندے کے روزے کو اس درجہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے خالی معدے سے آنے والی بوکو اپنے لیے مشک سے بھی زیادہ عزیز قرار دیتا ہے۔ اگر دیکھاجائے تو روزے کی حالت میں انسان کا ایسا کیا عمل ہوتا ہے سوائے اس کے کہ صبح صادق سے غروب آفتاب تک وہ کھانا ،پینا اورجنسی تعلق سے بچتاہے۔ مگر بندے کا شدت سے اس کی اطاعت کرنا اوربلاریا ونمود کے صرف اللہ کی خاطرروزے کی پابندی کرنا حتی کہ اس پابندی کے سبب اپنے اوپر اللہ کے تمام احکام کی پیروی کو لازم کرنے کی جوتربیت اس کے ذریعہ ملتی ہے وہ اصل ہے، جو اس عمل کو بہت محبوب بنادیتی ہے۔  اطاعت الہٰی کے لیے نفس کو تیار کرنا یہی تزکیہ ہے۔رسول اللہ ؐکا ارشاد ہے:
’’جس نے رمضان کا روزہ ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رکھا تواس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں‘‘۔       )بخاری ومسلم(
اس روایت کا مفہوم بالکل واضح ہے کہ روزہ اس لیے نہیں ہے کہ سب رکھ رہے ہیں تو ہم بھی رکھ لیں بلکہ اسے اللہ کا حکم مان کر کہ وہ اس کا اجروثواب عطا کرے گا۔اس نیت کے ساتھ روزہ رکھاجائے تو انسان کے اندر حکم الٰہی کی اطاعت کرنا آسان ہوجاتاہے ،پھراللہ تعالی اس کو ایسی توفیق دیتا ہے کہ پوری زندگی اس کا فرماں بردار بن کر زندگی گزارنے لگتا ہے۔ یہی اس کے پچھلے گناہوں کی معافی کا مطلب ہے۔
رمضان المبارک کے روزے ہمارے نفس کا تزکیہ بایں طور بھی کرتے ہیں کہ ایک انسان جو مالدار صاحب ثروت ہے پھر بھی پورے دن بھوک وپیاس کی شدت سے اسے بھی گزرنا پڑتاہے جس طرح ایک غریب عام دنوں میں کس مپرسی کے ساتھ فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتاہے۔روزہ رکھنے والے کے پاس سب کچھ ہوتا ہے مگر وہ کھاپی نہیں سکتا۔ یہ درحقیقت اس احساس کے جذبہ کو پروان چڑھاتاہے کہ ایسے غریب لوگوں کی ضرورت پوری کی جائے ، ہم ان کے مشکل وقت میں کام آئیں۔ ان کا ہرطرح سے تعاون کیا جائے ۔بہ حیثیت انسان سب اللہ کے بندے اور آدم کی اولاد ہیں۔ اس لیے باہمی کدورت کو ختم کیاجائے۔ یہی کیفیت انسان کے اندر انفاق کے جذبہ کو ابھارتی ہے اور بغض وحسد،حرص وہوس،نفرت وعداوت،کبروتفاخر،بخل اور تنگ نظری ختم کردیتی ہے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :
کان رسول اللہ اجودالناس ، وکان اجود مایکون فی رمضان حین یلقاہ جبریل، وکان یلقاہ فی کل لیلۃ من رمضان یدارسہ القرآن، فلرسول اللہ اجود بالخیر من الریح المرسلۃ  (مسلم(
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے۔ یہ سخاوت ماہ رمضان میں مزید بڑھ جاتی تھی جس وقت آپ کی ملاقات جبریل ؑ سے ہوتی تھی، آپؐ کی یہ ملاقات رمضان کی ہر شب میں ہوتی تھی جس میں ان کے ساتھ قرآن کریم کا دورکرتے ، آپ کی سخاوت آندھی سے بھی تیز ہوتی تھی۔ ‘‘
اس ماہ میں روزے دار کے افطارکا نظم کرنا بھی بڑا کار خیر ہے جومذکورہ خوبیوں کے علاوہ انسان کے اندر اللہ کے محبوب بندوں سے محبت کرنے اور کسی روزے دار کی ضرورت پوری کرنے کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من فطر صائما فلہ مثل اجرہ من غیر ان ینقص من اجرالصائم شیئ       )ترمذی(
’’جس شخص نے کسی روزے دار کو روزہ افطار کرایا اس کے لیے روزے دار کے اجروثواب میں کوئی کمی کئے بغیر روزے دار کے برابر ہی اجر وثواب ہے ۔‘‘
اس ماہ کو قرآن کریم سے خاص نسبت حاصل ہے ۔کیوں کہ اسی ماہ مبارک میں قرآن مجید کا نزول ہوا۔ آپؐ حضرت جبریل امین کے ساتھ رمضان کی شب میں قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔ تراویح میں مسلسل کلام اللہ کی تلاوت ہوتی ہے۔ سی طرح روزہ اور قرآن کو سفارشی بھی قرار دیا گیا ہے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ قرآن کریم تزکیہ نفس کے اسباب میں سے ایک اہم بھی ہے۔حـضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالی سے دعا کی تھی:
’’اور اے ربّ ، ان لوگوں میں خود اِنہی کی قوم سے ایک رسول اٹھائیو ، جو انہیں تیری آیات سنائے ، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔ تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔‘‘(البقرۃ:129(
قرآن کریم جو پوری انسانیت کے لیے سراپا ہدایت ہے اوررمضان کو قرآن کی مناسبت کے سبب لوگوں میں بکثرت اس کی تلاوت کرتے ہوئے دیکھا جاتاہے۔ مگر تلاوت قرآن پاک کو معانی ومفاہیم کے ساتھ سمجھنا بھی ضروری ہے تاکہ ہم اللہ کے احکام کو سمجھ کر اس پر عمل پیراہوں۔ دل کی صفائی جو تزکیہ نفس کے لیے بے حد ضروری ہے، جس کے لیے تلاوت کلام اللہ اور موت کا ذکر لازم ہے۔آپ ؐ نے ایک مثال سے اس کی وضاحت فرمائی :
ان القلوب لتصدأ کما یصدأ الحدید قیل و ما جلاؤہا قال تلاوۃ القرآن وذکر الموت
  (مشکوۃ، بیہقی شعب الایمان(
’’یقینا دل بھی زنگ آلود ہوتے ہیں جیسے لوہے کو زنگ لگتا ہے۔ پوچھا گیا اس کی صفائی کیسے ہوگی ؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا تلاوت کلام اللہ اور موت کو یاد کرنے سے۔‘‘
اس ماہ مبارک میں لوگ نوافل اور ذکر الہٰی کا بھی خاص اہتمام کرتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ماہ میں ثواب کا درجہ بڑھا دیاجاتاہے ، یعنی نوافل کا ثواب فرض کے برابر ملتا ہے اورفرائض کا سترگنااضافے کے ساتھ ثواب ملتاہے۔ اس سے  بھی بندوںمیں اللہ کی قربت پیداکرنے کی تربیت ہوتی ہے ، کیوں کہ انسان جب نماز میں ہوتا ہے۔تو وہ اللہ کے بے حد قریب ہوجاتاہے۔ اسی طرح جب انسان کا دل ذکر الٰہی سیترہوتا ہے تو دل کو زندگی ملتی ہے ورنہ اس پر بھی ویرانی اور پژمردگی پیدا ہوجاتی ہے۔ جب کہ تزکیہ کے لیے اطمینان قلب کے ساتھ دل کا صاف اوراس کا زندہ ہونا بے حد ضروری ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
الا بذکرالله  تطمئنّ القلوب (سورۃ رعد:۲۸(
’’خبردراہو! اللہ کی یادہی وہ چیز ہے جس سے دلوںکواطمینان نصیب ہواکرتاہے۔‘‘
اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
مثل الذی یذکرربہ والذی لایذکرربہ مثل الحی والمیت       )متفق علیہ(
’’نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اس کی مثال جواپنے رب کویادکرے اورجونہ یاد کرے زندے اورمردے کی طرح ہے۔‘‘
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس ماہ مبارک کو انسانی تربیت کے لیے ایک تحفہ کے طور پر عطا کیا ہے تا کہ بندہ اس مہینہ میں بھر پور عبادت وریاضت کے ذریعہ اپنے نفس کی خاص طور سے تربیت کرے پھر وہ بقیہ دیگر مہینوں میں اللہ تعالی کے احکام کاپابند ہوکر زندگی بسرکرے اور اپنے نفس کو اوصاف حمیدہ سے آراستہ کرکے خود کوبلند کردارکا حامل بنائے ساتھ ہی ان تمام خصلتوں سے جو نفس کو مردہ بنادیتے ہیں یا اسے ذلت وپستی کی کھائی میں ڈھکیل دیتے ہیں ان سے بالکلیہ اجتناب کرے تاکہ وہ انسان اللہ کا محبوب بندہ ہوجائے۔
٭٭٭

Wednesday 18 June 2014

Khair o Shar ki Kashmakash


خیراورشرکی کش مکش
محب اللہ قاسمی
موبائل:  9311523016

اس کائنات میں چند روزہ زندگی کی مہلت لے کر آنے والا انسان، کشمکش ِ حیات سے گزرکرایک یقینی منزل (موت) تک پہنچتا ہے۔ انسانوں کے طرز زندگی اوران کو حاصل محدوداختیارات کو سامنے رکھاجائے تو بنیادی طور پر انسانوںکو دوگروہوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔
ایک گروہ میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی اپنے جیون داتا ، خالق و مالک کی مرضی اور اس کی ہدایات کے مطابق گزاری ،اس پر وہ حقیقی کامیابی سے ہم کنار ہوں گے اور اپنے اعمالِ خیر کا بدلہ پائیں گے۔ دوسرا گروہ ان کا ہے، جواپنی خواہشات کے پیچھے چل کر اپنے خالق و مالک سے بغاوت کربیٹھے ۔اس دارفناکواپنا آخری ٹھکانا مان کرقدرت کے اصول و احکام کی خلاف ورزی کرتے رہے۔

ان دونوں گروہوں کے طرز عمل کا مزید جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حق سے رسمی وابستگی کافی نہیں۔ بظاہر کامیاب اور لوگوں کی نگاہ میں صالح زندگی بسرکرنے والے بسااوقات عادات واطوار کے اعتبار سے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ دراصل اللہ کی ناراضی اورجہنم کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ منافق یا گمراہ لوگوں کے زمرے میں آتے ہیں۔
دوسری جانب ایسے مخلصین بھی ہوتے ہیں جو دنیا میں بظاہربہت ہی معمولی زندگی بسرکرتے ہیں ،ان کی زندگی کس مپرسی سے دوچار ہوتی ہے اور مختلف آزمائشوں سے بھری ہوتی ہے۔ان کے ان حالات پر لوگ ترس بھی کھاتے ہیں مگر ان کی سعی رضاء الٰہی سے ہم کنار ہوتی ہے۔وہ ایمانی غیرت و حمیت سے سرشارہوتے ہیں۔
        ہم دیکھتے ہیں کہ معیار زندگی اور ٹھاٹ باٹ کی دوڑ میں بہت سے لوگ قدرت کے اصول اور اپنے خالق و مالک کی ہدایات کوبالائے طاق رکھ کربداخلاقی اور بدعنوانی کے دلدل میں پھنس جاتے ہیں ۔ غضب بالائے غضب کہ یہ لوگ اسی کو کامیاب زندگی قرار دیتے ہیں۔ایسے لوگوں کی جھوٹی شان وشوکت اورنام نہاد عزت وعظمت کو دیکھ کر دوسروں میں ان جیسا بننے کی خواہش ابھر نے لگتی ہے ۔اس کے نتیجے میں شرور وفتن اورفساد و بگاڑ کا سیلاب تیزی سے آتا ہے جو اچھے اوربرے تمام لوگوں کو اپنے چپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اسی کا نتیجہ فساد فی الارض ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
     خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزا چکھائے اْن کو اْن کے بعض اعمال ،کا شاید کہ وہ باز آجائیں۔(الروم:۴۱(
یہ واقعہ ہے ہر فرد سماج سے جڑا ہواہوتا ہے ، لہذا اس کے اثرات سے وہ بچ نہیں سکتا۔ شر کا غلبہ ہو تو ہر طرف ہاہاکار مچنے لگتی ہے۔ لوگوں کوحق معلوم ہوتا ہے لیکن برائیوں کی روک تھام کی کوشش نہیں کرتے ۔یہ ایک بڑی ذمہ داری سے منہ موڑنا ہے۔ اللہ تعالی نے امت مسلمہ کے ہر فرد پریہ ذمہ داری عائد کی ہے۔ یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔ اچھے بھلے انسانوں کو بہترین امت کا خطاب عطا کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ (آل عمران:110(
’’تم بہترین امت ہوجوسارے انسانوںکے لیے وجودمیں لائی گئی ہے۔ تم بھلائی کا حکم دیتے ہواوربرائی سے روکتے ہو اوراللہ پر کامل ایمان رکھتے ہو۔ ‘‘  (آل عمران:110)
نبی کریم ﷺ اور ان کے جانثار صحابہ کرام ؓنے اس فریضہ کی بھرپور ادائیگی کے ذریعے واضح کردیا تھاکہ یہ امت اس وقت تک بہترین امت رہے گی جب تک کہ بھلائی کا حکم اور برائی سے روکنے کاکام انجام دے گی۔نبی کریم ﷺ نے برائی سے روک تھام کے لیے درجات متعین کیے ہیں جو آپؐ کے اس ارشاد سے واضح ہیں:
من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ، فان لم یستطع فبلسانہ، فان لم یستطع فبقلبہ وذالک اضعف الایمان(مسلم(
’’جو شخص تم میں سے کسی برائی کو (ہوتے )  دیکھے، تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل (روک) دے۔ اگر (ہاتھ سے روکنے کی) طاقت نہیں ہے تو زبان سے (اس کی برائی کو واضح کردے) اگر اس کی بھی طاقت نہ ہوتو دل سے(اسے براجانے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔(مسلم)‘‘
تاریخ گواہ ہے کہ جب امت نے اس ذمہ داری سے انحراف کیاتووہ مختلف مشکلات سے دوچار ہوئی۔پھر لاکھ دعائیں کی جائیں مگر وہ قبول نہیں ہوتیں ۔نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:
والذی نفسی بیدہ! لتأمرن بالمعروف، ولتنہون عن المنکر، او لیوشکنّ اللہ ان یبعث علیکم عقاباً منہ، ثم تدعونہ فلایستجاب لکم (ترمذی)
’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم ضرور نیکی کاحکم کرو اور ضرور برائی سے روکو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالی تم پر اپنی طرف سے کوئی عذاب بھیج دے، پھر تم اس سے دعائیں کروگے لیکن وہ قبول نہیں کی جائیںگی۔‘‘(ترمذی)
جب تک بھلائیوں کا فروغ اوربرائیوں پر روک نہ ہو،تو معمولی چھوٹے گناہ بڑھ کربھیانک اور سنگین شکل اختیار کرلیتے ہیں پھر وہ انسانوں کوخدا کا باغی بنا تے ہیں۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اہل ایمان مسلمان ہونے پر فخر کرنے کے بجائے احساس کمتری کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ جب کہ سربلندی اور کامیابی کی اصل اساس اسلام اور احکام اسلام کی پابندی ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر(بھلائی کا حکم اور برائی سے روکنا) وہ فریضہ ہے جسے انجام دے کر یہ امت ایک صالح معاشرے کا قیام کرسکتی ہے ، تاریکیوں کا پردہ چاک کرسکتی اور پوری دنیا کو نورِ حق سے جگمگاسکتی ہے۔ اس فریضہ کو ترک کردینے کے نتیجے میں برائیوں سے لت پت ماحول نے لوگوں میں اچھے برے کی تمیز ختم کردی ہے۔ خیر اپنے ہی ماننے والوں میں اجنبی بن کر رہ گیا ہے ،جب کہ شر اپنے فتنہ انگیزیوں کے ساتھ ماحول پر چھاجانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کش مکش میں اگر خیر اجنبی بنا رہا ،اسے نہیں اپنایاگیااوراسے فروغ نہیں ملا تو یہ دنیا شروروفتن کی آماجگاہ بن کررہ جائے گی، جس میں انسانی گروہ تباہ برباد ہوجائے گا۔ضرورت ہے کہ ہم خوابِ غفلت سے بیدار ہوں۔
اس کائنات میںچند روزہ زندگی کی مہلت لے کر آنے والا انسان، کشمکش ِ حیات سے گزرکرایک یقینی منزل (موت) تک پہنچتا ہے۔ انسانوں کے طرز زندگی اوران کو حاصل محدوداختیارات کو سامنے رکھاجائے تو بنیادی طور پر انسانوںکو دوگروہوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔
ایک گروہ میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی اپنے جیون داتا ، خالق و مالک کی مرضی اور اس کی ہدایات کے مطابق گزاری ،اس پر وہ حقیقی کامیابی سے ہم کنار ہوں گے اور اپنے اعمالِ خیر کا بدلہ پائیں گے۔ دوسرا گروہ ان کا ہے، جواپنی خواہشات کے پیچھے چل کر اپنے خالق و مالک سے بغاوت کربیٹھے ۔اس دارفناکواپنا آخری ٹھکانا مان کرقدرت کے اصول و احکام کی خلاف ورزی کرتے رہے۔

ان دونوں گروہوں کے طرز عمل کا مزید جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حق سے رسمی وابستگی کافی نہیں۔ بظاہر کامیاب اور لوگوں کی نگاہ میں صالح زندگی بسرکرنے والے بسااوقات عادات واطوار کے اعتبار سے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ دراصل اللہ کی ناراضی اورجہنم کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ منافق یا گمراہ لوگوں کے زمرے میں آتے ہیں۔
دوسری جانب ایسے مخلصین بھی ہوتے ہیں جو دنیا میں بظاہربہت ہی معمولی زندگی بسرکرتے ہیں ،ان کی زندگی کس مپرسی سے دوچار ہوتی ہے اور مختلف آزمائشوں سے بھری ہوتی ہے۔ان کے ان حالات پر لوگ ترس بھی کھاتے ہیں مگر ان کی سعی رضاء الٰہی سے ہم کنار ہوتی ہے۔وہ ایمانی غیرت و حمیت سے سرشارہوتے ہیں۔
        ہم دیکھتے ہیں کہ معیار زندگی اور ٹھاٹ باٹ کی دوڑ میں بہت سے لوگ قدرت کے اصول اور اپنے خالق و مالک کی ہدایات کوبالائے طاق رکھ کربداخلاقی اور بدعنوانی کے دلدل میں پھنس جاتے ہیں ۔ غضب بالائے غضب کہ یہ لوگ اسی کو کامیاب زندگی قرار دیتے ہیں۔ایسے لوگوں کی جھوٹی شان وشوکت اورنام نہاد عزت وعظمت کو دیکھ کر دوسروں میں ان جیسا بننے کی خواہش ابھر نے لگتی ہے ۔اس کے نتیجے میں شرور وفتن اورفساد و بگاڑ کا سیلاب تیزی سے آتا ہے جو اچھے اوربرے تمام لوگوں کو اپنے چپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اسی کا نتیجہ فساد فی الارض ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
     خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزا چکھائے اْن کو اْن کے بعض اعمال ،کا شاید کہ وہ باز آجائیں۔(الروم:۴۱(
یہ واقعہ ہے ہر فرد سماج سے جڑا ہواہوتا ہے ، لہذا اس کے اثرات سے وہ بچ نہیں سکتا۔ شر کا غلبہ ہو تو ہر طرف ہاہاکار مچنے لگتی ہے۔ لوگوں کوحق معلوم ہوتا ہے لیکن برائیوں کی روک تھام کی کوشش نہیں کرتے ۔یہ ایک بڑی ذمہ داری سے منہ موڑنا ہے۔ اللہ تعالی نے امت مسلمہ کے ہر فرد پریہ ذمہ داری عائد کی ہے۔ یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔ اچھے بھلے انسانوں کو بہترین امت کا خطاب عطا کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ (آل عمران:110(
’’تم بہترین امت ہوجوسارے انسانوںکے لیے وجودمیں لائی گئی ہے۔ تم بھلائی کا حکم دیتے ہواوربرائی سے روکتے ہو اوراللہ پر کامل ایمان رکھتے ہو۔ ‘‘  (آل عمران:110)
نبی کریم ﷺ اور ان کے جانثار صحابہ کرام ؓنے اس فریضہ کی بھرپور ادائیگی کے ذریعے واضح کردیا تھاکہ یہ امت اس وقت تک بہترین امت رہے گی جب تک کہ بھلائی کا حکم اور برائی سے روکنے کاکام انجام دے گی۔نبی کریم ﷺ نے برائی سے روک تھام کے لیے درجات متعین کیے ہیں جو آپؐ کے اس ارشاد سے واضح ہیں:
من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ، فان لم یستطع فبلسانہ، فان لم یستطع فبقلبہ وذالک اضعف الایمان(مسلم(
’’جو شخص تم میں سے کسی برائی کو (ہوتے )  دیکھے، تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل (روک) دے۔ اگر (ہاتھ سے روکنے کی) طاقت نہیں ہے تو زبان سے (اس کی برائی کو واضح کردے) اگر اس کی بھی طاقت نہ ہوتو دل سے(اسے براجانے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔(مسلم)‘‘
تاریخ گواہ ہے کہ جب امت نے اس ذمہ داری سے انحراف کیاتووہ مختلف مشکلات سے دوچار ہوئی۔پھر لاکھ دعائیں کی جائیں مگر وہ قبول نہیں ہوتیں ۔نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:
والذی نفسی بیدہ! لتأمرن بالمعروف، ولتنہون عن المنکر، او لیوشکنّ اللہ ان یبعث علیکم عقاباً منہ، ثم تدعونہ فلایستجاب لکم (ترمذی)
’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم ضرور نیکی کاحکم کرو اور ضرور برائی سے روکو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالی تم پر اپنی طرف سے کوئی عذاب بھیج دے، پھر تم اس سے دعائیں کروگے لیکن وہ قبول نہیں کی جائیںگی۔‘‘(ترمذی)
جب تک بھلائیوں کا فروغ اوربرائیوں پر روک نہ ہو،تو معمولی چھوٹے گناہ بڑھ کربھیانک اور سنگین شکل اختیار کرلیتے ہیں پھر وہ انسانوں کوخدا کا باغی بنا تے ہیں۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اہل ایمان مسلمان ہونے پر فخر کرنے کے بجائے احساس کمتری کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ جب کہ سربلندی اور کامیابی کی اصل اساس اسلام اور احکام اسلام کی پابندی ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر(بھلائی کا حکم اور برائی سے روکنا) وہ فریضہ ہے جسے انجام دے کر یہ امت ایک صالح معاشرے کا قیام کرسکتی ہے ، تاریکیوں کا پردہ چاک کرسکتی اور پوری دنیا کو نورِ حق سے جگمگاسکتی ہے۔ اس فریضہ کو ترک کردینے کے نتیجے میں برائیوں سے لت پت ماحول نے لوگوں میں اچھے برے کی تمیز ختم کردی ہے۔ خیر اپنے ہی ماننے والوں میں اجنبی بن کر رہ گیا ہے ،جب کہ شر اپنے فتنہ انگیزیوں کے ساتھ ماحول پر چھاجانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کش مکش میں اگر خیر اجنبی بنا رہا ،اسے نہیں اپنایاگیااوراسے فروغ نہیں ملا تو یہ دنیا شروروفتن کی آماجگاہ بن کررہ جائے گی، جس میں انسانی گروہ تباہ برباد ہوجائے گا۔ضرورت ہے کہ ہم خوابِ غفلت سے بیدار ہوں۔


Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...