Wednesday 10 June 2015

Ramazanul Mubarak ki Taiyari Keun aur Kaise?

رمضان المبارک کی تیاری کیوں اورکیسے؟
                                                                محب اللہ قاسمی               
رمضان المبارک جلد ہی ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے ۔یقینا ہمارے دل میں اس ماہ کی بڑی قدرہے لیکن کیاہم اس کے لیے تیاری کرتے ہیں؟ کیا ہم ا پنے اہل خانہ کو توجہ دلاتے ہیں کہ وہ بھی اس سلسلے میں تیاری کریں اورغفلت سے کام نہ لیں؟
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے میں صحابہ کرام کو اکٹھاکرتے اورخطبہ دیتے جس میں انھیں رمضان کی آمدکی خوش خبری سناتے تھے۔رمضان کی فضیلت اور اہمیت کے پیش نظر اس کی تیاری کے سلسلے میں توجہ دلاتے ۔ایسے ہی خطبہ میں آپ نے ارشادفرمایا: 
’’اے لوگو! عنقریب تم پر ایک عظیم الشان ماہ مبارک سایہ فگن ہونے والا ہے ۔اس ماہ مبارک میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزارراتوں سے بہترہے۔اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کے روزے فرض کیے،اس کے قیام کو اپنی خوشنودی کا ذریعہ قراردیا،توجس شخص نے اس ماہ میں ایک چھوٹا سا کارخیرانجام دیااس نے دیگرماہ کے فرائض کے برابرنیکی حاصل کرلی،یہ صبراورہمدردی کا مہینا ہے۔ساتھ ہی یہ وہ ماہ مبارک ہے،جس میں اللہ اپنے بندوں کے رزق میں اضافہ فرماتاہے۔اس ماہ مبارک میں جس نے کسی روزے دارکوافطارکرایا۔روزے دار کے روزے میں کمی کے بغیراس نے روزے دارکے برابرثواب حاصل کیا۔ اورخود کو جہنم سے بچالیا۔صحابہ کرامؓ  نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولﷺ ہم میں سے ہرشخص تو روزے دارکو افطارکرانے کی استطاعت نہیں رکھتاہے؟آپ نے فرمایا:جس نے روزے دارکوپانی کا گھونٹ پلایا،یا دودھ کا گھونٹ پلایا،یا ایک کھجورکے ذریعے افطار کرایااس کا اجراسی کے برابرہے اوراس کے لیے بھی جہنم سے نجات ہے ۔اس سے روزے دار کے اجرمیں کمی نہیں ہوگی۔جس نے اپنے ماتحتوںسے ہلکاکام لیااس کے لیے بھی جہنم سے نجات ہے۔﴿مشکوۃ﴾
اگرہم استقبال رمضان کے لیے تیارہیں تو ہمیں چندباتوںکا لحاظ کرنا ہوگا۔سب سے پہلے یہ کہ ہم اپنے نفس کو آمادہ کریں اوراس ماہ مبارک میں امور خیر انجام دینے کے لیے عملی اقدام کریں۔اس ذیل میں چندچیزیں آتی ہیں جن کا ہمیں خیال رکھنا چاہیے:
﴿الف﴾کوئی بھی کام بغیرمشیت الٰہی کے ممکن نہیں تو ہمیں اس کے لیے خدا سے توبہ واستغفار کے ساتھ دعاکا اہتمام کرنا چاہیے۔اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول دعاؤں کا اہتمام کیاجائے۔
﴿ب﴾توبہ کا اہتمام کیاجائے توبہ میں انسان اپنے رب کی طرف پوری طرح متوجہ ہوتاہے ۔گناہوںکا جوفاصلہ انسان اوراس کے رب کے درمیان ہوتاہے وہ ختم ہوجاتاہے ۔نیک کاموںکی طرف رغبت بڑھتی ہے جورمضان کے دیگرعبادات میں بھی معین ثابت ہوگی۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:اے مؤمنوتم سب مل کراللہ سے توبہ کرو،توقع ہے کہ تم فلاح پا جاؤگے﴿النور:۳۱﴾توبہ سے متعلق نبی کریم کا ارشادہے : اے لوگو! اللہ سے توبہ کرو،میں دن میں سو بار توبہ کرتاہوں﴿مسلم﴾آپ ﷺ دعاکا بھی اہتمام کرتے تھے۔آپ سے یہ دعامنقول ہے:
الھم بارک لنا فی رجب وشعبان وبلغنا رمضان
’اے اللہ ہمیں رجب وشعبان میں برکت دے اور رمضان تک صحیح سلامت پہنچا‘
﴿ج﴾گزشتہ رمضان کے روزے رہ گئے ہوں تواُنھیں فوراً شعبان کے مہینے میں ہی ادا کرلینا چاہیے۔ابوسلمی کہتی ہیں کہ میں نے عائشہ ؓ  کو کہتے ہوئے سنا:میرے ذمہ رمضان کا کوئی روزہ ہوتاتھا تومیں اسے شعبان میں ہی پورا کرلیتی تھی۔﴿متفق علیہ﴾
﴿د﴾رمضان المبارک کی سب سے اہم عبادت روزہ رکھنا ہے ،اس لیے اس کی عادت ڈالنے کے لیے شعبان کے مہینے میں وقفے وقفے سے روزے رکھنے چاہییں۔ تاکہ پوری طرح نشاط رہے اوراس بات کا احساس رہے کہ آئندہ ماہ کے تمام روزے رکھنے ہیں ۔نبی کریم ﷺ کا معمول تھا کہ آپ شعبان کے مہینے میں بکثرت روزے رکھاکرتے تھے ۔مگرپورے ماہ کے روزے صرف رمضان کے ہی رکھتے تھے۔حضرت عائشہؓ  کہتی ہیں کہ رمضان ہی میں پورے ماہ کے روزے رکھتے اور ماہ شعبان میں زیادہ ترروزے رکھتے تھے۔﴿متفق علیہ﴾
﴿ھ﴾ایک مشہورحدیث ہے کہ اعمال کا دارومدارنیتوںپر ہے ۔جیسی نیت ہوتی ہے ، معاملہ اسی اعتبارسے ہوتاہے۔ اسی طرح ابوہریرہؓ  سے مروی ایک حدیث ہے کہ انسان کسی نیک کام کی نیت کرتاہے تواس کا عمل اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیاجاتاہے۔﴿مسلم ﴾
اس لیے ہم رمضان المبارک کے تئیں آغازہی میں اپنی نیت کو درست کریں اوربہت سے نیک اعمال کرنے کی نیت کرلیں۔مثلا ً تلاوت قرآن کی کثرت،گناہوںسے توبہ کا اہتمام،دعاواذکارکی پابندی،عبادات کا التزام،لوگوںسے معاملات درست کرنے کی نیت، شعبان کے کچھ روزے رکھنا تاکہ آئندہ ماہ کے لیے مشق ہوجائے،دینی وتربیتی کتابوںکا مطالعہ ،رمضان سے متعلق دینی بیانات جوسی ڈی وغیرہ کی شکل میں ہوںتوان کا سننا تاکہ رمضان کااحساس دل میں رہے اوراس کی تیاری پرتوجہ ہوسکے۔
﴿و﴾رمضان المبارک کی خصوصیت ہے کہ اس ماہ مبارک میں نزول قرآن ہوا۔اس مناسبت سے عام دنوں کے مقابلے میں لوگ قرآن کو زیادہ پڑھتے ہیں تلاوت ایک عبادت ہے اس لیے بھی اس ماہ مبارک میں اس کا اہتمام کیاجاتاہے۔مگریہ عمل بھی تیاری چاہتاہے چنانچہ ہم شعبان کے مہینے سے ہی اپنی یومیہ مسلسل تلاوت شروع کردیں اوراس بات کی نیت کرلیں کہ رمضان میں ایک بار پورے قرآن کا ترجمے کے ساتھ اعادہ کرناہے۔اللہ کا فرمان ہے :
شہررمضان الذی انزل فیہ القرآن،ھدی للناس
’ماہ رمضان جس میںقرآن کریم کا نزول ہواجوتمام انسانوں کے لیے ہدایت ہے‘
﴿ز﴾ایک کسان جب تک کھیت میں بیج نہیں ڈالے گا ، موقع بہ موقع سیراب نہیں کرے گا توکھیت کے لہلہانے کی توقع فضول ہے۔ٹھیک یہی حال رمضان اور اس کی تیاری کا ہے۔
شیخ ابوبکرالبلخیؒ  کہتے ہیں:
’ماہ رجب کا شتکاری کا مہینا ہے،ماہ شعبان اس کی سیرابی کا مہینا ہے اورشہر رمضان کھیت کٹائی کا مہینا ہے۔اسی طرح ماہ رجب کو ہوا،شعبان کو غیم اوررمضان کو بارش سے تعبیرکرتے ہیں۔جس نے اعمال کی کھیتی کے موسم بہارمیں کاشتکاری نہیں کی اورماہ رجب میں اس کا پودانہیں لگایا اورشعبان میں اسے سیراب نہیں کیاتو وہ ماہ رمضان اعمال میںکے کھیتی کی کٹائی کیسے کرسکتاہے۔اگرماہ رجب گزرگیاہے تو کم ازکم شعبان کے مہینے سے اس کی کوشش کی جائے۔یہی ہمارے نبی اور اسلاف کا طریقہ رہا ہے ۔‘
﴿ح﴾آج کل مسلمان دین کے معاملے میں غفلت کا شکارہیں اوراپنے کاموںمیں اس قدر محوہیں کہ اس کی تیاری کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا، حالانکہ گھرکے ذمہ دارفرد کو اتنا وقت نکالناچاہیے کہ وہ اپنے اہل خانہ کے درمیان رمضان اوراس کے احکام کی تعلیم دے سکے۔اگروہ نہیں جانتاتوعلماسے معلوم کرے اورمساجد کے ائمہ کے خطبات سے فائدہ اٹھائے۔
ماہ رمضان کا یومیہ پروگرام
یہ ذہن بنائیں کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ وقت عبادات میں صرف کرنا ہے ،فرض کے ساتھ ساتھ نوافل کا بھی بکثرت اہتمام کرنا ہے۔اس کے لیے یومیہ پروگرام ترتیب دیں جس میں درج ذیل باتوںکا خیال رکھیں:
﴿الف﴾فجرسے پہلے کے کام : تہجدکا اہتمام:اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
امَّنْ ہُوَ قَانِتٌ آنَائ اللَّیْْلِ سَاجِداً وَقَائِماً یَحْذَرُ الْآخِرَۃَ وَیَرْجُو رَحْمَۃَ رَبِّہِ   ﴿الزمر:۹﴾                                           
’ یا وہ جومطیع وفرماں بردارہے رات کے پہرمیں سجدہ اورقیام کی حالت میں ہوتا ہے اوراپنے رب سے رحمت کی امید لگاتاہے۔‘
﴿ب﴾سحرگاہی کا اہتمام:نبی کریم کا ارشادہے:تسحروا فان السحور برکۃ ﴿متفق علیہ﴾ سحری کا اہتمام کیاکروکہ اس میں برکت ہے۔فجرکی سنت کا اہتمام : نبیﷺ نے فرمایا:
رکعتا الفجرخیرمن الدنیا ومافیہا
’ فجرکی دورکعت دنیا اوراس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ ‘﴿ مسلم ﴾
﴿ج﴾دعا اوراذکارمیں اپنا وقت لگائیں خاص طورسے اذان اورنماز کے درمیان ِ اوقات میں اس لیے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
الدعاءلایردبین الاذان والاقامۃ﴿متفق علیہ﴾
’اذان اور نماز کے درمیان کے وقت دعائیں ردنہیں کی جاتیں۔‘
﴿د﴾فجرکے بعد سے طلوع شمس تک ذکر اور تلاوت قرآن کے لیے مسجدمیں قیام کو لازم پکڑلیں :
کان النبی ِاذا صلی الفجرجلس فی مصلاہ حتی تطلع الشمس حسنا﴿مسلم﴾
نبی کریم ﷺ فجرکی نمازکے بعدطلوع شمس تک اپنے مصلے پر بیٹھے رہتے تھے۔ایک جگہ ارشادہے:
من صلی الفجرفی جماعۃ ثم قعد یذکراللہ حتی تطلع الشمس ثم صلی رکعتین کانت لہ کاجرحجۃ وعمرۃ تامۃ تامۃ تامۃ﴿ترمذی﴾
فجرکی نماز کے بعد طلوع شمس تک اللہ کا ذکرکرتارہا پھردورکعت نماز ادا کی اس کا اجرایک مکمل حج اورعمرے کے مانندہے۔
﴿ھ﴾اس دعاکا اہتمام کہ اللہ ہمارے دن میں برکت دے۔
﴿الہم انی اسالک خیرمافی ہذا الیوم فتحہ ونصرہ ونورہ وبرکتہ وہداہ واعوذبک من شرمافیہ وشرمابعدہ﴾ ابوداؤد
﴿و﴾ظہرکی نماز کی تیاری کرے ،فراغت کے بعد بدن کو تھوڑی راحت دے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :
استعینوا بطعام السحرعلی الصیام، وبالقیلولۃ علی قیام اللیل ﴿ابن ماجہ﴾
’سحری کھاکر روزے پر اورقیلولہ ﴿دوپہرکے وقت سونے﴾کے ذریعے رات کی نماز پر مددحاصل کرو۔‘
﴿ز﴾اگرصاحب حیثیت ہیں اورخدانے مال ودولت سے نوازا ہے توغرباپر مال خرچ کریں اورانھیں افطارکرانے کا نظم کریں۔کیوں کہ یہ عمل اللہ کو بے حد پسندہے۔

Sunday 22 March 2015

Qiyadat aur Ehsas-e-zimmedari

 اور احساس ذمہ داریقیادت


انسان کی بہت سی ضرورتوں میں ایک اہم ضرورت اجتماعیت ہے، اس میں اللہ نے برکت رکھی ہے اور اس میں اس کی مدد بھی شامل حال رہتی ہے۔ اللہ کے رسول ؐ کا ارشاد ہے:

ید اللہ علی الجماعۃ (ترمذی) جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے۔

    اس لیے اجتماعیت سے الگ ہوکر زندگی گزارنا پسندیدہ نہیں ہے۔ایسی حالت میں خاتمے کو میتۃ الجاہلیہ (جاہلیت کی سی موت) سے تعبیر کیا گیا۔ اجتماعیت ہوگی تو لازما اس کا ایک امیر اور سربراہ ہوگا جو اس کی قیادت کا فریضہ انجام دے گا۔ عوام اس کی رہ نمائی میں اپنا سفر حیات جاری رکھتے ہوئے منزل کی طرف کام یابی کے ساتھ گامزن ہوں گے۔ قیادت وسربراہی کی اس ضرورت کا احساس دلاتے ہوئے آپؐ کا ارشاد ہے:



    اذاکان ثلاثۃ فی سفرفليؤمراحدہم (ابوداؤد)
جب تین آدمی سفرمیں ہوں تو ان میں ایک کو امیربنالیناچاہیے۔

    قوم کا سربراہ اس کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس کی خیر خواہی کرنا ،ہر طرح کی ضرویات کا خیال رکھنا اور اس کی بہتری کی فکر کرنا ،اس کی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ عین فرض منصبی ہے۔ اسے اس کا احساس ضروری ہے۔قوم کے رہبر و رہ نما کی حیثیت ایک خادم کی سی ہوتی ہے۔ وہ اپنے اس فرض منصبی کو صحیح طریقہ سے انجام دے تو رعایا اور اس کے ماتحت افراد خوشحال ہوں گے، جانثاری کے جذبے ساتھ اپنا ہر طرح کا تعاون پیش کریں گے۔ لیکن اگر اس کے برعکس سربراہ اگر خود کو قوم کا خادم تصور کرنے اور اس کی فلاح وبہبود کا خیال رکھنے کے بجائے مخدوم سمجھ بیٹھے اور آرائش و آسائش کی زندگی کو مقصد بنا لے اور ؂ 
’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘
کے مصداق عایا کے مسائل سے آنکھیں موندلے تو ایسے حالات میں رعایا بے چینی کی کیفیت سے دوچار ہوگی اور بسا اوقات اس سربراہ کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے پر آمادہ ہوجائے گی۔ 

    نبی کریمؐ کی بعثت سے قبل دنیائے انسانیت دم توڑ رہی تھی۔ ہر طرف ظلم وستم کا بازار گرم تھا، رقص وسرور میں ڈوبے عیش پسند ناعاقبت اندیش رہ نماؤں اور بادشاہوں کو عوام کی ذرہ برابر بھی فکر نہ تھی بلکہ وہ وقتا فوقتا انھیں اپنے عتاب کاشکار بناتے رہتے تھے۔مگر یہ بادل چھٹا اور آفتاب کی شکل میں ایک عظیم رہ نمانمودار ہوا جس نے لوگوں کو معرفت خداوندی کے ساتھ قیادت وسیادت کے اصول سمجھائے۔ لوگوں کے دکھ درد بانٹ کر انھیں حقیقی زندگی جینا سکھایا اور بتایا کہ بہترین انسان ہی بہتر قائدانہ کردار پیش کرسکتا ہے۔حقیقی قائد وہ ہے جو امانت دار، امن وامان کا خواہاں اور انسانوں کی ضروریات پوری کرنے والا ہو نہ کہ عیش و عشرت کا خواہاں ہو۔ یہ بہترقیادت عملی طور پر کیسے ممکن ہے۔ آپؐ نے اپنی پوری زندگی سے اس سوال کا جواب فراہم کیا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:

کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ (متفق علیہ)
    تم میں کا ہرشخص ذمہ دار ہے، ہرایک سے اس کی رعیت کے سلسلے میں میں باز پرس ہوگی۔

    احساس جوابدہی کا یہی وہ محرک تھا جس نے صحابہ کرامؓ کو ذمہ دارشخصیت بنادیا، جو دنیاوالوں کے لیے نمونہ بنے۔ پھر دنیا نے آپؐ کے تربیت یافتہ خلفائے راشدین کا دور بھی دیکھا کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓامیرالمومنین ہیں ، بیت المال کے موجود ہوتے ہوئے بھی زندگی کس مپرسی میں گزری ۔مگر رعایا کے سرمایہ کو اپنے ذاتی مصرف میں نہیں لائے اور غیر ضروری خرچ سے گریز کرتے رہے۔ انھوں نے پوری دور اندیشی اور احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنا فریضہ انجام دیا۔ قیصر وکسری کو فتح کرنے والے اوروسیع وعریض دنیا میں اسلام کا پرچم لہرادینے والے خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کھجور کی چٹائی پر سوتے ہیں ،جسم پر اس کے نشانات ابھر آتے ہیں۔ ان کی سادگی پر لوگوں کو معلوم کرنا پڑتا تھا کہ امیر المومنین کون ہیں؟ ان کے احساس ذمہ داری کا یہ عالم تھا کہ وہ رعایا کے احوال سے نہ صرف باخبر رہتے تھے بلکہ ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے خود پیٹھ پر غلوں کا بوجھ اٹھالیتے تھے۔ کیوں کہ انھوں نے اپنے قائد سرور عالم کو بدست خودخندق کھودتے دیکھا تھا۔

    تاریخ کے اوراق کو مزید پلٹ کر دیکھیں تو تابعین میں عمر ثانی عمربن عبدالعزیز کا نام نمایاں طور پر سامنے آتا ہے۔ انھوں نے اپنے دورخلافت میں عدل و انصاف کا وہ گراں قدر کارنامہ انجام دیا کہ سنگ والی بکری بھی بغیر سنگ کی بکری کو مارنے سے کتراتی تھی۔ جب کہ ان کی جوانی کا وہ دور (جب آپ خلیفہ مقرر نہیں ہوئے تھے) بڑے ہی ٹھاٹ باٹ اور شان وشوکت میں گزر اتھا۔ خوبصورت لباس ، عمدہ خوشبو جسے دیکھ کر لوگ ٹھہر جاتے تھے اور گلی معطر ہوجاتی تھی۔مگر بہ حیثیت خلیفہ خود کو خادم کی حیثیت سے پیش کیا کہ دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔

    آج کا انسان اپنے اس احساس ذمہ ادری سے عاری ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے قیادت و سیادت کا مفہوم بالکل الٹ گیا ہے۔ اب قوم کا رہبر اس کی خدمت کے لیے نہیں بلکہ اس (قوم ) سے خدمت وصول کرنے کے لیے اپنی عیاری اور مکاری سے کام لینا ہے۔ ٹھاٹ باٹ کے لیے بیت المال میں جمع قوم کا سرمایہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔اس کے نتیجے میں انسانیت سوز واقعات سامنے آتے ہیں۔ اقتدار کی ہوس اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ذہن میں سوال آتا ہے کہ اقتدار بھی کیا چیز ہے ، جس کے لیے لوگ اپنے ضمیر کے خزانے لٹادیتے ہیں۔اب یہ بات رعایا کے ذمہ ہے کہ وہ اپنا ذمہ دار کسے چنتے ہیں اور اتنی بڑی ذمہ داری کس کے سپرد کرتے ہیں کیوں کہ یہ قیادت بھی ایک امانت ہے ، جو اس کے اہل تک پہچانا ضروری ہے، قرآن کا اعلان ہے:


    إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلٰیٓ أَہْلِہَا وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْْنَ النَّاسِ أَن تَحْکُمُواْ بِالْعَدْلِ إِنَّ اللّہَ نِعِمَّا یَعِظُکُم بِہٖ إِنَّ اللّہَ کَانَ سَمِیْعاً بَصِیْرا oیَاآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوٓاْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُمْ (النساء:۵۸،۵۹(

    مسلمانو،اللہ تمہیں حکم دیتاہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو،اللہ تم کو نہایت ہی عمدہ نصیحت کرتا ہے اوریقیناًاللہ سب کچھ دیکھتاہے۔اے لوگوجوایمان لائے ہو،اطاعت کرو اللہ کی اوراطاعت کرورسول کی اوران لوگوں کی جوتم میں سے صاحب امرہوں۔(النساء:۵۸،۵۹)


    پھر ذمہ داروں میں اہل شخص اپنی امانت داری اور صلاحیتوں کے ذریعے اعلیٰ اصولوں کی بھر پور نمائندگی کرتا ہے ۔ عوام کی توقع کے مطابق اپنی خدمات انجام دیتا ہے۔ اس کے پیش نظر جہاں احساس ذمہ داری ہے وہیں ایمان کے تقاضے بھی ہیں۔ آپ ؐ کا ارشاد ہے:

لا ایمان لمن لا امانۃ لہ، ولا دین لمن لا عہد لہ (ابن ماجہ)
    اس شخص میں ایمان نہیں جس میں امانت داری نہ ہو اور اس شخص میں دین کا پاس ولحاظ نہیں جس کے اندر عہد کی پاس داری نہ ہو۔

    دور حاضر میں پر غیر مذہبی رہ نما اور مذہبی رہ نماؤں کے طرز زندگی کا جائزہ لیں تو بلادریغ کہا جاسکتا ہے کہ قوم کے مال کا بڑا حصہ غیر ضروری اخراجات اور جھوٹی شان بگھارنے میں صرف کرتے ہیں۔ جب کہ قریب میں رہنے والا غربت اور استحصال کی چکی میں پستا ہے۔

    آج اقتدار کی خاطر جنگ ہوتی ہے، جس کے حصول پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور عام انسانوں کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے ۔ بڑے بڑے فسادات بھی کروائے جاتے ہیں ،جن میں ہزاروں لوگوں کے ارمان لٹ جاتے ہیں، جانیں تلف ہوجاتی ہیں اور مکان خاکستر کردیے جاتے ہیں۔

    جب کہ پہلے لوگ قیادت کی باگ ڈور کو تھامنے سے ڈرتے تھے خود کو کمزور سمجھ کر ذمہ داری کا بار اٹھانے سے کتراتے تھے۔ کوئی اس کے لیے جلدی تیار نہیں ہوتا تھا۔ حتی کہ ذمہ داری ٹھکرانے کی پاداش میں بادشاہوں کے عتاب کا شکار بھی ہونا پڑتا تھا۔ 
    ذرا غور کریں کہ اگر قیادت و سربراہی کا وہی مفہوم آج بھی لیاجاتا جوپہلے سمجھا جاتا تھا اور جواب دہی کا تصور نگاہوں کے سامنے ہوتا تو لازما قیادت کی جنگ کبھی نہ ہوتی اور ہم وہی دور دیکھتے جو خلافت راشدہ اور عمربن عبدالعزیز کا تھا۔ کاش ملت کے قائدین اس احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنا فریضہ انجام دیتے ۔تو ہم ہر گز یہ نہ کہتے ؂


مجھے رہ زنوں سے گلا نہیں تیری رہبری کا سوال ہے

Thursday 26 February 2015

AAP se Musalman Khush Magar Maroob Nahin

عآپ کی کامیابی سے مسلمان خوش مرعوب نہیں

روم کے خلاف ایرانیوں کی زبردست فتح پر کفار مکہ خوش ہورہے تھے کہ وہ بھی بت پرست اور فارسی بھی مجوسی ہونے کے سبب آتش پرست تھے۔ جب کہ رومیوں کی شکست کے بعد دوبارہ اس کی فارس پر فتح کی پیشن گوئی پر مسلمانوں کا خوش ہونا مشرکین مکہ کے رد عمل میں تھا کہ رومی بھی اہل کتاب اور مسلمان بھی اہل کتاب تھے۔یہ خوشی اس لیے ہر گز نہ تھی کہ مسلمان رومیوں کی فتح سے مرعوب ہوگئے تھے اوراس خوشی میں مدہوش ہوکر وہ اپنا نصب العین بھول گئے تھے ۔
         واقعہ یوں ہے کہ صحابہ ؓنے عہد رسالت میں جب ایرانیوں کے خلاف رومیوں کی فتح کی پیشن گی خوشخبری قرآنی آیات کے ذریعہ سنی :
         الم ۔ رومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہوگئے ہیں، اور اپنی اس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر وہ غالب ہوجائیں گے۔ اللہ ہی کا اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ اور وہ دن وہ ہوگا جب کہ اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیاں منائیں گے۔اللہ نصرت عطا فرماتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ زبردست اور رحیم ہے۔ (الروم:۱۔۵)
 حضرت ابوبکر ؓ کفار مکہ کے درمیان مذکورہ آیات بار بار پڑھ کر سناتے تھے۔اس پر مشرکین مکہ نے کہا :” تمہارا نبی کہتا ہے کہ اہل روم چند سالوں کے اندر فارس والوں پر غالب آجائیں گے کےا یہ سچ ہے؟“ حضرت ابوبکر صدیق ؓنے اس کے جواب میں کہا :” آپ نے سچ فرمایا“۔
         مشرکین مکہ نے کہا :” کیا تم اس پر ہمارے ساتھ شرط لگاتے ہو؟
         چنانچہ سات سال کے ساتھ چار جوان اونٹنیوں پر معاہدہ ہوگیا۔ ( یہ واقعہ شرط لگانے کی حرمت سے قبل کا ہے)
 جب سات سال گزرگیا اور کوئی واقعہ نہیں ہوا تو مشرکین بہت خوش ہوئے ۔ مگر مسلمانوں پر یہ بات شاق گزرنے لگی۔ جب اس بات کا ذکرآپ سے کیا گیا تو آپ نے دریافت کیا: ”تمہارے نزدیک بضع سنین (چند سالوں) سے کیا مراد ہے؟
ابوبکرؓ نے بتایا:” دس سال سے کم مدت ۔ “آپ نے فرمایا:” جاو ان سے مزید دوسال کی مدت کا معاہدہ کرلو۔
          چنانچہ انھوں نے شرط میں اضافے کے ساتھ ان کے درمیان مزید دوسال کی مدت کا معاہدہ طے کرلیا۔ابھی دوسال گزرے بھی نہ تھے کہ روم اور فارس دونوں کی باہم جنگ ہوئی جس میں رومیوں کو غلبہ حاصل ہوا۔اس سے مسلمانوں کی وہ خوشی دوبالا ہوگئی ،جس خوشی کا اظہار وہ چند سال قبل پیشن گوئی پر کر رہے تھے۔
          اس واقعہ کی تفصیل کے بعد مسلمان یقیناموجودہ حالات میں عام آدمی پارٹی کی کامیابی پر خوش ہوگاجس نے ہزاروں بے قصور انسانوں کے قاتل ، ظالم و جابر اور انسان دشمن’ زبر‘ پارٹی کو اس کی پہچان بتا کر ’زیر‘کیاہے۔جس پارٹی نے سنامی جیسی لہر بن کر اس وحشی انسان کے منصوبے پر پانی پھیر دیا،جوانسانیت کو منہ چڑھاتے ہوئے جھوٹی شہرت و مقبولیت کی بلند ی پر پہنچ رہا تھااورعام انسانوں کی جھونپوریوں کو خاکسترکرکے اس پر ظلم و بربریت کی فلک بوس عمارت کھڑی کر رہاتھا۔
         سبھی جانتے ہیں کہ یہ امر اتنا آسان نہ تھا مگر دنیا بھلے لوگوں سے خالی نہیں ہے۔ اچھی سوچ رکھنے والے اور اس پر جان نثار کرکے انسانیت کی بقااور اس کی تحفظات پر مرمٹنے والے لوگ آج بھی موجود ہیں۔ جو جہد مسلسل کے ساتھ اپنے مشن کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے ایڑی چوٹی زور لگادیتے ہیں۔ جس کی مثال اکثر لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔
         یہ الگ بات ہے کہ لوگوں کو تشویش ہے کہ یہ کامیابی ایک وقتی کامیابی تو نہیں جیسا کہ ماضی میں بھی دیکھنے کو ملاتھا۔پھربدعنوانی کو ہر سطح سے اکھاڑپھینکنے والی پارٹی اور ظلم کے خلاف عدل قائم کرنے کا عزم رکھنے والی پارٹی کی کامیابی کا اگلا مرحلہ کیا ہوگا؟ اس کی منصوبہ بندی کیا ہوگی؟ کس حدتک وہ فسطائی قوتوں کو زیر کرنے میں کامیاب ہوگی؟یہ کچھ سوالات ہیں جن کا فی الوقت کوئی جواب قبل ازوقت ہوگا۔
         مگر اتنا تو ہے کہ جس دل میں ذرا سی بھی محبت ، انسان دوستی ہوگی اور وہ انسانوں کی جان کا احترام کریں گے وہ لوگ اب اس صورت حال میں کسی نہ کسی حد تک ظالم کا ساتھ دینے سے کترائیں گے اور اس کی سوچ بدلنے پر مجبور کریں گے کہ انسان کو انسان تسلیم کرتے ہوئے اس کے تحفظ،امن وامان کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے، جس کے لیے ماحول کو سازگار بنایاجاسکے۔اس لحاظ سے اس پارٹی کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے اور اس کے ساتھ اس کے اچھے کاموں میں تعاون بھی کیاجاسکتا ہے جو اسے آئندہ بھی کامیابی سے ہم کنار کری گا۔
         اس لحاظ سے جب بھی ظلم وجابریت پر انسانیت کی جیت ہوگی ۔ مسلمانوں کو یقینا خوشی ہوگی اور یہ خوشی مرعوبیت کی بنا پر نہیں بلکہ اس پارٹی کی نیک تمناوں عوام کی خدمت گزاری اور ایک اچھے مقصد کے لیے عام آدمی سے ربط وتعلق کی بنیاد پر ہے۔ اس  کے عزم وحوصلے کی قدردانی کی بنیادپر ہے جو کام عزم و حوصلہ اور سیاسی بیداری کے ساتھ مسلمانوں کے کرنے کا بھی ہے، جس کے لیے مسلمان اپنے مشن اور نصب العین کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے دینی فریضہ کی ادائیگی بہ حسن و خوبی انجام دیتے رہیں ، تو انشاءاللہ من جد وجد کے تحت وہ بھی اس دنیا میں اپنے مشن میں غالب ہوںگے۔ ساتھ ہی اس پارٹی کو اسلامی تعلیمات سے روشناس بھی کرائی جائے جو دعوتی نقطہ نظر سے بھی بہت اہم ہوگا اور ہم اپنے اس مقصد کے حصول میں بھی بڑی مدد ملے گی ،جو مسلمان کی اصل خوشی کی بات ہوگی۔

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...