Tuesday 9 October 2018

Khabib 🆚 McGregor (world champion)


میرے ساتھ اللہ ہی کافی ہے۔فاتح فائٹر خبیب

ہرمسلمان کے لیے اللہ کے رسول ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے ۔ اس لیے وہ  اپنی زندگی کو اپنے رسول ﷺ کے فرمان کے مطابق اور انھیں اپنا آئیڈیل مان کر گزارنے کو نہ صرف عقیدت و محبت سے تعبیر کرتا ہے بلکہ اسی میں اپنی کام یابی بھی تصور کرتاہے۔

سیرت رسولﷺ کے حوالے سے یہ واقعہ بہت معروف ہے کہ  ایک موقع سے جب آپ ؐ کسی غزوہ میں شریک ہوئے، تو راستے میں ایک درخت پہ اپنی تلوار لٹکا کر اس کے سایے میں لیٹ گئے۔ تبھی ایک دشمن آیا اور آپ کی تلوار لے کر کہنے لگا: ’’ تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟‘‘جواب میں آپ ؐ نے فرمایا :اللہ! یہ سنتے ہی تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی اور آپ نے تلوار اپنے قبضے میں لیا ۔اسی طرح مصارعت رکانہ کا واقعہ بھی کافی مشہور ہے جب ایک معروف پہلوان نے آپ کو کشتی لڑنے کی دعوت دے اور خود کو ماہراور تجربہ کار پہلوان مانتے ہوئے مقابلہ میں آپ کو شسکت دینے کی بات کی۔ سیرت کے اوراق گواہ ہے کہ آپ نے اسے تین بار پچھاڑا اور چت کردیا۔

ایسے ہی گزشتہ روز امریکہ کے شہر لاس ویگاس میں UFC کے تحت مکے بازی کا خطر ناک مقابلہ ایک جاں باز مسلم فائٹر خبیب عبداللہ مینوپووچ نورماگدوف اور دنیا کے خونخوار ،خطرناک ترین مارشل آرٹسٹ کونر میگریگرکے ساتھ ہوا۔ میگریگر ایک معروف اور میدان فتح کرلینے والا خطرناک فائٹر تھا، مگر اسی قدر وہ ایک بد تمیز ،شریر اور مذہب اسلام کو حقیر سمجھنے والا نامعقول شخص بھی تھا۔ 

اگر خبیب کی ویڈیو، جو نیٹ پر دست یاب ہے، دیکھی جائے تو یقین ہو جائے گا کہ اسے مسلمان سے کتنی نفرت تھی اور وہ کس طرح خبیب کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آتا تھا اور اسے اس کے مذہب کو لے کر پریشان کرتا تھا اور اسے شراب پینے کے لیے پیش کرتا خبیب اسے حرام کہہ کر نکار دیتا تھا۔ وہ طاقت کے نشے میں چورخبیب کو حقارت آمیز انداز میں کہتا تھا کہ تم مجھ سے کسی صورت میں مقابلہ جیت نہیں سکتے۔ اگر تم میرے سامنے میدان میں آئے تو میں تمہیں کیڑے مکوڑوں کی طرح مسل کر رکھ دوں گا ۔ تمہارا جان بچانا مشکل ہو جائے گا،جس پر خبیب صرف یہی کہتا تھا کہ میرے ساتھ میرا اللہ ہے ۔ میرے لیے یہی کافی ہے۔

ایسے میں یہ مقابلہ دنیا کا انوکھا مقابلہ بن گیا، جس پر عالم اسلام کی نگاہیں جمی ہوئی تھی۔ مقابلے کے وقت سب کے دل دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں کیوں کہ وہ اپنے فائٹر خبیب کو بہ ہر صورت اس مقابلے کا فاتح دیکھنا چاہتے تھے اور اس کے لیے دعائیں کر رہے تھے۔مقابلہ شروع ہوتے خبیب نے اسے پیٹا ،  اس پر خوب پنچ برسائے اور چوتھے راؤنڈ میں  اس کی گردن اس قدر دبوچی کہ اس خونخوار اور کبھی نہ ہارنے والےمیگریگرنے فوراً ہار تسلیم کرلی ۔

اس میچ کے ناظرین نے اس حیران کن مقابلہ اور گریگر کی ناقابل یقین شکست پر ایک مسلم بہادر کی تاریخی فتح  اور اس کے بعد خبیب کے انٹرویو کو دیکھ کر یقیناً بہت کچھ سبق حاصل کیا ہوگا اور مسلمانوں کا ایک بار پھر یہ احساس جاگا ہوگا کہ اسے اپنے سامنے رسولؐ کو اپنا آئڈیل مان کر وہی طریقہ اختیار کرنا چاہے جو دنیا کے ہر میدان میں ایک مسلمان کا ہونا چاہیے۔ہم سب خبیب کی اس کام یابی پر انھیں مبارک باد پیش کرتے ہیں اور ان کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔
محب اللہ قاسمی

Tuesday 31 July 2018

Story : Saheli Ki Shadi


سہیلی کی شادی

ہنستی کھیلتی چلبلی سی نیک اور خوبصورت بانو اس گاؤں کی پڑھی لکھی لڑکی ہے جہاں کبھی مرد بھی بہت کم پڑھے لکھے ملتے تھے۔ ایک تو گاؤں کی غربت دوسری پڑھائی سے بے توجہی ،جس کے سبب لوگ اتنا نہیں پڑھ لکھ پارہے تھے۔

مگر خاص بات یہ تھی کہ بانوکے والد پڑھے لکھے سرکاری ملازم تھے اور بھائی بھی پڑھا لکھا تھا۔ اس طرح اس کا گھرانا ایک حد تک تعلیم یافتہ تھا۔ بانوں اپنی سہیلیوں کو اللہ رسول کی باتیں پڑھ کر سناتی اور انھیں پڑھنے کے لیے آمادہ کرتی اورلڑکیاں ان کی باتیں بہ غور سنتی ۔

ایک دن بانو اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی کہ کچھ لڑکیاں آئیں اور کہنے لگیں: ارے چل ،منگلو چاچا کے گھر کچھ مہمان آئےہیں۔ سنا ہے شبنم کو دیکھنے لڑکے والے آئے ہیں اور یہ بھی سنا ہے کہ لڑکا بھی آیا ہے۔ 

ایک لڑکی اسی درمیان بول پڑی : ہائے اللہ ! لڑکا بھی آیا ہے ۔ کیا وہ بھی لڑکی دیکھے گا؟
ہاں اس کی شرط ہے اور اس سے کچھ پوچھے گابھی؟

اس پر سلمیٰ نے جواب دیا : ہاں ،یہ پہلی بار ہورہا ہے۔

تبھی بانو بولی :تو اس میں برا کیا ہے؟ اچھا ہے۔ شادی ہو رہی ہے۔ کوئی مذاق تھوڑی نا ہے۔ اگر وہ لڑکی کو دیکھے گا تو کیا لڑکی لڑکے کو نہیں دیکھے گی؟ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ لیں گے اور جو پوچھنا ہوگا، پوچھ لیں گے۔ چلو ہم لوگ بھی چلتے ہیں نغمہ چاچی کے گھر ۔ شبنم نے ہم لوگو کو بتایا نہیں کہ اسے دیکھنے کے لیے کچھ لوگ آنے والے ہیں ؟ یہ بولتے ہوئے ساری سہیلیاں منگلو چاچا کے گھر پیچھے کے دروازے سے پہنچ گئیں۔

نغمہ نے جب ان کو دیکھا تو کہنے لگی: بانو کی اور دیکھتے ہوئے کہنے لگی اچھا ہوا، بانو آ گئی۔ ابھی ہم تیرے گھر بلاوا بھیجنے ہی والے تھے۔جا شبنم کو سنبھال اور اسے کچھ سکھادے۔جانے کیا کچھ بول دے وہاں پر؟

بانو بولی: چاچی تم اب بالکل فکر نہ کرو، ہم لوگ سب سنبھال لیں گے۔جیسے ہی بانو شبنم کے پاس پہنچی،لگی شکاتیں کرنے ۔

’’ کیوں رے تو نے مجھے بتایا نہیں کہ لوگ تجھے دیکھنے آنے والے ہیں۔‘‘

اس سے پہلے کہ شبنم کچھ بولتی بانو نے کہا : 
’’چپ رہ اب زیادہ مت بول ورنہ بولنے کے لیے کچھ نہیں رہے گا۔ تجھے تو ابھی بہت کچھ بولنا ہے۔‘‘

پھرسب نے شبنم کو سنوارا ،بہت کچھ سکھایا اور اسے لے کر مہمان کے کمرے میں آئی۔
لڑکا کچھ خاص پڑھا نہیں تھا، پر اس زمانے کسی کو کلام پاک پڑھنا آتا ہو ،اردو ،ہندی لکھ لیتا ہو تو اسے پڑھا لکھا سمجھا جاتا تھا۔ لڑکا بھی بس اتناہی پڑھا تھا پر تھا ہوشیار ۔
اس نے شبنم کو دیکھا اور شبنم نے بھی اسے دیکھا۔ دونوں ایک دوسرے کو پسند آگئے۔ 
اب باری تھی سوال جواب کی۔
لڑکا: تمہارا نام کیا ہے؟
لڑکی : شبنم ...شبنم رانی!
لڑکا.تمہیں قرآن پڑھنا آتا ہے ؟ اردو لکھ سکتی ہو؟؟
شنبم : مجھے پڑھنا لکھنا نہیں آتا۔ یہ بول کر وہ چپ ہوگئی ۔

تبھی بانو بول پڑی:
’’بھائی صاحب ! مانا کہ اسے پڑھنا نہیں آتا، پر گھر کا سارا کام کاج یہی توکرتی ہے ۔ چادر بھی کاڑھ لیتی ہے ، یہ جو پردہ لگاہے نا۔ اس پر یہ بیل بوٹے سب اسی نے بنائے ہیں۔ اس نے پڑھنے پر توجہ نہیں دی ،ورنہ ہم سب سے آگے نکل جاتی۔ اتنی تیز ہے ہماری شنورانی!

لڑکا اپنے ابو کے کان میں کہنے لگا:
’’اگر واقعی یہ اس قدر تیز ہے اور پڑھ سکتی ہے تو پھر شادی پکی، مگر اس شرط کے ساتھ کہ چھ ماہ بعدہماری سگائی ہوگی۔ اس چھ ماہ میں اسے کم ازکم قرآن پڑھنا تو آجانا چاہیے؟

باپ نے کہا: ’’ہاں مجھے لگتا ہے، یہ پڑھ لے گی!‘‘
پھرسب کے سامنے لڑکے کے والد نے لڑکی کے والدسے کہا:
’’ ہمیں یہ رشتہ منظور ہے اور اپنے بیٹے کی شرط کا اعادہ کیا۔‘‘
بانو کی اس تیز زبان نے بات توبنا دی اور مہمان چلے گئے، پر چھ ماہ میں شبنم جیسی کند ذہن لڑکی کو پڑھانا کوئی معمولی کام نہ تھا۔ خیر سب نے لڈو کھائے، پر بانو لڈوہاتھ میں لیے یہ سوچ میں غرق ہوگئی کہ کیا شبنم چھ ماہ میں قرآن پڑھ لے گی؟

اتنے میں شنبم نے اس کے ہاتھ کا لڈو اس کے منہ میں ڈال دیا ۔ ارے کھا: اب کیا سوچتی ہے۔ میں اتنی تیز ہوں نا ،تو اب توہی مجھے پڑھائے گی ۔ نغمہ چاچی بھی بول پڑی:
’’ ہاں بیٹی ۔اب یہ عزت تیرے ہاتھ میں ہے۔‘‘

بانو نے یہ سارا قصہ اپنی ماں کو آکر بتایا ،ماں نے بھی تسلی دی :
’’ بیٹی! واقعی تونے بہت اچھا کام کیا ۔پرتونےشبنم کی جھوٹی تعریف کرکے اسے آزمائش میں ڈال دیا ہے اب تو ہی اس کے لیے کچھ کر ۔اسے دن رات محنت کرکے پڑھا ،تاکہ وہ چھ ماہ میں اچھی طرح قرآن پڑھنے لگے۔

ماں کی باتیں سن کر بانو کو لگا کہ اب یہ میری ذمہ داری ہے۔ اگر میں نے ایسا نہیں کیا اور اسے نہ پڑھاسکی تو اس کا یہ رشتہ ٹوٹ جائے گا۔ بات پھیل چکی ہے۔ اگر رشتہ ٹوٹ گیا تو رسوائی ہوگی۔

پھر کیا تھا۔ بانو نے دن رات ایک کردیے ۔بارش کے موسم میں بھی وہ اپنے گھر سے سپارہ لے کر جاتی اور شبنم کو خوب پڑھاتی،یاد کراتی۔ دھیرے دھیرے وہ اس قابل ہوگئی کہ الفاظ کوپڑھ سکے ۔ ایک دن بانو نے شبنم سے کہا :

’’دیکھ بہن، یا تو تجھے یہ پڑھنا ہے یا پھر مرنا ہے۔ کیوں کہ تو بھی اسے پسند ہے اور وہ بھی تجھے پسند ہے۔ بیچ میں کوئی فاصلہ ہے تو وہ تیری پڑھائی کا ہے۔ بہن! اب وقت کم ہے ۔تجھے اور محنت کرنی ہوگی۔‘‘

یہ بات شبنم کے دماغ میں گھر کر گئی اور اس نے بھی جی جان لگادیا ، جس لڑکی کو حروف پہچاننے میں اتنی دشواری ہورہی تھی کہ بہ مشکل لفظوں کو ملا ملا کر پڑھنے کی کوشش کرتی تھی اب کچھ ہی دنوں میں وہ بہت اچھا قرآن پڑھنے لگی تھی اس طرح اس کی شادی کا خواب اسے پورا ہوتا دکھائی دینے لگا تھا۔

بالآخر وہ دن بھی آیا ۔شبنم دلہن بنی رخصتی کے وقت بانوسے لپٹی ہوئی روروکر ہلکان ہوئے جا رہی تھی۔بانوسوچ میں پڑ گئی کہ اس کا یہ رونا رخصتی کا ہے،یا اظہارتشکر کا ؟ میں شبنم نے روتے ہوئے کہا:

’’بہن !تیرا مجھ پر یہ احسان والدین سے بڑھ کر ہے۔اسے میں کبھی نہیں بھلا سکتی۔ سب نے مل کر اسے ڈولی میں بٹھا دیا اور وہ پیا کے گھر سدھار گئی۔
                                                  محب اللہ قاسمی

Tabili : Khair o Shar

تبدیلی: خیر یا شر؟

       جو تبدیلی کتاب و سنت کو تبدیل کردے جو اسلامی تعلیمات اور اخلاقی اقدار کو نیست و نابود کرنے کے درپے ہو۔ اس تبدیلی پر کوئی خوشی مناتا ہو تو منائے پر میں اسے ذلت آمیز تبدیلی مانتا ہوں۔

       ہاں اگر یہ تبدیلی کتاب و سنت کے مطابق اسلامی تعلیمات کے نفاذ اور عدل وانصاف کے ساتھ مدینہ منورہ کے طرز پر ایک فلاحی ملک بنانے کے لیے ہو جہاں عوام کے پیسے امانت کے طور پر استعمال ہو، بدعوانی اور اخلاقی پستی سے اٹھ کر عوام کے امن و امان اور خوشحالی کے لیے ہو، اس کا استقبال کیا جانا چاہیے۔

       کیا ایک کپتان سے بہتر کپتانی کی امید کی جا سکتی ہے جس نے بلے سے کتاب اڑا دی ہو، آئندہ اس کا بلا اور کہاں کہاں چل سکتا ہے؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ میدان میں اترنے والے اس کھلاڑی کو امپائر ٹھیک سے کھیلنے دیتا ہے یا کوئی میچ فکس کر لیتا ہے.

ان شاء اللہ یہ منظر بھی بہت جلد سامنے آ جائے گا کہ کون کس مقصد کے تحت کام کر رہا ہے۔ یوں تو اس صدی میں اس امت کو اپنے قائد سے زیادہ تر دھوکہ ملا اور جو مخلصین رہے ہیں انھیں بر طرف کردیا گیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کیا ملتا ہے؟

محب اللہ قاسمی

Sunday 22 July 2018

Hindustan ko Linchistan na Banayen


ہندوستان کو لنچستان نہ بنائیں

ایک عالم مفتی کو دفاعی تھپڑ مارنے کی وجہ سے مجرم بنا کر جیل میں ڈال دیا گیا جب کہ دوسری جگہ  ہجومی دہشت گرد پیٹ پیٹ کر بے بس، بے قصور مسلمانوں اور دلتوں کی جان لے رہے ہیں اور ایسے خونخوار مجرم آزاد گھوم رہے ہیں، انھیں سزا دینے کے بجائے دیش کے منتری ان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اور یہ خونی کھیل مسلسل جاری ہے.

یہ کیسی پالیسی ہے؟ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ کیا ان باتوں سے دیش ترقی کر لے گا؟ کیا ان باتوں سے مہنگائی میں کمی آجائے گی؟ بے روزگاری ختم ہو جائے گی؟

یاد رکھیے! دیش کی ترقی عدل و انصاف اور قوم کے وکاس میں ہے، ان کا وناش کر کے قوم کا اعتماد اور وشواش کبھی حاصل نہیں کیا جا سکتا. بھلے ہی آپ ایوان میں اعتماد حاصل کر لیں. پر نہ بھولیں کہ آپ ہندوستان میں وکاس کا وعدہ لے کر آئے تھے. اسے لنچستان بنانے کا نہیں! ہندوستان میں امن و امان اور خوشحالی کی بحالی کےلیے نفرت کی اس سیاست کو ختم کرنا بے حد ضروری ہے۔ پیار و محبت کی علامت کہا جانے والا تاج محل والے ملک ہندوستان کو لنچستان نہ بنائیں۔

ملی قائدین و سیاسی و رہنما یہ بتائیں کہ بے چاری غریب عوام جو آپ کو اپنا لیڈر اور رہبر مان رہی ہے جب ان کی جان ہی سلامت نہ رہے تو آپ کن کی قیادت کریں گے؟ اور کن کے رہنما کہلائیں گے؟ قائدین ملت قیادت کی ذمہ داری کو بالائے طاق نہیں رکھ سکتے. ظلم و زیادتی کے سیلاب کو روکنے کے لیے ٹھوس قدم اٹھانا ہوگا ورنہ یہ سب کچھ بہا کر لے جائے گا. مظلوم کی ان سسکیوں میں جہاں ظالم کے خلاف بد دعائیں ہیں وہیں قائدین سے فریادیں اور آہیں بھی. انھیں محسوس کیجئے!
اللہ تعالٰی مظلومین کی مدد فرمائے، قائدین کو احساس ذمہ داری دے اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچائے. آمین
محب اللہ قاسمی



Tuesday 17 July 2018

Kahani ....HALALA


کہانی.....حلالہ

شاذیہ! تم جانتی ہو کہ ہماری شادی کو پانچ سال ہو گئے ہیں، مگر ہم ایک ساتھ سکون سے پانچ ماہ بھی نہیں رہ سکے ہیں۔ تم میری بات نہیں سنتی نہ مجھے تمہاری عادت اچھی لگتی ہے۔  ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بالکل خوش نہیں ہیں اور  ہماری کوئی اولاد بھی نہیں ہوسکی ہے۔ اب تم ہی بتاؤ، میں کیا کروں؟

ہاں، تم مجھے طلاق دے دو، مردوں کو تو طلاق دینے کا حق حاصل ہے، مجھے اپنے اس جہنم سے آزاد کردو...میں بھی تمہارے ساتھ رہ کر تنگ آ گئی ہوں، مجھے بھی تمہاری بہت سی عادتیں  اچھی نہیں لگتی ہیں، میں بھی تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔
 شاذیہ خلع کا تو تمہیں بھی حق حاصل ہے۔ تم  آئے دن ’ طلاق دے دو ‘، ’طلاق دے دو‘ چلاتی رہتی ہو۔پر میں ہمیشہ خود کوروکے رہتاتھا ،یہ سوچ کر کہ طلاق دینے میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے ۔ پر آج تو تم نے حد کردی ہے۔ اب ہمارا تمہارا نباہ نہیں ہوسکتا ۔ ہم لوگوں کے گھر والوں کی تمام کوششیں ناکام ہوچکی ہیں ۔میں نے تمہیں طلاق دی۔

شاذیہ کی عدت گزرتے ہی اس کےلیے ایک جگہ سے نکاح کا پیغام آیا، یہ رشتہ اس کے گھر والوں کومنظور ہوگیا۔ شادی کا دن مقرر ہوگیا۔ ساری تیاریاں ہوگئیں۔ مسجد میں لوگ نکاح کے لیے جمع ہوئے ہی تھے کہ اچانک پولیس کا ایک دستہ آیا اور نکاح  کی اس مجلس میں مداخلت کرتے ہوئے پولیس آفیسر نے کہا: مجھے پتا ہے کہ اس لڑکی کی شادی چند سال قبل فلاں گاؤں میں ہوئی تھی اور اس کی طلاق ہوگئی تھی۔ اب نئی شادی کراکے تم لوگ حلالہ کرارہے ہو۔ اس جرم میں لڑکے اور اس مجلس میں شامل تمام لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔

پولیس کی بات سن کر لوگوں کے ہوش اڑ گئے۔ وہ  کہنے لگے: یہ کیا بات ہوئی۔ لڑکی کے باپ نے کہا : میں اپنی بیٹی کی شادی کررہا ہوں۔ کیا طلاق کے بعد اس کی شادی دوسری جگہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اس میں حلالہ کی کیا بات ہوئی؟ 

لیکن پولیس آفیسرنے سخت لہجے میں جواب دیا : میں کچھ نہیں جانتا۔ تم لوگ حلالہ کرارہے ہو۔ اس پر مجھے گرفتار کرنے کا آڈر ہے، میں گرفتاری کا وارنٹ لے کر آیا ہوں۔ جو کہنا  ہے عدالت میں جاکر کہنا۔ اس سے  پہلے کہ لڑکا کچھ کہتا اسے اور اس کے باپ کو گرفتار کرکے کر جیپ میں بٹھاتے  ہوئے پولیس کی گاڑی دھول مٹی اڑاتے ہوئے  چل پڑی
محب اللہ قاسمی

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...