Friday 12 October 2018

Religion, country and humanity


مذہب، ملک اور انسان
محب اللہ قاسمی

انسان کا وجود رب کائنات کی دین ہے۔ اس کی موت اورحیات مالکِ دوجہاں کے متعین کردہ حدود کے پابند ہیں، جس کا علم کسی کو نہیں ہے۔اس کی بھلائی اور کام یابی بھی مالک کے ہاتھ میں ہے جو اس کا خالق ہے۔ دنیا میں جینے کا سلیقہ اور کام یابی کے ذرائع بھی اسی نے انسانوں کو عطا کیے اور عقل وشعور کا داتا بھی وہی رب ہے۔اس نے انسانوں کو  مذہب عطا کیا ،تاکہ وہ ایک بہترین انسان بن کر خود بھی دنیا کی بھلائی کو حاصل کرسکے اور دوسروں کو بھی اس کے فیض سے روشناس کرائے۔

اس طرح اللہ کا عطا کردہ دین  اور شریعت انسانوں  کو بنانے سنوارنے اور اسے ترقی بخشنے دینے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس لیے ایسا مذہب ہر چیز پر فوقیت کا اہل ہے ،جو ملک و ملت، انسانوں کی کام یابی اور ترقی کا ضامن ہے۔ اس سے بڑھ کر نہ کوئی ملک ہوسکتا ہے اور نہ کوئی سماج ۔ کیوں کہ بہترین ملک اور سماج کی اساس یہی دین ہے۔اس پر چلنے کی آزادی اس کا بنیادی حق ہے، جس میں کسی کو مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے۔

یہ بات درست ہے کہ انسان جس جگہ پیداہوتا ہےاس سے  فطری طور پر ا سے لگاؤ ہوتا ہے اور اس کی فلاح اور بہتری کی کوشش کو وہ اپنے لیے لازم سمجھتا ہے ۔اس طرح وطن سے محبت اس کے دل میں بیٹھ جاتی ہے جس سے وہ پوری وفاداری کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔ ہر وہ کام جو اس کے مذہب اور عقیدے سے نہ ٹکراتا ہو،اس میں اس کی  وہ مکمل ایمانداری اور وفاداری کا مظاہرہ کرتا ہے ، کیوں کہ ایفائے عہد کے دائرے میں آتا ہے اور ایفائے عہد دین داری  کی علامت ہے۔رسول اللہ ؐکا ارشاد اس جانب رہ نمائی کرتا ہے:’’اس شخص کا ایمان نہیں جس میں امانت داری نہیں اور اس کا دین نہیں جس میں عہد کی پاسداری نہیں۔‘‘(مسنداحمد)

اس لیے کسی بھی ملک میں رہنے والے انسان سے یہ سوال ہر گز نہیں کیا جاسکتا کہ تمہارے نزیک وطن پہلے ہے یا مذہب ؟ کیوں کہ یہ سوال مہمل  ہے۔اگر سوال ہی کرنا ہے تو یہ کیا جائے کہ آپ کو وطن سے محبت ہے یا نہیں؟ وطن کا ہر وہ کام جو آپ کے عقیدے سے نہ ٹکراتا ہو، آپ کو اس سے اتفاق ہے یا نہیں؟ ایسی صورت میں ہر مذہب کے لوگ واضح طور پرجواب دے سکیں گے کہ ہمیں وطن سے محبت ہے اور ہم وطن کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی جان تک دے سکتے ہیں۔ مگر عقائد سے ٹکرانے والے کسی معاملے میں ، چاہیے وہ وطن ہویا اپنا گھر خاندان اور والدین ان کے مقابلے میں مذہب کواولین درجہ حاصل ہے۔

دنیا کا کوئی مذہب انسانیت کے ناحق قتل و خون کو جائز نہیں ٹھہراتا اور نہ  انسانیت کو تکلیف پہنچانا کسی مذہب کا حصہ ہو سکتا ہے۔  ؎
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا

پھر بھی لوگ مذہب یا ذات برادری کے نام پر آپس میں ایک دوسرے کو لڑا تے ہیں اور اس لڑنے لڑانے میں وہ اپنا مفاد تلاش کرتے ہیں۔ جن کی سیاست کی اساس ہی منافرت اور باہمی جھگڑا فساد پر ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے سامنے کبھی ملک کی ترقی، خوش حالی یا امن و سلامتی قائم رکھنے کا ایجنڈا نہیں ہوتا۔ ایسے ہی لوگ حب الوطنی کی آڑ لے کر اہل وطن کو ستاتے اور انھیں ظلم وستم کا شکار بناتے ہیں۔ جب نفرت کی یہ آگ بھڑکتی ہے تو ملک کے امن و سلامتی کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے، جس سے وہ لوگ بھی زد میں آ جاتے ہیں جو منافرت کے جلتے ہوئے اس شعلے کو بجھانے کے بجائے اسے نظر انداز کر دیتے ہیں ،یا اس میں ایندھن ڈالنے کا کام کرتے ہیں۔

انسانوں کی  قائم کی ہوئی سرحدیں اگر دوسرےانسانوں پر ظلم ڈھانے کے لیے ہو ں تو پھر ان  کو پھلانگ کر انسانیت کی مدد کرنا اور اس کو ظلم سے بچانا یہ ہر درد مند انسان کی اولین ذمہ داری ہے۔ خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ظلم چاہے روہنگیا کے مسلمانوں پر ہو یا امریکا کے سیاہ فام  لوگوں پریا فلسطین کے مسلمانوں پر ۔ظلم کرنے والا ہٹلر ہو یا آنگ سان سوچی یا نیتن یاہو اور بشارالاسد۔ ان کے خلاف آواز بلند کرنا ضروری ہے۔یہی مذہب اور انسانیت کا تقاضا ہے، جس سے ملک ترقی کرتا ہے۔


Tuesday 9 October 2018

Ijlas Ulmaye Keram


اسلامی نہج پر فرد کی تربیت اور معاشرے کی اصلاح میں
 علماء کرام کا اہم کردار

معاشرے میں علماء کرام کا مقام و مرتبہ مسلم ہے، قرآن و حدیث میں ان کے مقام و مرتبہ کا تذکرہ موجود ہے. وارثین انبیاء کہہ کر ان کا تعارف کرایا گیا ہے، اس کے ساتھ ہی ان پر جو ذمہ داریاں ڈالی گئیں، وہ بھی واضح ہیں . علماء کرام قائدین امت اور اسلام کے ترجمان ہے.

لہٰذا بلا تفریق مسلک و منہج مل جل کر امت کے متحدہ مقاصد کے حصول اور اقامت دین کی کوشش کرنا، امت کے تمام دینی و اخلاقی، معاشرتی و سیاسی مسائل میں ان کی رہنمائی کرنا ان کی ذمہ داری ہے. جسے انجام دے کر وہ عند اللہ بہترین اجر کے مستحق ہوں گے اور دنیا میں اپنے رتبہ بلند کو برقرار رکھ سکیں گے.

جماعت اسلامی ہند حلقہ دہلی و ہریانہ کی جانب سے آج مورخہ 7 اکتوبر 2018 کو مسجد اشاعت اسلام کے توسیعی حصے میں ایک اجلاس عام بعنوان 'اسلامی معاشرے کے قیام میں علما کرام کا کردار' منعقد ہوا، جس میں مختلف مسالک کے علماء کرام نے شرکت کی.

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن مجید اور نعت رسول سے ہوا. امیر حلقہ دہلی و ہریانہ جناب عبد الوحید نے افتتاحی کلمات پیش کیے، جب کہ مولانا محمد رفیق قاسمی صاحب، سکریٹری شعبہ اسلامی معاشرہ، جماعت اسلامی ہند نے کلیدی خطاب پیش کیا.

اس پروگرام کا ایک حصہ مذاکرہ بہ عنوان: 'اصلاح معاشرہ کیوں اور کیسے؟' تھا_اس کے کے پانچ ذیلی نکات تھے _ اسٹیج پر جلوہ افروز مختلف مسلک کے علماء کرام نے ان نکات پر اظہار خیال کیا.مولانا ولی اللہ سعيدی، سکریٹری شعبہ تربیت جماعت اسلامی ہند نے ان پر تبصرہ کرتے ہوئے مفید باتیں پیش کیں.
پروگرام کا اختتام محترم امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری کے فکر انگیز اختتامی خطاب اور دعا پر ہوا.

مولانا مفتی سہیل قاسمی نے اس اجلاس میں نظامت کے فرائض انجام دیے. پروگرام کے اختتام پر ظہرانے کا نظم کیا گیا تھا.

امید ہے کہ یہ اجلاس امت کے اتحاد اور اصلاح معاشرہ کے لیے مفید اور علماء کرام کی اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں معاون ثابت ہوگا.
Ijlas Ulmaye Keram 7 Oct 2018
محب اللہ قاسمی

Delhi Yadgargar Shaam


دہلی کی یادگار شام

نماز اور ظہرانے کے لیے آفس سے باہر آیا پھر نماز ظہر اور کھانے سے فارغ ہو کر قیلولہ کے لیے لیٹا تو نیند آ گئی دفتر تین بجے جانا تھا اسی دوران میرے گاؤں کے پیارے دوست جی این کے اسکالر حبیب اللہ کا فون آیا کہ میں، ابوالکلام، صادق اقبال اور ذاکر اقبال کو لے کر آ رہا ہوں. پانچ بجے تک پہنچ جاؤں گا.. میں نے کہا: ہاں ہاں آؤ!

پھر میں دفتر جانے کی تیاری میں لگ گیا کہ اب سونا بے کار تھا. خیر سب لوگ آئے مگر ساڑھے پانچ بجے. سب نے چائے پی پھر سب کو لے میں اپنے کمرے میں چلایا آیا. کچھ دیر وہیں گفتگو کی.اسی دوران احمد عالم سے فون پر بات ہوئی اس نے کہا: آپ سب لوگ میرے یہاں ذاکر نگر آئیے. یہاں احمد اللہ (پرنس) بھی ہے سب کی ملاقات ہو جائے گی.

خیر ہم سب لوگ ذاکر نگر چلے گئے. وہاں پہنچے ہی تھے کہ معلوم ہوا لو فیکلٹی ڈی یو کے آصف اقبال آ رہے ہیں. حسن اتفاق دیکھتے ہی دیکھتے ہم سب گاؤں کے آٹھ لوگ جمع ہو گئے. سب لوگوں کا اس طرح اتفاقاً ملنا جس پر خوشی کے فطری آثار سب کے چہرے سے ظاہر ہو رہے تھے.

ہم لوگوں نے خوب گپ شپ کیا. فاطمہ چک اسمبلی کی یاد تازہ ہو گئی. مختلف موضوعات جس پر مختلف آراء، کھل کر اظہار خیال بڑا مزہ آیا.مصروف زندگی میں اس طرح اپنوں کے درمیان تبادلہ خیال سے جمود توڑنے، زندگی زندہ دلی سے جینے اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ ملتا ہے.

خیر عشا کی نماز بعد اجتماعی عشائیہ کا پروگرام ہوا جس میں فراخ دلی کے ساتھ مہمان نوازی کا شرف احمد عالم صاحب کو حاصل ہوا.احمد اللہ صاحب کی طرف سے یہ بات بار بار آئی کہ اس طرح کی ملاقات اتفاقی نہیں منصوبہ بند بھی ہونی چاہیے جس کی ہم سب نے تائید کی.

راقم الحروف کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ ہم سب گاؤ والوں کے بھلے ہی مکان علیحدہ ہوں، الگ رہتے ہیں مگر ہم سب گاؤں والے گویا ایک گھر کے فیملی ممبر ہیں، جو سب آپس میں سکھ دکھ کے ساتھی ہیں.

معقول عشائیہ کے بعد ہم لوگوں نے کلہڑ (مٹی کا گلاس) والی چائے پی اور سلام کے ساتھ بادل نہ خواستہ جدا ہو کر ان خوشگوار یادوں کے ساتھ اپنی منزل کی اور چل پڑے.

یہ خوبصورت شام فاطمہ چک کے نوجوانوں کے نام تھی جو راجدھانی دہلی جیسے مصروف شہر میں ملاقات، گفت و شنید کے لیے اتفاقا جمع ہوئے.
محب اللہ قاسمی

Khabib 🆚 McGregor (world champion)


میرے ساتھ اللہ ہی کافی ہے۔فاتح فائٹر خبیب

ہرمسلمان کے لیے اللہ کے رسول ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے ۔ اس لیے وہ  اپنی زندگی کو اپنے رسول ﷺ کے فرمان کے مطابق اور انھیں اپنا آئیڈیل مان کر گزارنے کو نہ صرف عقیدت و محبت سے تعبیر کرتا ہے بلکہ اسی میں اپنی کام یابی بھی تصور کرتاہے۔

سیرت رسولﷺ کے حوالے سے یہ واقعہ بہت معروف ہے کہ  ایک موقع سے جب آپ ؐ کسی غزوہ میں شریک ہوئے، تو راستے میں ایک درخت پہ اپنی تلوار لٹکا کر اس کے سایے میں لیٹ گئے۔ تبھی ایک دشمن آیا اور آپ کی تلوار لے کر کہنے لگا: ’’ تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟‘‘جواب میں آپ ؐ نے فرمایا :اللہ! یہ سنتے ہی تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی اور آپ نے تلوار اپنے قبضے میں لیا ۔اسی طرح مصارعت رکانہ کا واقعہ بھی کافی مشہور ہے جب ایک معروف پہلوان نے آپ کو کشتی لڑنے کی دعوت دے اور خود کو ماہراور تجربہ کار پہلوان مانتے ہوئے مقابلہ میں آپ کو شسکت دینے کی بات کی۔ سیرت کے اوراق گواہ ہے کہ آپ نے اسے تین بار پچھاڑا اور چت کردیا۔

ایسے ہی گزشتہ روز امریکہ کے شہر لاس ویگاس میں UFC کے تحت مکے بازی کا خطر ناک مقابلہ ایک جاں باز مسلم فائٹر خبیب عبداللہ مینوپووچ نورماگدوف اور دنیا کے خونخوار ،خطرناک ترین مارشل آرٹسٹ کونر میگریگرکے ساتھ ہوا۔ میگریگر ایک معروف اور میدان فتح کرلینے والا خطرناک فائٹر تھا، مگر اسی قدر وہ ایک بد تمیز ،شریر اور مذہب اسلام کو حقیر سمجھنے والا نامعقول شخص بھی تھا۔ 

اگر خبیب کی ویڈیو، جو نیٹ پر دست یاب ہے، دیکھی جائے تو یقین ہو جائے گا کہ اسے مسلمان سے کتنی نفرت تھی اور وہ کس طرح خبیب کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آتا تھا اور اسے اس کے مذہب کو لے کر پریشان کرتا تھا اور اسے شراب پینے کے لیے پیش کرتا خبیب اسے حرام کہہ کر نکار دیتا تھا۔ وہ طاقت کے نشے میں چورخبیب کو حقارت آمیز انداز میں کہتا تھا کہ تم مجھ سے کسی صورت میں مقابلہ جیت نہیں سکتے۔ اگر تم میرے سامنے میدان میں آئے تو میں تمہیں کیڑے مکوڑوں کی طرح مسل کر رکھ دوں گا ۔ تمہارا جان بچانا مشکل ہو جائے گا،جس پر خبیب صرف یہی کہتا تھا کہ میرے ساتھ میرا اللہ ہے ۔ میرے لیے یہی کافی ہے۔

ایسے میں یہ مقابلہ دنیا کا انوکھا مقابلہ بن گیا، جس پر عالم اسلام کی نگاہیں جمی ہوئی تھی۔ مقابلے کے وقت سب کے دل دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں کیوں کہ وہ اپنے فائٹر خبیب کو بہ ہر صورت اس مقابلے کا فاتح دیکھنا چاہتے تھے اور اس کے لیے دعائیں کر رہے تھے۔مقابلہ شروع ہوتے خبیب نے اسے پیٹا ،  اس پر خوب پنچ برسائے اور چوتھے راؤنڈ میں  اس کی گردن اس قدر دبوچی کہ اس خونخوار اور کبھی نہ ہارنے والےمیگریگرنے فوراً ہار تسلیم کرلی ۔

اس میچ کے ناظرین نے اس حیران کن مقابلہ اور گریگر کی ناقابل یقین شکست پر ایک مسلم بہادر کی تاریخی فتح  اور اس کے بعد خبیب کے انٹرویو کو دیکھ کر یقیناً بہت کچھ سبق حاصل کیا ہوگا اور مسلمانوں کا ایک بار پھر یہ احساس جاگا ہوگا کہ اسے اپنے سامنے رسولؐ کو اپنا آئڈیل مان کر وہی طریقہ اختیار کرنا چاہے جو دنیا کے ہر میدان میں ایک مسلمان کا ہونا چاہیے۔ہم سب خبیب کی اس کام یابی پر انھیں مبارک باد پیش کرتے ہیں اور ان کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔
محب اللہ قاسمی

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...