Friday 12 October 2018

Sick society (بیمار معاشرہ اور تشخیصِ مرض)



بیمار معاشرہ  اور تشخیصِ مرض

خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور استحصال کا موضوع ہمیشہ زیر بحث رہا ہے اور اس وقت یہ metoo# کی تحریک مزید حساس موضوع بن چکا ہے. جس پر کھل کر گفتگو ہو رہی ہے. جب کہ آزادی نسواں کے پر فریب نعروں سے نسواں تک پہنچنے کی آزادی نے نت نئے مسائل پیدا کر رکھا ہے. اس پر کوئی گفتگو نہیں ہو رہی ہے. خواتین کی جانب سے دعوت نظارہ دینے والے غیر ساتر لباس اور مردوں کو رجھانے والی اداؤں پر کچھ نہیں کہا جا رہا ہے. مرد و زن کے متعینہ حقوق ہیں تو کچھ ان کے واجبات بھی ہیں جنھیں نظر انداز کیا جا رہا ہے.

اسی طرح قدرتی نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، اختلاط مرد و زن، لیو ان ریلیش شپ اور اب ایڈلٹری (497) وغیرہ سے معاشرہ پر اس کے منفی اثرات پڑے ہیں اور پڑیں گے، جس سے نہ صرف عورتیں متاثر ہوتی ہیں بلکہ مرد بھی متاثر ہوتا ہے؟

ایسے میں اسلام کا نقطہ نظر واضح طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام میں ان تمام مسائل کا حل موجود ہے.اس لیے اسلامی تعلیمات کو عام کرنا بہت ضروری ہے.

پرامن اور خوشگوار زندگی گزارنے کا خدائی نظام ۔ اسلام

اسلام انسانوں کے لیے رحمت ہے۔ زندگی کے تمام گوشوں کے بارے میں اسلام کے قوانین حکمت سے خالی نہیں ہیں۔ وہ انسان کی ضرورت اور اس کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ مثلاً قصاص کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے:

’’ تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے‘‘(البقرۃ: 1799) بہ ظاہر اس میں ایک انسان کے خون کے بدلے دوسرے انسان کا خون کیا جاتاہے۔ مگر اس میں حکمت یہ ہے کہ دوسرے لوگ کسی کو ناحق قتل کرنے کی جرأت نہ کرسکیں۔ اسی طرح زنا کرنے والے کو، اگر وہ غیر شادی شدہ ہے خواہ مرد ہو یا عورت، سرعام سوکوڑے مارنے کا حکم دیاگیا ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ کوئی شخص زنا کے قریب بھی نہ جاسکے۔ عوتوں کو پردے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ ان کی عزت و آبرو کی حفاظت ہو۔ نکاح کو آسان بنانے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ زنا عام نہ ہو اور معاشرے کو تباہی اور انسانوں کو مہلک امراض سے بچایا جاسکے۔ اس لیے وہ انسانوں کو پہلے اخلاقی تعلیم سے آراستہ کرتا ہے۔

اسلام کی اخلاقی تعلیمات
اسلام انسانوں کومعاشرتی زندگی تباہ وبرباد کرنے والی چیزوں مثلاً ظلم وزیادتی، قتل و غارت گری، بدکاری و بداخلاقی، چوری وزناکاری وغیرہ سے بازرہنے کی تلقین کرتاہے اورانھیں اپنے مالک اورپیدا کرنے والے کا خوف دلا کر ان کے دل کی کجی کودرست کرتاہے۔ آج معاشرے میں لوٹ کھسوٹ، رشوت، بددیانتی، جھوٹ، فریب اور جعل سازی وغیرہ کی جو بیماریاں عام ہوگئی ہیں، صرف اسلامی تعلیمات کے ذریعہ ان تمام مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔

جس طرح ہمیں اپنی بہوبیٹیوں کی عزت پیاری ہے اسی طرح دوسروں کی عزت وناموس کاخیال رکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ آزادی کے نام پر جس طرح خواتین کھلونے کی مانند استعمال کی جارہی ہیں، گھراورحجاب کو قید سمجھنے والی خواتین کس آسانی کے ساتھ ظلم وزیادتی کا شکار ہورہی ہیں، یہ کسی پر مخفی نہیں ہے۔ اس لیے اسلام نے خواتین کوایسی آزادی نہیں دی ہے جس سے وہ غیرمحفوظ ہوں اورنیم برہنہ لباس پہن کر لوگوں کے لیے سامان تفریح یا ان کی نظربد کا شکار ہوجائیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی اسلامی احکام کو اپنے لیے قید سمجھ کر اس سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی وہ دنیا کی بد ترین اور ذلت آمیز بیڑیوں میں جکڑ کر قید کرلیا گیا ہے۔

یہ انسانوں کا بنایا ہوا قانون نہیں بلکہ کائنات کے خالق و مالک اور احکم الحاکمین کا بنایا ہوا قانون ہے۔ اس لیے ا س میں کسی کو ترمیم کی اجازت نہیں ہے۔ اس میں کمی یا زیادتی کرنا اللہ کے ساتھ بغاوت ہے۔ یہ بغاوت پورے سماج کو تباہ و برباد کردتی ہے۔ یہی مسلمان کا عقیدہ ہے۔ جسے معمولی عقل و شعور رکھنے والا ہر فرد بہ آسانی سمجھ سکتا ہے۔

خواتین کے لیے ہدایات
اسلام نے خواتین کو علیحدہ طوربہت سی باتوں کا حکم دیا ہے اوربہت سی چیزوںسے روکاہے۔ مثلاً انھیں اپنے بناؤ سنگارکو دکھانے کے بجائے اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اورپردہ کرنے کولازم قراردیا :
اور اے نبی ﷺ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوںکی حفاظ کریں، اوراپنا بناؤ سنگھارنہ دکھائیں بجزاس کے جوخود ظاہر ہوجائے، اوراپنے سینوںپر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں (النور:۳۱)

دوسری جگہ اللہ تعالی کافرمان ہے:
’’اے نبی ﷺ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اوراہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلولٹکالیاکریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ اللہ تعالی غفور و رحیم ہے۔‘‘ (سورۃ احزاب:۵۹)

اسی طرح غیرضروری طور پر بازاروں میں پھرنے کے بجائے گھروںمیں محفوظ طریقے سے رہنے اور عبادت کرنے کا حکم دیا: ’’اپنے گھروں میں ٹک کررہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔ نماز قائم کرو، زکوۃ دو، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو۔ اللہ تو یہ چاہتاہے کہ تم اہل بیت نبی ﷺ سے گندگی کودورکرے اورتمھیں پوری طرح پاک کردے۔‘‘ (سورۃ احزاب:
۳۳)

اس کے علاوہ خواتین کا ہروہ طرز عمل جو اجنبی مردوں کو ان کی طرف مائل کرے، یا ان کی جنسی خواہشات کو بھڑکائے،
اسے حرام قراردیاگیاہے۔آپ ؐنے ارشادفرمایا:’’ہر وہ خاتون جو خوشبو لگا کر کسی قوم کے پاس سے گزرے کہ وہ اس کی خوشبولے تو ایسی خاتون بدکار ہے۔ ‘‘(النسائی)


رسول اللہ ﷺنے ایسی خواتین پر سخت ناراضی کا اظہارکرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’دوطرح کے انسان ایسے ہیں جن کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا:ان میں وہ عورتیں ہیں جو لباس پہنے ہوئے بھی ننگی ہیں، لوگوں کی طرف مائل ہونے والی اوراپنی طرف مائل کرنے والی ہیں،ان کے سرکھلے ہونے کی وجہ سے بختی اونٹنیوںکی کہان کی طرح ہے، وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکیں گی اورنہ ہی اس کی خوشبوپاسکیںگی۔‘‘ (مسلم)

علامہ شیخ عبدالعزیز بن بازؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: ’’یہ تبرج اورسفور اختیارکرنے والی عورتوں کے لیے سخت قسم کی وعیدہے: باریک اور تنگ لباس زیب تن کرنے اور پاکدامنی سے منہ موڑنے والی اور لوگوں کو فحش کاری کی طرف مائل کرنے والی عورتوں کے لیے ۔‘‘

مردوں کوتنبیہ
اسی طرح مردوں کوبھی تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ غیرمحرم (جن سے نکاح ہوسکتاہے) عورتوں کو ٹکٹکی باندھ کر نہ دیکھیں، اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور زنا کے محرکات سے بچیں چہ جائے کہ زنا جیسے بدترین عمل کا شکارہوں۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:’’زنا کے قریب مت پھٹکو وہ بہت برافعل (کھلی بے حیائی ) ہے۔اور براہی بڑا راستہ ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل :۳۲)

موجودہ دورمیں بوائے فرنڈاور گرل فرینڈ کا رجحان عام ہوگیا ہے، اختلاط مرد و زن، لیو ان ریلیش شپ اور اب ایڈلٹری (497) وغیرہ نے معاشرہ کو مزید متاثرہ کیا ہے۔ اسلام اس رشتے کو نہ صرف غلط قراردیتاہے بلکہ اجنبی خواتین سے میل جول اور غیرضروری گفتگو سے بھی بچنے کی تاکید کرتا ہے، کیوںکہ یہ وہ محرکات ہیں جو انسان کو بدکاری اورفحاشی تک پہنچادیتے ہیں۔نبی رحمت نے اپنی امت کو اس سے روکا ہے: عورتوں(غیرمحرم)کے پاس جانے سے بچو۔ (بخاری)

اگرکوئی ناگزیرضرورت ہو یاکسی اجنبی عورت سے کچھ دریافت کرنا ہوتو پردے کے ذریعے ہی ممکن ہے، قرآن کہتاہے: اگر تمہیں کچھ مانگنا ہوتوپردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اوران کے دلوںکی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ (احزاب:
۵۳)


اسلام جرائم کو بالکل جڑسے اکھاڑنا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ انسانوں کو زیوراخلاق وکردارسے آراستہ دیکھنا چاہتا ہے۔ کاش دنیا والے انسانوں کو اسلامی تعلیمات سے ڈرانے کے بجائے اس کی تعلیمات کوسماج میں نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہوتے۔اگروہ ایسا کرتے توان کی زندگی سکون واطمینان سے گزرتی اورہمارا معاشرہ صحت مندہوکر امن وامان کا گہوارہ ہوتا۔
ll
محب اللہ قاسمی

Religion, country and humanity


مذہب، ملک اور انسان
محب اللہ قاسمی

انسان کا وجود رب کائنات کی دین ہے۔ اس کی موت اورحیات مالکِ دوجہاں کے متعین کردہ حدود کے پابند ہیں، جس کا علم کسی کو نہیں ہے۔اس کی بھلائی اور کام یابی بھی مالک کے ہاتھ میں ہے جو اس کا خالق ہے۔ دنیا میں جینے کا سلیقہ اور کام یابی کے ذرائع بھی اسی نے انسانوں کو عطا کیے اور عقل وشعور کا داتا بھی وہی رب ہے۔اس نے انسانوں کو  مذہب عطا کیا ،تاکہ وہ ایک بہترین انسان بن کر خود بھی دنیا کی بھلائی کو حاصل کرسکے اور دوسروں کو بھی اس کے فیض سے روشناس کرائے۔

اس طرح اللہ کا عطا کردہ دین  اور شریعت انسانوں  کو بنانے سنوارنے اور اسے ترقی بخشنے دینے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس لیے ایسا مذہب ہر چیز پر فوقیت کا اہل ہے ،جو ملک و ملت، انسانوں کی کام یابی اور ترقی کا ضامن ہے۔ اس سے بڑھ کر نہ کوئی ملک ہوسکتا ہے اور نہ کوئی سماج ۔ کیوں کہ بہترین ملک اور سماج کی اساس یہی دین ہے۔اس پر چلنے کی آزادی اس کا بنیادی حق ہے، جس میں کسی کو مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے۔

یہ بات درست ہے کہ انسان جس جگہ پیداہوتا ہےاس سے  فطری طور پر ا سے لگاؤ ہوتا ہے اور اس کی فلاح اور بہتری کی کوشش کو وہ اپنے لیے لازم سمجھتا ہے ۔اس طرح وطن سے محبت اس کے دل میں بیٹھ جاتی ہے جس سے وہ پوری وفاداری کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔ ہر وہ کام جو اس کے مذہب اور عقیدے سے نہ ٹکراتا ہو،اس میں اس کی  وہ مکمل ایمانداری اور وفاداری کا مظاہرہ کرتا ہے ، کیوں کہ ایفائے عہد کے دائرے میں آتا ہے اور ایفائے عہد دین داری  کی علامت ہے۔رسول اللہ ؐکا ارشاد اس جانب رہ نمائی کرتا ہے:’’اس شخص کا ایمان نہیں جس میں امانت داری نہیں اور اس کا دین نہیں جس میں عہد کی پاسداری نہیں۔‘‘(مسنداحمد)

اس لیے کسی بھی ملک میں رہنے والے انسان سے یہ سوال ہر گز نہیں کیا جاسکتا کہ تمہارے نزیک وطن پہلے ہے یا مذہب ؟ کیوں کہ یہ سوال مہمل  ہے۔اگر سوال ہی کرنا ہے تو یہ کیا جائے کہ آپ کو وطن سے محبت ہے یا نہیں؟ وطن کا ہر وہ کام جو آپ کے عقیدے سے نہ ٹکراتا ہو، آپ کو اس سے اتفاق ہے یا نہیں؟ ایسی صورت میں ہر مذہب کے لوگ واضح طور پرجواب دے سکیں گے کہ ہمیں وطن سے محبت ہے اور ہم وطن کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی جان تک دے سکتے ہیں۔ مگر عقائد سے ٹکرانے والے کسی معاملے میں ، چاہیے وہ وطن ہویا اپنا گھر خاندان اور والدین ان کے مقابلے میں مذہب کواولین درجہ حاصل ہے۔

دنیا کا کوئی مذہب انسانیت کے ناحق قتل و خون کو جائز نہیں ٹھہراتا اور نہ  انسانیت کو تکلیف پہنچانا کسی مذہب کا حصہ ہو سکتا ہے۔  ؎
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا

پھر بھی لوگ مذہب یا ذات برادری کے نام پر آپس میں ایک دوسرے کو لڑا تے ہیں اور اس لڑنے لڑانے میں وہ اپنا مفاد تلاش کرتے ہیں۔ جن کی سیاست کی اساس ہی منافرت اور باہمی جھگڑا فساد پر ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے سامنے کبھی ملک کی ترقی، خوش حالی یا امن و سلامتی قائم رکھنے کا ایجنڈا نہیں ہوتا۔ ایسے ہی لوگ حب الوطنی کی آڑ لے کر اہل وطن کو ستاتے اور انھیں ظلم وستم کا شکار بناتے ہیں۔ جب نفرت کی یہ آگ بھڑکتی ہے تو ملک کے امن و سلامتی کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے، جس سے وہ لوگ بھی زد میں آ جاتے ہیں جو منافرت کے جلتے ہوئے اس شعلے کو بجھانے کے بجائے اسے نظر انداز کر دیتے ہیں ،یا اس میں ایندھن ڈالنے کا کام کرتے ہیں۔

انسانوں کی  قائم کی ہوئی سرحدیں اگر دوسرےانسانوں پر ظلم ڈھانے کے لیے ہو ں تو پھر ان  کو پھلانگ کر انسانیت کی مدد کرنا اور اس کو ظلم سے بچانا یہ ہر درد مند انسان کی اولین ذمہ داری ہے۔ خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ظلم چاہے روہنگیا کے مسلمانوں پر ہو یا امریکا کے سیاہ فام  لوگوں پریا فلسطین کے مسلمانوں پر ۔ظلم کرنے والا ہٹلر ہو یا آنگ سان سوچی یا نیتن یاہو اور بشارالاسد۔ ان کے خلاف آواز بلند کرنا ضروری ہے۔یہی مذہب اور انسانیت کا تقاضا ہے، جس سے ملک ترقی کرتا ہے۔


Tuesday 9 October 2018

Ijlas Ulmaye Keram


اسلامی نہج پر فرد کی تربیت اور معاشرے کی اصلاح میں
 علماء کرام کا اہم کردار

معاشرے میں علماء کرام کا مقام و مرتبہ مسلم ہے، قرآن و حدیث میں ان کے مقام و مرتبہ کا تذکرہ موجود ہے. وارثین انبیاء کہہ کر ان کا تعارف کرایا گیا ہے، اس کے ساتھ ہی ان پر جو ذمہ داریاں ڈالی گئیں، وہ بھی واضح ہیں . علماء کرام قائدین امت اور اسلام کے ترجمان ہے.

لہٰذا بلا تفریق مسلک و منہج مل جل کر امت کے متحدہ مقاصد کے حصول اور اقامت دین کی کوشش کرنا، امت کے تمام دینی و اخلاقی، معاشرتی و سیاسی مسائل میں ان کی رہنمائی کرنا ان کی ذمہ داری ہے. جسے انجام دے کر وہ عند اللہ بہترین اجر کے مستحق ہوں گے اور دنیا میں اپنے رتبہ بلند کو برقرار رکھ سکیں گے.

جماعت اسلامی ہند حلقہ دہلی و ہریانہ کی جانب سے آج مورخہ 7 اکتوبر 2018 کو مسجد اشاعت اسلام کے توسیعی حصے میں ایک اجلاس عام بعنوان 'اسلامی معاشرے کے قیام میں علما کرام کا کردار' منعقد ہوا، جس میں مختلف مسالک کے علماء کرام نے شرکت کی.

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن مجید اور نعت رسول سے ہوا. امیر حلقہ دہلی و ہریانہ جناب عبد الوحید نے افتتاحی کلمات پیش کیے، جب کہ مولانا محمد رفیق قاسمی صاحب، سکریٹری شعبہ اسلامی معاشرہ، جماعت اسلامی ہند نے کلیدی خطاب پیش کیا.

اس پروگرام کا ایک حصہ مذاکرہ بہ عنوان: 'اصلاح معاشرہ کیوں اور کیسے؟' تھا_اس کے کے پانچ ذیلی نکات تھے _ اسٹیج پر جلوہ افروز مختلف مسلک کے علماء کرام نے ان نکات پر اظہار خیال کیا.مولانا ولی اللہ سعيدی، سکریٹری شعبہ تربیت جماعت اسلامی ہند نے ان پر تبصرہ کرتے ہوئے مفید باتیں پیش کیں.
پروگرام کا اختتام محترم امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری کے فکر انگیز اختتامی خطاب اور دعا پر ہوا.

مولانا مفتی سہیل قاسمی نے اس اجلاس میں نظامت کے فرائض انجام دیے. پروگرام کے اختتام پر ظہرانے کا نظم کیا گیا تھا.

امید ہے کہ یہ اجلاس امت کے اتحاد اور اصلاح معاشرہ کے لیے مفید اور علماء کرام کی اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں معاون ثابت ہوگا.
Ijlas Ulmaye Keram 7 Oct 2018
محب اللہ قاسمی

Delhi Yadgargar Shaam


دہلی کی یادگار شام

نماز اور ظہرانے کے لیے آفس سے باہر آیا پھر نماز ظہر اور کھانے سے فارغ ہو کر قیلولہ کے لیے لیٹا تو نیند آ گئی دفتر تین بجے جانا تھا اسی دوران میرے گاؤں کے پیارے دوست جی این کے اسکالر حبیب اللہ کا فون آیا کہ میں، ابوالکلام، صادق اقبال اور ذاکر اقبال کو لے کر آ رہا ہوں. پانچ بجے تک پہنچ جاؤں گا.. میں نے کہا: ہاں ہاں آؤ!

پھر میں دفتر جانے کی تیاری میں لگ گیا کہ اب سونا بے کار تھا. خیر سب لوگ آئے مگر ساڑھے پانچ بجے. سب نے چائے پی پھر سب کو لے میں اپنے کمرے میں چلایا آیا. کچھ دیر وہیں گفتگو کی.اسی دوران احمد عالم سے فون پر بات ہوئی اس نے کہا: آپ سب لوگ میرے یہاں ذاکر نگر آئیے. یہاں احمد اللہ (پرنس) بھی ہے سب کی ملاقات ہو جائے گی.

خیر ہم سب لوگ ذاکر نگر چلے گئے. وہاں پہنچے ہی تھے کہ معلوم ہوا لو فیکلٹی ڈی یو کے آصف اقبال آ رہے ہیں. حسن اتفاق دیکھتے ہی دیکھتے ہم سب گاؤں کے آٹھ لوگ جمع ہو گئے. سب لوگوں کا اس طرح اتفاقاً ملنا جس پر خوشی کے فطری آثار سب کے چہرے سے ظاہر ہو رہے تھے.

ہم لوگوں نے خوب گپ شپ کیا. فاطمہ چک اسمبلی کی یاد تازہ ہو گئی. مختلف موضوعات جس پر مختلف آراء، کھل کر اظہار خیال بڑا مزہ آیا.مصروف زندگی میں اس طرح اپنوں کے درمیان تبادلہ خیال سے جمود توڑنے، زندگی زندہ دلی سے جینے اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ ملتا ہے.

خیر عشا کی نماز بعد اجتماعی عشائیہ کا پروگرام ہوا جس میں فراخ دلی کے ساتھ مہمان نوازی کا شرف احمد عالم صاحب کو حاصل ہوا.احمد اللہ صاحب کی طرف سے یہ بات بار بار آئی کہ اس طرح کی ملاقات اتفاقی نہیں منصوبہ بند بھی ہونی چاہیے جس کی ہم سب نے تائید کی.

راقم الحروف کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ ہم سب گاؤ والوں کے بھلے ہی مکان علیحدہ ہوں، الگ رہتے ہیں مگر ہم سب گاؤں والے گویا ایک گھر کے فیملی ممبر ہیں، جو سب آپس میں سکھ دکھ کے ساتھی ہیں.

معقول عشائیہ کے بعد ہم لوگوں نے کلہڑ (مٹی کا گلاس) والی چائے پی اور سلام کے ساتھ بادل نہ خواستہ جدا ہو کر ان خوشگوار یادوں کے ساتھ اپنی منزل کی اور چل پڑے.

یہ خوبصورت شام فاطمہ چک کے نوجوانوں کے نام تھی جو راجدھانی دہلی جیسے مصروف شہر میں ملاقات، گفت و شنید کے لیے اتفاقا جمع ہوئے.
محب اللہ قاسمی

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...