Wednesday 19 February 2020

Sheen Baagh hai







شاہین باغ



ظلمت میں جل رہا دیا شاہین باغ ہے

شیطان جس سے ہے خفا شاہین باغ ہے



مطلب سمجھ میں آگیا شاہین کاہمیں

ہر شہر اور ہر جگہ شاہین باغ ہے



ٹکرانے ظلم و جبر سے نکلی ہیں دادیاں

اس وقت حق کا اک دیا شاہین باغ ہے



قانون لے کے آئے وہ آئین کے خلاف

آئین کیلئے کھڑا شاہین باغ ہے



بدلاؤ کیوں نہ آئے گا اس وقت اے رفیق

اک جوش ایک ولولہ شاہین باغ ہے



محب اللہ رفیقؔ قاسمی


Saturday 15 February 2020

My first Book 2nd Addition



میری پہلی کتاب کا دوسرا ایڈیشن

الحمد للہ میری کتاب "شخصیت کی تعمیر اسلام کی روشنی میں" اس کا دوسرا ایڈیشن منظر عام پر آ گیا ہے. اللہ تعالیٰ اسے مزید قبولیت عطا کرے  اور ذخیرہ آخرت بنائے۔آمین.

شخصیت کی تعمیر- اسلام کی روشنی
مصنف: مولانا محب اللہ قاسمی
صفحات: 134
قیمت: 85 روپے
ملنے کا پتہ: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نی دہلی 110025

کتاب "شخصیت کی تعمیر اسلام کی روشنی میں" مبصرین کی نظر میں:
  ابھی میرے سامنے جناب محب اللہ قاسمی صاحب کی کتاب ہے۔ موصوف نے ہدایت انسانی کے لیے اس کی تصنیف کی ہے، مختلف موقعوں سے اخبارورسائل میں تذکیری مضامین لکھے ہیں، اس میں ایمانیات اور اخلاقیات سے متعلق اسلامی تعلیمات پر خامہ فرسائی کی ہے ۔ یہ کتاب ان ہی مضامین کا مجموعہ ہے۔پوری کتاب پر نظر ڈالنے کے بعد بڑی خوشی ہوئی کہ نوخیزقلم کار نے اپنے سوز دروں کو نہایت ہی سلیقے سے سپرد قرطاس کیا ہے، ان کو پڑھ کر قارئین متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔بہترین انسان بننے کے لیے کیا کیا کرنا چاہیے اور کن کن بہیمی صفات کو اپنا کر انسان بدترین بن جاتا ہے ، تخلیہ اور تحلیہ کی اصطلاح کو ذکر کیے بغیر مصنف نے اس موضوع کو تمام قارئین کے لیے بالکل آسان زبان میں لکھا ہے، زبان رواں دواں اور اسلوب متانت آمیز ہے۔

  اللہ تعالی موصوف کی محنت کو قبول فرمائے اور زبان و قلم سے دین حنیف کی خدمت کی توفیق بخشے۔کتاب کتابت ، طباعت، ٹائٹل اور زبان و بیان کے لحاظ عمدہ اور قابل قدر ہے۔ امید ہے کہ قارئین کی بارگاہ میں محبوبیت کا شرف حاصل کرے گی۔ و باللہ التوفیق!
(مولانا اشتیاق احمد قاسمی استاذ دارالعلوم دیوبند کے تبصرے سے ماخوذ)
*****

اس کتاب کے مصنف مولانا محب اللہ قاسمی نوجوان صاحبِ قلم ہیں ۔ دینی موضوعات پر ان کے مضامین آئے د ن رسائل وجرائدکی زینب بنتےرہتے ہیں اورانہیں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ زیر نظر کتاب انہی مضامین کا ایک انتخاب ہے جس میں اخلاق فاضلہ اوراخلاق سیئہ دونوں پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ کچھ مضامین میں انفرادی تربیت کونمایاں کیاگیا ہے اوراس کی تدابیر بیان کی گئی ہے ۔ ان کے عناوین یہ ہیں: تزکیۂ نفس ، بیداری ضمیر، سکونِ قلب، حیا، زبان کا صحیح استعمال ، خلوص، صبرو شکر، جب کہ دوسرے مضامین میں حقوق العباد سے بحث کی گئی ہے، مثلاً ایثار، صدقہ کا وسیع مفہوم ، مال میں غریبوں کا حق، نیکی پرمداومت ، یکساں پیما نے وغیرہ ۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں بہت سادہ اسلو ب، شستہ زبان اورعام فہم انداز میں اسلامی اخلاقیات کونمایاں کیاگیا ہے۔ قرآنی آیات اور صحیح احادیث سے مباحث کو مدلل کیا گیا ہے۔ کتاب کے مطالعے سے تربیتِ نفس اور حسن عمل کا جذبہ ابھرتا ہے ۔ مناسب ہوگا کہ اس کتاب کا ہندی زبان میں بھی ترجمہ کروایا جائے اوراسے زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی کوشش کی جائے ۔    ( محمد رضی الاسلام ندوی )
*****

      شخصیت کی تعمیر میں صفحہ نمبر ۸۷ پر قاسمی صاحب رقمطراز ہیں’نیکی اور بھلائی کا عمل خواہ کتنا بھی چھوٹا اور معمولی کیوں نہ ہو اسےہلکا نہیں سمجھنا چاہیے۔ اسلام میں ہر کارِ خیر خواہ وہ کسی بھی درجہ کا ہو، اہمیت کا حامل ہے ۔اس لیے کسی عمل کو حقیر سمجھ کر ترک کردینا مناسب نہیں ہے‘۔ یہ درست ہے کہ افراد اور کاموں کو حقیر سمجھنے سے انسان کے اندر رعونت پیدا ہوتی ہے۔ اپنی کتاب کے صفحہ ۸ پر وہ لکھتے ہیں ’اللہ نے انسانوں کو قدم قدم پر ایک دوسرے کا محتاج بنادیا ہے۔ ایسے میں ان کے غرور و تکبر کا کوئی جوا زباقی نہیں رہ جاتا۔ محتاج اور ضرورتمند متکبر نہیں ہوسکتا‘۔ اس طرح کی اچھی اچھی باتیں کہنا یا لکھنا جس قدر آسان ہے اس پر عمل پیرا ہو نا اتنا ہی مشکل ہے۔

        مذکورہ کتاب کےصفحہ
۱۰۴ پر درج ہے۔ ’ایک مومن کا تعلق دوسرے مومن سے اخوت پر مبنی ہوتا ہے۔ ایمان کا رشتہ ایسا مضبوط ہونا چاہیے کہ آدمی اپنے مومن بھائی کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھے‘۔ اگلے صفحہ پر وہ امام ابن تیمیہ کا اقتباس نقل کرتے ہیں ’مومن کو دوسرے مومن بھائیوں کی خوشی سے خوشی ہوتی ہے اور ان کی تکلیف سے وہ بھی تکلیف محسوس کرتا ہے۔ جس میں یہ کیفیت نہ ہووہ مومن نہیں‘ ۔ یہ جملہ پڑھتے وقت ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ آنکھوں میں آگیا اس لیے کہ دوسروں کی تکلیف کو دور کرنا سہل ہے لیکن کسی کی خوشی سے خوش ہوجانا مشکل کام ہے۔
(معروف صحافی ڈاکٹر سلیم خان کے تبصرے سے ماخوذ)

     واضح رہے کا اس کا ہندی ترجمہ بھی شائع ہوچکا ہے۔جسے مرکزی مکتبہ نے شائع کیا ہے۔ صفحات 120 اور اس کی قیمت 80 روپے ہے۔

https://www.facebook.com/photo.php?fbid=2560916107352792&set=a.243883505722742&type=3&theater&notif_t=feedback_reaction_generic&notif_id=1581752318679688

Tuesday 21 January 2020

Jahannam Numa (Story)

جہنم نما




جہنم نما
(کالا قانون کی حقیقت اور اس کے انجام سے روبرو کراتی ایک پرسوز کہانی)

Sunday 19 January 2020

Story : Jahannam Numa



جہنم نما
( کالا قانون کی حقیقت اور اس کے انجام سے روبرو کراتی ایک پرسوز کہانی ضرور پڑھیں )
       
جلدی کرو مجھے نہانا ہے۔ دوہفتے ہو گئے نہائے ہوئے۔ ایک ہفتے تک تو نہانے کے لیےپانی ہی نہیں میسر تھا۔اب پانی کے لیے لمبی قطار کہ نمبر ہی نہیں آ رہا ہے۔ آج تو میں کسی طرح نہاکر ہی رہوں گا۔ جسم سے بڑی بدبو آ رہی ہے۔اگر چہ اس جگہ سبھی بدبودار ہوگئے تھے پانی کی سہولت سے محروم تھے۔ بیت الخلا میں بھی لمبی لائن لگی تھی۔ سونے کے لیے بستر چٹائی تو دور، جگہ تک نہیں تھی کہ کدھر سر رکھیں کدھر پیر؟ ہر شخص ایک دوسرے پر پاؤں رکھے سو رہا تھا، بلکہ آنکھیں بند ہونے لگتیں تو ہٹو ہٹو، ادھر جاؤ ،ادھر جاؤ، کی آواز سے آنکھیں کھل جاتی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کسی لمبے روٹ کی ٹرین ہے، جس کے جنرل ڈبے میں لوگ ٹھسے ہوئے ہیں۔

        صابرکو بڑی مشکل سے نہانے کا موقع ملا۔ چہار دیواری سے گھرے ہوئے دو بڑے سے ہال، جن میں تقریبا ً500 لوگ، جن کے لیے 15بیت الخلا اور نہانے کے لیے صرف دوبڑے غسل خانے اور ان میں 4 لگے ہوئے نل تھے۔ سینکروں لوگ نہانے کے لیے لائن میں لگے ہوئے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ خیر صابر بڑی مشکل سے نہاکر گیلے کپڑوں کے ساتھ باہر آیا۔ اسی دوران سنٹر کی چہار دیواری کے اندر ایک شخص جو اس کا ذمہ دار تھا کھانے پینے کا سامان لیے ہوئے آیا۔ یہ کھانے کا سامان تین دن بعد آیا تھا۔بھوک سے نڈھال لوگ اس پر بھوکے شیر کی طرح ٹوٹ پڑے۔ اس شخص بے رحم نے اپنے جلاد ساتھیوں کو اشارہ کیا۔ اس نے سب پر بڑی بے دردی سے چمڑے کا چابک برسانا شروع کر دیا۔

         اس سینٹر پر آنے والا ہر شخص غریب، جاہل، بے سہارا نہیں تھا، بلکہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے ،جن کا شمار اپنے خاندان کے بڑاےباوقار مال دار اپنے علاقہ کے خوش حال لوگوں میں ہوتا تھا، جن کے طرز زندگی پر لوگ ناز کرتے تھے، جنھوں نے نے بڑی مشکل اور محنت سے اپنی خوش حال زندگی کے لیے کچھ بنایا تھا۔ یہ بھی صحیح ہے کہ یہاں بڑی تعداد میں غریب مزدور، ان پڑھ اور گنوار لوگ تھے، مگر سارے بے بسی، بے کسی اور مجبور زندگی کے مشکل ترین حالات سے دوچار تھے۔

        یہ کوئی چور، ڈاکو، لٹرے، قیدی یا خونخوار مجرم نہیں تھے، جن کو سزا دینےکے لیے اس کال کوٹری سے بھی بدتر جگہ میں ڈال کر مرنے کے لیے مجبورکر دیا گیا تھا۔ بلکہ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے ہی وطن میں اپنی شہریت ثابت کرنے سے قاصر رہےتھے ۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ یہاں پیدا نہیں ہوئے، یا ان کے باپ دادا یہاں کے نہیں تھے۔ ان کے پاس آدھار کارڈ، راشن کارڈ نہیں تھا، بلکہ ان کے پاس ان سب کے علاوہ ووٹر کارڈ بھی تھے، جس کے ذریعہ وہ حکم راں چنتے تھے۔ ان کے باپ دادانے آزادی وطن کی جنگ میں انگریزوں کے خلاف سینہ سپر ہوکر مقابلہ بھی کیا تھا۔

         ہاں ان کے پاس نہیں تھا تو وہ کاغذ جس سے یہ ثابت ہوتا کہ ان کے ابا اس دیش میں کب پیدا ہوئے؟ کچھ نے اسے بڑے اہتمام سے سنجو کے رکھا بھی تھا ،مگر انھیں کیا پتہ تھا کہ سیلاب ان کے اس گھریلو سامان، اناج پانی کےساتھ ان کے تمام ڈاکومنٹس کو بھی بہا لے جائے گا۔ آگ زنی میں ان کے گھر مکان کے ساتھ ان کے وہ کاغذات بھی جل جائیں گے۔

        جن کے پاس کاغذات بچے بھی تھے، ان کے ناموں میں اسپیلنگ مسٹیک تھا،یا پھر کوئی اور نقص۔ کیو ںکہ آدھار اور ووٹر کارڈ تو اس کے لیے قابل قبول تو تھا نہیں، جنھیں وہ پیش کر کے اس نرک سے بچ جاتے۔ اس طرح کی چیزوں نے ان کا معاملہ خراب کر دیا تھا۔ ان کے کاغذات بھی غیر معتبر ہوگئے تھے، جس کے سبب وہ سب کال کوٹھری میں بند کر دیے گئے۔

        وہاں صابر ہی ایسا نہیں تھا جس کو مسلم گھس پیٹھیا سمجھ کر جہنم کی وادی میں ڈال دیا گیا ہو، بلکہ کاغذات پورے نہ کرنے والوں میں بہت سے دوسرے مذاہب کے لوگ بھی شامل تھے ، جن کی بڑی تعداد ان قیامت خیز مصائب میں مبتلا کر دی گئی تھی۔

        جب یہ نرک ہے تو اس میں پریشانیاں اور ظلم کے علاوہ تو کچھ ہوگا۔اس میں یہ بھی تھا کہ ایک ہی خاندان کے بہت سے لوگوں میں کسی کابھائی ڈالا گیا تو دوسرا باہر ، کسی کی بیوی کو اندر کیا گیا تو اس کا شوہر اور بچہ باہر۔ کسی کا بیٹا اندر تو باپ باہر۔ کسی کی بیٹی قیدکی گئی تو اس کی ماں باہر، الغرض ایک عجیب سی ہاہاکار مچی ہوئی تھی۔ وہ بھی صرف اس لیے کہ ان کے پاس کاغذات نہیں تھے، جن سے یہ ثابت کر سکیں کہ وہ اسی دیش کے رہنے والے ہیں۔ پھر یہ بھی پریشانی تھی کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ وہ یہاں کے نہیں تو پھر کہاں کے ہیں ؟جہاں کے بھی ہیں وہاں ان کو بھیجنے کا بندوبست کیا جاتا۔

        ان کاغذوں کے ماروں پر ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ ظالموں نے پورے ملک میں مذہب کو شہریت کی بنیاد بنا کر شہریت کا نیا قانون بنا ڈالا، جو خود اس دیش کے دستور ی اور بنیادی حقوق کے خلاف تھا اور اس کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب یہاں کی عوام کو الگ الگ حصوں میں بانٹ دیا۔ اس طرح پورے ملک میں اسی خاص قسم کے کاغذکی ضرورت سب کو ہوگی ،جس کے نہ ہونے کے سبب وہ جہنم میں ڈالے گئے تھے۔اس کی وجہ سے اب  یہ ہوگا کہ مسلمانوں کو الگ کر کے انھیں تو اس جہنم میں باقی رکھا جائے گا، مگر جو مسلمان نہیں ہوں گے ان کو شرنارتھی کا کاغذ بنا کر اسے یہاں سے نکال لیا جائے گا۔

        اس نرک میں رہنے والے لوگوں کے ساتھ صابر بھی بے بہت پریشان تھا۔ اسے ہمیشہ اپنوں سے زیادہ دوسروں کا خیال رکھنا اچھا لگتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسے خود آج نہائے ہوئے کئی دن ہوگئے تھے۔ وہ اپنے کھانے میں سے دوسروں کو بھی کھلادیتا تھااور خود کسی طرح بھی دن کاٹ لیتا تھا۔

        اس دوران کئی لوگوں کی موت ہوگئی اور بہت سے لوگ سوکھ کر کانٹا ہوگئے تھے۔ کھانا بانٹنے والوں نے ہنگامے کوروکنے کے لیے ایک زور کا ہنٹرچلایا جس سے صابر کے بازو میں کھڑاشخص، جو مسلمان نہیں تھا، اس کے ہاتھ پر ایسا لگا، جس سے اس کے کھانے کی تھالی دور جاگری اور پورا کھانا بکھر گیا۔ پھر کیا تھا؟ وہ سب لوگوں پر ہنٹر برسانے لگا۔ سب ڈرے اورسہمے ہوئے تھے۔ صابر زور زور سے چلانے لگا ۔ ارے صاحب! ہم لوگوں کو کیوں مارتے ہو؟ہمیں مت مارو،ہمیں مت مارو۔۔۔!

        تبھی خالد ،مکیش ،زینب، ریکھا،ست ویر اورڈیسوزا چونکے ۔کہنے لگے: کیا ہوا بھائی؟ کیوں چلا رہے ہو؟ نیند میںکیا بڑبڑا رہے تھے؟

        صابر نے اِدھر ُادھر لوگوں کو دیکھا ۔ سب احتجاج کر رہے ہیں اورابھی رات کے تین بجے ہیں۔ وہ کافی دنوں سے سی اے اے اور این آرسی کے خلاف احتجاج میں شریک ہو رہا تھا۔ اس لیے کئی دنوں سے سویا نہیں تھا۔ آج پلک جھپک گئی تو خواب بھی ایسا کہ اللہ کی پناہ ۔ سب نے کہا :گھبراؤ مت ،وہ خواب تھا۔ حقیقت کی دنیا میں اب ایسا کچھ نہیں ہوگا۔

        خوشیوں کا پیغام لیے صبح نمودار ہوئی ۔معلوم ہوا سبھی نیوز پیپر ،ٹی وی چینلوں اور تمام میڈیا میں خبر آگ کی طرح گردش کررہی تھی کہ حکومت نے کالا قانون واپس لے لیا ہے۔ اب دیش میں این آرسی نہیں ہوگا۔
***



Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...