Friday 11 January 2013


حیا -قلب وشعور کی زندگی
محب الله قاسمی
انسان کے اندرفطری طورپر حیاپائی جاتی ہے۔یہ ایک ایساپیمانہ ہے جس سے وہ خیروشرکو جانچتا اور پرکھتاہے ۔ اسی کی بنیاد پر وہ عملی اقدام کرتاہے اوراپنی زندگی کوباوقار بناتاہے۔ حیاانسان کا زیورہے جس سے اس کی شخصیت میں نکھار آتا ہے اوراس کی عزت نفس کی حفاظت ہوتی ہے ۔اسی وجہ سے اس کویہ بات ناگوار گزرتی ہے کہ کوئی اسے برا سمجھے یا اس کی عزت کو پامال کرے مگر جب اس کے اندر سے حیا نکل جاتی ہے تو اس میں اچھے برے کی کوئی تمیز باقی نہیں رہ جاتی ہے۔جیسے کسی انسان کی سونگھنے کی صلاحیت ختم ہوجائے توپھر اسے خوشبویا بدبوکااحساس نہیں ہوتا۔ حیا نہ ہوتوشیطان انسان پر پوری طرح حاوی ہو جاتاہے۔ پھر اس کے جی میںجو آتا ہے کرتا چلاجاتاہے۔ فارسی میں مثل مشہور ہے:
 "بے حیاباش ہرچہ خواہد کرد‘یعنی بے حیا ہوجاتوجوجی میں آئے کرد"
 بے حیائی سے معاشرہ سنگین مسائل سے دوچارہوجاتاہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایاہے :
لکل دین خلق و    خلق الاسلام الحیاء                 (مؤطا امام مالک وسنن ابن ماجہ(
یعنی ہردین کا ایک مزاج ہوتاہے اور اسلام کا مزاج حیاہے۔
    حیاء ایمان کا وہ شعبہ ہے جوانسان کوباادب اورمحتاط بناتاہے۔قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشادہے :
یَا بَنِیْ آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَیْْکُمْ لِبَاساً یُوَارِیْ سَوْء َاتِکُمْ وَرِیْشاً وَلِبَاسُ التَّقْوَیَ ذَلِکَ خَیْْرٌ ذَلِکَ مِنْ آیَاتِ اللّہِ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّرُونَ (اعراف:۲۶(
اے اولادِ آدم ، ہم نے تم پر لباس نازل کیاہے کہ تمہارے جسم کے قابلِ شرم حصوںکوڈھانکے اور تمہارے لیے جسم کی حفاظت اورزینت کا ذریعہ بھی ہو اوربہترین لباس تقوی کا لباس ہے۔
 ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں لباس تقوی حیا ہے۔
حیا کے سلسلے میں بہ کثرت احادیث موجود ہیں۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
الحیاء من الایمان                                                                                    حیا ایمان کا حصہ ہے۔  (مسلم(
   اس سے معلوم ہوا کہ مومن بے حیا نہیں ہوسکتا۔ اسے کبھی پسند نہیںکرے گا کہ لوگ اسے بے شرم یا بے حیاسمجھیں۔کسی بھی برے کام کی انجام دہی سے قبل اس کی حیا اسے روکے گی ۔ اسی وجہ سے آپ ؐ نے بھی فرمایاہے:
الحیاء لایاتی الا بخیر                                 حیا خیرہی لاتی ہے۔ (بخاری )
حیا کی اہمیت کے پیش نظر آپﷺ نے مزید ارشادفرمایا:
ان الحیاء والایمان قرناء جمیعا،فاذا رفع احمدہما رفع الآخر۔(مشکوۃ(
بلاشبہ حیاء اورایمان لازم اورملزوم ہیں اگران میں کوئی ایک ختم ہوجائے تودوسری بھی ختم ہوجاتی ہے۔
   جب کسی انسان کے اندرسے حیا چلی جائے تویہ سمجھ لیناچاہیے کہ اللہ نے اس کی ہلاکت کا فیصلہ کرلیاہے۔نبیؐ کا فرمان ہے،’’اللہ جب کسی بندے کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے اس کی حیا چھین لیتا ہے،پھراس میں امانت داری باقی نہیں رہتی ،وہ خیانت کرنے والا ہو جاتا ہے۔ پھروہ اللہ کی رحمت سے دورہوجاتاہے۔(ابن ماجہ) حیاسے محروم ہوجانے کے بعد انسان ہرطرح کاکام کرنا شروع کردیتا ہے اسے گندہ سے گندہ کام کرنے میں بھی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی۔نبی ﷺ نے فرمایا:
اذالم تستح فاصنع ماشئت اگرتم میں حیا نہ ہو تو جوجی میں آئے کرو۔ (بخاری)
   گویابے حیائی سے انسان کی عقل پر پردہ پڑجاتاہے اور اس میں کوئی تمیز باقی نہیں رہتی۔حیا اللہ اس کے روسول اورنیک لوگوںکی صفت ہے۔ آپ ﷺ کاارشاد ہے:
ان اللّہ حیی ستیریحب الحیاء والستر    اللہ تعالیٰ باحیاء اور پردہ پسند ہے اورحیا اور پردہ پوشی کو پسند فرماتاہے۔ (ابوداؤد(
   ایک دوسری حدیث میں ہے آپ  ﷺ نے فرمایا:
بے شک تمہارا رب بڑا باحیا اور سخی ہے۔ اسے اپنے بندوں کے متعلق اس بات سے شرم آتی ہے کہ بندہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلائے اوروہ اسے نامراد واپس کردے۔ (سنن ابوداؤد،ترمذی ،ابن ماجہ)۔
   آپ ﷺ نے حیا کو رسولوںکی سنت بتایا ہوئے فرمایا:
اربع من سنن المرسلین الحیاء والتعطر  والسواک  والنکاح۔ (مسلم(
چار چیزیں پیغمبروںکی سنت ہے:حیائ،خوشبو لگانا، مسواک کرنا،اورنکاح ۔
   نبی کریم ﷺ بہت ہی باحیاتھے ایک صحابی بیان کرتے ہیں :
کان النبی ﷺ اشد حیاء من العذراء فی خدرہا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اندرایک دوشیزہ سے بھی زیادہ حیاپائی جاتی تھی۔
    جس کے اندر حیاہوتی ہے وہ سب کا محبوب ہوتا ہے،اسی لیے کہا جاتاہے:
’’چہرے کی زندگی حیا ہے جیسے پودے کی زندگی پانی ہے۔‘‘
   یہی وجہ ہے کہ مومن کاحیا دارچہرہ تروتازہ دیکھائی دیتاہے جومخاطب کو قلبی سکون عطا کرتاہے۔یہ کتنے شرم کی بات ہوہے کہ ایک مومن اللہ کا محبوب ہونے کا دعویدارہواور گناہ کا مرتکب بھی ہو۔
   صحابہ کرامؓ نے نبی کریم ﷺ کی صحبت پائی چنانچہ آپؐ کی تربیت نے انھیں بھی حیا کا پیکربنادیا۔بعض صحابہ اس معاملہ  میں بہت نمایاں تھے۔ نبی کریم ﷺ حضرت عثمان ؓ کے بارے میں فرمایا :اصدقہم حیاء عثمان۔حضرت عمرؓکا قول ہے:
من قل حیاؤہ قل ورعہ ،ومن قل ورعہ مات قلبہ۔
جس شخص کے اندرحیاکے مقابلہ میں کمی آجائے اس کی پرہیزگاری میں بھی کمی آجاتی ہے اور جس کی پرہیزگامیں کمی آجائے تواس کا دل مردہ ہوجاتاہے۔
   عمربن عتبہ بن فرقد ،جوایک بڑے تابعی ہیں،ایک مرتبہ مسلمان فوجیوںکے درمیان رات میں نماز کے لیے کھڑے ہوئے کہ اچانک ایک درندہ حملہ آور ہوا دوسرے فوجی بھاگ کھڑے ہوئے مگر آپ کھڑے رہے اورنماز میں مشغول رہے۔حیرت انگیز طورپر درندہ نے آپ کونقصان پہنچایا۔بعدمیں جب فوجی واپس آئے اورانھوں نے دریافت کیاکہ آپ کیوں نہیں بھاگے توفرمایا: میں نماز میں تھا اورمجھے اللہ سے شرم آئی کہ اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے بھی اس سے ڈرنے کے بجائے درندہ سے ڈروں۔
   ام المومنین حضرت عائشہ رضی الله عنہاکی حیاکا یہ عالم تھا کہ ان کے حجرے میں حضرت عمرؓ کے دفن سے قبل وہ اس میں بغیر پردے کے داخل ہوجاتی تھی اس لیے کہ وہاں ان کے شوہر اللہ کے رسول ﷺ اوران کے والدمدفون تھے مگر جب حضرت عمرؓ اسی حجرے میں مدفون ہوئے تووہ اس میں جاتے وقت اپنے اوپرچادر ڈال لیتی تھی۔یہ سب حضرت عمررضی سےحیاکی وجہ سے تھا۔
   موجودہ دورکا جائزہ لیاجائے توجس قدرعریانیت کا عروج، اقدارکا زوال اوربے حیائی کارواج عام ہوا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے سے حیا کا فقدان ہو گیاہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ انسانوںمیں وہ تمیز باقی نہیں ہے کہ وہ کسی بری چیز کوبرا کہہ سکیں ، انھیں سب کچھ اچھا ہی دکھتاہے۔ بچیاں عریا لباس زیب تن کرتی ہیں اور اپنے والدین کے سامنے گھر سے باہر نکل جاتی ہیں۔ والدین جانتے ہیں کہ یہ غیرشرعی ہے اور معاشرے کے فساد کا سبب بنے گامگرانھیں روکتے نہیں ،  بلکہ اس کے جواز میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ اس دورکا فیشن ہے یا پھر یہ کہ آج کے بچے مانتے ہی نہیںوغیرہ ۔ نتیجہ میں چھیڑچھاڑ،بدکاری اوربدتمیزی کے معاملات سامنے آتے ہیں۔ معاشرہ تباہ ہوتا ہے، جس کے واقعات آئے دن اخباروںکی زینت بنتے ہیں۔
   انسان کوجوچیز بے حیابناتی ہے وہ اس کی خواہشات نفس اوردنیاکی محبت ہے جوایمان کودیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔اس لیے ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے اورہراس کام سے بچنا چاپنے جوحیا اوروقار کے کے خاتمہ کا سبب بنے۔تبھی ہمارا ایمان مضبوط ہوگا اورہم اللہ کو منہ دکھانے کے لائق ہوں گے۔
٭٭٭



No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...