Sunday 27 January 2013

نبی کریم ﷺ : بہ حیثیت قائد ورہ نما

نبی کریم ﷺ : بہ حیثیت قائد ورہ نما
محب اللہ قاسمی
اسلامی تعلیمات کی روسے حق گواورانصاف پسند قائد کی بڑی اہمیت اورفضیلت ہے۔ اس کے برعکس نام ونمود کے خواہاں اور مفادپرست قائد ورہنما  کا انجام دنیا میں ذلت اورآخرت میں عذاب جہنم ہے۔اگرمردمومن قیادت کی بات کرے گا توظاہر ہے کہ اس کے پیش نظر اسلامی قیادت کا ہی تصورہوگااورجب بات اسلامی قیادت کی ہوگی جس کی طرف آیات واحادیث اشارہ کرتی ہیں تواس زمرے میں تمام قائدوپیشواآئیں گے۔ایسی صورت میں ہمیں  نبی کریم ؐ کی سیرت سے استفادہ کرنا چاہیے۔
نبی کریمؐ کی سیرت طیبہ بے شمارپہلوؤں کی حامل ہے ۔آپ ؐ کے اندرجوبھی صفات تھیں وہ کمال درجہ کی تھیں۔ ان اوصاف کاملہ کے سبب آپ پوری انسانیت کے لیے نمونہ ہیں:لقدکان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃاس لیے اگرکوئی شخص ایک اچھا معلم بننا چاہتا ہے تواسے اپنے آپ کوآئیڈیل بناناہوگا۔ایک شخص خوداچھا والد،اچھا شوہر،اچھا داعی یا پھر اپنی قوم کا ہمدرد،مفکرومدبرقائداوررہنمابنناچاہتاہے تواسے چاہیے کہ وہ آپ کی پیروی کرے۔ اس موضوع پرغور کرتے ہوئے ہمیں کچھ بنیادی چیزوںکوسمجھنا ہوگا ۔ سب سے پہلے ہم اس بات پر غور کریں کہ قیادت کے معنی ومفہوم کیاہیں؟  قیادت کے معنی ہیں کہ اسلام جس اجتماعیت کا خواہاں ہے اس کوبرقراررکھتے ہوئے اعلیٰ مقصدکے حصول کی کوشش کی جائے ۔قرآن کریم میں ارشادالٰہی ہے:
إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلٰیٓ أَہْلِہَا وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْْنَ النَّاسِ أَن تَحْکُمُواْ بِالْعَدْلِ إِنَّ اللّہَ نِعِمَّا یَعِظُکُم بِہٖ إِنَّ اللّہَ کَانَ سَمِیْعاً بَصِیْرا   oیَآٰ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوٓاْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُمْ                                                                                                                             )النسائ:۵۸،۵۹(
مسلمانو،اللہ تمہیں حکم دیتاہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو،اللہ تم کو نہایت ہی عمدہ نصیحت کرتا ہے اوریقینا اللہ سب کچھ دیکھتاہے۔اے لوگوجوایمان لائے ہو،اطاعت کرو اللہ کی اوراطاعت کرورسول کی اوران لوگوںکی جوتم میں سے صاحب امر ہوں۔ (النسائ:۵۸،۵۹(
اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:
اذاکان ثلاثۃ  فی  سفر فلیؤ مر  احدہم  (ابوداؤد(
جب تین آدمی سفرمیں ہو تو ان میں ایک کو امیربنالیناچاہیے۔
کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ                                    )متفق علیہ(
تم میں کا ہرشخص ذمہ دار ہے، ہرایک سے اس کی رعیت کے سلسلے میں میں باز پرس ہوگی۔
مطلب یہ کہ جس طرح وقتی طورپر سفر کے دوران منزل مقصودتک پہنچنے کے لیے ایک امیرکارواں کامنتخب کرناضروری ہے اسی طرح اجتماعی زندگی کے قافلے کواعلیٰ مقاصدکے حصول کے لیے ایک قائدورہنما کی ضرورت ہوتی ہے۔تاکہ وہ کام یابی سے ہم کنار ہوسکے۔ معلوم ہوا کہ قائد کی بڑی اہمیت ہے۔ جیساکہ قائد اعظم نبی کریم ؐ کا فرمان ہے جس کا مفہوم ہے کہ’امیرکی اطاعت کرواگرچہ وہ کالاحبشی ہی کیوںنہ ہو۔
قائد کے اوصاف
جس طرح سونا اپنی خوبیوںکی وجہ سے کھراقرارپاتاہے، اسی طرح قائداپنے اوصاف کی وجہ سے ایک کامیاب قائدو رہنما تسلیم کیا جاتا ہے۔ قائدورہنما کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ایمان مضبوط ہو،وہ حسن اخلاق سے متصف ہو،حق گواورانصاف پسندہو،دوررس، امانت دارہو،قوم کا ہمدرد وغم گسارہواوردین کی حفاظت،دنیاکانظم، مظلوموںکوانصاف دلانا اورظالموںکوظلم سے روکنا جیسے واجبات کا پابند ہو۔تاکہ سلطنت کی ترقی ہو ، لوگوںکوامن واطمینان حاصل ہو اورفساد کا خاتمہ ہو۔ علامہ اقبال نے ان اوصاف کواس شعرمیںیکجاکرنے کی کوشش کی ہے:
نگہہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
حضورپرنورسرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بہ حیثیت قائدآپ کی امارت وحکومت، سیادت و قیادت ،دلیری وشجاعت اورکمال علم وعمل کی مکمل تصویر تھی۔اسی طرح وہ جہدو مشقت،صبروقناعت اورزہدوعبادت کابھی اعلی نمونہ تھی۔ آپؐ نے اپنی قائدانہ بصیرت سے اختلاف وانتشار،قتل وغارت گری ، بدکاری و بداخلاقی سے معمورفضاکوپاک کیا۔ امن واطمینان، اخوت اوربھائی چارہ اورانسانیت کادرس دے کرانسانیت کوایمان وحقائق کی روشنی سے منور کیا۔
آپ ؐ نے انسان کو اس کی حیثیت بتائی کہ اس کا سر،جن دیوی دیوتاؤں کے سامنے سجدہ ریز ہے ان سے ہزارگنابہترخوداس کی ذات ہے، جسے رب العالمین نے پیداکیاہے۔ لہٰذا عبادت خالق کائنات ہی کی ہونی چاہیے، نہ کہ کسی غیر کی یا خودتراشیدہ بتوںکی۔
            آپ ؐ نے اپنی قوم کے اندر پھیلے ہوے غروروتکبراور حسب ونسب پر فخر کو ختم کیا۔ آپ نے ان کے سامنے وضاحت فرمائی کہ ’تمام انسان آدم کی اولادہیں اور آدم مٹی سے پیداکیے گئے۔ اے لوگو!بلاشبہ تمھارا رب ایک ہے اور تمھارا باپ بھی ایک ہے، جان لوکہ کسی کو کسی پرکوئی فضیلت اور برتری حاصل نہیںہے۔ سواے تقویٰ کے۔‘بہ حیثیت قائدورہنماآپ ؐکی پوری زندگی ظلم و ناانصافی کے خلاف برسرپیکار رہی۔
آپؐ مظلوم، بے کس اورلاچارکی حمایت کرتے تھے۔آپؐ نے لوگوںکو ظلم سے روک کر اور مظلوموں کو انصاف دلاکر ظالم اورمظلوم دونوںکی مددکی۔ اس طرح آپ نے ظلم وفساد کا سدباب کرکے انسانوں کو جینے کاسلیقہ عطاکیا۔
ایک قائد کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ مفتوحہ ممالک سے انتقام کے بجائے اسے سدھرنے اورسنبھلنے کا موقع دے۔ چنانچہ آپؐ نے فتح مکہ کے وقت انتقاماقتل عام نہیں کروایا،  بل کہ)لاتثریب علیکم الیوم ۔اذھبواوانتم الطلقائ(کی بشارت دی اور عفوو  درگزر کا اعلان عام کرکے ایساکارنامہ انجام دیا جسے تاریخ انسانی کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔
زمانہ جاہلیت کے رسم کے مطابق زندہ درگورکی جانے والی بچیوں کوزندہ رہنے کا قدرتی حق دلوایا اور اس کی پرورش وپرداخت کو لائق تحسین قراردیا اورایسا کرنے والے کو جنت کا حقدار ٹھہرایا ۔
میدان جنگ میں آپؐ نے ہمیشہ بہادری اوردلیری کامظاہرہ کیا۔آپ کا بارعب چہرۂ مبارک کبھی دشمنوںسے مرعوب نہیںہوا۔ایک موقعے پر آپؐ نے فرمایا:’انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب میں نبی ہوں، اس میں ذرابھی جھوٹ نہیں،میں عبدالمطلب کا بیٹا (پوتا) ہو یہ درس تھااستقامت وبہادری کا، جوقائد کا بہتر ین وصف مانا جاتاہے۔
مشاورت ایک کامیاب قائد کا وصف خاص ہے ۔آپ نے اس کے تصور کوعام کیا۔ چنانچہ جب بھی کبھی کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا فوراً آپ ذی صلاحیت اورتجربہ کارصحابہ کرامؓ کو اکٹھا کرتے اوران کے مشورے سے اس کا حل نکالتے ۔جب کہ آپ نبی اوررسول کی حیثیت سے بذات خود اقدام کرسکتے تھے۔مگرآپ ؐ نے اجتماعیت میںمشاورت کی اہمیت کوباقی رکھنے کے لیے یہ طریقہ عام کیا۔
آپؐ کی قائدانہ زندگی انسانیت کی تعمیر کے لیے وقف تھی ۔نفاذ قانون میںآپ ؐنے یکسانی برتی ۔دنیامیںکوئی ایسا نمونہ نظرنہیں آتا، جس نے مساوات اوربرابری کواس خوبی سے نافذ کیا ہو۔ دنیاکے ہر سماج میں کچھ لوگ قانون سے بالا ترہوکرجوجی میں آئے کرلیتے ہیں۔یہ روش انصاف کے سراسرخلاف اور سبب فسادہے۔ آپؐ نے اسلام کا ایسا قانون نافذکیاجس میںعرب وعجم ،امیر و غریب ،بڑے چھوٹے ،گورے کالے سب قانون کے سامنے برابر اور یکساں دِکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے ایک مجرمہ کے سلسلے میں حضرت اسامہ بن زیدؓ کی سفارش پر ارشاد فرمایا تھا کہ ’بخدااس کی جگہ فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تومیںاس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا‘۔
بہ حیثیت قائد آپ نے یہ تصوربھی عام کیاکہ رعیت کوحق ہے کہ وہ قائد کے ہراس کا م پر بازپرس کرے جوغیرضروری ہے۔آپ ؐ نے فرمایا:’ بہترین اسلام بیکارو غیرمناسب کام ترک کرناہے۔‘اسی طرح اگرکسی مزدورنے اپنا کام مکمل کیا ہے توفوراًاس کا حق دیاجائے۔آپ نے فرمان جاری کیا’مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل ہی اس کی مزدوری دے دی جائے۔   رعیت کے ساتھ حسن ظن اور حسن معاملہ سے پیش آیاجائے، اورغیراخلاقی رویہ اختیارنہ کیا جائے۔ نبیؐ کا فرمان ہے:
جوشخص چھوٹوں پہ شفقت اوربڑوں کا  ادب واحترام نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (ابوداؤد(
کوئی قائد جب کسی کوکسی معاملے کا والی بنائے توقرابت یاآپسی محبت کی بنیاد پر نہیں بل کہ اس کی اہلیت کی بنیادپر۔ آپ کے چچا عباسؓ نے کسی معاملے کی ذمہ داری طلب کی توفرمایا’ : اے میرے چچا! یہ ذمہ داری کسی کومطالبہ پرنہیں سونپی جاتی
اسی بناپر عمرؓ نے فرمایا’ : جس نے قرابت یاآپسی محبت کی بنیاد پر کسی کوولی یاامیربنایااس نے اللہ اوراس کے رسول کے ساتھ خیانت کی۔
قائد کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ ان تمام چھوٹی چھوٹی باتوںپر نظررکھے جن کے سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ چنانچہ آپٖ نے بازارکا معائنہ کیا اور ناپ تول میں کمی کوناپسند کیا۔آپ ؐ نے اشیاے فروخت کی خوبی وخامی واضح کرنے کا حکم صادرکیا۔عام طورپر ہونے والے فساد زبان سے سرزدہوتے ہیں، اس لیے آپ نے گفتگوکے آداب سکھلائے اورحق گوئی کوایمان کا وصف قراردیا۔ جب کہ جھوٹ ،غیبت ،چغلی اورٹوہ میں لگے رہنے کو شیطانی عمل قراردیا۔صبروتحمل اورقناعت کو اپنایا اورفرمایاکہصبرمشکلات کوختم کردیتا ہے اورصبرکرنے والوں کے ساتھ اللہ ہوتا ہے۔  ‘‘یہ پاک اِرشاد عام لوگوں کودنیامیں مشکلات سے لڑنے کا حوصلہ دیتا ہے۔
قائد کے لیے ضروری ہے کہ وہ افرادسازی کا فریضہ انجام دے۔ تاکہ قوم کی مختلف ضرورتوں کے لیے مختلف ذی استعداداورباصلاحیت افراد تیارہوں،جو آنے والے دنوںمیں قیادت کے فرائض انجام دے سکیں۔ آپ ؐنے فرمایا: انسان سونے چاندی کی کان کے مانند ہیں۔ علم وصلاحیت ایک نعمت ہے لہذا اس کا صحیح استعمال ضروری ہے،  جس کے بارے میں قیامت کے دن صاحب علم وبصیرت افرادسے بازپرس ہوگی۔
آپ ؐ ہمیشہ اپنی امت کے لیے فکرمندرہتے تھے اور اپنی ضرورتوں پران کی ضرورتوں کو ترجیح دیتے تھے۔ حتی کہ آپؐ نے بعض مواقع پربھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھا جسے دیکھ کرصحابۂ کرام اشکبارہوجاتے تھے۔پرعزم ،باہمت قائد کبھی مشکل حالات سے نہیں گھبراتے۔ چنانچہ آپؐ کو طائف میں نادانوں نے لہولہان کیا اور قوم کے لوگوں نے آپ کا بائیکاٹ کرتے ہوئے شعب ابی طالب میں آپ کواورآپ کے خاندان کو نظربندکردیا،مگرآپ اپنے موقف پرجمے رہے اورآپ کے پایۂ استقلال میں جنبش تک نہیں آئی ۔ یہ ایک قائد کی تڑپ تھی کہ آپ ہمیشہ اپنی امت کی فلاح ونجات کے لیے دست بہ دعارہتے تھے اوربارگاہ الہیٰ میں ’’امتی امتی‘‘ کی صد الگاتے تھے۔
آپؐ نے یہ بھی احساس عام کیا کہ ہرشخص کسی نہ کسی حیثیت سے قائدو رہنما ہے۔  اسے اپنے ماتحتوں کا خیال رکھنا چاہیے ۔  روز قیامت جب کوئی کسی کا نہ ہوگااس سے ان کے بارے میں بازپرس کی جائے گی ۔آپ ؐنے اپنے آخری حج میں صحابہ ؓ کو مخاطب کرکے ارشادفرمایا: ’ کیامیں نے تم لوگوں تک خداکا پیغام (دستور حیات)پوراپورا پہنچایا دیا ہے‘؟صحابہ نے جواب دیا:ہاں۔
یہ سیرت طیبہ کی محض ایک جھلک ہے ۔طوالت کے خوف سے تفصیل سے گریز کیاگیا۔ سیرت النبی  میں آپ کے عملی کردار کے بے شمارواقعے ایسے ہیں، جن میں کامیاب قائداپنے اوصاف، اپنے کرداراورفرائض تلاش کرسکتاہے۔ اگر قائدین امت اوررہنمایانِ ملت نے ان اوصاف کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے قوم وملت کی باگ ڈورسنبھالی توپھرخداکی مددونصرت شامل حال ہوگی اورانھیں ان کے اہداف اورنصب العین کے حصول سے کوئی روک نہیں سکتا۔ 
٭٭٭





No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...