Tuesday 8 January 2013

Bimar Muashra aur Islami Talimat


بيمارمعاشرہ اور اسلامی تعلیمات کی ضرورت

 محب اللہ قاسمی 

       مریض کو دوا کا خوف دلاکر اسے بغیرعلاج مارنا ، اس کے ساتھ ہمدردی نہیں بلکہ دشمنی ہے۔جس طرح مرض کی شناخت ہوجانے کے بعد اس سے بچنے کے لیے لوگوںکو آگاہ کرنا اوراس سے پوری طرح دوررہنے کی تاکید کرنا معاشرے کو صحت مند بنانے کے لیے ضروری ہے ٹھیک اسی طرح انسانیت کے ضامن حیات نظام- اسلام - سے انسانوںکو ڈراکراس سے دور رکھنے کی کوشش سے انسانیت کی حفاظت نہیں بلکہ اس کی بربادی ہوگی۔

        موجودہ دورکے ماحول اورحالات نے آج پوری انسانیت کوایسا مریض بنادیاہے جس کے مرض کی شناخت کرنے اوراس کا  علاج بتانے سے گریز کیا جارہا ہے ،اس کواسلام اوراسلامی تعلیمات سے دوررکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔جب کہ معاشرے کے موجودہ مسائل اورانسان کے تمام فکری وعملی اوراخلاقی بیماریوںکا علاج صرف اورصرف اسلام کے پاس ہے۔ہم اپنے ملک عزیز ہندوستان کا جائزہ لیں تویہاں بھی بہت سی بیماریاں عام ہوگئیں ہیں جن سے بچنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں مگران کا مکمل علاج نہ ہونے کے سبب وہ بیماریاں دن پر دن بڑھتی جارہی ہیں۔مثلاً آج دنیا بھرمیں ایڈزجیسی خطرناک بیماری نے اپنی جگہ بنالی ہے اور ہماراملک بھی اس کی زد میں ہے۔اس بیماری کے اسباب ومحرکات تلاش کرلیے گئے ہیں اور بیماری سے نمٹنے کے لیے مختلف طریقے بھی اختیارکیے جارہے ہیں مگر کوئی یہ کہنے کوتیارنہیں ہے کہ ناجائزتعلقات ہی اس خوفناک بیماری کی اصل وجہ ہے۔ خرابی کی ایک بڑی وجہ عریانیت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین برانگیختہ کرنے والے نیم برہنہ لباس میں مردوں کے دوش بدوش مخلوط پارٹیوں میں نظرآتی ہیں۔ یہ صورت حال نفسیاتی طورپر بہت سی بُرائیوں کو دعوت دیتی ہے جس کانتیجہ یہ نکلتاہے کہ ناگہانی کیفیت اور بدسلوکی کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔کبھی کبھی بات اس سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ پھر ہم واویلامچاتے پھرتے ہیں، جب کہ خودکردہ را علاج نیست۔  
     
        وطن عزیز کا باشندہ ہونے کے ناطے ہمارے لیے یہ انتہائی شرم کی بات ہے کہ یہاں خواتین کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے۔ جب کہ عورتوںکوسیتااورلکشمی کے روپ میں دیوی کا درجہ دیاجاتاہے۔اس معاملے میں اب ہماری راجدھانی (دہلی) بھی شرمسار ہے، جہاں سے قانون کومنظوری حاصل ہوتی ہے اوراسے پورے ہندوستان میں نافذ کیا جاتا ہے۔ اگرچہ طالبہ کے ساتھ زیادتی کا واقعہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی ایسے بہت سے واقعات فسادات کے دوران ہوتے رہے ہیں ان میں عورتوںکی عزت تارتارکی جاتی رہی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے صرف چند ہی جنسی جرائم میڈیاکے ذریعے نمایاںہوتے ہیںاوربہت سے معاملات کومتأثرہ خاتون پر دباؤبناکر پس پردہ ہی ختم کردیاجاتاہے ۔        

        یہ بات لائق تحسین ہے کہ اس شرمناک اوروحشیانہ واقعے کے خلاف عوام سڑکوںسے لے کر ایوان تک نہ صرف آواز بلندکررہے ہیں بلکہ ان مجرمین کے لیے پھانسی تک کی سزاکا مطالبہ کررہے ہیں اور سخت ترین قانون سازی کی بات بھی کی جارہی ہے۔  یہ چیز قابل غور ہے کہ بعض مسلم ممالک میں اسلامی شریعت کے مطابق جب بدکاروں،چوروں ،شرابیوںاور بھیانک جرائم میں ملوث افرادکو سزادی جاتی ہے تو مغربی ممالک سمیت ہندوستان میں بھی ان سزائوںکو اہانت آمیز،رسواکن اورظالمانہ قانون قراردے کر ہنگامامچایاجاتاہے،جب کہ یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ جہاں جہاں ان جرائم کے لئے سخت سزائیں دی جاتی ہیں وہاں ان کی شرح دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

انسداد جرائم کی تدابیر
       آج حکومت کے ذمہ داروں کوبھی کچھ سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ وہ ایسے جرائم کے انسدادکے لیے کیا کریں۔تمام دانش وراورارباب حل وعقدان جرائم کاحل اسلامی تعلیمات سے ہٹ کر تلاش کرتے ہیں۔ جرائم زدہ علاقوںکا تعین ،ان کی چوکسی، بسوں میںسی سی ٹی وی کیمرے اورلائٹ جلائے رکھنے کی تاکیداور اس فعل بدمیں ملوث افراد کواذیت ناک سزاکی بات کہی جارہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ ایسے وحشیانہ اور شرمناک فعل کو  انجام دینے والے مجرمین کو سخت ترین سزادی جانی چاہیے ۔مگرحل کے طورپرصرف یہی باتیں کافی نہیںہیں۔ شراب نہ پینے کی ہدایت کردینا یا بورڈ لگاد ینا کافی نہیں ہے۔ کیا بسوںمیں سی سی ٹی وی کیمرے لگادینے سے انسان کا ضمیراوراس کا کردار درست ہوسکتا ہے؟ ہرگزنہیں؟ اس لیے تمام دانش وران اورارباب حل و عقد کوچاہئے کہ سنجیدگی کے ساتھ اسلام  کے عائلی نظام، اخلاقی تعلیمات  اورتعزیراتی قوانین کابھی مطالعہ کریں،پھرانھیں عملی جامہ پہنائیں۔ کیوںکہ یہ محض نظریاتی چیزیں نہیں ہیں بلکہ آزمودہ ہیں۔

اسلام کی اخلاقی تعلیمات
       اسلام انسانوںکومعاشرتی زندگی تباہ وبربادکرنے والی چیزوںمثلاً ظلم وزیادتی ،قتل و غارت گری، بدکاری و بداخلاقی،چوری وزناکاری وغیرہ سے بازرہنے کی تلقین کرتاہے اورانھیں اپنے مالک اورپیداکرنے والے کا خوف دلاکر ان کے دل کی کجی کودرست کرتاہے۔آج معاشرے میں لوٹ کھسوٹ، رشوت، بددیانتی، جھوٹ،فریب اور جعل سازی وغیرہ کی جو بیماریاں عام ہوگئی ہیں،صرف اسلامی تعلیمات ہی میں ان تمام مسائل کا حل موجودہے۔جس طرح ہمیں اپنی بہوبیٹیوں کی عزت پیاری ہے اسی طرح دوسروںکی عزت وناموس کاخیال رکھنابھی ہماری ذمہ داری ہے۔ آزادی کے نام پر جس طرح خواتین کھلونے کی مانند استعمال کی جارہی ہیں اور گھراورحجاب کو قیدسمجھنے والی خواتین کس آسانی کے ساتھ ظلم وزیادتی کا شکار ہورہی ہیں، یہ کسی پر مخفی نہیں ہے۔اس لیے اسلام نے خواتین کوایسی آزادی نہیں دی ہے جس سے وہ غیرمحفوظ ہوںاورنیم برہنہ لباس پہن کر لوگوں کے لیے سامان تفریح یا ان کی نظربدکا شکار ہوجائیں ۔ 

خواتین کے لیے اسلامی ہدایات
       اسلام نے خواتین کو علیحدہ طوربہت سی باتوںکا حکم دیا ہے اوربہت سی چیزوںسے روکاہے۔مثلاً انھیں اپنے  بناؤ سنگارکو دکھانے کے بجائے اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اورپردہ کرنے کولازم قراردیا :
 وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَی جُیُوبِہِنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُن (النور:۳۱(

اور اے نبی ﷺ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوںکی حفاظ کریں، اوراپنا بناؤ سنگھارنہ دکھائیں بجزاس کے جوخود ظاہر ہوجائے، اوراپنے سینوںپر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں (النور:۳۱(
دوسری جگہ اللہ تعالی کافرمان ہے:
یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاء  الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْْہِنَّ مِن جَلَابِیْبِہِنَّ ذَلِکَ أَدْنَی أَن یُعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْْنَ وَکَانَ اللَّہُ غَفُوراً رَّحِیْماً )سورۃ احزاب 59:)
’’اے نبی ﷺ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اوراہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلولٹکالیاکریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ اللہ تعالی غفور و رحیم ہے۔‘‘ (سورۃ احزاب:۵۹(
اسی طرح غیرضروری طور پر بازاروںمیں پھرنے کے بجائے گھروںمیں محفوظ طریقے سے رہنے اور عبادت کرنے کا حکم دیا:
 وَقَرْنَ فِیْ بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْأُولَی وَأَقِمْنَ الصَّلَاۃَ وَآتِیْنَ الزَّکَاۃَ وَأَطِعْنَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ إِنَّمَا یُرِیْدُ اللَّہُ لِیُذْہِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرا۔ 
’’اپنے گھروں میں ٹک کررہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔  نماز قائم کرو، زکوۃ دو، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو۔ اللہ تو یہ چاہتاہے کہ تم اہل بیت نبی ﷺ سے گندگی کودورکرے اورتمھیں پوری طرح پاک کردے۔‘‘ (سورۃ احزاب:۳۳(
اس کے علاوہ خواتین کا ہروہ طرز عمل جو اجنبی مردوںکو ان کی طرف مائل کرے ،یا ان کی جنسی خواہشات کو بھڑکائے ،اسے حرام قراردیاگیاہے۔آپ ؐنے ارشادفرمایا:
ایما امرأۃ استعطرت فمرت علی قوم لیجدوا ریحہا فہی زانیۃ’’


ہر وہ خاتون جو خوشبو لگا کر کسی قوم کے پاس سے گزرے کہ وہ اس کی خوشبولے تو ایسی خاتون بدکار ہے۔ ‘‘(النسائی(
رسول اللہ  ﷺنے ایسی خواتین پر سخت ناراضی کا اظہارکرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
صنفان من اہل النار لم ارہما: نساء کاسیات عاریات، مائلات ممیلات، رؤوسہن کأسنمۃ البخت المائلۃ، لا یدخلن الجنۃ ولا یجدن ریحہا  (مسلم(
 ’’دوطرح کے انسان ایسے ہیں جن کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا:ان میں وہ عورتیں ہیں جو لباس پہنے ہوئے بھی ننگی ہیں، لوگوں کی طرف مائل ہونے والی اوراپنی طرف مائل کرنے والی ہیں،ان کے سرکھلے ہونے کی وجہ سے بختی اونٹنیوںکی کہان کی طرح ہے، وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکیںگی اورنہ ہی اس کی خوشبو پاسکیں گی۔‘‘ (مسلم(
       علامہ شیخ عبدالعزیز بن بازؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں:
’’یہ تبرج اورسفور اختیارکرنے والی عورتوںکے لیے سخت قسم کی وعیدہے: باریک اور تنگ لباس زیب تن کرنے اور پاکدامنی سے منہ موڑنے والی اور لوگوںکو فحش کاری کی طرف مائل کرنے والی عورتوںکے لیے ۔‘‘

مردوں کوتنبیہ

       اسی طرح مردوںکوبھی تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ اپنی شرم گاہوںکی حفاظت کریں۔ غیرمحرم (جن سے نکاح ہوسکتاہے)  عورتوں کو ٹکٹکی باندھ کر نہ دیکھیں،اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اورزنا کے محرکات سے بچیںچہ جائے کہ زناجیسے بدترین عمل کا شکارہوں۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لاتقربوا الزنا انہ کان فاحشۃ، وساء سبیلا۔

’’زنا کے قریب مت پھٹکو وہ بہت برافعل (کھلی بے حیائی )ہے۔اور براہی بڑا راستہ ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل :۳۲ (
   موجودہ دورمیں بوائے فرنڈاور گرل فرینڈکا رجحان عام ہوگیا ہے ،اسلام اس رشتے کو نہ صرف غلط قراردیتاہے بلکہ اجنبی خواتین سے میل جول،غیرضروری گفتگو،اوراختلاط سے بھی بچنے کی تاکید کرتا ہے،کیوںکہ یہ وہ محرکات ہیں جو انسان کو بدکاری اورفحاشی تک پہنچادیتے ہیں۔نبی رحمت نے اپنی امت کو اس سے روکا ہے:
ایاکم والدخول علی النساء عورتوں(غیرمحرم)کے پاس جانے سے بچو۔ (بخاری(

       اگرکوئی ناگزیرضرورت ہو یاکسی اجنبی عورت سے کچھ دریافت کرنا ہوتو پردے کے ذریعے ہی ممکن ہے ،قرآن کہتاہے:
اگر تمہیں کچھ مانگنا ہوتوپردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اوران کے دلوںکی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ (احزاب: ۵۳(
انسان کی تخلیق جس ساخت پر ہوئی ہے اس میں جنسی خواہش بھی رکھی گئی ہے جس کی تکمیل کے لیے اورعدم اسطاعت پر کنٹرول کے لیے جائزطریقہ (نکاح ،شادی روزہ وغیرہ) بتایا ۔نبی کریم ﷺ کا ارشادہے:
یا معشرالشباب من استطاع الباء ۃ فلیتزوج فانہ اغض للبصر واحصن للفرج ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم فانہ لہ وجاء (بخاری(
’’اے نوجوانوںکی جماعت تم میں سے جو شخص نکاح کی قدرت رکھتا ہو اسے شادی کرلینی چاہئے اور(یہ طریقہ) نگاہوںکو نیچی رکھنے اورشرم گاہ کومحفوظ رکھنے کے لیے بہترہے اورجوشخص اس کی سکت نہ رکھتاہو اس کو روزہ رکھنا چاہیے اس لیے کہ یہ اس کی جنسی خواہش کو کچلنے کے لیے بہترہے۔‘‘ (بخاری(
معلوم ہوا کہ جس جوان شخص میں نکاح کی صلاحیت ہے اوروہ بیوی کے حقوق کی ادائی اور اس کے اخرجات برداشت کرسکتاہے اسے بلاتاخیرشادی کرلینی چاہیے۔ لیکن کسی وجہ سے شادی میں تاخیر ہوتواسے اپنی جنسی خواہش کو قابو میںرکھنے کے لیے روزہ رکھنا چاہیے۔ ایسے مومنوں کی تعریف کرتے ہوئے قرآن کہتاہے:
وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ (مؤمنون:5(
’’ )وہ مؤمنین کامیاب ہیں) جو لوگ اپنی شرم گاہوںکی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘ (مؤمنون:۵ (
دوسری جگہ ارشادربانی ہے:
ولیستعفف الذین لایجدون نکاحاً حتی یغنیہم اللہ من فضلہ 
’’جولوگ نکاح کا موقع نہ پائیں انھیں چاہیے کہ عفت مآبی اختیار کریں۔‘‘ (النور: ۳۳(
تعزیری قانوناس کے باوجود اگرکوئی شخص ڈھٹائی کرتے ہوئے خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور زیادتی کا جرم انجام دے توایسی صورت میں گویا اس نے معاشرے کوگندہ اورنسل انسانی کو تباہ وبربادکرنے کی کوشش کی ہے ۔اس لیے اس  کے مرتکب شخص کے لیے اسلام عبرتناک سزاکاحکم دیتاہے:
الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِئَۃَ جَلْدَۃٍ وَلَا تَأْخُذْکُم بِہِمَا رَأْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللَّہِ إِن کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْن
زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالی اورروز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ اور ان کو سزادیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجو در ہے۔‘‘ (النور:۲ (
        مذکورہ سزااس شخص کے لیے ہے جو غیرشادی شدہ ہو اوراس کارفحش کوانجام دے، رہا شادی شدہ زانی تواس کی سزا رجم (سرِ عام پتھر مار کر ہلاک کرنا) ہے۔
معاشرے پربدکاری کے اثرات
       بدکاری کے بدترین اثرات اوراس کی قباحت بیان کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:
اذا ظہرالزنا والربا فی قریۃ  فقد احلو بانفسہم عذاب اللہ (شعب الایمان للبیہقی(
’’جس بستی میں بدکاری اورسودخوری عام ہوجائے گی اس میں اللہ کا عذاب آنا لازمی ہے۔‘‘
ایک جگہ اورارشادہے:
لم تظہرالفاحشۃ فی قوم حتی یعلنوا بہا الا فشا فیہم الطاعون والاوجاع التی لم تکن مضت فی اسلافہم الذین مضوا )ابن ماجۃ(
)’’جس قوم میں علانیہ فحش کاری کا بازارگرم ہوجائے اس میں طاعون اورایسی بیماریاں عام ہوجائیں گی  جو اس سے پہلے کبھی نہیں تھیں۔(ابن ماجۃ(‘‘
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ(ﷺ) نے مسلمانوں کو اس فحش کاری سے ڈراتے ہوئے دنیا وآخرت کے انجام بد سے آگاہ کیا۔آپؐ کا ارشادہے:
یا معشرالمسلمین ایاکم والزنا فان فیہ ست خصال ثلاث فی الدنیا ثلاث فی الآخرۃ، فاما التی فی الدنیا فذہاب البہائ، ودوام الفقر، وقصرالعمر، واما التی فی الآخرۃ: سخط اللہ، وسوء الحساب، ودخول النار۔
       اے مسلمانوں کی جماعت زنا سے بچوں، اس لیے کہ اس(کے نتیجے) میں چھ خصائل ملتی ہیں تین دنیا میں اورتین آخرت میں، رہے تین دنیاوی پریشانیاں: چہرے کی رونق ختم ہونا، مسلسل فقر، عمر کی تنگی اور تین آخرت میں: اللہ تعالی کی ناراضگی، بدترین مواخذہ اور جہنم کا داخلہ۔
 (شعب الایمان للبیہقی،ذم الہوی لابن جوزی(
جب معاشرے میں بدکاری عام ہوگی تو پھر پاک دامن خاتون کا تلاش کرنا آسان نہ ہوگا اورنہ ہی پاکباز مرد ملیں گے۔بدکاری کے اثر کا بین ثبوت ہمیں قرآن کریم سے ملتاہے جس نے ایسے بدترین انسان کے لیے اس کے ذوق کے مطابق فیصلہ سنایاہے:
الزَّانِیْ لَا یَنکِحُ إلَّا زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً وَالزَّانِیَۃُ لَا یَنکِحُہَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذَلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ (النور:۳(
’’زانی نکاح نہ کرے مگرزانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ۔ اورزانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگرزانی یا مشرک۔ اورحرام کردیاگیا ہے اہل ایمان پر ‘‘
     (النور:۳)مذکورہ اخلاقی تعلیمات اور تعزیراتی قوانین کے پیش نظر اتنا توواضح ہے کہ اسلام میں بدکاری کا تصور ہی محال ہے چہ جائے کہ کوئی اسلام کو مانتاہو اوراس فعل  قبیح کو انجام دے ، اس سے نہ صرف وہ شخص بدنام یا نامراد ہوتاہے جو اس میں ملوث ہے بلکہ معاشرے پر بھی اس کا بہت برااثرپڑتاہے حتی کہ اس فحاشی وزناکاری کے عام ہونے کے سبب معاشرہ قحط، رزق کی تنگی اورنت نئی بیماریوںکا شکار ہوجاتا ہے جس کا مشاہدہ ہم آج کرسکتے ہیں۔
اسلامی قوانین معقولیت پرمبنی ہیں
قرآن کا اعلان ہے :
ولکم فی القصاص حیاۃ  
تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے:(بقرۃ:179)
   قصاص بدلے کو کہاجاتا ہے ،جیسے کسی انسان نے کسی دوسرے انسان کو قتل کیاتو اس کے بدلے اس کو قتل کیاجائے گا۔ بظاہر اس میں ایک جان کا مزیداتلاف ہے مگرقرآن کہتاہے کہ اس میں زندگی ہے۔وہ اس طورپر ہے کہ دوسرے لوگ قتل جیسے سنگین جرم سے بچ جائیں گے۔اس معنی میں یہ آیت تعزیرات کے لیے بہت ہی معنی خیزہے۔کیوںکہ مجرم کو سزادینا مجرم پرظلم کرنا نہیں بلکہ جرائم کی روک تھام جو عین انصاف ہے کیونکہ جب اس نے کسی انسان کی جان ومال اور اس کی عزت وآبروکا احترام نہیں کیاتوگویاوہ یہ اعلان کررہاہے کہ اس کے ساتھ بھی احترام نہ کیاجائے بلکہ اسے سزادی جائے۔رہی بات تعزیرات اورسزاؤں کے رسواکن ہونے کی تو یہ واضح رہے کہ تعزیرات کسی اعزازمیں دی جانے والی چیز نہیں ہے، حساس لوگوںکے لیے سزارسواکن ہی ہوتی ہے۔ اسی لیے جرم کے مطابق ہی سزاکے درجات متعین کئے جاتے ہیں۔مثلا بہت سے مریض ایسے ہوتے ہیںجن کا معمولی مرض ہوتا ہے۔ان کا علاج بغیر آپریشن کے ہوسکتاہے جب کہ بعض مریض ان کا علاج عمل جراحت کے بغیرممکن نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر جسم کا کوئی عضو خراب ہوگیاہو اوراس کے جسم میںباقی رہنے سے دوسرے اعضا کے بھی متاثرہونے کا خطرہ ہوتودوسرے اعضاکو محفوظ رکھنے کی خاطراس عضو کوکاٹ کر الگ کردینا ہی بہتر ہوتا ہے۔اسی میں معقولیت اور معاشرے کی زندگی ہے۔    اسلام جرائم کو بالکل جڑسے اکھاڑنا پھینکنا چاہتاہے۔ اس لیے وہ انسانوں کو زیور اخلاق وکردارسے آراستہ دیکھنا چاہتا ہے۔ کاش دنیا والے انسانوں کو اسلامی تعلیمات سے ڈرانے کے بجائے اس کی تعلیمات کوسماج میں نافذکرنے کے لیے کوشاں ہوتے ۔اگروہ ایسا کرتے توان کی زندگی سکون واطمینان سے گزرتی اورہمارا معاشرہ صحت مندہوکر امن وامان کا گہوارہ ہوتا۔ll

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...