Monday 7 January 2013


یکساں پیمانہ كمال ایمان کے لئےضروری
 محب اللہ قاسمی
mohibbullah.qasmi@gmail.com
موجودہ دورمیں اگرہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں ایک چیزنمایاں طور پر نظرآتی ہے۔ وہ یہ کہ لوگوں نے دوپیمانے بنار کھے ہیں۔ایک پیمانہ اپنے لیے اوردوسرا پیمانہ دوسروں کے لیے۔ وہ اپنے لیے بہتری کی خواہش رکھتے ہیں اوردوسروں کے لیے برا چاہتے ہیں۔ اپنے لیے تو یہ پسند کرتے ہیںکہ دوسرے لوگ ان کے ساتھ اچھا برتاؤکریں،لیکن وہ خود دوسروں کے ساتھ حسن سلوک نہیں کرتے۔وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ ان کا خوب خیال رکھیں لیکن وہ خوددوسرے لوگوںکا ذرہ برابربھی خیال نہیں رکھتے اوران کے ساتھ رواداری اورخندہ پیشانی کے ساتھ بالکل پیش نہیں آتے۔یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں لوٹ کھسوٹ، رشوت، بددیانتی، جھوٹ ، فریب اور جعل سازی وغیرہ کی اخلاقی بیماریاں عام ہیں۔ اسلام نے ایک صالح اور پرامن معاشرے کے لیے یکساں رویے کو ضروری قراردیاہے اوراسے ایمان کا نمایاںوصف قراردیاہے۔رسول اللہ ﷺکا ارشادہے:
 ‘‘تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن(کامل) نہیں ہوسکتا جب تک وہ دوسروںکے لیے بھی وہی چیز نہ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتاہے۔ ’’ (متفق علیہ(

آج مسلم معاشرہ کایہی حال ہوگیاہے۔مسلمان خودتوچاہتے ہیں کہ انھیں کسی طرح کا نقصان یاگزندنہ پہنچے مگروہ دوسروں کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑتے۔جب ہم اپنے لیے نقصان برداشت نہیں کرسکتے تو پھرہمیں دوسروں کے نقصان بھی خواہش نہیں کرنی چاہیے۔ ایک مثل مشہورہے کہ جو دوسروں کے لیے گڈھا کھودتاہے وہ خودگڈھے میں گرتاہے۔ چوںکہ آج ہمارا معاشرہ اس گندی حرکت کا شکارہے لہذا سب کچھ ہوتے ہوئے بھی وہ پریشانیوںاورمصیبتوںکا شکار ہے۔ لوگ ایک دوسرے کی شکایت اوربرائیاں بیان کرتے ہیں،ہرکس وناکس کو برا بھلا کہہ دیتے ہیں ،دوسروںکی عزت وناموس کا بالکل خیال نہیں رکھتے اوران کی کمزوریاںمزے لے لے کر بیان کرتے ہیں جب کہ وہی لوگ اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ دوسرے لوگ ان کی برائیاں بیان کریں۔شیخ سعدی نے ایسے موقع کے لیے بڑے پتے کی بات کہی ہے:
’’
جو شخص تمہارے سامنے کسی کی برائی کررہاہوتا ہے ،وہ یقینا کسی اورکے سامنے تمہاری بھی برائی کرے گا۔‘‘

تین چیزیں معاشرے کی بہتری اورافرادکوزیوراخلاق سے آراستہ کرنے سے یا یوںکہیں کہ حقوق العبادسے متعلق ہیں ۔غریبوں کوکھانا کھلایاجائے، ان کی ضرورتوںکا لحاظ رکھاجائے،ان کی مزاج پرسی کی جائے۔سلام کوعام کیاجائے اورصلہ رحمی کا رواج ہو، اس لیے کہ اس سے امت آپس میں گھل مل کر رہے گی اورمضبوط بنیاد کی طرح ہوگی۔چوتھی بات یہ کہی گئی کہ رات کے آخری حصے میں نماز ( تہجد) کا اہتمام کرو ، تاکہ اللہ سے قربت اورلگاؤ میں اضافہ ہو، ساتھ ہی دیگرامور(عبادات اورمعاملات) میں خلوص وللہیت پیدا ہوجائے، جس سے توکل علی اللہ کی کیفیت پیداہو۔آخر میں اس کا نتیجہ بیان کیاگیاہے کہ جب تم ایسا کروگے توجنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤگے۔ ایک مومن کا رشتہ دوسرے مومن سے بھائی چارگی پر مبنی ہوتاہے ۔ اس کے باجود مومن کا رشتہ بھی ایسا مضبوط ہونا چاہئے کہ آدمی اپنے مؤمن بھائی کی تکلیف کوخوداپنی تکلیف محسوس کرتاہے ، اس کی جان ،مال ،عزت وآبروکی حفاظت اس پر ظلم گویا خود اپنے اوپر ظلم تصورکرتاہے اور یہی ایمان کی کیفیت اوراس کا تقاضا ہے۔قرآن کہتاہے :
’’مؤمن توسب بھائی بھائی ہیں۔ ’’  (الحجرات:۱۰)

ایک مسلمان کواپنی ہی طرح دوسرے مسلمان کی حفاظت کرنی ہے اوراس کی ضرورتوں کاخیال رکھنا ہے۔اس طرزعمل میں بھی خود اس کا فائدہ ہے ،کیوںکہ اس کے بدلے میں اللہ تعالی اس کاخیال رکھے گا ۔اگروہ دوسروںکا خیال رکھے گا اوراس کی عیب جوئی کے بجائے ،پردہ پوشی کرے گا تو خدابھی اس کی پردہ دری فرمائے گا۔اگرانسان اپنے اوپراپنے مسلمان بھائی کوترجیح دینے لگے گا یا کم ازکم اپنی ہی طرح اس کی بھلائی بھی چاہے گا تو اس کے نتیجے میں اس کے اندرکی بہت سی خرابیاںاور اخلاقی گراوٹیں خودبہ خود ختم ہوجائیں گی ۔ ایسا شخص اپنے معاشرے میں چلتا پھرتاعملی نمونہ ہوگا جسے دیکھ کر لوگ بھی اپنے رویے میں تبدیلی لائیں گے جسے اصلاح امت کا کارعظیم سمجھاجائے گا۔

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...