Tuesday 5 February 2013


سکون قلب- انسان کی اہم ضرورت

اسباب وآلات کی اس کائنات میں انسانوں کی مختلف ضرویات ہیں،جن کی تکمیل کے لیے انھیں نہ معلوم کتنے مصائب و آلام کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ خاص طورسے موجودہ دور میں لوگوں نے اپنی زندگی کا ایک الگ معیارمتعین کر رکھاہے۔اسبابِ تعیش کے حصول کے مقصدنے انھیں اس قدرمصروف کردیاہے کہ ان کے پاس نہ وقت ہے اورنہ سوچنے کے لیے خالی دماغ ! اگرکچھ ہے توصرف مال ودولت کا حصول ،معیارزندگی کا خیال!جس نے انسانوںکی زندگی کو بے حال اور پرملال کردیاہے۔انھیں غم ہے توصرف اس بات کا کہ وہ دوسروںکی طرح امیرکیوں نہیں ! دھن ہے تو مال بٹورنے کا، اگر کچھ ہاتھ آگیا تو  مزید کی خواہش۔گویاانسان ہر حال میں بے حال ہے ،اس کا چین وسکون کہیں کھو گیا ہے، جولاکھ تلاش وجستجوکے باوجودبھی انھیں میسر نہیں!سب کچھ پاس ہوتے ہوئے بھی خالی ہے۔آرام آشائش کی تمام چیزوں کے باوجودبھی سکون قلب کا طلب گار ہے۔
انسان یہ بھول گیاہے کہ اگردنیا دارالاسباب ہے تو اس کائنات کا خالق مسبب الاسباب ہے۔اگرانسان یہ سمجھتاہے کہ دنیا کی تمام راحتیں ان ہی روپیوںپیسوںسے خریدی جاسکتی ہے تویہ اس کی بہت بڑی بھول ہے۔کیوںکہ ان راحتوں سکون کا مالک صرف اللہ ہے جو سوکھی روٹی کھلاکرچٹائی پربھی گہری نیندکی نعمت عطاکردیتاہے،جس سے مختلف اقسام کے کھانا کھاکرنرم گداز بستروں پرسونے والے محروم ہیں۔قلبی سکون کے حصول پر آج لاکھوںروپے صرف کئے جاتے ہیں ۔مگرعلاج نہ دارد!کوئی حل نہیں ملا۔
معلوم ہواکہ اصل راحت وسکون کہیں اورہے۔اس کے لیے تلاش کو صحیح سمت دینے کی ضرورت ہے ۔وہ صحیح سمت ہے اللہ کا ذکرجس کے متعلق اللہ  تعالی کا فرمان ہے:
الا بذکراللہ تطمئنّ القلوب (سورۃ رعد:۲۸)
خبردراہو! اللہ کی یادہی وہ چیز ہے جس سے دلوںکواطمینان نصیب ہواکرتاہے۔
اللہ نے انسانوںکی ہرطرح رہ نمائی کی ہے اوران کی جوبھی ضروریات ہوسکتی ہیں وہ تمام پیداکردی ہے ۔انسانوں کی سب سے بڑی ضرورت اطمینان قلب ہے۔اس کا حصول خدا سے تعلق کے بغیرممکن نہیں ہے ۔اگرانسان اللہ سے تعلق پیدا کرتاہے تواسے کسی ضرورت کا فکرمند نہیں ہوناچاہیے۔کیوںکہ رب العالمین سے اس کا تعلق ہے جوساری ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ اس طرح انسان یکسوہوجائے گاجواطمینان قلب کی لیے نہایت ضروری ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 فاذکرنی اذکرکم (البقرۃ:۱۵۲)’’تم مجھے یادکروںمیں تمہیں یادکروںگا۔‘‘
قرآن کی اس آیت میں اوران جیسی آیات میں جہاں ’ذکر‘کا لفظ آیاہے اس سے مراد ہے : ہروہ کام جسے اللہ نے انسانوں کے لیے ضروری قراردیاہے ، جس سے اللہ کاقرب حاصل ہو۔ ذکرزبان سے ہو جیسے اللہ تعالی کی تسبیح و تحمید اوراس کی عظمت کو بیان کرنا،یادل سے ہو،جیسے کائنات کی پھیلی ہوئی چیزوںمیں اللہ تعالی کی ذات اورصفات کے دلائل تلاش کرنا، یا پھراعضاء و جوارح سے ہو۔ جیسے اللہ کی اطاعت کرنامثلاخودکو نماز، روزہ ،حج اورزکوۃ وغیرہ عبادات کا پابند بنانا ۔
 انسان اگراللہ تعالی سے لولگائے ۔اس کی اطاعت کرے۔اس کواپنا حاجت رواں مشکل کشاسمجھے اورہرپل خداکویاد کرے،توپھر اللہ تعالیٰ اس کے مشکلات حل کرے گا اور ہرطرح سے اس کی مددفرمائے گا۔ اس طرح اللہ تعالی کی یادسے انسان مشکل حالات میں بھی قلبی سکون پاسکتاہے جو اس کے لیے بڑی کام یابی ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اذکراللہ کثیراً لعلکم تفلحون(جمعہ :۱۰)
اللہ کوکثرت سے یادکروتاکہ تم فلاح پاؤ۔
محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دلوںکوبھی زنگ لگتا ہے اوراسے بھی زنگ ایسے ہی کھاجاتا ہے جیسے لوہے کوزنگ کھاتا ہے۔دل کو بھی ایسی ہی پیاس لگتی ہے جیسے کھیتی کو پیاس لگتی ہے، وہ بھی ایسے ہی خشک ہوجاتا ہے جیسے کھیتی خشک ہوجاتی ہے۔لہذا قلب کو بھی ان چیزوںکی ضرورت ہوتی ہے جواس کے زنگ کودورکردے اوراس کی پیاس بجھائے۔علامہ ابن قیم ؒکا بیان ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے شیخ الاسلام علامہ ابن تیمہؒ سے سنا،وہ فرماتے تھے:اللہ کا ذکر دل کے لیے ایسے ہی ہے ،جیسے مچھلی کے لیے پانی،تواس مچھلی کا کیاحال ہوگا جوپانی سے جداہوجائے۔
معلوم ہوا کہ اللہ تعالی سے بندوںکا تعلق بہت گہرا ہونا چاہیے جس کا واسطہ ذکرہے ۔ اس لحاظ سے انسان کی سب سے بڑی ضرورت اللہ کا ذکرہے جو دلوں کوزندگی بخشتاہے اوراسے چین وسکون فراہم کرتاہے۔اس لیے لازما ہمہ وقت اللہ ذکرکرنا چاہیے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اذْکُرُوا اللَّہَ ذِکْراً کَثِیْراً oوَسَبِّحُوہُ بُکْرَۃً وَأَصِیْلاً
اے لوگوجوایمان لائے ہواللہ کوکثرت سے یادکرواورصبح وشام اس کی تسبیح کرتے رہو۔)سورۃ احزاب:۴۲)
اس کائنات میں انسان ہرطرح اپنے دشمنوںسے گھراہواہے ،نفس امارہ اسے برائیوں پرآمادہ کرتاہے ،نفسانی خواہشات اورشیطان اسے ہلاکت کی اورلے جاتاہے ۔ایسے میںایک ایسے محافظ کی ضرورت ہوتی ہے جو انسان کو ان کے تمام دشمنوں سے محفوظ رکھے۔اس کے خوف سے دل پرسکون اورمطمئن رہے ۔اس کا یہ محافظ اللہ کا ذکراور اس کی کثرت ہے ۔
 وَالذَّاکِرِیْنَ اللَّہَ کَثِیْراً وَالذَّاکِرَاتِ أَعَدَّ اللَّہُ لَہُم مَّغْفِرَۃً وَأَجْراً عَظِیْماً
کثرت سے ذکر(اللہ کویاد)کرنے والے مرداورکثرت ذکر کرنے والی عورتیں اللہ نے ان کی مغفرت اوران کے لیے اجرعظیم تیارکررکھاہے۔                (احزاب35)
نبی کریمﷺ نے فرمایا:
مامن قوم یذکرون اللہ الا حفت بہم الملائکۃ، وغشیتہم الرحمۃ،ونزلت علیہم السکینۃ، وذکرہم اللہ فیمن عندہ۔
جو کوئی  جماعت اللہ کا ذکر کرتی ہے توفرشتے انھیں گھیر  لیتے، ان پر  رحمت سایہ فگن ہوجاتی ہے اور  ان پر سکینت (اطمینان قلب ) نازل ہوتی ہے، پھراللہ تعالی اپنی مجلس (فرشتوں)میں ان کا ذکر کرتاہے۔‘‘(مسلم ،ترمذی(
        ذکرالٰہی  دل کی زندگی ہے،شرح صدرکا طریقہ ہے،جس سے مصیبتیں ختم ہوتی ہیں اور غم دورہوتاہے۔ انسان کا دشمن شیطان دوربھاگ جاتاہے۔اللہ تعالی کو کثرت سے یادکرنا اس کے ربط وتعلق میں اضافہ کرتاہے ۔ذکرکے بغیرانسان کا دل مردہ ہو جاتا ہے ۔
مثل الذی یذکرربہ والذی لایذکرربہ مثل الحی والمیت
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اس کی مثال جواپنے رب کویادکرے اورجونہ یاد کرے زندے اورمردے کی طرح ہے۔  )متفق علیہ(
 ایک عام قائدہ ہے کہ انسان ان ہی چیزوںکویادرکھتا ہے جس کی اس کے نزیک اہمیت ہوتی ہے،ایسے میں اللہ سے زیادہ اہم بندوں کے نزدیک اورکون ہوسکتاہے ۔اس لیے انسان کو اس کا ذکرلامحالہ کرناچاہیے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
ولذکراللہ اکبر(عنکبوت :۴۵)
اللہ کا ذکرہرچیز سے بڑا ہے۔
اس طرح خداکا ذکراس کی عظمت کودل میں جاںگزیں کرتاہے جس سے انسان برے کاموںسے بچ جاتاہے ۔یہی برے اعمال انسانوں کے دلوں کو ملامت کرتارہتاہے جواس کی پریشانی اورتشویش کا باعث بنتاہے۔ اس لیے کامیابی اورسکون پانے کے لیے اللہ کا ذکر بہت ضروری ہے ۔ اس کی اہمیت کے پیش نظراللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
الا انبئکم بخیراعمالکم، وازکاہا عندملیککم، وارفعہا فی درجاتکم، وخیرلکم من انفاق الذہب والورق،  وخیرلکم من ان تلقواعدوکم فتضربوا اعناقہم ویضربوااعناقکم؟  قالوا: بلی،  قال: ذکراللہ                                                       (ترمذی ،ابن ماجہ(
’’کیامیں تمہیں وہ عم نہ بتاؤں جوتمہارے مالک (یعنی اللہ)کے نزدیک اچھا اورپاکیزہ ہے اورتمہارے درجات میں سب سے بلند اوراللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے تمہارے کفارکی گردنیں مارنے اوران کے تمہاری گردنیں مارنے سے بھی افضل ہیں۔صحابہ کرام ؓ نے عرض کیاکیوںنہیں ،اے اللہ کے رسولؐ آپ نے فرمایا:یہ اللہ کا ذکرہے۔‘‘
عربی کا مقولہ ہے’’ الانسان عبدالاحسان انسان احسان کا غلام ہوتاہے ۔اس لیے کوئی شخص اگرکسی کی مدد کرتا ہے تووہ اس کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ ہمہ وقت اسے یاد کرتاہے ،اس کے احسان کونہیں بھولتا۔ جب کہ اللہ تعالی کے اتنے احسانات ہے انسان اس کوشمارنہیں کرسکتاہے۔ مگراس کے باجودانسان اپنے مال واسباب اوراولادکی وجہ سے دنیاوی معاملات میں اس قدر منہمک ہوجاتاہے کہ وہ اپنے خداکوہی بھول جاتا ہے جن کے احسانات کے سہارے وہ جی رہا ہوتاہے اورتمام بھروسہ ان مادی اسباب پر کربیٹھتا ہے۔خودکوبڑاسمجھنے لگتا ہے ،جس کے نتیجے میں تکبرکا شکارہوجاتاہے ۔ یہی تکبرغضب الہی بن کراس کے زوال کا ذریعہ بن جاتاہے اور انسان خدا کی رحمتوںسے کوسودورہوجاتا ہے جواس کے دل کے بے چینی کا سبب بن جاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالی نے تنبیہ فرمائی :
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تُلْہِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَلَا أَوْلَادُکُمْ عَن ذِکْرِ اللَّہِ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ(منافقون:۹)
 اے لوگو!جوایمان لائے ہو،تمہارے مال اورتمہاری اولادیں تم کواللہ کی یادسے غافل نہ کردیں۔جو لوگ ایسا کریں و ہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔
دوسری جگہ ارشادہے:’’اورجومیرے ’’ذکر‘‘(درس نصیحت)سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیامیں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھااٹھائیں گے ۔(طہ:۱۲۴)
مولانا مودودیؒ اس کی تفسیرمیں لکھتے ہیں :
 ’’دنیامیں تنگ زندگی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے تنگ دستی لاحق ہوگی ۔بلکہ اس کا مطلب ہے کہ یہاں اسے چین نصیب نہ ہوگا۔کروڑپتی بھی ہوگاتوبے چین رہے گا۔ہفت اقلیم کا فرماںرواںبھی ہوگا توبے کلی اوربے اطمینانی سےنجات نہ پائے گا۔اس کی دنیوی کامیابیاں ہزاروں قسم کی ناجائزتدابیرکا نتیجہ ہوںگی،جن کی وجہ سے اپنے ضمیرسے لےکرگردوپیش کے پورے اجتماعی ماحول تک ہرچیزکے ساتھ اس کی پیہم کشمکش جاری رہے گی جواسے کبھی امن واطمینان اورسچی مسرت سے بہرہ مند نہ ہونے دے گی۔) ‘‘ترجمہ قرآن مع مختصرحواشی صفحہ:۸۱۹)
حدیث قدسی ہے رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اللہ کہتاہے کہ میں بندہ کے گمان کے قریب ہوتاہوںجووہ مجھ سے کرتاہے۔ جب وہ مجھے یاد کرتاہے ،میں اس کے پاس ہوتا ہوں،جب وہ مجھے اپنے جی میں یادکرتاہے تومیں بھی اسے اپنے جی میں یاد کرتا ہو، اگروہ لوگوںمیں میرا ذکر کرتا ہے تومیں بھی اسے بہترین جماعت میں یادکرتاہوں۔‘‘   (بخاری (
صحابہ کرام اورسلف صالحین کا طریقہ بھی یہی رہا کہ وہ سکون قلب کی ضرورت کے پیش نظرذکرالٰہی کوبڑی اہمیت دیتے تھے۔دیگرضروریات ان کے نزدیک ثانوری درجہ رکھتی تھی ،یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے حضرت علی ؓاورفاطمہ ؓ کی درخواست کہ انھیں خادم کی ضرورت ہے فرمایا:
 کیامیں تمہیں ایسی چیز کی رہنمائی نہ کردوجوتمہارے لیے خادم سے بہترہو؟جب تم اپنے بستر پر (سونے کے لیے )آؤ،تو 33 دفعہ سبحان اللہ 33 دفعہ الحمدللہ اور34 دفعہ اللہ اکبرپڑھ لیاکرو۔یہ تمہارے لیے خادم سے بہترہے۔(بخاری) حضرت علی ؓ کہتے ہیں کہ ان کا یہ عمل برابرجاری رہا۔
حضرب عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایاکہ:
الشیطان جاثم علی قلب ابن آدم ،فاذا سہا وغفل وسوس،فاذاذکراللہ خنس۔
’’شیطان اولاد آدم کے قلب پر سوار رہتاہے، جب وہ نسیان یا غفلت کا شکارہوتاہے تو شیطان اسے وسوسے میں ڈالتاہے، وہ جب اللہ کو یاد کرتاہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتاہے۔‘‘( اثر(
حضرت حسن بصری ؒکہتے ہیں:
لا تفقدوا الحلاوۃ فی ثلاثۃ اشیاء ،فی الصلوۃ ،فی الذکر،فی قرآۃ القرآن ،فان وجدتم ،والا فاعلموا ان الباب مغلق ۔
تین چیزوںکی چاشنی فراموش نہ کرنا۔نماز ،ذکراورتلاوت قرآن کی حلاوت اگرتمہیں میسرہو،ورنہ یادرکھوکہ دروازہ بند ہے۔
آج انسان جس قدرپریشان حال ہے اوراس کا ہرجگہ تذکرہ کرتاپھرتاہے ،کیا اس نے کبھی خداکے سامنے اپنی فریاد رکھی؟کبھی اس نے خداکے اس فرمان )صبراورنماز سے مددطلب کرو-قرآن)کوپیش نظررکھا ؟ جوخداکا ذکراور اس سے تعلق پیداکرنے کا ذریعہ ہے ،پھریہ دنیا کی چیزیں جس کی حیثیت اللہ کے سامنے مکھی کے پرکے برابرنہیں انسان کو قلبی سکون کیسے فراہم کر سکتا ہے!اللہ کے ذکرسے غفلت کی صورت میں شیطان اس پر سوار رہتا ہے جوطرح طرح کے وسوسوںسے اس کے دل کوپریشان رکھتاہے، تو اسے اطمینان قلب کیسے حاصل ہوسکتاہے؟اس لیے قلبی سکون کے حصول کے لیے اللہ کا ذکراس سے تعلق بہرحال ضروری ہے جوانسان کی اہم ضرورت ہے۔     ٭٭

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...