Sunday 24 February 2013

Badtareen Insan (The worst man)


بدترین انسان کی پہچان

انسان کی شخصیت اس کے عادات واطواراور افعال اورکردارسے نمایاںہوتی ہے ۔ انسان فطری طورپراپنا مصاحب اور دوست بھی ان ہی کو بناناپسند کرتاہے جو معاشرے میں اچھے ہوتے ہیں اوربرے لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرتاہے۔ کیوں فارسی مثل مشہورہے۔ (صحبت طالع تراطالع کند) اور  جاپانی مقولہ ہے ’’ جب کسی شخص کا کردارتم پرواضح نہ ہوتواس کے دوستوں کو  دیکھو‘‘ اس سے اس کے معیارکا پتہ چلتاہے۔اس لیے معمولی سے معمولی عقل وشعور رکھنے والا انسان کبھی برے لوگوں کو  ا پنا  دوست بناناپسند نہیں کرتا بلکہ اس کی فحش باتوں اوربرے کاموں سے بچنے کے لیے اس سے دوری اختیارکرنے میں اپنی بھلائی محسوس کرتاہے ۔نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا:
 المومن مالف ولا خیر فیمن لایالف ولایولف
مومن محبت اورالفت کاحامل ہوتاہے اوراس شخص میں کوئی خوبی اوربھلائی نہیں جونہ خودمحبت کرے اورنہ لوگوں کواس سے الفت ہو۔(مسند احمد،بیہقی شعب الایمان(
 احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ نبی ﷺ نے جہاں اچھے لوگوںکے اوصاف اورخوبیاں بیان کی ہیں وہی برے اورناپسندیدہ لوگوںکی بھی پہچان بتادی ہے تاکہ ایسے لوگوںسے دوررہاجاتاہے۔
اس سلسلے میں ایک اصولی بات یہ ہے کہ ہروہ انسان جس میں کسی طرح کی خیرکی امید نہ رکھی جائے حتی کہ اس کے شرسے بھی لوگ محفوظ نہ ہوںتووہ شخص بدترین انسان مانا جائے گا ۔ کیوںکہ ایسی صورت میں وہ معاشرے کے فسادوبگاڑکا سبب بنے گا۔نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
تم میں بدترین شخص وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں کونہ خیرکی امیدہو نہ اس کے شرسے لوگ محفوظ ہوں‘‘ (ترمذی باب الفتن(
بسااوقات انسان کسی برے شخص سے ملتا ہے مگراس کے ساتھ بہترانداز سے پیش آتاہے ،اس سے گمان ہونے لگتاہے کہ وہ معاشرے کا بہترین فردہوگا حالانکہ وہ بدترین انسان ہوتا ہے۔نبی کریمؐنے ایسے شخص کی وضاحت فرمادی ہے۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ؐ سے اجازت چاہی ، آپ نے فرمایاکہ اسے آنے کی اجازت دے دو،ساتھ ہی یہ بھی فرمایاکہ وہ معاشرے کا براانسان ہے۔جب وہ داخل ہواتوآپ نے ان سے نرم گفتگوکی ، اس کے جانے کے بعد حضرت عائشہ ؓ نے دریافت کیا:اے اللہ کے رسول آپ نے تواس کے سلسلے میں ایسا ایسا فرمایاتھا، جب کہ آپ نے اس سے گفتگومیں نرمی اختیارکی ۔اس کے جانے کے بعد حضرت عائشہ نے نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا:
اے عائشہؓ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قدرومنزلت میں سب سے براانسان وہ ہے جس کے شراورفحش کی وجہ سے لوگ اسے چھوڑ دیں یا اس سے دوری بنالیں۔(بخاری(
معلوم ہوا کہ معاشرے کے ایسے بدترین لوگوںکی شناخت واضح کرنا جوعلی الاعلان فسق وفجورکا ارتکاب کرتے ہیں اسے غیبت میں شمارنہیں کیاجائے گا ۔ کیوںکہ یہاں مقصود ہجونہیں بلکہ لوگوںکواس کے شرسے محفوط رکھنا ہے۔آئندہ سطروںمیں انسانوںکی مزیدچند علامتوںکا ذکر کیاجارہاہے جنھیں نبیؐ نے  بیان کیاہے۔تاکہ لوگ ان سے دوررہے اوراچھے برے کی تمیز کر سکیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:تم قیامت کے دن اللہ کے نزدیک لوگوںمیں سب سے بدترین انسان انھیں پاؤگے جو دورخی اختیارکرتے ہیں ۔(بخاری(
آپ نے اس کی مزیدوضاحت ان الفاظ میں فرمائی:
 ان  من  شرارالناس ذوالوجہین الذی  یاتی ہولاء بوجہ وہولاء  بوجہ۔ (مسلم(
یقینابدترین شخص وہ ہے جودومنہ رکھتاہو،کچھ لوگوںکے پاس ایک منہ لے کرجاتاہے اورکچھ لوگوںکے پاس دوسرامنہ لے کرجاتاہے۔‘‘
 ایسا شخص سچ اورجھوٹ کوملاکر لوگوںمیں فساد وبگاڑپیداکرنے کی کوشش کرتاہے ۔اسی وجہ سے اسے نفاق کی علامت قراردیا گیاہے۔ ایسے لوگ انسانیت کا دشمن اورمعاشرے کا ناسور سمجھاجاتاہے۔ایسا شخص لوگوںکی کمزوریوںٹوہ میں لگارہتاہے تاکہ ان کی اطلاع دوسرں کو دے۔اس طرح ان کے مابین قطع تعلق کا سبب ہے۔اسی وجہ سے اس کا دل حسداورکینہ کی آگ میں جلتارہتاہے۔
امام غزالی نے دوطرفہ باتیں بنانے والے کوچغل خوری کی خصلت سے بھی بدتر بتایا ہے ۔ چغلی میں آدمی صرف ایک کی بات کودوسرے کے یہاں نقل کرتاہے جب کہ یہاں دوطرفہ مخالفانہ باتیں پہنچائی جاتی ہیں۔قیامت کے دن ایسے شخص کے پاس دوانگاروںکی زبان ہوگی۔ ایسے شخص سے متعلق نبیؐ کا ارشاد ہے:
من کان لہ وجہان فی الدنیا،کان لہ یوم القیامۃ لسانان من نار(ابوداؤد(
جو شخص دنیامیں دوچہرے رکھتاہوگا،قیامت کے دن اس کے منہ میں دوانگاروںکی زبانیں ہوگی۔آپ نے ایسے بدترین شخص کی مزید وضاحت فرمائی :
شرارعباد اللہ المشاؤن  بالنمیمۃ ،  المفرقون بین الاحبۃ،  الباغون للبراء العیب   ( مسنداحمد(
 ’’اللہ کے بندوںمیں برے وہ لوگ ہیں جوچغل خوری کرتے ہیں،محبت کرنے والوںکے درمیان تفرقہ ڈالتے ہیں ،اور بھلے لوگوںمیں عیب تلاش کرتے ہیں۔‘‘
اس حدیث میں آپ نے بدترین شخص کی تین علامتیں بتائی ہیں۔ایک یہ کہ وہ چغل خوری کرتا ہے۔ تاکہ ایک شخص کی عیب جوئی کے سبب دوسرااس سے بدگمانی کا شکار ہوجائے۔ ایسے شخص کے متعلق ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا:
 لایدخل الجنۃ نمام (بخاری ومسلم(
چغل خورجنت میں نہیں جائے گا۔
دوسرا وہ شخص ہے جو لوگوںکے مابین محبت واخوت کو اختلاف وانتشارکے ذریعے تارتارکرنے کی کوشش کرتاہے۔تیسرا شخص وہ ہے جواس فکرمیں لگارہتاہے کہ کسی نیک آدمی میں کوئی عیب نکال کر اسے پھیلادے ۔تاکہ لوگوںمیں اس کی رسوائی ہو۔ بہ الفاظ دیگروہ  دوسرے انسانوں کی رسوائی کے لیے کوشاں رہتا ہے۔
تمام انسانوںکاخالق و مالک اللہ ہے۔ وہی انسان کی ضرورتوںکوپوری کرتاہے ، لہذاانھیں اسی کے سامنے سجدہ ریزہونا چاہیے نہ کہ خداکے بالمقابل کسی دوسرے کوحاجت رواتسلیم کیا جائے ،جیساکہ مزاروںپر دیکھنے کوملتاہے ،یہ بندے کی سب سے بڑی سرکشی ہوگی ،ایسے شخص کو بھی حدیث میں بدترین انسان کہاگیاہے۔آپ کا ارشادہے :
ان شرارالناس الذین  یتخذون القبورمساجد ہم(مسنداحمد(
بدترین انسان وہ  ہی جوقبروںکومساجد(عبادت گاہ) بنالیتے ہیں۔
اس کائنات میں بہت سے انسان ایسے بھی ہیں جودوسروںکی دنیا بنانے میں بھول جاتے ہیں کہ وہ جوکچھ کرر ہے ہیں وہ صحیح ہے یا غلط ؟ اس طرح ان کی آخرت تباہ وبربادہوجاتی ہے۔ ان کے متعلق آپ نے ارشاد فرمایا:
من شرالناس منزلۃ عنداللہ یوم القیامۃ،عبداذہب اخرتہ بدنیا غیرہ (ابن ماجہ(
 قیامت کے دن اللہ کے نزدیک مرتبے میں برے لوگ وہ ہوںگے جو دوسرں کی دنیا بنانے میںاپنی آخرت خراب کرلیں گے(
قیامت کی علامتوںمیں سے ہے برائیاں عام ہوجایں گی اوران کا اتناکا چرچاہونے لگا کہ لوگ برے کاموںکوبرانہیں سمجھیں گے ، اس طرح برے لوگوں کی کثرت ہوجائے گی ۔اسی بات کی پیشن گوئی کرتے ہوئے آپ ؐ نے ارشادفرمایا۔
من شرارالناس تدرکہم الساعۃوہم احیائ( بخاری(
برے لوگوںپر پر قیامت کا وقوع ہوگا۔
مذکورہ تمام احادیث سے ایسے بدترین لوگوں کی شناخت بتائی گئی ہے جس کے متعلق آپ نے شرالناس ،شرارالناس ، شرارعباداللہ وغیرہ کہہ کرو ضاحت فرمائی ہے۔ان کے علاوہ جھوٹ ،غیبت ،بدکاری وبداخلاقی وغیرہ جیسے عمل کا مرتکب لوگ بھی بدترین انسان ہیں،کیوںکہ ایسے لوگوںسے بھی خیرکی توقع نہ کی جاتی اورنہ اس کے شرسے لوگ مامون نہ ہوتے ہیںلہذا وہ بھی بدترین انسان جن کو حدیث میں براکہاگیاہے۔
٭٭٭

2 comments:

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...