Friday 1 February 2013

قرآن کریم کی دعوتِ فکر وعمل

قرآن مجید تمام انسانوں کو تعمیر اور مثبت افکار کی دعوت دیتا ہے

     نزول قرآن کا مقصد اس کے سوا اورکچھ نہیں کہ انسان اپنے رب کو پہچانے، اس کے بنائے ہوئے اصول وقوانین کے مطابق زندگی بسرکرے ،اس کی ہدایات کے مطابق اپنے افکاروخیالات اوراعمال وکردار کوصحیح رخ پر لگائے اورایک اچھا انسان بن کرقوم ومعاشرے کے لیے مفیدثابت ہو۔خالق ِ حقیقی کے علاوہ اورکوئی برحق اصول وقوانین مرتب کرنہیں سکتا۔ جس نے دنیا اوراس کی چیزوںکوپیداکیاہے ،وہی جانتاہے کہ انسان کے لیے کون سی چیزبری ہے اور کون سی اچھی ہے۔کس طرح معاشرے کی اصلاح ہوگی اورکن وجوہ سے اس میں فساد وبگاڑواقع ہوسکتاہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ ہی نظامِ حیات  تجویزکرسکتاہے کوئی اورنہیں۔صرف اسی کی اطاعت ِ کاملہ سے انسان دونوںجہاں میں فلاح ونجات پاسکتاہے۔
     قرآن مجید تمام انسانوںکو تعمیری اورمثبت افکار کی دعوت دیتاہے۔ کائنات کی بیشتر مخلوقات پر انسان کوفضیلت حاصل ہے ۔ ضروری ہے کہ انسان  نظم کائنات کو سمجھے اورقرآن میں غور و تدبرسے کام لے۔ قرآن مجیدکے مخاطب تمام انسان ہیں۔ قرآن ہدی اللناس ہے۔ یعنی تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔کے سرسرخلاف ہے۔قرآن بنی نوع انسان کو دنیا کی تخلیق اور اس کے نظام میں غوروفکرکی دعوت دیتاہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے:
     وَلَئِن سَأَلْتَہُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَیَقُولُنَّ اللَّہُ فَأَنَّی یُؤْفَکُونَ (61) اللَّہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن یَشَاء ُ مِنْ عِبَادِہِ وَیَقْدِرُ لَہُ إِنَّ اللَّہَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْمٌ (62) وَلَئِن سَأَلْتَہُم مَّن نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً فَأَحْیَا بِہِ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ مَوْتِہَا لَیَقُولُنَّ اللَّہُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّہِ بَلْ أَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُونَ (63(
     ان لوگوں سے پوچھوکہ زمین اورآسمانوںکوکس نے پیداکیاہے اور چانداورسورج کوکس نے مسخرکیاہے تووہ ضرورکہیں گے کہ اللہ نے،پھریہ کدھرسے دھوکاکھارہے ہیں؟اللہ ہی ہے جواپنے بندوںمیں سے جس کا چاہتاہے رزق کشادہ کرتاہے اورجس کا چاہتا ہے تنگ کردیتاہے۔یقیناً اللہ ہرچیز کا جاننے والاہے۔اوراگرتم ان سے پوچھوکس نے آسمان سے پانی برسایااوراس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو جلااٹھایاتووہ ضرورکہیں گے اللہ نے۔کہو،الحمدللہ،مگران میں سے اکثرلوگ سمجھتے نہیں۔(عنکبوۃ :63-61(
     اس میں شک نہیں کہ کلام پاک کی تلاوت اللہ کوبے حد محبوب ہے ، اس کی ایک ایک آیت پر اجروثواب کا وعدہ ہے ،مگریہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا فہم حاصل کرنا، اس میں غوروتدبر اور اس پر عمل پیراہونا نہایت ضروری ہے۔یہی نزول قرآن کا منشا ہے:
     کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ
     یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو(اے نبی)ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غورکریں اورعقل وفکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔(ص:29(
     اللہ نے انسان کودل ودماغ کی شکل میں ایک بیش قیمت کی دولت عطا کی ہے۔قرآن کریم انسان کو اسی عقل وشعورکے استعمال کی ترغیب دیتا ہے:
افلایتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالہا(محمد :24(
’’ کیاان لوگوں نے قرآن پر غورنہیں کیا یادلوںپران کے قفل چڑھے ہوئے ہیں۔‘‘
     ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اللہ اپنے بندوںکوتدبرقرآن کا حکم دیتاہے اورجولوگ اس کے محکم معانی میں غور و فکرسے اعرض کرتے ہیں ان کی سرزنش کرتاہے ۔
حسن بصری ؒفرماتے ہیں :
نزل القرآن لیتدبر ویعمل بہ، فاتخذواتلاوتہ عملاً ،ای عمل الناس اصبح تلاوۃ القرآن فقط بلا تدبر ولا عمل بہ۔
     قرآن اس لیے نازل ہوا ہے کہ اس میں تدبرکیاجائے اورا سپر عمل کیاجائے ۔لیکن لوگوںنے اس کی تلاوت کوکام سمجھ لیا،بعض لوگوں کا کام بس یہ ہوگیاہے کہ بلاغوروفکراس کی تلاوت کرلیاکریں عمل کی طرف توان کی بالکل توجہ نہیں ہوتی۔(مدارج السالکین :485/1(
ابن قیمؒ کہتے ہیں :
لیس شی انفع للعبدفی معاشہ ومعادہ من تدبرالقرآن وجمع الفکرعلی معانی آیاتہ،(نضرۃ النعیم ص:909(
تدبرقرآن اورا سکی آیات پرتوجہ مرکوزکرنے سے زیادہ نفع بخش اورکوئی چیز نہیں ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:
قُل لِّمَنِ الْأَرْضُ وَمَن فِیْہَا إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ (84) سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ أَفَلَا تَذَکَّرُونَ (85) قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ (86) سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ (87) قُلْ مَن بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْْء ٍ وَہُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْْہِ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ (88) سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ فَأَنَّی تُسْحَرُونَ
’’ان سے کہو،بتاؤ اگرتم جانتے ہوکہ یہ زمین اوراس کی ساری آبادی کس کی ہے؟یہ ضرورکہیں گے اللہ کی۔کہو،پھرتم ہوش میں کیوں نہیں آتے؟ان سے پوچھو،ساتوںآسمانوںاورعرشِ عظیم کا مالک کون ہے؟یہ ضرورکہیں گے اللہ۔کہو،پھر تم ڈرتے کیوں نہیں؟ ان سے کہو،بتاؤاگرتم جانتے ہوکہ ہرچیز پر اقتدارکس کا ہے؟اورکون ہے جوپناہ دیتاہے اوراس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟یہ ضرورکہیں گے کہ یہ بات تواللہ ہی کے لیے ہے کہو،پھرکہاںسے تم کو دھوکہ لگتاہے؟(مومنون:89-84(
     خالی گھر شیطان کا ہوتا ہے ،اسی طرح خالی ذہن عموماًشیطان کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ یا یوںکہیے کہ جس چیزمیں خیرنہ ہو اس میں شر کا ہونا اغلب ہے۔ دنیا کی کوئی بھی شی خالی نہیں ہوتی حتی کہ بظاہرخالی گلاس بھی خالی نہیں اس لیے کہ اگراس میں پانی نہ ہو،تو ہوااس میں اپنی جگہ بنالیتی ہے۔ٹھیک اسی طرح  اگرانسان نے اپنے افکار وخیالات کو مثبت رخ نہیں د یا یایونہی بنا سوچے سمجھے زندگی بسرکی تواس میں اورایک جانور میں کوئی فرق نہیں ،کیوںکہ دونوںکی زندگی شعور سے عاریہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ نے اس دنیا اوراس کی چیزوں کو بے مقصدپیدانہیں کیا۔ قرآن اس ضمن میںلوگوںکوغوروتدبرکی دعوت دیتاہے:
     إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ لآیَاتٍ لِّأُوْلِیْ الألْبَابِ(190) الَّذِیْنَ یَذْکُرُونَ اللّہَ قِیَاماً وَقُعُوداً وَعَلَیَ جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذا بَاطِلا۔(191(
’’     مین اورآسمانوںکی پیدائش میں اوررات ودن کے باری باری سے آنے میں ان ہوش مندلوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں جو اٹھتے اوربیٹھتے،ہرحال میں خداکویاد کرتے ہیں اور زمین اورآسمانوںکی ساخت میں غوروفکرکرتے ہیں(وہ بے اختیاربول اٹھتے ہیں ) پروردگار،یہ سب کچھ تونے فضول اوربے مقصدنہیں بنایاہے۔‘‘ (آل عمران:191-190(
ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ نصابی کتاب کو کتنی اہمیت دیتے ہیں ۔ان کے بچے اسے ٹھیک سے سمجھ لیں اس کے لیے ہرممکن کوشش کرتے ہیں حتی کہ اسکول اورکالج کے بعد الگ سے کوچنگ کا بھی نظم کرتے ہیں۔یہ کوشش اس لیے ہوتی ہے کہ طلباء میں مزیدان گہرائی اورگیرائی پیداہواور وہ امتحان میں کامیاب ہوجائیں۔مگریہی لوگ کتابِ الٰہی پر غورنہیں کرتے جو اللہ تعالی کی نازل کردہ مقدس کتاب ہے ،جس میں زندگی کا رازمضمرہے اورجودنیاکے تمام مسائل کا حل پیش کرتی ہے ۔ وہ کبھی اس کی زبان کو سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے اورنہ اس میں گہرائی یا گیرائی کے طالب ہیں، اسی طرح کچھ لوگ اس زبان کوجانتے توہیں مگروہ قرآن کو سمجھ کرنہیں پڑھتے اورنہ اس میں غور وفکرکرتے ہیں، توبھلاوہ کیسے فلاح وکامرانی پاسکتے ہیں ،کیوںکرانھیں دنیامیں چین وسکون اور آخرت میں نجات مل سکتی ہے۔نبی کریم نے فرمایا:
ویل لمن قرأہا ولم یتفکرفیہا
 ’’ہلاکت ہے اس کے لیے جوقرآن کی آیات کی تلاوت توکرتاہے مگر اس میں غورفکرنہیں کرتا‘‘
     لوگ شکایت کرتے ہیں کہ قرآن ہماری زبان میں نہیں ہے ،اس لیے ہم اسے سمجھ نہیں سکتے ۔یہ عجیب بات ہے۔ اگرکسی شخص کے پاس کسی بڑے لیڈریا اہم شخصیت کا کوئی خط آجائے تو اگر وہ اس کی زبان میں نہ ہوتب بھی وہ اس کوسمجھنے کے لیے کوشش کرتا ہے ، جب تک اس کا مطلب سمجھ نہ لے ،اسے سکون نہیں ملتا۔ ہراس شخص کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے جواس زبان کا جاننے والاہو ،تاکہ وہ اس کا مطلب سمجھادے۔قرآن تو خالق کائنات کا پیغام ہے،اس میں دین و دنیا دونوںکے فائدے ہیں۔ اس کے سمجھنے کے لیے کوشش کیوں نہیں کرتے ؟زبان کے نامانوس ہونے کا عذر کرتے ہوئے اسے یونہی بالائے طاق رکھ دیناکسی بھی طرح درست نہیںہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
    وَقَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِیْ اتَّخَذُوا ہَذَا الْقُرْآنَ مَہْجُوراً  (الفرقان:30(
’’    اوررسول نے کہے گا کہ اے میرے رب میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانہ تضحیک بنالیاتھا۔‘‘
     اس کی وضاحت کرتے ہوئے ابن کثیر ؒفرماتے ہیں :ترک تدبرہ وتفہمہ من ہجرانہ) قرآن میں تفکروتدبرنہ کرنا قرآن کو چھوڑنے کے مترادف ہے۔
     علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ ہجرقرآن کی چند قسمین ہیں : ان میں سے ایک قرآن میں تدبر وتفہم سے کام نہ لینا ہے اوراس بات کی عدم معرفت ہے کہ  اللہ اس آیت کے ذریعہ اپنے بندوں سے کیاکہہ رہاہے۔(بدائع التفسیر:292/2(
نبی کریمؐ جن پر قرآن مجید کا نزول ہواتھا۔ان کا معاملہ یہ تھاکہ آپؐ قرآن بہت ٹھہر ٹھہر کر اورغوروتدبرکے ساتھ پڑھتے تھے۔
حضرت حذیفہ ؓبیان کرتے ہیں کہ وہ ایک رات آپ ؐ کے ساتھ نماز میں شریک ہوئے ۔ آپؐ قرآن ترتیل کے ساتھ تلاوت فرماتے ۔ جب کسی تسبیح کی آیت سے گزرہوتاتوتسبیح کرتے ، اسی طرح کسی ایسی آیت سے گزرہوتاجس میں سوال ہے توآپ سوال کرتے یاکسی تعوذکی جگہ سے گزرتے تواللہ کی پناہ مانگتے۔(مسلم(
    آپ ؐ قرآن میں غورو تدبرمیں اس قدرمحوہوجاتے کہ پوری پوری رات ایک ہی آیت کی تلاوت میں گزاردیتے تھے۔
    مسنداحمد کی روایت ہے ،حضرت ابوذرؓبیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپؐ نے ایک ہی آیت پڑھتے پڑھتے صبح کردی۔وہ آیت تھی:
)    ان تعذبہم فانہم عبادک وان تغفرلہم فانک انت العزیز الحکیم۔(سورۃ مائدہ:118(
’’اگرآپ انھیں سزادیں تووہ آپ کے بندے ہیں اوراگرمعاف کردیں توآپ غالب اورداناہیں‘‘۔
فہم قرآن کے سلسلے میں صحابہ کرام کا بھی یہی معمول تھا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی فرماتے ہیں:
    کان الرجل منا اذا تعلم عشرآیات لم یجاوزہن حتی یعرف معانیہن والعمل بہن(رواہ الطبری فی تفسیرہ:80/1(
’’ ہم سے جوکوئی دس آیات پڑھ لیتاتووہ اس وقت تک آگے نہیں بڑھتاجب تک کہ وہ ان کے معنی اور مفہوم کو سمجھ نہ لے اوران پر عمل پیرانہ ہو۔‘‘
     علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ جب کسی جگہ قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے تو اس کے سامع تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں ۔ایک وہ جوقرآن کی آیات کو غور سے سنتے ہیں اوران کا دل ودماغ انھیں سمجھنے میں لگ جاتاہے۔ایسے لوگ زندہ دل اورصاحب بصیرت ہیں،ان کے لیے قرآن نصیحت ہے جسے وہ اپنی عملی زندگی میں ڈھال کرخداکی خوشنودی تلاش کرتے ہیںدوسرے وہ لوگ جوقرآن سمجھ توسکتے ہیں مگران کا دل و دماغ حاضرنہیں ہوتا۔تیسرے وہ جو نہ قرآن کو غور سے سنتے ہیں اوران اس میں غوروتدبرسے کام لتے ہیں۔وہ اندھے اوربہرے لوگ ہیں۔
     عام لوگوں کے ذہنوںمیں یہ خیال پیداکردیاگیاہے کہ فہم قرآن صرف علماء کا کام ہے ، عام لوگوںکا نہیں ۔یہ خیال بالکل غلط ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے تو ایسی کوئی تخصیص  نہیں کی ۔بلکہ صراحت کی ہے کہ قرآن کا نزول تمام لوگوں کے لیے ہے۔
     مولانا مودودیؒ قرآن کوسمجھنے اوراسے اپنی زندگی میں ڈھالنے کے لیے ایک عام فہم مثال بیان کرتے ہیں :
’’     بتائیے اگرکوئی شخص بیمار ہو اورعلم طب کی کوئی کتاب لے کرپڑھنے بیٹھ جائے اوریہ خیال کرے کہ محض اس کتاب کو پڑھ لینے سے بیماری دورہوجائے گی توآپ اسے کیاکہیں گے؟کیا آپ نہ کہیں گے کہ بھیجواسے پاگل خانے میں، اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے؟ مگرشافی ٔ مطلق نے جوکتاب آپ کے امراض کا علاج کرنے کے لیے بھیجی ہے ،اس کے ساتھ آپ کا یہی برتاؤ ہے۔آپ اس کوپڑھتے ہیں اوریہ خیال کہ بس اس کے پڑھ لینے ہی سے تمام امراض دور ہوجائیں گے ،اس کی ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ،نہ ان چیزوںسے پرہیزکی ضرورت ہے جن کویہ مضربتارہی ہے۔ پھرآپ خوداپنے اوپربھی وہی حکم کیوں نہیں لگاتے جواس شخص پر لگاتے ہیں جوبیماری دورکرنے کے لیے صرف علم طب کی کتاب پڑھ لینے کوکافی سمجھتاہے؟‘‘  (خطبات حصہ اول:20(
     ابن مسعودؓنے تدبرقرآن اوراس پر عمل کے سلسلے میں غفلت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
          انا صعب علینا حفظ الفاظ القرآن، وسہل علینا العمل بہ ، وان من بعدنا یسہل علیہم حفظ القرآن ویصعب علیہم العمل بہ ۔
’’ہم لوگوںپر قرآن کا حفظ کرنا مشکل ،جب کہ اس پر عمل کرنا آسان ہے اورہمارے بعد لوگوں پر قرآن کا حفظ کرنا آسان ہوگا اوراس پر عمل کرنا مشکل ہوگا۔‘‘ (الجامع لاحکام القرآن(
    قرآن تمام لوگوںکی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے اگراسے سمجھ کرنہیں پڑھا گیا اور اس پر غورفکرنہیں کیاگیاتو اس پر عمل بھی مشکل ہوجائے گا یہ عام انسانوں کے لیے بڑی محرومی کی بات ہوگی کہ ان کے پاس دین ودنیا کے تمام مسائل کا حل موجودہو ،پھر بھی وہ اس سے فائدہ نہ اٹھائے۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...