Thursday 14 February 2019

Mere ABBA: Kuch Yaden




میرے ابا: کچھ یادیں
محب اللہ قاسمی
 آج صبح جب میں اپنی میز پر بکھری کتابوں اور فائلوں کو سلیقے سے رکھ رہا تھا تو میری نگاہ مصباح اللغات، القاموس الجدید عربی اردو،اردو عری پر پڑی ۔ لغت کی یہ  کتابیں مدارس عربیہ کے طلبہ و اساتذہ کے ساتھ کالجوں یونیورسیٹیوں میں پڑھنے پڑھانے والوں کے لیے کس قدر مفید اور ضروری ہیں؟ یہ معلمین اور متعلمین خوب جانتے ہیں۔

مگر ان کتابوں  سے میری کچھ یادیں جڑی  ہوئی ہیں،جنھیں میں  بھلا نہیں سکتا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں عربی اول یا دوم کا طالب علم تھا ، معلم الانشا ء ، القراۃ الراشدۃ، قصص النبیین  اورصورمن حیاۃ الصحابہ جیسی عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھ رہا تھا۔ اس وقت میرے پاس لغت کی کوئی کتاب نہیں تھی ،جب کہ دیگر ساتھیوں کے پاس ایسی کئی کتابیں موجود تھیں۔ وہ بہ آسانی  ان لغات کی مدد سے جملے بنایا کرتے تھے اور آئندہ سبق کا مطالعہ بھی کر لیا کرتے تھے۔ میں سوچتا تھا کہ میرے پاس بھی کوئی لغت ہوتی تو کتنا اچھا رہتا۔میں نے ذہن بنا لیا کہ ابّا سے کہہ کر میں یہ کتابیں حاصل کروں گا۔

طویل عرصہ تک پٹنہ میں رہنے کے بعد ہم لوگ اپنے گاؤں فاطمہ چک آ گئے ، ابا تلاش رزق میں دہلی چلے آئے ، پڑھے لکھے تو تھےپر  کوئی کام نہیں آتا تھا ۔چنانچہ وہ آٹو چلانے لگے اورمیں مدرسہ جامع العلوم مظفرپور میں پڑھ رہاتھا۔

 اس وقت موبائل فون کا دور تو نہیں تھا، ہاں البتہ لینڈ لائن فون کا چلن شروع ہوگیا تھا ۔ مدرسے کے دفتر میں ایک فون تھا ، جس  پر بات ہوتی تھی ۔اتوار کو سستی کال ہوا کرتی تھی۔میرے والد محترم ہمیشہ اتوار کو مجھے فون کرتے میری خیر یت اور پڑھائی کے بارے میں معلوم کرتے ۔مصارف سے متعلق دریافت کرتے۔ منی آرڈر بھیج دیا ہے،اس کی اطلاع دیتے۔ ایک دن ابا کا فون آیا۔ غالباً شعبان کا مہینہ تھااور سالانہ امتحان کی تیاری چل رہی تھی۔میں نے اپنی بہت سی باتوں کے ساتھ ان سےدرج بالا تینوں لغات کے لیے  فرمائش کردی۔ کہنے لگے: بیٹا! فکر مت کرو۔ میں عید پر گھر آؤں گا تو إن شاء اللہ لیتا آؤں گا۔ بات ختم ہوگئی۔

میرے والد محترم (جو 25 جنوری 2019 بروز جمعہ اس دار فانی سے کوچ کرگئے ،جنھیں مرحوم لکھتے ہوئے دل دہل جاتا ہے) کی خاص بات تھی ۔عید کے موقع سے جب بھی آتے تو تمام گھر والوں کے لیے کپڑے، جوتے، سینڈل اور جس کی جو فرمائش ہوتی وہ سب  لے کر آتے تھے اور جس وقت گھر پہنچتے اسی وقت آنگن میں سب کو بلا کر سب کی فرمائش کی چیزیں دے دیتے۔

اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ ابا سب کی چیزیں ان کے حوالے کرنے لگے۔ مجھے بھی میرے کپڑے، گھڑی ملی اور بیگ خالی ہو گیا۔ مجھے لگا کہ ابا میری ڈکشنری لانا بھول گئے۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا انھوں نے فوراً اپنی بڑی والی دوسری اٹیچی کھولی اور  دو تین کپڑے ہٹانے کے بعد ڈکشنری میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا یہ لو بھئی تمہاری فرمائش، اب خوش ہو! میں نے کہا: ابا آپ کچھ بھی نہیں بھولتے ہیں،جو بھی ہم کہتے ہیں وہ پورا کر دیتے ہیں۔ تب انھوں نے کہا:  بیٹا !تم لوگوں کے علاوہ میرا ہے ہی کون۔ خوب دل لگا کر پڑھو!

مجھے یاد ہے ،جب میں جامع العلوم میں ہی زیر تعلیم تھا،  ابا مجھ سے ملنے آئے ۔ایک بار وہ دہلی جانے لگےتو مجھ سے کہا کہ بیٹا!انسان اچھا کام ریا کاری سے شروع کرتا ہے، پھر وہ عادت بن جاتی ہے، پھر جب اس میں خلوص اور پختگی آتی ہے تو وہ عبادت ہو جاتی ہے.

ابا مرحوم کی ہم لوگوں سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ہم لوگوں کو کبھی مایوس نہیں ہونے دیتے تھے۔ ہمیشہ اچھا کرنے اور خوش رہنے کی تلقین کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ میں جامع العلوم مظفر پور سے دارالعلوم دیوبند جا پہنچا اور وہاں سے فضیلت حاصل کی.

میرے ابا آزاد ی ہند کے 14 سال بعد 5 فروری 1961 میں بہار کا موجودہ سب سے چھوٹا ضلع شیوہر کے ایک تعلیم یافتہ گاؤں فاطمہ چک کے ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے،جس کی دادی نے بڑی محنت و مشقت کے بعد اپنے بیٹےمحمد رفیق کو پڑھا لکھا کر اس قابل بنایا تھا کہ وہ پٹنہ میں سرکاری ملازمت (ریکارڈ کیپر،پٹنہ سچیوالیہ)کرنے لگے۔ابا  اسی محمد رفیق(میرے دادا) کے بیٹے ہیں۔
ابا کی ابتدئی تعلیم پٹنہ کے ایک اسکول میں ہوئی۔ جہاں سے ساتویں کی ڈگری لے کر واپس گاؤں آگئے اور اس وقت کے غیر معمولی شہرت یافتہ ،جہاں کے بیشتر فارغین ضلع جوار میں سرکاری ٹیچر بحال ہیں یعنی مدرسہ اسلامیہ عربیہ ڈومری میں داخلہ لیا ۔ان سے بڑے دوبھائی بھی مدرسہ میں زیر تعلیم تھے جو اپنی ذہانت اور قابلیت سے پورے مدرسہ میں معروف تھے ،مگر جلد ہی ان کا انتقال ہو گیا  اور ایک بڑی بہن جو تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر مشاغل میں بھی مہارت رکھتی تھی ۔خواتین کو قرآن اور دینی تعلیم سے آراستہ کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ مگر وہ بھی شادی کے بعد انتقال کر گئیں۔
اب صرف ابا اور ان سےچھوٹے ایک بھائی اور تین بہنیں تھیں۔ ابا نے فوقانیہ  کے بعد مولوی  تک ہی تعلیم حاصل کی، مگر اپنے مشفق استاذ مولانا عبدالغفار صاحب (جو علوم دینیہ کے علاوہ علوم سائنس، ریاض اور سوشل سائنس کے ماہر تھے) کی شفقت و محبت سے انھوں نے اردو ،ہندی کے علاوہ انگریزی اور حساب میں کافی مہارت حاصل کر لی تھی۔ اس کے بعد وہ اہل خانہ کے ساتھ واپس پٹنہ چلا گئے ۔ وہاں کافی پیسے کمائے ۔بھائی اور ایک  بہن کی تو دادا نے شادی کی مگر دادا کے انتقال کے بعد کبھی انھیں اپنے والد کے نا ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا۔ دو بہنوں کی کفالت، اس کی تعلیم اور شادیکی ذمہ داری ابا نے بہ حسن خوبی انجام دی۔ باپ کی طرح سب کی پرورش کی۔  بھائی کو اور ان کے بچوں کو بھی جوڑے رکھا اور والدہ کی رہنمائی اور سرپرستی میں ساری ذمہ داری انجام دی۔
بشری کم زوری کے تحت انسانوں میں  بہت سی خامیاں اور کوتاہیاں ہوسکتی ہیں  ،مگر کچھ نمایاں خصوصیات ایسی ہوتی ہیں ،جنھیں بھلایا نہیں جاسکتا۔

ابا کی ایسی ہی چند خوبیاں آج بھی ہم سب کے دل و دماغ پر نقش ہیں۔مثلاً پٹنہ میں قیام کے دوران جب وہ پٹنہ سے آتے اور مسجد کی کوئی ضرورت تعمیر یا مرمت کی ہوتی تو بلا کسی  مطالبے کے خود ہی بہت ساکام ذاتی پیسوں سے کرتے، ضرورت مند کو کوئی رقم دیتے تو کبھی واپسی کا دن متعین نہ کرتے۔ کہتے: جب سہولت ہو، دے دینا۔ دل میں کبھی کسی سے کینہ یا بغض نہیں رکھا، کسی کو کچھ کہا تواس کے  منہ پر کہا۔ نہ کبھی کسی سے مرعوب ہوئے، نہ بڑوں سے بد تمیزی سے پیش آئے، وہ ہمیشہ  اپنے چھوٹوں سے بڑے مشفقانہ انداز میں ملتے اور بچوں سے تو انھیں بے حد لگاؤ تھا ،انھیں  روتا دیکھ کر اٹھا لیتے اور چسکاری دے کر ہنساتے۔


ایک وقت تھا جب ابا کی آمدنی بہت زیادہ تھی۔ گاؤں کے لوگ کہتے تھے کہ محمدحسیب(اباکانام) کے برابر کسی کی آمدنی نہیں، پیسوں کی بارش ہوتی ہے۔ مگر انھوں نے پیسوں سے کبھی محبت نہیں کی، خوب خرچ کیا۔ غریبوں اور بے کسوں پراس طرح انفاق کرتے گویا کوئی اپنے اہل و عیال پر خرچ کر رہا ہو اور مساجد و مدارس کو اس طرح عطیات دیتے جیسے اپنے مکان میں لگا رہے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ  آج ہم لوگوں کے پاس گرچہ کوئی نیا مکان نہیں اور نہ ہی کچھ زمین جائداد ہے۔مگر آج بھی گھر کا ماحول ایسا  ہے کہ اباکے چاہنے والے آتے ہیں، ضیافت کا لطف لیتے ہیں، ان کی خوبیوں کا تذکرہ ہوتا ہے اور دعائیں دے  کر چلے جاتے ہیں۔ اپنے مہربان، مشفق باپ کی یہ لائق تحسین ،قابل فخر خوبیاں جن کی یادیں میرے لیے سرمایہ حیات ہیں۔

اللہ تعالی سے دعا ہےکہ اللہ رب العالمین میرے والد محترم کے گناہوں، لغزشوں، کوتاہیوں کو اپنے بے پناہ فضل و کرم سے معاف کرے، انھیں جنت الفردوس میں اعلی مقام بخشے اور ہم (والدہ سمیت 4 بھائی اور 3 بہنوں) لوگوں کو صبر جمیل عطا کرے۔
آمین یا رب العالمین

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...