حب وطن پرمسلمانوں کوصفائی
کی ضرورت نہیں
ایک آدمی کے نماز پڑھنے کو جرم سمجھتے ہوئے اگر کوئی اس پر دہشت گرد
ہونے کا الزام لگائے تو کیا اس کے جواب میں
کہا جائے گا کہ میں نے نماز نہیں پڑھی! اب
میں نماز نہیں پڑوں گا!! ہر گز نہیں، بلکہ یہ کہا جائے گا کہ ہاں میں نے نماز پڑھی
ہے اور نماز پڑھنا دہشت گردی نہیں ہے اور اگر ہے تو میں دہشت گرد ہوں۔ اسی طرح اگر
ایک مسلمان کو محض مسلمان ہونے کی بنا پر
دہشت گرد کہا جائے تو کیا وہ کہے گا کہ میں مسلمان نہیں ہوں! ہزگز نہیں، بلکہ وہ
کہے گا کہ میں مسلمان ہوں اور محض مسلمان ہونا دہشت گردی نہیں ہے اور اگر ہے تو میں
دہشت گرد ہوں!
عجیب حال ہے _ایک تماشا بنا رکھا ہے۔ کہیں بھی کچھ ہو، فوراً مسلمانوں کی
گرفتاری، فوراً ان پر دہشت گردی کا الزام، فوراً غداری وطن کا الزام۔ حد ہے!
جب کہ یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ کون غدار ہے؟ کون ملک میں نفرت کی سیاست کر
رہا ہے؟
اب مسلمانوں کو یہ صفائی دینے
کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ محب وطن ہیں ۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ مسلمانوں نے اپنے
خون سے وطن عزیز ہندوستان کو سیچا ہے، ان
کے خون میں وطن سے محبت شامل ہے۔ آزادی ہند میں مسلمانوں سے زیادہ کس نے قربانی دی؟
ظاہر ہے، مسلمانوں نے ہی دی ہے ، یہی
دارالعلوم دیوبند ہے جس نے ہندوستان کو
انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے میں
اہم کردار نبھایا ہے ! بڑی بے شرمی سے اسے دہشت گردی کا اڈہ بتایا جاتا ہے۔
وہاں کے طلبہ کو گرفتار کر کے انھیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کا انکاؤنٹر کر
دیا جاتا ہے۔ یہ صلہ ہے وطن پر قربانی دینے اور اس کے لیے جانفشانی کرنے کا۔
یہ ہماری کمزوری ہے کہ ہم انتشار کا شکار ہیں، ہم سیاسی طور پر مستحکم نہیں۔
حسب تناسب پارلمنٹ میں ہماری نمائندگی نہیں۔ اس وجہ سے ہماری آواز دب جاتی ہے۔
مگر ظلم کے خلاف ہمیشہ صدائے احتجاج بلند ہوتی رہیں گی۔
برادران وطن اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک سچا مسلمان کبھی اپنے وطن سے نفرت نہیں
کرتا۔ وہ ملک کو بنانے، سنوارنے میں اپنے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ دیتا ہے۔ وہ محنتی، ایماندار اور جفاکش ہوتا ہے
_ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ہر اپنی جان لگا دیتا ہے۔
یہ مٹھی بھر امن کے دشمن یہ
سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی سیاسی روٹی سینکنے کے لیے ہم ہندوستانیوں کو آپس میں لڑا دیں
گے، جیسا کہ وہ ہر بار کرتے آرہے ہیں، تو یقین جانیے اب ان شاء اللہ ایسا نہیں
ہوگا۔ اب بڑی حد تک بیداری آئی ہے اور
لوگ نفرت کی سیاست کو سمجھنے لگے ہیں۔ ہمارے ملی قائدین کو بھی چاہیے کہ وہ
مضبوطی کے ساتھ ملک میں مسلمانوں اور عام انسانوں پر ہو رہے مظالم کے خلاف آواز
بلند کریں اور کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کریں ،تبھی ملک میں خوش حالی آئے گی، ظلم مٹے گا اور ملک
ترقی کرے گا۔
No comments:
Post a Comment