غزل
بھٹک
نہ جائے پھر انسان رہ دکھاؤ ذرا
چراغ
پھر سے اندھیروں میں تم جلاؤ ذرا
وہ تیرے
نعرہ تکبیر سے لرزتے تھے
لگاؤ
پھر وہی نعرہ انھیں ڈراؤ ذرا
جو
مانگ لیتے سلیقے سے جان دیدیتے
مگر
دغا سے تمہیں کیا ملا بتاؤ ذرا
وہ دے
گیا ہے دغا جس سے کی وفا برسوں
وفا کی
کس سے اب امید ہو بتاؤ ذرا
اگر
غزل میں تمہاری دوائے درد بھی ہے
تو آؤ
میرے قریب اور غزل سناؤ ذرا
رفیق
منزلیں آسائشوں سے بھاگتی ہیں
تمہارے
پیٹ پہ پتھر ہے کیا دکھاؤ ذرا
(محب اللہ رفیق)
No comments:
Post a Comment