Monday 29 October 2018

Bhatak na Jaye phir insan rah dikhao zara


غزل

بھٹک نہ جائے پھر انسان رہ دکھاؤ ذرا
چراغ پھر سے اندھیروں میں تم جلاؤ ذرا

وہ تیرے نعرہ تکبیر سے لرزتے تھے
لگاؤ پھر وہی نعرہ انھیں ڈراؤ ذرا

جو مانگ لیتے سلیقے سے جان دیدیتے
مگر دغا سے تمہیں کیا ملا بتاؤ ذرا

وہ دے گیا ہے دغا جس سے کی وفا برسوں
وفا کی کس سے اب امید ہو بتاؤ ذرا

اگر غزل میں تمہاری دوائے درد بھی ہے
تو آؤ میرے قریب اور غزل سناؤ ذرا

رفیق منزلیں آسائشوں سے بھاگتی ہیں
تمہارے پیٹ پہ پتھر ہے کیا دکھاؤ ذرا
(محب اللہ رفیق)



No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...