Sunday 28 July 2019

Story: DECISION فیصلہ



فیصلہ

شہلہ تم بھی نا عجیب لڑکی ہو۔شہرت کی بلندی پر بیٹھی ہر خاص و عام کی زبان پر تمہارا ہی چرچا ہے۔ اس کم عمری میں اتنی مقبولیت کوئی معمولی بات نہیں ہے۔اب تم ہر جواں لڑکی کی آئیڈیل ہواور کریئر بنانی والی لڑکیوں کی آئکن گرل بن چکی ہو۔اس کے باوجود بھی نہ جانے تم کن خیالات میں گم رہتی ہو۔

شہلہ اپنی سہیلی ششما کی باتیں سنتی رہی۔ پھر وہ اپنے خیالات میں گم ہو گئی۔ ششما یہ دیکھ کر جھنجھلا ئی اور بڑبڑاتی ہوئی وہاں سے جانے لگی”سوچتی رہو۔ اب تمہارا کچھ نہیں ہوگا۔

تب شہلہ نے جواب دیا۔ وہی تو میں بھی سوچ رہی ہوں کہ میں اتنی مشہور ہو گئی ہوں،مگر میرے رب کے یہاں میرا کچھ بھلا نہیں ہوگا۔جس خدا نے مجھے وجود بخشا، زندگی دی وہی مجھ سے راضی نہیں!

میں چمک دمک کی اس رنگین دنیا میں گم ہو چکی ہوں، میں اپنے رب کو بھول گئی ہوں۔ میری خاموش راتیں جس کی تنہائیوں میں جب میں ہوتی ہوں، تو میرا ضمیر مجھے آواز دیتا ہے اور اس کے سوالات مجھے بے چین کردیتے ہیں۔

ششما تمہیں نہیں معلوم! موت کی حقیقت، خدا کے سامنے جواب دہی کا احساس اور زندگی کی مقصدیت سے لاپرواہی نے مجھے اندر سے جھنجھور کر رکھ دیا ہے۔ میری روح مجھ سے پوچھتی ہے کہ شہلہ دوسرے لوگوں کی طرح ایک دن تمہیں بھی مرنا ہے۔ تمہاری زندگی یہ اس رب کی دی ہوئی امانت ہے جس نے سارے جہاں کو وجود بخشا ہے۔ اس کی مرضی کے خلاف اس میں تصرف خیانت ہے۔ میرا ضمیر مجھ سے کہتا ہے کہ مانا تم خوبصورت ہو، مغرور ہو اور ابھی کافی مشہور بھی ہو گئی ہو،مگر ذرا سوچو کیا یہ سب باقی رہنے والی چیز ہے؟ شہرت کی وہ عمارت جو تیرے رب کی ناراضگی کھڑی ہو۔ جس پر تیرا غرور جسے جب چاہے خداچور کر دے۔ یہ جوانی اور خوب صورتی جو چند روزہ ہے، بہ ذات خود تمہارااس میں کوئی کمال نہیں ہے۔ یہ صرف اوپر والے کی دین ہے۔ تو کیا تم اس کی نافرمانی میں اسے صرف کردوگی؟ یا خدا اپنے بندوں سے کیا چاہتا ہے اور اس کی مرضی کو جاننے کی کوشش کروگی؟اس کی دی ہوئی زندگی کاصحیح استعمال کروگی یا پھر اپنی مرضی سے اس کے غضب اورجہنم کے شعلوں کا شکار بنوگی؟

اپنے حسن و ادا کی نمائش کرنے والی اور اس کے سہارے شہرت بٹورنے والی لڑکیوں کی طرح تم بھی اسی گناہ کے کیچڑ میں جا دھنسو گی۔ جب کہ تم تو بنت حوا ہو،شرم و حیا تمہارا گہنا ہے۔ پاکیزہ زندگی تمہارا مقصد اور رب کی رضا تمہارا نصب العین ہے۔

ششما نے اس کی تمام باتیں بغور سننے کے بعد اس سے کہا: یہ بات تو ہے پر تم تو جانتی ہی ہو کہ یہ ایسا ماحول ہے، جہاں ہمیں یہ سب کرنا ہوگا اور یہی تو کریئر ہے جس کے سہارے آج تم اس بلند مقان پر ہو۔ تو کیا تم اس فلم نگری کو چھوڑ دوگی؟

اس کے جواب میں شہلہ نے برجستہ کہا: ”ہاں“میں ہر وہ جہاں اور کام چھوڑ دوں گی جو مجھے میرے مقصد حیات سے دور کردے اور میرے رب سے میرا تعلق توڑدے۔ مجھے اللہ نے اس لیے پیدا نہیں کیا کہ میں اس کی نافرمانی میں زندگی بسر کروں۔

ششما نے اسے پھر سمجھایا:سوچ لو۔ یہ مت بھولو کہ یہ شہرت تمہیں یوں ہی مل گئی ہے۔ بڑی محنت اور کوششوں سے تم نے مقام حاصل کیا ہے۔ اس نگری سے نکل کر تم کوئی پارسا نہیں ہو جاؤگی،لوگ تمہیں پرانی زندگی سے ہی یاد کریں گے۔ ان کے طعنوں کا شکار رہو گی۔

اس پر مسکراتے ہوئے شہلہ نے جواب دیا: میں یہاں کسی کی مرضی سے تو آئی نہیں تھی۔ اس لیے اب میں خود اپنی مرضی سے جا رہی ہوں تو مجھے اس میں کسی کی کوئی پرواہ نہیں۔ میں اپنے رب کو ناراض رکھ کر اس کی بغاوت کرتے ہوئے جینا نہیں چاہتی۔ مجھے اپنے رب کا قرب اور تعلق عزیز ہے اس کے لیے میں ہر طعنے سہنے کو تیار ہوں۔

تب ششما نے اس کی پیٹھ تھپتھاتے ہوئے کہا: جا میری جان،واقعی تیرا مذہب کتنا عظیم ہے، تجھے اپنے رب پر کتنا اعتماد ہے۔ واقعی اصل زندگی تو اوپر والے کے بنائے نیموں کے انوسار ہی بتانا چاہیے۔ اگر سارے لوگ ایشور کے نیم کا پالن کرنے لگے تو پھر دنیا میں کہیں کوئی بے حیائی، فحاشی اور ظلم و ستم نہیں رہے گا۔حیا عورتوں کا گہنا ہے بے حیائی تو اس کی مجبوری بن جاتی ہے اور اس مجبوری کو لوگ عورتوں کی آزادی تصور کرتے ہیں جو درحقیقت عورتوں تک بنا رکاوٹ پہنچنے کے لیے ظالم سماج کے ہت کنڈے ہیں۔ اب میں بھی اسلام کی اسٹڈی کروں گی۔

ششما بڑے جذباتی انداز میں اپنے باتیں بیان کر رہی تھی تب ہی ایک ڈائریکٹر آیا اور اس نے ششما کو آواز دی، ارے ششما تم یہاں بیٹھی ہو جلدی چلو، شوٹنگ کا ٹائم ہو رہا ہے۔ تمہارے آئی ٹم سانگ کا سیٹ تیار ہو ہے۔
شہلہ اسے حیرت بھری نظروں سے دیکھتی رہی اور اپنے فیصلے پر رب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا:تھینک گاڈ!
محب اللہ قاسمی


No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...