Friday 19 June 2020

Dumri Madarsa Fatma Chak



میرے اور ابا کے دور کا ڈمری مدرسہ
محب اللہ قاسمی

یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ پٹنہ رہتا تھا۔ یوں تو میری ابتدائی تعلیم اپنے دادی کے ساتھ رہ کر فاطمہ چک میں مولوی ہاشم صاحب نیپالی زیر تربیت ہوئی۔ قرآن اور اردو اور حساب کی ابتدائی چیزیں میں نے ان سے ہی پڑھی۔ چوں کہ ہم لوگ اگثر پٹنہ میں رہتے تھے اس لیے گاؤں میں بہت کم ہی رہنے کا اتفاق ہوا مگر ایک ایسا زمانہ بھی آیا جب دادی نے مجھے ڈومری مدرسہ پڑھنے کے لیے بھیجا وہ خود ہی میرا ٹیفن تیار کرتی اور کپڑے کے سلے تھیلے میں کتاب رکھ کر بھیجتی تھی۔ مولانا جمال الدین صاحب سے عربی، مولانا شاہ عالم صاحب سے اردو اور فارسی پڑھی کوئی ماسٹر صاحب تھے نام یاد نہیں آ رہا ہے ان سے حساب وغیرہ پڑھنے کا موقع ملا۔ اس وقع میرا دوست چھوٹے (مطیع اللہ) بھی میرے ساتھ ہی مدرسہ آیا جایا کرتا تھا اور ہم لوگ خوب شرارت بھی کرتے تھے۔ خاص طور سڑک کے دونوں طرح آم کے گاچھی میں مہوا، ٹکولہ چننا کبھی توڑنا وغیرہ۔

پھر مدرسہ کی پڑھائی چھوٹ گئی اور ہم لوگ پٹنہ میں رہنے لگے۔ غالباً 95 یا 96 کی بات ہے جب ہم لوگ پٹنہ چھوڑ پوری طرح گاؤں میں شفٹ ہوگئے تو میری تعلیم کے لیے غور ہونے لگا کیوں کہ میں نے پانچویں کلاس تک اسکول میں پڑھائی کی تھی تو آگے کیسے پڑھنا ہے یہ پوری طرح میرے اوپر تھا والد صاحب نے کہا کہ شیوہر اسکول میں ایڈمیشن کرا دیتے ہیں سائکل آنا جانا۔ مگر میں نے انکار کردیا، اس کی وجہ جو مجھے اچھی طرح یاد ہے۔

میں نے حبیب اللہ کو دیکھا اور کچھ اور بچے تھے کہ وہ گلے میں رومال ڈالے کرتا پائجامہ کے ساتھ مجید دادا، منظور دادا، محمد دین دادا جولوگ سڑک کے قریب کھٹیا پر بیٹھے ہوتے تھے ان کے قریب جاتا سلام کرتا اور مصافحہ کرتا مجھے یہ ادا بے حد بھا گئی۔ اگر چہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ مدرسہ میں کس طرح ماں باپ اور گھر خاندان سے رہ کر پڑھا جاتا ہے۔ میں نے ابا سے کہا کہ میں اسکول میں نہیں مدرسہ میں پڑھوں گا۔ چنانچہ میرے لیے بکسہ پیٹی تیارکے مجھے سیتا مڑھی مدرسہ میں داخلہ کرایا گیا، ابا، سمیع اللہ چا مجھے لے کر مدرسہ گئے تھے۔ پھر میں جامع العلوم مظفرپور، مدرسہ قادریہ ہماچل پردیش اور بالآخر دارالعلوم دیوبند پہنچ کر سند فضیلت حاصل کی۔

خیر میں یہ بتا رہا تھا کہ میری بھی کچھ نہ کچھ تعلیم دومری مدرسہ میں ہوئی ہے اور راشد کے آنکھ میں چوٹا پڑنے کا واقعہ ہو یا مولانا جمال صاحب کے رعب و دبدبہ کی بات ہو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔

اب میں بات کرتا ہوں اپنے والد مرحوم کی جن کی ولادت 5 فروری 1961 ہے۔ ان کیابتدئی تعلیم پٹنہ کے ایک اسکول میں ہوئی۔ جہاں سے ساتویں کی ڈگری لے کر واپس گاؤں آگئے اور اس وقت کے غیر معمولی شہرت یافتہ، جہاں کے بیشتر فارغین ضلع جوار میں سرکاری ٹیچر بحال ہیں یعنی مدرسہ اسلامیہ عربیہ ڈومری میں داخلہ لیا۔ ان سے بڑے دوبھائی بھی مدرسہ میں ہی زیر تعلیم تھے جو اپنی ذہانت اور قابلیت سے پورے مدرسہ میں معروف تھے، مگر جلد ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ ابا نے فوقانیہ  کے بعد مولوی  تک ہی تعلیم حاصل کی، مگر اپنے مشفق استاذ مولانا عبدالغفار صاحب (جو علوم دینیہ کے علاوہ علوم سائنس، ریاض اور سوشل سائنس کے ماہر تھے) کی شفقت و محبت سے انھوں نے اردو، ہندی کے علاوہ انگریزی اور حساب میں کافی مہارت حاصل کر لی تھی۔ بتاتے ہیں کہ وہ نہ صرف اردو ہندی بلکہ  انگریزی، حساب وغیرہ میں بھی بڑے ماہر تھے۔ اس زمانے میں گاؤں میں کسی کا مانی آرڈر وغیرہ آتا یا اس پر کچھ لکھا ہوتا۔ ہندی یا انگریزی کا کوئی مسئلہ ہوتا تو ابا اسے حل کرتے تھے۔اس کی وجہ ابا کے استاذ مولانا عبدالغفار صاحب کی خاص شفقت و محبت تھی۔ سالم چا کی زبانی میں بتاتا چلوں کہ فاطمہ چک میں کوئی مجاور یا پاکھنڈی ٹائپ کا مولوی نما ایک شخص آیا اور علی الاعلان جنت کا ٹکٹ بیچنا شروع کردیا۔ گاؤں کے کسانوں کو مرعوب کرنے اور اپنی بات میں وزن ڈالنے کے لیے وہ کہتا تھا کہ مٹیاہا جنت یا بلواہا کون سی جنت لینی ہے۔ پھر وہ ابا سے ٹکرا گیا۔ ڈومری مدرسہ کا پڑھا ہوا طالب علم انھوں نے اس کی ایسی حجامت بنائی اور کہا کہ یہاں سے فوراً شکل گم کرو ورنہ خیریت نہیں۔

ابا کہتے تھے:
انسان اچھا کام ریا کاری سے شروع کرتا ہے، پھر وہ عادت بن جاتی ہے، پھر جب اس میں خلوص اور پختگی آتی ہے تو وہ عبادت ہو جاتی ہے.
اپنے اخری لمحہ میں جب وہ بیماری کے سبب کھڑے ہونے کی کوشش کرتے اور گر جاتے پھر اٹھتے تو کہتے تھے:
انسان گرتا ہے، اٹھتا ہے، لڑکھڑاتا ہے، سنبھلتا ہے پھر گرتا ہے پھر اٹھنے کی کوشش کرتا ہے اور اٹھتا ہے. یہی تو زندگی ہے ورنہ مر کر تو سارے لیٹ جاتے ہیں. اس میں کوئی حرکت نہیں ہوتی.
ابا جو بہت گہری گہری باتیں کر جاتے تھے وہ ان کے اس مدرسہ میں تعلیم کا ہی نتیجہ تھا۔

الغرض فاطمہ چک نے اس مکتب کو عروج بخشا اور اس سے علم کی جو روشنی پھوٹی اس کو دور دور تک پہنچایا جس سے نہ صرف مدرسہ معروف ہوا بلکہ فاطمہ چک معروف ہوگیا جو اپنے علاقہ میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ یعنی ڈومری مدرسہ جسے فاطمہ چک مدرسہ کہنا چاہیے اسے گاؤں اور گاؤں والوں نے اس مدرسہ کا خوب نام روشن کیا۔ اللہ تعالی اسے مزید ترقی دے اور اس کے تعلیمی نظام کو مزید بہتر بنانے کی توفیق بخشے۔

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...