علم و عمل ایک دوسرے کے بغیر
ناقص
علم کی
روشنی سے ہم تب ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب اس سے تربیت کی بھی کوشش کی جائے ۔ جس علم سے اللہ کی معرفت حاصل ہو، جس
علم سے ہم حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی بھی پاسداری کر رہے ہوں۔
جس سے
ہمارے اندر بڑوں کا احترم اور چھوٹوں پر شفقت کا سلیقہ آئے
جس سے
ہمارے اندر ایک دوسرے کی تنقید کو سن کر اس کا مناسب رد عمل پیش کر سکیں،
جس کے ذریعہ
ہم حق کے طرف دار ہوں،
جس سے ہم
ہر طرح کے ظلم کا خاتمہ جس سطح سے بھی کرسکتے ہوں کرنے کے لیے تیار ہوں۔
جس سے ہم
مظلوم کی آواز بن سکیں، مجبور کا درد محسوس کر سکیں۔ورنہ بقول معروف شاعر سرفراز
بزمی ؎
اللہ سے
کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی
اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
نا حق کے
لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی
کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ
پھر ہم
علم چاہیے جتنا بھی حاصل کر لیں اس کا کیا حاصل جب عمل ہی ناقص ہو۔ بقول شیخ سعدیؒ
علم
چندآں کہ بیشتر خوانی چوں عمل در تو نیست
نادانی
علم جس
قدر بھی حاصل کر لیا جائے جب عمل نہ ہو تو عقل مند نہیں سمجھا جائے گا
اسی طرح
ایسے شخص کے سلسلے میں شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں:
نه محقق
بود نه دانشمند چارپائے بر
او کتاب چند
بے عمل
شخص کو نہ محقق سمجھا جائے گا اور نہ دانش مند بلکہ ایک چارپائی ہے جس پر چند
کتابیں لدی ہوئی ہیں۔
No comments:
Post a Comment