Thursday, 8 June 2017

Ramzan, Quran aur Fahme Quran


رمضان ، قرآن اور فہم قرآن
                                                                      محب اللہ قاسمی ،نئی دہلی

ماہ رمضان المبارک کے روزے دراصل ایک عظیم الشان نعمت پر تشکر کااظہارہے ، وہ نعمت ہے انسانوں کی ہدایت کے لیے قرآن کریم جیسی بے مثال کتاب الٰہی کا نزول۔اس کی وجہ سے رمضان کے روزے فرض کیے گئے اور دیگر مہینوں پر اسے فضیلت دی گئی۔اللہ تعالی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایاہے:

’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے ، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے ، سختی کرنا نہیں چاہتا۔اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سر فراز کیا ہے ، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔‘‘(185)

اس لحاظ سے قرآن اور رمضان کا بہت گہرا تعلق ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؐماہ رمضان میں حضرت جبرئیل ؑکے ساتھ قرآن کا دور فرماتے اور بہ کثرت قرآن کی تلاوت کرتے۔چنانچہ ہم ماہ رمضان میں دیکھتے ہیں کہ نماز تراویح میں اور الگ سے بھی بہ کثرت اس کی تلاوت کی جاتی ہے ۔ رمضان اور قرآن کو اس طور پر بھی مناسبت حاصل ہے کہ یہ دونوں روز قیامت بندے کے حق سفارش کریں گے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’قیامت کے دن روزہ اور قرآن دونوں بندے کی شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا، اے پروردگار! میں نے اس بندے کو دن کے وقت کھانے پینے اور خواہش پوری کرنے سے باز رکھا۔ قرآن پاک کہے گا کہ میں نے اس کو رات کے وقت سونے سے باز رکھا تو آپ میری اس کے لیے شفاعت قبول فرمالیجئے۔ چنانچہ دونوں بندے کی شفاعت کریں گے اور ان کی شفاعت قبول کی جائے گی۔‘‘(مسند احمد)
اس طرح قرآن کریم کاکی تلاوت اللہ تعالی اس کے ایک ایک حرف پراجرعطا کرے گا۔

اس میں شک نہیں کہ کلام پاک کی تلاوت اللہ کوبے حد محبوب ہے اور اس پڑھنا اور سننا دونوں کارثواب ہے ۔ اس کی ایک ایک آیت پر اجروثواب کا وعدہ ہے، مگریہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا فہم ، اس میں غوروتدبر اوراس پر عمل پیراہونا نہایت ضروری ہے۔یہی نزول قرآن کا منشا ہے:

کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ (ص:29(
’’یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو(اے نبی)ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غورکریں اورعقل وفکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔‘‘

نزول قرآن کا مقصد اس کے سوا اورکچھ نہیں کہ انسان اپنے رب کو پہچانے، اس کے بنائے ہوئے اصول وقوانین کے مطابق زندگی بسرکرے ،اس کی ہدایات کے مطابق اپنے افکاروخیالات اوراعمال وکردار کوصحیح رخ پر لگائے اورایک اچھا انسان بن کرقوم ومعاشرے کے لیے مفیدثابت ہو۔اس لیے اس کے علاوہ اورکوئی وہ اصول وقوانین مرتب کرنہیں سکتا۔اس لیے کہ جس نے دنیا اوراس کی چیزوںکوپیداکیاہے ،وہی جانتاہے کہ اس میں کون سی چیزبری ہے اور کون سی چیز اچھی ہے۔کس طرح اس کی اصلاح ہوگی اورکن وجوہ سے اس میں فساد وبگاڑواقع ہوسکتاہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ ہی دنیاکا نظام مرتب کرسکتاہے کوئی اورنہیں۔صرف اسی کی اطاعت سے انسان دونوںجہاں میں فلاح ونجات پاسکتاہے۔

قرآن مجید تمام انسانوںکوانھی تعمیری اورمثبت افکار کی دعوت دیتاہے۔ اس کائنات کی تمام مخلوقات میں سب سے افضل انسان ہے ۔وہی اس کا حق دارہے کہ وہ نظم مملکت کو سمجھے اورقرآن میں غوروتدبرسے کام لے۔اس لیے قرآن کے مخاطب تمام انسان ہے۔اس کا مخاطف صرف مسلمانوںکوقراردیناصحیح نہیں۔یہ قرآن کی آیت(ہدی اللناس - ’تمام لوگوںکے لیے ہدایت ہے‘)کے سرسرخلاف ہے۔قرآن عام لوگوںکو دنیا کی تخلیق اوراس نظام میں غوروفکرکی دعوت دیتاہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے:

وَلَئِن سَأَلْتَہُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَیَقُولُنَّ اللَّہُ فَأَنَّی یُؤْفَکُونَ (61) اللَّہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن یَشَاء ُ مِنْ عِبَادِہِ وَیَقْدِرُ لَہُ إِنَّ اللَّہَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْمٌ (62) وَلَئِن سَأَلْتَہُم مَّن نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً فَأَحْیَا بِہِ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ مَوْتِہَا لَیَقُولُنَّ اللَّہُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّہِ بَلْ أَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُونَ (63)(عنکبوۃ :63-61(

’’ان لوگوں سے پوچھوکہ زمین اورآسمانوںکوکس نے پیدا کیاہے اور چانداورسورج کوکس نے مسخرکیاہے تووہ ضرورکہیں گے کہ اللہ نے،پھریہ کدھرسے دھوکاکھارہے ہیں؟اللہ ہی ہے جواپنے بندوںمیں سے جس کا چاہتاہے رزق کشادہ کرتاہے اورجس کا چاہتاہے تنگ کرتاہے۔یقیناً اللہ ہرچیز کا جاننے والاہے۔اوراگرتم ان سے پوچھوکس نے آسمان سے پانی برسایااوراس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو جلااٹھایاتووہ ضرورکہیں گے اللہ نے۔کہو،الحمدللہ،مگران میں سے اکثرلوگ سمجھتے نہیں۔‘‘

اللہ نے انسان کودل ودماغ کی شکل میں ایک خاص قسم کی دولت عطا کی ہے۔قرآن کریم انسان کو اسی عقل وشعورکے استعمال کے لیے جھجھوڑتا ہے:افلایتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالہا(محمد :24)کیا ان لوگوں نے قرآن پر غورنہیں کیا یادلوںپران کے قفل چڑھے ہوئے ہیں۔

ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اللہ اپنے بندوںکوتدبرقرآن کا حکم دیتاہے اورجولوگ اس کے محکم معانی میںغوروفکرسے اعرض کرتے ہیں ان کی سرزنش کرتاہے ۔

حسن بصری ؒفرماتے ہیں :نزل القرآن لیتدبر ویعمل بہ، فاتخذواتلاوتہ عملاً ،ای عمل الناس اصبح تلاوۃ القرآن فقط بلا تدبر ولا عمل بہ۔(مدارج السالکین:485/1)

قرآن اس لیے نازل ہوا ہے کہ اس میں تدبرکیاجائے اورا سپر عمل کیاجائے ۔لیکن لوگوںنے اس کی تلاوت کوکام سمجھ لیا،بعض لوگوںکا کام بس یہ ہوگیاہے کہ بلاغوروفکراس کی تلاوت کرلیااس کی عمل کی طرف توان کی بالکل توجہ نہیں ہوتی۔

ابن قیم :لیس شی انفع للعبدفی معاشہ ومعادہ من تدبرالقرآن وجمع الفکرعلی معانی آیاتہ،(نضرۃ النعیم ص:909(
تدبرقرآن اورا سکی آیات پرتوجہ مرکوزکرنے سے زیادہ نفع بخش اورکوئی چیز نہیں ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:

قُل لِّمَنِ الْأَرْضُ وَمَن فِیْہَا إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ0  سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ أَفَلَا تَذَکَّرُونَ 0 قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ  0  سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ 0 قُلْ مَن بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْْء ٍ وَہُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْْہِ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ  0 سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ فَأَنَّی تُسْحَرُونَ (مومنون:89-84)

’’ان سے کہو،بتاؤ اگرتم جانتے ہوکہ یہ زمین اوراس کی ساری آبادی کس کی ہے؟یہ ضرورکہیں گے اللہ کی۔کہو،پھرتم ہوش میں کیوںنہیں آتے؟ان سے پوچھو،ساتوںآسمانوںاورعرشِ عظیم کا مالک کون ہے؟یہ ضرورکہیں گے اللہ۔کہو،پھر تم ڈرتے کیوںنہیں؟ ان سے کہو،بتاؤاگرتم جانتے ہوکہ ہرچیز پر اقتدار کس کا ہے؟اورکون ہے جوپناہ دیتاہے اوراس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟یہ ضرورکہیں گے کہ یہ بات تواللہ ہی کے لیے ہے کہو، پھر کہاں سے تم کو دھوکہ لگتاہے؟‘‘

خالی گھر شیطان کا ہوتا ہے ،اسی طرح خالی ذہن شیطان کی آماجگاہ ہوتی ہے۔یا یوںکہیے کہ جس چیزمیں خیرنہ ہو اس میں شر کا ہونا یقینی ہے۔کیوںکہ دنیا کی کوئی بھی شی خالی نہیں ہوتی حتی کہ خالی گلاس بھی خالی نہیں اس لیے کہ اگراس میں پانی نہ ہو،تو ہوااس میں اپنی جگہ بنالیتی ہے۔ٹھیک اسی طرح  اگرانسان نے اپنے افکار و خیالات کو مثبت رخ نہیں د یا یایونہی بنا سوچے سمجھے زندگی بسرکی تواس میں اورایک مویشی میں کوئی فرق نہیں ،کیوںکہ دونوںکا زندگی گزارنابے مقصدہے۔ جب کہ اللہ نے اس دنیا اوراس کی چیزوں کو بے مقصدپیدانہیں کیا۔اس لیے قرآن لوگوںکوغوروتدبرکی دعوت دیتاہے:
إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ لآیَاتٍ لِّأُوْلِیْ الألْبَابِ0 الَّذِیْنَ یَذْکُرُونَ اللّہَ قِیَاماً وَقُعُوداً وَعَلَیَ جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذا بَاطِلا0
’’زمین اورآسمانوںکی پیدائش میں اوررات ودن کے باری باری سے آنے میں ان ہوش مندلوگوںکے لیے بہت نشانیاں ہیںجواٹھتے اوربیٹھتے،ہرحال میں خداکویاد کرتے ہیں اورزمین اورآسمانوںکی ساخت میں غوروفکرکرتے ہیں(وہ بے اختیاربول اٹھتے ہیں )پروردگار،یہ سب کچھ تونے فضول اوربے مقصدنہیں بنایاہے۔‘‘ (آل عمران:191-190
(
آج لوگ ایک نصابی کتاب کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اوران کے بچے ٹھیک سے سمجھ لیں اس کے لیے ہرممکن کوشش کرتے ہیں حتی کہ اسکول اورکالج کے بعد الگ سے کوچنگ سنٹر کا نظم کرتے ہیںتاکہ مزیدان میںگہرائی اورگیرائی پیداہواور وہ اسکول کے امتحان میں کامیاب ہوجائیں۔مگروہ اس بات پر کبھی غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالی کی نازل کردہ اور ہمیشہ کام آنے والی مقدس کتاب جس میں نظام زندگی کا رازمضمرہے اورجودنیاکے تمام مسائل کا حل پیش کرتاہے ۔  وہ کن تعلیمات پر مشتمل ہے وہ کبھی اس کی زبان کو سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے اورنہ اس میں گہرائی یا گیرائی سے کام لیناچاہتے ہیں،اسی طرح وہ لوگ جو اس زبان کوجانتے توہیں مگروہ قرآن کو سمجھ کرنہیں پڑھتے اورنہ اس میں غورفکرکرتاہیں، توبھلاوہ کیسے فلاح وکامرانی پاسکتے ہیں ،کیوںکرانھیں دنیامیں چین وسکون اور آخرت میں نجات مل سکتی ہے۔
نبی کریم نے فرمایا:ویل لمن قرأہا ولم یتفکرفیہا ’’ہلاکت ہے اس کے لیے جوقرآن کی آیات کی تلاوت توکرتاہے مگر اس میں غورفکرنہیں کرتا‘‘

لوگ شکایت کرتے ہیں کہ قرآن ہماری زبان میں نہیں ہے ،اس لیے ہم اسے سمجھ نہیں سکتے ۔یہ عجیب بات ہے کہ اگرکسی شخص کے پاس کسی بڑے لیڈر یا اہم شخصیت کا کوئی خط آجائے تواگرچہ وہ اس کی زبان میں نہ ہوتب بھی وہ اس کوسمجھنے کے لیے کوشش کرتا ہے اورجب تک اس کا مطلب سمجھ نہ اسے سکون نہیں ملتابلکہ ہراس شخص کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے جواس زبان کا جاننے والاہو ،تاکہ وہ اس کا مطلب سمجھادے۔مگرقرآن جس میں خالق کائنات نے ایک پیغام دیا ہے،جس میں دین ودنیادونوںکے فائدے ہیں۔ اس کے سمجھنے کے لیے کوشش نہیں کرتے بلکہ زبان کے نامانوس ہونے کا عذر کرتے ہوئے اسے یونہی بالائے طاق رکھ دیتے ہیں جوکسی بھی طرح درست نہیںہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَقَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِیْ اتَّخَذُوا ہَذَا الْقُرْآنَ مَہْجُوراً  (الفرقان:30(
’’اوررسول کہے گا کہ اے میرے رب میری قوم کے لوگوںنے اس قرآن کو نشانہ تضحیک بنالیاتھا۔‘‘
اس کی وضاحت کرتے ہوئے ابن کثیر ؒفرماتے ہیں :ترک تدبرہ وتفہمہ من ہجرانہ)قرآن میں تفکروتدبرنہ کرنا قرآن کو چھوڑنے کے مترادف ہے۔

علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ ہجرقرآن کی چند قسمین ہیں : ان میں سے ایک قرآن میں تدبروتفہم سے کام نہ لینا ہے اوراس بات کی عدم معرفت ہے کہ  اللہ اس آیت کے ذریعہ اپنے بندوںسے کیاکہہ رہاہے۔(بدائع التفسیر:292/2)
نبی کریمؐ جن پر قرآن مجید کا نزول ہواتھا۔ان کا معاملہ یہ تھاکہ آپؐ قرآن بہت ٹھہرٹھہرکراورغوروتدبرکے ساتھ پڑھتے تھے۔ حضرت حذیفہ ؓبیان کرتے ہیں کہ وہ ایک رات آپ ؐ کے ساتھ نماز میں شریک ہوئے ۔ آپؐ قرآن ترسیلاً تلاوت فرماتے ۔جب کسی تسبیح کی آیت سے گزرہوتاتوتسبیح کرتے ، اسی طرح کسی ایسی آیت سے گزرہوتاجس میں سوال ہے توآپ سوال کرتے یاکسی تعوذکی جگہ سے گزرتے تواللہ کی پناہ مانگتے۔(مسلم)

آپ ؐ قرآن میں غورو تدبرمیں اس قدرمحوہوجاتے کہ پوری پوری رات ایک ہی آیت کی تلاوت میں گزاردیتے تھے۔ مسنداحمد کی روایت ہے ،حضرت ابوذرؓبیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپؐ نے ایک ہی آیت پڑھتے پڑھتے صبح کردی۔وہ آیت تھی:(ان تعذبہم فانہم عبادک وان تغفرلہم فانک انت العزیز الحکیم۔(سورۃ مائدہ:118)اگرآپ انھیں سزادیں تووہ آپ کے بندے ہیں اوراگرمعاف کردیں توآپ غالب اورداناہیں‘‘۔

فہم قرآن کے سلسلے میں صحابہ کرام کا بھی یہی معمول تھا۔واضح اورپختہ نظریہ تھا جس پر وہ عمل پیراتھے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی فرماتے ہیں:کان الرجل منا اذا تعلم عشرآیات لم یجاوزہن حتی یعرف معانیہن والعمل بہن(رواہ الطبری فی تفسیرہ:80/1)’’ ہم سے جوکوئی دس آیات پڑھ لیتاتووہ اس وقت تک آگے نہیں بڑھتاجب تک کہ وہ ان کے معنی اور مفہوم کو سمجھ نہ لے اوران پر عمل پیرانہ ہو۔‘‘

علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ جب کسی جگہ قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے تو اس کے سامع تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں ۔ایک وہ جوقرآن کی آیات کو غور سے سنتے ہیں اوران کا دل ودماغ انھیں سمجھنے میں لگ جاتاہے۔ایسے لوگ زندہ دل اورصاحب بصیرت ہیں،ان کے لیے قرآن نصیحت ہے جسے وہ اپنی عملی زندگی میں ڈھال کرخداکی خوشنودی تلاش کرتے ہیںدوسرے وہ لوگ جوقرآن سمجھ توسکتے ہیں مگران کا دل و دماغ حاضرنہیں ہوتا۔تیسرے وہ جو نہ قرآن کو غورسے سنتے ہیں اوران اس میں غوروتدبرسے کام لتے ہیں۔وہ اندھے اوربہرے لوگ ہیں۔
عام لوگوں کے ذہنوںمیں یہ خیال پیداکردیاگیاہے کہ فہم قرآن صرف علماء کا کام ہے ،عام لوگوںکا نہیں ۔مگریہ خیال بالکل غلط ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے تو ایسی کوئی تخصیص  نہیں کی ۔بلکہ صراحت کی ہے کہ قرآن کا نزول تمام لوگوں کے لیے ہے۔

مولانا مودودیؒ قرآن کوسمجھنے اوراسے اپنی زندگی میں ڈھالنے کے لیے ایک عام فہم مثال بیان کرتے ہیں :
’’بتائیے اگرکوئی شخص بیمار ہو اورعلم طب کی کوئی کتاب لے کرپڑھنے بیٹھ جائے اوریہ خیال کرے کہ محض اس کتاب کو پڑھ لینے سے بیماری دورہوجائے گی توآپ اسے کیاکہیں گے؟کیا آپ نہ کہیں گے کہ بھیجواسے پاگل خانے میں،اس کا دماغ خراب ہوگیاہے؟مگرشافی ٔ مطلق نے جوکتاب آپ کے امراض کا علاج کرنے کے لیے بھیجی ہے ،اس کے ساتھ آپ کا یہی برتاؤ ہے۔آپ اس کوپڑھتے ہیں اوریہ خیال کہ بس اس کے پڑھ لینے ہی سے تمام امراض دور ہوجائیں گے ،اس کی ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ،نہ ان چیزوں سے پرہیزکی ضرورت ہے جن کویہ مضربتارہی ہے۔پھرآپ خوداپنے اوپربھی وہی حکم کیوں نہیں لگاتے جواس شخص پر لگاتے ہیں جوبیماری دورکرنے کے لیے صرف علم طب کی کتاب پڑھ لینے کوکافی سمجھتاہے؟‘‘  (خطبات حصہ اول:20(

ابن مسعودؓنے تدبرقرآن اوراس پر عمل کے سلسلے میں غفلت کا خدشہ ظاہرکرتے ہوئے فرمایا:انا صعب علینا حفظ الفاظ القرآن، وسہل علینا العمل بہ ، وان من بعدنا یسہل علیہم حفظ القرآن ویصعب علیہم العمل بہ‘‘(الجامع لاحکام القرآن)

’’ہم لوگوںپر قرآن کا حفظ کرنا مشکل ،جب کہ اس پر عمل کرنا آسان ہے اورہمارے بعد لوگوںپر قرآن کا حفظ کرنا آسان ہوگا اوراس پر عمل کرنا مشکل ہوگا۔‘‘

قرآن جوکہ تمام لوگوںکی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے اگراسے سمجھ کرنہیں پڑھا گیااورغورفکرنہیں کیاگیاتو اس پر عمل مشکل ہوجائے گا پھریہ عام انسانوںکی رسوائی اورذلت کی بات ہوگی کہ ان کے پاس دین ودنیا کے تمام مسائل کا حل موجودہے ،پھر بھی وہ اس پر وہ عمل نہیں کرتے۔
٭٭٭

Friday, 26 May 2017

Ramzan Mubarak

جمعہ کو چاند نہیں دیکھا گیا اس لیے انشاءاللہ ہم لوگ اتوار کو روزہ رکھنا شروع کریں گے.

 آپ تمام حضرات کو میری جانب سے رمضان المبارک کی پیشگی مبارک باد...
اللہ تعالٰی ہم لوگوں کو رمضان المبارک کی زیادہ سے زیادہ فیوض و برکات حاصل کرنے کی توفیق عطا کرے اور ہماری عبادات کو قبول فرمائے. آمین 

محب اللہ قاسمی



Tameeri Adab aur Adeeb


تعمیری ادب اور ادیب
                                                    محمد محب اللہ

ادب معاشرے کا آئینہ دارہوتا ہے۔ ہر چیز کی طرح اس میں بھی عمل اور ردعمل کابھرپورعنصر موجود ہوتاہے۔اسے صحیح رخ دیا گیا تو پھر یہی معاشرے کی تعمیر اور اس کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر سکتاہے۔ جیسا کہ ادب کی تاریخ رہی ہے کہ اس نے انسانوں کو باکردار بنایا اور معاشرے کو عروج بخشاہے، یہی ادب جب غلط رخ چلا تو اس سے نہ صرف سماج میں فساد و بگاڑ پیدا ہوا بلکہ معاشرہ اس کی خرابیوں سے تعفن زدہ ہوگیا ۔چکاچوندکردینے والی دنیاکی چمک دمک اورنمود و نمائش کی مدح سرائی نے  لوگوں کو مادہ پست اور اخلاقی اقدارسے عاری اور پستہ قدبنادیا۔ اپنے خوبصورت الفاظ و انداز کے پیرائے میں بنت حوا کی عزت و آبروپر وار کیا ، پھر مردو زن کے مساوات کا نعرہ دے کرانھیں سرعام بے آبرو کیا۔

       اس غلط رخ پر گامزن بے ادب بہ الفاظ دیگر ناجائز ادب نے تحریروں و تقریروں اور تمام اصناف ادب کو بے ادب کررکھا ہے۔اسے صحیح رخ پر لانے اورادب کو باادب بنانے کی کوشش کو اسلامی ادب کا نام دیا جارہاہے۔جب کہ ادب کو اسلامی اور غیراسلامی ادب کہنے کے بجائے  ادب کو اس صحیح رخ پر لانے کی ضرورت ہے جو اس کا معنی اور مفہوم ہے۔ ادیبوں اورادبی فلسفیوں نے ادب کی جو تعریفیں کی ہیں ،وہ پیش کی جارہی ہیں تاکہ اس کا صحیح مفہوم واضح ہو:

ادب عربی زبان کا لفظ ہے جومختلف اقسام کے معنی اور مفاہیم کا حامل ہے۔ بعثت رسول سے قبل یہ عرب میں لفظ ضیافت اور مہمانی کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ بعد میں ایک اور مفہوم شامل ہوا جسے ہم مجموعی لحاظ سے شائستگی کہہ سکتے ہیں۔ عربوں کے نزدیک مہمان نوازی لازمہ شرافت سمجھی جاتی ہے، چنانچہ شائستگی ، سلیقہ اور حسن سلوک بھی ادب کے معنوں میں داخل ہوئے۔اسلام سے قبل خوش بیانی کو اعلیٰ ادب کہا جاتا تھا۔ گھلاوٹ ، گداز ، نرمی اور شائستگی یہ سب چیزیں ادب کا جزو بن گئیں ۔‘‘  (وکی پیڈیا ، زمرہ’’ادب‘‘)۔

کارڈ ڈینل نیومین کہتا ہے:
’’انسانی افکار ، خیالات اور احساسات کا اظہار زبان اور الفاظ کے ذریعے ادب کہلاتا ہے۔‘‘
  )وکی پیڈیا ، زمرہ’’ادب(‘’

       نارمن جودک کہتا ہے :
’’ادب مراد ہے ان تمام سرمایہ خیالات و احساسات سے جو تحریر میں آچکا ہے اور جسے اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کو مسرت حاصل ہوتی ہے۔‘‘   (وکی پیڈیا ، زمرہ ادب(

 مولانا مودودیؒ اس کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’علمی لحاظ سے ادب کی تعریف اور ادیبوں اور فلسفیوں نے چاہے کچھ بھی کی ہو ، لیکن میرے ذہن میں ادب کا تصور یہ ہے کہ وہ حسن کلام اور تاثیرکلام کا نام ہے، جوچیز ادب کو عام انسانی گفتگوؤں اور تقریروں سے ممیز کرتی ہے وہ کلام کا حسن اور تاثیر ہے۔ جب انسان اپنی بات کو خوبصورت طریقے سے ادا کرتا ہے اور اتنے مؤثر طریقے سے ادا کرتا ہے کہ سننے والا اثرقبول کرے اور جو کچھ بات کرنے والا چاہتا ہے وہ اثر ڈال سکے ، اس نوعیت کے کلام کو ہم ادب کہتے ہیں۔‘‘(اسلامی ادب،ص:۱)

ادب اگر اپنے صحیح معنوں میں استعمال ہو تو وہ افکار وخیالات جو انسان میں شائستگی اور سلیقہ مندی پیدا کریں، جن کا اظہار نہ صرف انسانوں کی خوشی ومسرت کا باعث ہو اور انھیں قہقہوں میں ڈبوئے بلکہ انسانی اخلاق و کردار کے معیار کو بلند بھی کرے ۔ انسانوں کے خود ساختہ نظام زندگی کا بھرپور جائزہ لے ، اسے ایک ایسے نظام زندگی سے روشناس کرائے جو خوبصورت اور مؤثر انداز میں انسانی زندگی کے تمام مسائل کا قابل عمل حل بھی پیش کرے ۔یہ ادب کا خاصہ ہوگا۔

اس لحاظ سے ادب اور سماج کا رشتہ بہت گہرا ہے اور وہ بھی اسی بنیاد پر ہے کہ دونوں اپنی بہتری اور کمال کے لیے ایک دوسرے کے معاون ہوں اگر ان میں سے کوئی ایک درست ہو تو دوسرے کو بہتر بنانے میںاس کا اہم کردار ہوتاہے۔ اس بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ ادب کو بادب بنائے رکھنے میں معاشرے کی تعمیر ہے ورنہ یہ ادب بے ادبی کے سبب معاشرے کو پراگندہ کرسکتاہے۔اسی وجہ سے ادبا حضرات نے معاشرے کوبنانے ،سنوارنے اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے بڑی کوششیں کیں ہیں۔

اگر ہم اپنے وطن ہندوستان کے تناظر میں صرف اردوادب کا جائزہ لیں جو تمام نشیب وفراز کا سفر کرتے ہوئے آج اس مقام پر پہنچا ہے، جہاں ذرائع ابلاغ اور ترسیل کے وسائل بہت عام ہوگئے ہیں۔ تو ہم محسوس کریں گے کہ  ادب کاخواہ وہ قدیم دور رہا ہو جس وقت ابلاغ و ترسیل کا دائرہ بہت محدود تھا ، مگر مال و اسباب سے لیث اور سونے کی چڑیا کہاجانے والا ہمارا وطن مدمست اور مگن تھا، جس کے سبب زیب و زینت، آرائش و آشائش کے اسباب کی فراوانی نے لوگوں کو مست کررکھا تھا۔ اس وقت ادب بھی اپنے دھن میں مگن اور خوشیوں کے گیت غزلوں اور نغموں میں چور ہوگیاتھا۔ راجا، مہاراجا کے فراخ دلی کے قصے بھی اپنے دامن میں لیے ہوا تھا تو وہیں ،گھرس اور بنیوں کے سودبیاج کے گھن چکر میں پھنسے غریبوں اور کسانوں کی بد حالی کی داستان بھی بیان کررہاتھا۔

اسی طرح ادب نے اس وطن عزیز کو جس کے گہوارے میں وہ کھیل رہا تھا جب انگریزوں کے ہاتھ غلام بنالیا گیا اوراور لوگوں نے ناکامی و نامرادی، ہر آن بے بسی و بے کسی کا پہرہ پایا ، اس دور میں بھی ادب نے لوگوں کے اندرجذبہ ،ہمت اور مشکلات سے ٹکراجانے کا جنون پیدا کیا اور ’انقلاب زندہ باد‘ جیسے دشمنوں کو للکار نے والے نعرے دیے۔حب الوطنی کے گیت نے لوگوں کو وطن سے ایسا جوڑدیا کہ وہ اسے اپنی جان سے عزیز ماننے لگے اور اس وطن عزیز کو غلامی کی بیڑیوں سے آزاد کرنے کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی۔

جب کسی طرح وطن آزاد ہوگیا ،مگرملک کومختلف چیلنجزکا سامنا ہوا، منافرت کی بیج جو دشمنوں نے بوئے تھے، وہ پودا اب تناور ہوکر اپنے شاخین پھیلانے لگا۔ لوگ سب کچھ کھودینے کے بعد بھی آزاد ہند میں غلامی کی زندگی جی نے پر مجبور تھے ، ان مسائل سے ابھر نا بھی جنگ آزادی سے کم نہ تھا۔اس وقت بھی ادب نے سماج کو جوڑکر اسے ایسی قوت بخشی جس نے اس کشمکش کو دور کرنے اور مشرقی تہذیب و کلچر کے فروغ کے ساتھ ساتھ ظلم و ستم مٹانے اور انسانی اخلاقی اقدار کی بحالی میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی اور اپنی کوشش جاری رکھی۔یہ دورانیسویں صدی کا نصف آخر اور بیسویں صدی کا دور تھا، جسے  تحریک ریشمی رومال،علی گڑھ تحریک ،ترقی پسند تحریک  اور جدید یت کا دور کہا جاتا ہے۔

ادب کو ہر دور میں باادب رکھنے کی کوشش کی گئی اور اصناف ادب کی اصلاحات بھی ہوتی رہیں ۔ ان اصلاحی کوشش کرنے والوںمیں بڑے بڑے نامور ادبا ،شعراء اور انشاء پردازوں نے اپنی ادبی اور فنکارانہ صلاحیتوں سے سماج کے بکھرے ہوئے تانے بانے کو درست کرنے میں نمایاں کارنامہ انجام دیا۔جیسے علامہ شبلی ،حالی، سرسیداور ڈپٹی نذیر وغیرہ جن میں سے ہر ایک کو انجمن کہا جاسکتا ہے۔ ان کے علاوہ علامہ اقبال،ابوالکلام آزاد،مولانا عبدالماجد دریابادی ،اکبر الہ آبادی ،مولانا مودودی،ابوالحسن ندوی،مناظر حسن گیلانی وغیرہ اسی طرح ایک مثلث کہی جانے والی ٹیم جیسے پروفیسر عبدالمغنی ،ابن فرید اور شبنم سبحانی ان کے علاوہ اور بہت سے ادبا حصرات جنھوں نے ادب کو صحیح سمت دینے کی بڑی حد تک کوشش کی اور اس کے لیے جی جان لگا دی ۔جنھیںاس تعمیری اور اصلاحی ادب کی پاسبانی حاصل تھی جسے اقبال،آزاد اور مودودیؒ نے بڑی محنت سے کھڑا کیا تھا۔ ان حضرات کی کتابوں اور تحریروں سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔جیسا کہ مولانا حالی نے انسان کو انسان بننے پر زور دیتے ہوئے کہا تھا:

فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

تو وہیں علامہ اقبال نے ادبا وشعراء کے اعصاب پر سوار خاتون  ،اس کے حسن وعشق کی قصیدہ خوانی پراظہار افسوس کرتے ہوئے کہا تھا:

ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ! بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار

سمت ِ ادب کو متعین کرنے پر زور دیتے ہوئے عبدالمغنی اپنی کتاب ’تنقیدمشرق‘میں فرماتے ہیں :

’’ فن کی جمال پسندی اور تصوف کی خیال پرسی کے بجائے تہذیبی وتخلیقی سرگرمیوں کو ایک محکم نظام فکر کی روشنی میں ایک واضح سمت اور متعین جہت دینے کی ضرورت ہے۔اس لیے ادبا و شعراء اپنی ذات کے گرداب سے نکل کر زندگی کی موجوںپر اپنے ذہن کا سفینہ چلائیں اور ساحل مراد کی طرف رواں ہوں۔گویا ادب کو بامقصد بنا نا ضروری ہے تاکہ زندگی کی کشتی کسی بھنور میں پھنس کر غرق آب نہ ہو۔‘‘

کیوں کہ ہندستانی ادب نے بھی مشکلات کے ادوار دیکھے ہیںاور انسانی مشکلات کا بخوبی جائزہ لیا ہے ، اس لیے ایسے ادب کی سخت ضرورت ہے جو کو انسان محض روٹی ،کپڑا اور مکان کی ضرورت پر ہی توجہ نہ دے بلکہ انسان کو اس کی پہچان بتاسکے ، اسے روحانی سکون کی ضرورت کا احساس دلائے اور اس کے سامنے اس کی زندگی کا مقصد واضح کرسکے۔ جس کے سامنے مقصد نہیں ہوتا وہ غلام ہوجاتا ہے ،یہی غلامی خواہ وہ ذہنی ہو یا جسمانی انسان کو ذلیل اور رسوا کردیتی ہے ۔ سماج میں جھوٹی عزت وشہرت اس کو اس سے بچا نہیں سکتی ۔ وہ لباس میں ہوتے ہوئے بھی ننگا ہوتا ہے۔

آج کے ایسے دور میں جہاں آزادیٔ اظہار رائے کی آڑمیں تہذیب و ثقافت کے نام پر ہر طرح کا فحش لٹریچر ہی نہیں بلکہ سمعی و بصری ذرائع عریانی و بداخلاقی پھیلانے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں اور اس کا مقصد صرف اور صرف مادی دنیا کے سرمایہ داروں کی تجارتی منفعت کا تحفظ ہے۔ اسی موڑ پر ادب کے ذریعہ سماج کی تعمیر کرنے والے ادیب کی ذمہ داریاں کئی چند ہوجاتی ہیں۔ کیوں کہ ادبے ذہنی و فکری لحاظ سے سماج و معاشرہ کا معمار ہوتا ہے اور معمار کج دیوار کھڑی کرکے پختہ عمارت نہیں تیار کرسکتا۔ اسی لیے ادیب کو اپنا مثبت رول ادا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔یہی ہمارے سماج اور تہذیب و ثقافت کے لیے مفید ہوگا۔

Wednesday, 24 May 2017

Short Story: Safar

سفر

سردی کا زمانہ تھا،رات کے پچھلے پہرراشد اٹھ بیٹھااور جلدی جلدی اپنا سامان پیک کرنے لگا۔اسے دہلی جانا تھا ۔ریلوے اسٹیشن گاؤں سے تقریبا سترکلومیٹر دور تھا،وہاں پہنچنے کے لیے اسے بس پکڑنی تھی۔فکرمعاش گاؤں کے اکثر لوگوں کو دور دراز شہروں کا سفر کر نے پر مجبور کردیتاتھا۔راشد بھی انہی لوگوں میں سے ایک تھا۔

راشد جب بھی دہلی یا اور کہیں جاتاتو گاؤں کے لوگ اپنے بیٹوں اور دیگر رشتہ داروں کے لیے کچھ سامان اس کے حوالے کردیتے جسے لے جانے کے لیے وہ بہ خوشی تیارہوجاتا۔

راشدکا ریزرویشن نہیں تھا، اسٹیشن پہنچ کر دہلی جانے والی گاڑی کے جنرل ڈبے میںسیٹ لینی تھی ۔وہ اپنے سامان کے ساتھ صبح ساڑھے پانچ بجے گاؤںکے قریب سڑک پر ایک جگہ کھڑا ہوگیا جہاں بسیں رکتی تھیں۔

بس اپنے وقت پردور سے ہی ہارن دیتی ہوئی آئی۔راشدنے ڈرائیورکو ہاتھ دکھایا ،گاڑی رکی۔وہ بس پر چڑھ گیا اور ایک سیٹ پر بیٹھ کر چادرتان لی۔تھوڑی دیرمیں اسے نیند آنے لگی۔

ان دنوں کافی لوگ الہ آباد گنگا اسنان کے لیے جارہے تھے۔ ہر اسٹیشن پرخلاصی زور زور کی آواز لگاتا اورسامان اٹھا اٹھا کر گاڑی میں رکھتا ،پھر سواریاں اپنی اپنی جگہ لے کر بیٹھ جاتیں۔

ابھی راشد کچی نیند میں تھا کہ اسے محسوس ہوا کہ چند لوگوں نے گاڑی رکوائی اور دوبوڑھی خواتین اور ان کے ساتھ کچھ مرد و خواتین چڑھے اسی دوران ایک شخص نے کہا:
’’ ارے بھیا!ماما چاچی تہ ابھی نے کھے آئے ت سب کیسے جائب بس رکوا ب ہمنی ایک ساتھ ہی جائب۔ ‘‘(ماما اور چاچی تو ابھی آئی نہیں ،تو ہم لوگ کیسے جاسکتے ہیں۔

 کسی نے کہا : ارے ہاں اوسب ت ابھی تیاری کرت بارن (وہ سب تو ابھی تیاری ہی کررہے تھے)۔
 پھر جلدی جلدی سب لوگ اپنا اپنا سامان لے کر نیچے اتر گئے۔

ان لوگوں کی بولی اور معصومیت پر راشد کو ہلکی سی ہنسی آئی۔پھر وہ سو گیا۔
بس تیزرفتاری کے ساتھ دو گھنٹے میں ستر کلو مٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد منزل کو پہنچی ۔سارے لوگ اترنے لگے۔

راشد بھی انگڑائی لیتے ہوئے کھڑا ہوا اور اپنا سامان ڈھونڈنے لگا۔ایک بیگ ، جسے اس نے اپنے قریب رکھا تھا اٹھا یامگر وہ بوری جس میں گاؤں کے لوگوں کا سامان تھا،وہ اپنی جگہ پر نہیں تھی! اس نے دیکھا کہ اسی طرح کا ایک تھیلا قریب میں رکھا ہوا تھا ۔ اس کے علاوہ اور کوئی سامان کہیں بھی نظر نہیں آرہاتھا۔

وہ پریشان ہوگیا۔ اس نے سوچا کہ اگروہ اپنا سامان لے کر چلاگیا اور دوسروںکی امانت ان تک نہیں پہنچی تو وہ گاؤں والوںکے درمیان بے عزت ہوجائے گا اور لاپروااور خائن کہلائے گا۔اس نے اس بورے کو کھول کردیکھا تواندازہ ہوا کہ یہ ان لوگوں کا سامان ہے جو شردھا اور گنگا اسنان کے لیے جارہے تھے۔اس میں گھی کا ڈبہ ،لائی ، بوندی کا لڈو، چڑھاوے کا نیاجوڑا اور کچھ قیمتی چیزیں تھیں۔

فوراً راشد کی سمجھ میں آیا گیاکہ ہو نہ ہو راستہ میںایک سواری جلدی جلدی اتری تھی۔شایداس نے اپنا سامان اتارنے کے بجائے میرا ہی سامان اتارلیاہو۔ مگروہ کون لو گ تھے اور کہاں اترے تھے یہ معلوم نہ تھا۔
 راشد نے خلاصی سے کہا:بھائی! کسی نے غلطی سے میرا سامان اتارلیاہے اور اپنا سامان چھوڑگیاہے۔

اس نے کہا:’’ مجھے لگتا ہے کہ وہ فلاں جگہ کے لوگ تھے ،جو درمیان میں چڑھے تھے لیکن فورا اترگئے تھے ۔شاید اس جلد بازی میں انھوں نے سامان اتار لیا ہو۔‘‘

 پھر اس نے کہا:’’ میرے کاکا کی لڑکی وہیں رہتی ہے ان سے معلوم کیے لیتاہوں ۔‘‘

اس نے موبائل فون کے ذریعے ایک دوسرے گاؤں سے اس گاؤں کا فون نمبر لیاگیا۔ اس روٹ کا ڈرائیور اس علاقے کے لوگوں کو جانتا تھا۔ اس نے فوراً مختلف مقامات پر موبائل سے رابطہ کیا۔بالآخر ان مسافر وں کا پتہ لگ گیا ، ان لوگوں سے پوری تفصیلات بتائی گئی۔ پھر ان کو بتایاکہ آپ اسٹیشن آجائیں آپ کا سامان یہاں ہے ،آپ لوگ دوسرے مسافر کا سامان لے کر اترگئے تھے۔ ان لوگوں نے اپنا سامان چیک کیا تو بات صحیح نکلی۔

انھوں نے کہا :’’ ہم لوگ جیپ سے آرہے ہیں، آپ وہیںرہیں۔‘‘

 راشد کو اب اس بات کی بالکل فکر نہ تھی کہ اس کوٹرین میں سیٹ نہ ملے گی یاٹرین چھوٹ جائے گی۔بلکہ فکر یہ تھی کہ گنگا اسنان کے مسافروں کو اُن کا سامان مل جائے اور اسے اپنا، تاکہ وہ دوسروں کی امانت صحیح طریقہ سے ان تک پہنچادیں۔

 چارگھنٹے انتظار کے بعد وہ لوگ جیپ سے پہنچے ۔ سب لوگ گاڑی سے اترے اور راشد کو اس کا سامان واپس کیا اور اپنا سامان دیکھنے لگے۔

ایک عمردراز خاتون نے راشد کی داڑھی اور چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا :
’’بیٹوا!تو بہت اچھا لڑکاہے۔ بھگوان توہربھلاکرے ،  ہم ت سمجھنی کہ ہمر سامان غائب ہوگئل۔ (ہم سمجھے کہ ہمارا سامان غائب ہوگیا-

راشدنے ان کی آنکھوں میں چھلکتے ہوئے خوشی کے آثار دیکھے اور اپنے تئیں ان کے اس رویہ سے فخرمحسوس کرنے لگا۔اسے لگ رہاتھا کہ وہ یہاں سب سے قدآور شخص ہے،جس نے بہت بڑا کام کیاہے۔ حالانکہ یہ اسلامی تعلیمات کے لحاظ سے ایک اخلاقی عمل ہے جو ایک مسلمان کا فریضہ ہے،جسے انجام دینا ہی تھا۔وہ گویا ہوا:
’’کاکی!  اللہ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا ۔ اللہ ہی اپنے بندوں کی پریشانیوں کو دور کرتاہے۔خدا کا شکر ہے کہ ایک دوسرے کی پریشانی دور ہوئی۔اسلام ہمیں انسانیت کی تعلیم دیتاہے۔‘‘

گویااس نے اپنے رویہ اور مختصر سے بول میں اسلام کا پیغام ان کے سامنے رکھ دیا۔

 بات ختم ہوتے ہی وہ لوگ اپنے سامان کے ساتھ پھر سے جیپ میں بیٹھے اور ریلوے اسٹیشن کے لیے روانہ ہوگئے۔

شایددوسری گاڑی میںجگہ مل جائے ۔یہ سوچتے ہوئے راشد ریلوے اسٹیشن کی طرف چل پڑا۔
محب اللہ 

٭٭٭

Saturday, 13 May 2017

Ghazal: Jado se apni juda hua hai

غزل

جڑوں سے اپنی جدا ہوا ہے
مصیبتوں میں گھرا ہوا ہے


ترقی، تہذیبِ عصر حاضر
کہ انسان شیطاں بنا ہوا ہے


فقط دکھایا تھا آئینہ ہی
اسی پہ قائد خفا ہوا ہے


تلاش قاتل کی کرنے والو
تمہیں میں قاتل چھپا ہوا ہے


چٹائی پر بھی تھا کوئی رہبر
یہ قصہ گویا سنا ہوا ہے


وفا کا جس نے کیا تھا وعدہ
وہ دشمن جاں بنا ہوا ہے


ہمارے عہد وفا کا قصہ
آب زر سے لکھا ہوا


وہاں سنبھل کر رفیق چلنا

جہاں پہ کانٹا بچھا ہوا ہے

Muslim Bachchion ki be rahravi

 مسلم بچیوں کی بے راہ روی اور ارتداد کا مسئلہ محب اللہ قاسمی یہ دور فتن ہے جہاں قدم قدم پر بے راہ روی اور فحاشی کے واقعات رو نما ہو رہے ہیں ...