Thursday 8 June 2017

Ramzan, Quran aur Fahme Quran


رمضان ، قرآن اور فہم قرآن
                                                                      محب اللہ قاسمی ،نئی دہلی

ماہ رمضان المبارک کے روزے دراصل ایک عظیم الشان نعمت پر تشکر کااظہارہے ، وہ نعمت ہے انسانوں کی ہدایت کے لیے قرآن کریم جیسی بے مثال کتاب الٰہی کا نزول۔اس کی وجہ سے رمضان کے روزے فرض کیے گئے اور دیگر مہینوں پر اسے فضیلت دی گئی۔اللہ تعالی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایاہے:

’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے ، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے ، سختی کرنا نہیں چاہتا۔اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سر فراز کیا ہے ، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔‘‘(185)

اس لحاظ سے قرآن اور رمضان کا بہت گہرا تعلق ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؐماہ رمضان میں حضرت جبرئیل ؑکے ساتھ قرآن کا دور فرماتے اور بہ کثرت قرآن کی تلاوت کرتے۔چنانچہ ہم ماہ رمضان میں دیکھتے ہیں کہ نماز تراویح میں اور الگ سے بھی بہ کثرت اس کی تلاوت کی جاتی ہے ۔ رمضان اور قرآن کو اس طور پر بھی مناسبت حاصل ہے کہ یہ دونوں روز قیامت بندے کے حق سفارش کریں گے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’قیامت کے دن روزہ اور قرآن دونوں بندے کی شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا، اے پروردگار! میں نے اس بندے کو دن کے وقت کھانے پینے اور خواہش پوری کرنے سے باز رکھا۔ قرآن پاک کہے گا کہ میں نے اس کو رات کے وقت سونے سے باز رکھا تو آپ میری اس کے لیے شفاعت قبول فرمالیجئے۔ چنانچہ دونوں بندے کی شفاعت کریں گے اور ان کی شفاعت قبول کی جائے گی۔‘‘(مسند احمد)
اس طرح قرآن کریم کاکی تلاوت اللہ تعالی اس کے ایک ایک حرف پراجرعطا کرے گا۔

اس میں شک نہیں کہ کلام پاک کی تلاوت اللہ کوبے حد محبوب ہے اور اس پڑھنا اور سننا دونوں کارثواب ہے ۔ اس کی ایک ایک آیت پر اجروثواب کا وعدہ ہے، مگریہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا فہم ، اس میں غوروتدبر اوراس پر عمل پیراہونا نہایت ضروری ہے۔یہی نزول قرآن کا منشا ہے:

کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ (ص:29(
’’یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو(اے نبی)ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غورکریں اورعقل وفکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔‘‘

نزول قرآن کا مقصد اس کے سوا اورکچھ نہیں کہ انسان اپنے رب کو پہچانے، اس کے بنائے ہوئے اصول وقوانین کے مطابق زندگی بسرکرے ،اس کی ہدایات کے مطابق اپنے افکاروخیالات اوراعمال وکردار کوصحیح رخ پر لگائے اورایک اچھا انسان بن کرقوم ومعاشرے کے لیے مفیدثابت ہو۔اس لیے اس کے علاوہ اورکوئی وہ اصول وقوانین مرتب کرنہیں سکتا۔اس لیے کہ جس نے دنیا اوراس کی چیزوںکوپیداکیاہے ،وہی جانتاہے کہ اس میں کون سی چیزبری ہے اور کون سی چیز اچھی ہے۔کس طرح اس کی اصلاح ہوگی اورکن وجوہ سے اس میں فساد وبگاڑواقع ہوسکتاہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ ہی دنیاکا نظام مرتب کرسکتاہے کوئی اورنہیں۔صرف اسی کی اطاعت سے انسان دونوںجہاں میں فلاح ونجات پاسکتاہے۔

قرآن مجید تمام انسانوںکوانھی تعمیری اورمثبت افکار کی دعوت دیتاہے۔ اس کائنات کی تمام مخلوقات میں سب سے افضل انسان ہے ۔وہی اس کا حق دارہے کہ وہ نظم مملکت کو سمجھے اورقرآن میں غوروتدبرسے کام لے۔اس لیے قرآن کے مخاطب تمام انسان ہے۔اس کا مخاطف صرف مسلمانوںکوقراردیناصحیح نہیں۔یہ قرآن کی آیت(ہدی اللناس - ’تمام لوگوںکے لیے ہدایت ہے‘)کے سرسرخلاف ہے۔قرآن عام لوگوںکو دنیا کی تخلیق اوراس نظام میں غوروفکرکی دعوت دیتاہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے:

وَلَئِن سَأَلْتَہُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَیَقُولُنَّ اللَّہُ فَأَنَّی یُؤْفَکُونَ (61) اللَّہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن یَشَاء ُ مِنْ عِبَادِہِ وَیَقْدِرُ لَہُ إِنَّ اللَّہَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْمٌ (62) وَلَئِن سَأَلْتَہُم مَّن نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً فَأَحْیَا بِہِ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ مَوْتِہَا لَیَقُولُنَّ اللَّہُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّہِ بَلْ أَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُونَ (63)(عنکبوۃ :63-61(

’’ان لوگوں سے پوچھوکہ زمین اورآسمانوںکوکس نے پیدا کیاہے اور چانداورسورج کوکس نے مسخرکیاہے تووہ ضرورکہیں گے کہ اللہ نے،پھریہ کدھرسے دھوکاکھارہے ہیں؟اللہ ہی ہے جواپنے بندوںمیں سے جس کا چاہتاہے رزق کشادہ کرتاہے اورجس کا چاہتاہے تنگ کرتاہے۔یقیناً اللہ ہرچیز کا جاننے والاہے۔اوراگرتم ان سے پوچھوکس نے آسمان سے پانی برسایااوراس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو جلااٹھایاتووہ ضرورکہیں گے اللہ نے۔کہو،الحمدللہ،مگران میں سے اکثرلوگ سمجھتے نہیں۔‘‘

اللہ نے انسان کودل ودماغ کی شکل میں ایک خاص قسم کی دولت عطا کی ہے۔قرآن کریم انسان کو اسی عقل وشعورکے استعمال کے لیے جھجھوڑتا ہے:افلایتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالہا(محمد :24)کیا ان لوگوں نے قرآن پر غورنہیں کیا یادلوںپران کے قفل چڑھے ہوئے ہیں۔

ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اللہ اپنے بندوںکوتدبرقرآن کا حکم دیتاہے اورجولوگ اس کے محکم معانی میںغوروفکرسے اعرض کرتے ہیں ان کی سرزنش کرتاہے ۔

حسن بصری ؒفرماتے ہیں :نزل القرآن لیتدبر ویعمل بہ، فاتخذواتلاوتہ عملاً ،ای عمل الناس اصبح تلاوۃ القرآن فقط بلا تدبر ولا عمل بہ۔(مدارج السالکین:485/1)

قرآن اس لیے نازل ہوا ہے کہ اس میں تدبرکیاجائے اورا سپر عمل کیاجائے ۔لیکن لوگوںنے اس کی تلاوت کوکام سمجھ لیا،بعض لوگوںکا کام بس یہ ہوگیاہے کہ بلاغوروفکراس کی تلاوت کرلیااس کی عمل کی طرف توان کی بالکل توجہ نہیں ہوتی۔

ابن قیم :لیس شی انفع للعبدفی معاشہ ومعادہ من تدبرالقرآن وجمع الفکرعلی معانی آیاتہ،(نضرۃ النعیم ص:909(
تدبرقرآن اورا سکی آیات پرتوجہ مرکوزکرنے سے زیادہ نفع بخش اورکوئی چیز نہیں ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:

قُل لِّمَنِ الْأَرْضُ وَمَن فِیْہَا إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ0  سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ أَفَلَا تَذَکَّرُونَ 0 قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ  0  سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ 0 قُلْ مَن بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْْء ٍ وَہُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْْہِ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ  0 سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ فَأَنَّی تُسْحَرُونَ (مومنون:89-84)

’’ان سے کہو،بتاؤ اگرتم جانتے ہوکہ یہ زمین اوراس کی ساری آبادی کس کی ہے؟یہ ضرورکہیں گے اللہ کی۔کہو،پھرتم ہوش میں کیوںنہیں آتے؟ان سے پوچھو،ساتوںآسمانوںاورعرشِ عظیم کا مالک کون ہے؟یہ ضرورکہیں گے اللہ۔کہو،پھر تم ڈرتے کیوںنہیں؟ ان سے کہو،بتاؤاگرتم جانتے ہوکہ ہرچیز پر اقتدار کس کا ہے؟اورکون ہے جوپناہ دیتاہے اوراس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟یہ ضرورکہیں گے کہ یہ بات تواللہ ہی کے لیے ہے کہو، پھر کہاں سے تم کو دھوکہ لگتاہے؟‘‘

خالی گھر شیطان کا ہوتا ہے ،اسی طرح خالی ذہن شیطان کی آماجگاہ ہوتی ہے۔یا یوںکہیے کہ جس چیزمیں خیرنہ ہو اس میں شر کا ہونا یقینی ہے۔کیوںکہ دنیا کی کوئی بھی شی خالی نہیں ہوتی حتی کہ خالی گلاس بھی خالی نہیں اس لیے کہ اگراس میں پانی نہ ہو،تو ہوااس میں اپنی جگہ بنالیتی ہے۔ٹھیک اسی طرح  اگرانسان نے اپنے افکار و خیالات کو مثبت رخ نہیں د یا یایونہی بنا سوچے سمجھے زندگی بسرکی تواس میں اورایک مویشی میں کوئی فرق نہیں ،کیوںکہ دونوںکا زندگی گزارنابے مقصدہے۔ جب کہ اللہ نے اس دنیا اوراس کی چیزوں کو بے مقصدپیدانہیں کیا۔اس لیے قرآن لوگوںکوغوروتدبرکی دعوت دیتاہے:
إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ لآیَاتٍ لِّأُوْلِیْ الألْبَابِ0 الَّذِیْنَ یَذْکُرُونَ اللّہَ قِیَاماً وَقُعُوداً وَعَلَیَ جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذا بَاطِلا0
’’زمین اورآسمانوںکی پیدائش میں اوررات ودن کے باری باری سے آنے میں ان ہوش مندلوگوںکے لیے بہت نشانیاں ہیںجواٹھتے اوربیٹھتے،ہرحال میں خداکویاد کرتے ہیں اورزمین اورآسمانوںکی ساخت میں غوروفکرکرتے ہیں(وہ بے اختیاربول اٹھتے ہیں )پروردگار،یہ سب کچھ تونے فضول اوربے مقصدنہیں بنایاہے۔‘‘ (آل عمران:191-190
(
آج لوگ ایک نصابی کتاب کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اوران کے بچے ٹھیک سے سمجھ لیں اس کے لیے ہرممکن کوشش کرتے ہیں حتی کہ اسکول اورکالج کے بعد الگ سے کوچنگ سنٹر کا نظم کرتے ہیںتاکہ مزیدان میںگہرائی اورگیرائی پیداہواور وہ اسکول کے امتحان میں کامیاب ہوجائیں۔مگروہ اس بات پر کبھی غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالی کی نازل کردہ اور ہمیشہ کام آنے والی مقدس کتاب جس میں نظام زندگی کا رازمضمرہے اورجودنیاکے تمام مسائل کا حل پیش کرتاہے ۔  وہ کن تعلیمات پر مشتمل ہے وہ کبھی اس کی زبان کو سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے اورنہ اس میں گہرائی یا گیرائی سے کام لیناچاہتے ہیں،اسی طرح وہ لوگ جو اس زبان کوجانتے توہیں مگروہ قرآن کو سمجھ کرنہیں پڑھتے اورنہ اس میں غورفکرکرتاہیں، توبھلاوہ کیسے فلاح وکامرانی پاسکتے ہیں ،کیوںکرانھیں دنیامیں چین وسکون اور آخرت میں نجات مل سکتی ہے۔
نبی کریم نے فرمایا:ویل لمن قرأہا ولم یتفکرفیہا ’’ہلاکت ہے اس کے لیے جوقرآن کی آیات کی تلاوت توکرتاہے مگر اس میں غورفکرنہیں کرتا‘‘

لوگ شکایت کرتے ہیں کہ قرآن ہماری زبان میں نہیں ہے ،اس لیے ہم اسے سمجھ نہیں سکتے ۔یہ عجیب بات ہے کہ اگرکسی شخص کے پاس کسی بڑے لیڈر یا اہم شخصیت کا کوئی خط آجائے تواگرچہ وہ اس کی زبان میں نہ ہوتب بھی وہ اس کوسمجھنے کے لیے کوشش کرتا ہے اورجب تک اس کا مطلب سمجھ نہ اسے سکون نہیں ملتابلکہ ہراس شخص کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے جواس زبان کا جاننے والاہو ،تاکہ وہ اس کا مطلب سمجھادے۔مگرقرآن جس میں خالق کائنات نے ایک پیغام دیا ہے،جس میں دین ودنیادونوںکے فائدے ہیں۔ اس کے سمجھنے کے لیے کوشش نہیں کرتے بلکہ زبان کے نامانوس ہونے کا عذر کرتے ہوئے اسے یونہی بالائے طاق رکھ دیتے ہیں جوکسی بھی طرح درست نہیںہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَقَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِیْ اتَّخَذُوا ہَذَا الْقُرْآنَ مَہْجُوراً  (الفرقان:30(
’’اوررسول کہے گا کہ اے میرے رب میری قوم کے لوگوںنے اس قرآن کو نشانہ تضحیک بنالیاتھا۔‘‘
اس کی وضاحت کرتے ہوئے ابن کثیر ؒفرماتے ہیں :ترک تدبرہ وتفہمہ من ہجرانہ)قرآن میں تفکروتدبرنہ کرنا قرآن کو چھوڑنے کے مترادف ہے۔

علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ ہجرقرآن کی چند قسمین ہیں : ان میں سے ایک قرآن میں تدبروتفہم سے کام نہ لینا ہے اوراس بات کی عدم معرفت ہے کہ  اللہ اس آیت کے ذریعہ اپنے بندوںسے کیاکہہ رہاہے۔(بدائع التفسیر:292/2)
نبی کریمؐ جن پر قرآن مجید کا نزول ہواتھا۔ان کا معاملہ یہ تھاکہ آپؐ قرآن بہت ٹھہرٹھہرکراورغوروتدبرکے ساتھ پڑھتے تھے۔ حضرت حذیفہ ؓبیان کرتے ہیں کہ وہ ایک رات آپ ؐ کے ساتھ نماز میں شریک ہوئے ۔ آپؐ قرآن ترسیلاً تلاوت فرماتے ۔جب کسی تسبیح کی آیت سے گزرہوتاتوتسبیح کرتے ، اسی طرح کسی ایسی آیت سے گزرہوتاجس میں سوال ہے توآپ سوال کرتے یاکسی تعوذکی جگہ سے گزرتے تواللہ کی پناہ مانگتے۔(مسلم)

آپ ؐ قرآن میں غورو تدبرمیں اس قدرمحوہوجاتے کہ پوری پوری رات ایک ہی آیت کی تلاوت میں گزاردیتے تھے۔ مسنداحمد کی روایت ہے ،حضرت ابوذرؓبیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپؐ نے ایک ہی آیت پڑھتے پڑھتے صبح کردی۔وہ آیت تھی:(ان تعذبہم فانہم عبادک وان تغفرلہم فانک انت العزیز الحکیم۔(سورۃ مائدہ:118)اگرآپ انھیں سزادیں تووہ آپ کے بندے ہیں اوراگرمعاف کردیں توآپ غالب اورداناہیں‘‘۔

فہم قرآن کے سلسلے میں صحابہ کرام کا بھی یہی معمول تھا۔واضح اورپختہ نظریہ تھا جس پر وہ عمل پیراتھے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی فرماتے ہیں:کان الرجل منا اذا تعلم عشرآیات لم یجاوزہن حتی یعرف معانیہن والعمل بہن(رواہ الطبری فی تفسیرہ:80/1)’’ ہم سے جوکوئی دس آیات پڑھ لیتاتووہ اس وقت تک آگے نہیں بڑھتاجب تک کہ وہ ان کے معنی اور مفہوم کو سمجھ نہ لے اوران پر عمل پیرانہ ہو۔‘‘

علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ جب کسی جگہ قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے تو اس کے سامع تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں ۔ایک وہ جوقرآن کی آیات کو غور سے سنتے ہیں اوران کا دل ودماغ انھیں سمجھنے میں لگ جاتاہے۔ایسے لوگ زندہ دل اورصاحب بصیرت ہیں،ان کے لیے قرآن نصیحت ہے جسے وہ اپنی عملی زندگی میں ڈھال کرخداکی خوشنودی تلاش کرتے ہیںدوسرے وہ لوگ جوقرآن سمجھ توسکتے ہیں مگران کا دل و دماغ حاضرنہیں ہوتا۔تیسرے وہ جو نہ قرآن کو غورسے سنتے ہیں اوران اس میں غوروتدبرسے کام لتے ہیں۔وہ اندھے اوربہرے لوگ ہیں۔
عام لوگوں کے ذہنوںمیں یہ خیال پیداکردیاگیاہے کہ فہم قرآن صرف علماء کا کام ہے ،عام لوگوںکا نہیں ۔مگریہ خیال بالکل غلط ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے تو ایسی کوئی تخصیص  نہیں کی ۔بلکہ صراحت کی ہے کہ قرآن کا نزول تمام لوگوں کے لیے ہے۔

مولانا مودودیؒ قرآن کوسمجھنے اوراسے اپنی زندگی میں ڈھالنے کے لیے ایک عام فہم مثال بیان کرتے ہیں :
’’بتائیے اگرکوئی شخص بیمار ہو اورعلم طب کی کوئی کتاب لے کرپڑھنے بیٹھ جائے اوریہ خیال کرے کہ محض اس کتاب کو پڑھ لینے سے بیماری دورہوجائے گی توآپ اسے کیاکہیں گے؟کیا آپ نہ کہیں گے کہ بھیجواسے پاگل خانے میں،اس کا دماغ خراب ہوگیاہے؟مگرشافی ٔ مطلق نے جوکتاب آپ کے امراض کا علاج کرنے کے لیے بھیجی ہے ،اس کے ساتھ آپ کا یہی برتاؤ ہے۔آپ اس کوپڑھتے ہیں اوریہ خیال کہ بس اس کے پڑھ لینے ہی سے تمام امراض دور ہوجائیں گے ،اس کی ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ،نہ ان چیزوں سے پرہیزکی ضرورت ہے جن کویہ مضربتارہی ہے۔پھرآپ خوداپنے اوپربھی وہی حکم کیوں نہیں لگاتے جواس شخص پر لگاتے ہیں جوبیماری دورکرنے کے لیے صرف علم طب کی کتاب پڑھ لینے کوکافی سمجھتاہے؟‘‘  (خطبات حصہ اول:20(

ابن مسعودؓنے تدبرقرآن اوراس پر عمل کے سلسلے میں غفلت کا خدشہ ظاہرکرتے ہوئے فرمایا:انا صعب علینا حفظ الفاظ القرآن، وسہل علینا العمل بہ ، وان من بعدنا یسہل علیہم حفظ القرآن ویصعب علیہم العمل بہ‘‘(الجامع لاحکام القرآن)

’’ہم لوگوںپر قرآن کا حفظ کرنا مشکل ،جب کہ اس پر عمل کرنا آسان ہے اورہمارے بعد لوگوںپر قرآن کا حفظ کرنا آسان ہوگا اوراس پر عمل کرنا مشکل ہوگا۔‘‘

قرآن جوکہ تمام لوگوںکی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے اگراسے سمجھ کرنہیں پڑھا گیااورغورفکرنہیں کیاگیاتو اس پر عمل مشکل ہوجائے گا پھریہ عام انسانوںکی رسوائی اورذلت کی بات ہوگی کہ ان کے پاس دین ودنیا کے تمام مسائل کا حل موجودہے ،پھر بھی وہ اس پر وہ عمل نہیں کرتے۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...